عمر حیات
بدھ 20 ربیع الثانی1441ھ/ 18 دسمبر 2019ء کو یاسرپیرزادہ کا کالم بعنوان ’’مسٹر جناح، آپ کا عقیدہ کیا ہے؟‘‘ روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ اس کالم کے ذریعے انھوں نے جناح کی ظاہری وضع قطع کو دلیل بناکر یہ تاثر دینا چاہا کہ وہ سرتاپا سیکولر تھے، لہٰذا وطنِ عزیز میں بھی سیکولرازم ہی ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس بندۂ ناچیز نے کالم کا رد لکھا اور اپنا اخلاقی فرض پورا کرتے ہوئے اسے ہفتہ کی شب روزنامہ جنگ کو ارسال کیا، مگر افسوس کہ یہ شائع نہ ہوا… اور ایسا ہوتا بھی کیوں؟ کہ اس سے ان کے ایک paid لکھاری کا دجل آشکار ہوجاتا۔ خیر، اب میں اسے آپ کی جانب ارسال کررہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اسے اپنے مجلہ کی زینت ضرور بنائیں گے۔
Umar Hayat
PST in Educatiion Department
Tando Jam
ابتدائے دنیا سے اختتامِ دنیا تک روئے زمین پر کوئی فتنہ دجال کے فتنے سے بڑھ کر نہ ہوگا۔ دجال کا لفظ ’’دجل‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’حقیقت پر پردہ ڈال دینے والا‘‘۔ دجال کو بھی اسی لیے دجال کہا گیا کہ وہ سب سے بڑا دھوکے باز اور ملمع ساز ہوگا۔ جو کچھ وہ لوگوں کو دکھلائے گا اور بتلائے گا حقیقت اس کے برعکس ہوگی۔ وہ لوگوں کا مسیحا بن کر ظاہر ہوگا، ان کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھے گا اور جھوٹ کو سچ کے ساتھ ملا کر پیش کرے گا۔ اُس کا اندازِ بیاں، اُس کے دلائل، اُس کے کرشمے اور اُس کی باتیں اس قدر مسحور کن ہوں گی کہ لوگوں کا ایک جمِ غفیر اُسے پہلے نبی اور پھر خدا تسلیم کر بیٹھے گا۔
عہدِ حاضر کہ جس سے ہم سب گزر رہے ہیں، ایک دجالی دور ہے۔ یہاں حق اور باطل کو خلط ملط کردیا گیا ہے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہا جارہا ہے، اور اس کے لیے جو طریقۂ واردات استعمال کیا جارہا ہے وہ ہے ’’پراپیگنڈہ‘‘۔ یعنی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے باطل افکار کی اس قدر بھرپور انداز میں تشہیر کرنا کہ حق دب جائے اور جھوٹ کو سچ گردانا جانے لگے۔ ماضیِ قریب میں اس کی ایک مثال امریکہ کا عراق پر یہ الزام عائد کرنا تھا کہ اس کے پاس انتہائی خطرناک ہتھیار ہیں جن سے دنیا کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ یوں ایک پراپیگنڈہ کے ذریعے پوری دنیا پر عراق کے ہتھیاروں کا خوف سوار کرایا گیا، اور جب فضا بن گئی تو اس مظلوم ملک پر چڑھائی کردی گئی۔ لاکھوں مسلمان قتل کردیے گئے، حکومتی نظام منہدم کردیا گیا، تیل کے ذخائر پر قبضہ جما لیا گیا، مگر وہ خطرناک کیمیکل ہتھیار جنھیں جواز بناکر حملہ کیا گیا تھا، سَرزمینِ عراق سے دنیا کو نہ مل سکے۔
اگر وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہاں بھی بہت سے ’’مداری‘‘ پراپیگنڈہ کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے باطل افکار کی زور شور سے ترویج و اشاعت کررہے ہیں۔ انہی میں سے ایک گروہ وہ ہے جس نے پاکستان کی نظریاتی اساس کو مشکوک بنا رکھا ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان نظریے کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا اور نہ قائداعظم ہی کسی اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں تھے۔ جناح تو سراپا سیکولر تھے اور سیکولر طرزِ حکومت ہی ان کی منزل تھی۔ لیکن یہ سب کچھ وہ بہ یک وقت کھلے الفاظ میں نہیں کہتے، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس طرح تو ان کے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ جائے گا! چنانچہ یہ لوگ دھیرے دھیرے، مختلف انداز میں، ڈھکے چھپے الفاظ میں، کبھی ایک بات تو کبھی دوسری بات، سچ اور جھوٹ کو باہم ملا کر پیش کررہے ہیں، تاکہ یہ کسی کی پکڑ میں بھی نہ آسکیں اور ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل بھی ہوتی رہے۔
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اگر نظریاتی بنیادوں پر وطنِ عزیز میں شریعت نافذ ہوتی تو ملک کبھی دولخت نہ ہوتا۔ یہ نفاذِ شریعت کا فقدان ہی تو ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد آج ہم کشمیر بھی گنوا بیٹھے۔ مگر وطنِ عزیز کے سیکولر طبقے کو اس سے کیا سروکار! ان حضرات کی پست ذہنیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ یہ نفاذِ شریعت اور اسلامی طرزِ حکومت کو ہندو توا سے تشبیہ دیتے ہوئے عوام الناس کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ دیکھو، اگر اسلامی نظام آگیا تو مذہب کے نام پر جو ہنگامہ ہندوستان میں برپا ہے ایسا ہی کچھ پاکستان میں بھی ہوگا۔ یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقصد بلکہ اسلامی تاریخ سے بھی مکمل ناآشنا ہیں۔
اب اگر ہم اپنے موضوع کی طرف آئیں تو سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کیوں ہوئی؟ دو قومی نظریے کی بنیاد پر۔ دو قومی نظریہ کیا تھا؟ یہی کہ ہندو اور مسلم دو بالکل مختلف اور علیحدہ قوم ہیں۔ ان دونوں اقوام میں سوائے انسانی شکل و شباہت کے کوئی بات مشترک نہیں۔ ان کا رہن سہن، ان کا طرزِ حیات، ان کے عقائد و نظریات، ان کا سلام و کلام، ان کی بُود و باش اور ان کا طرزِ حکمرانی یکسر جدا ہیں۔ لہٰذا دو ایسی قومیں جو اپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور مذاہب میں باہم متضاد ہوں، ایک ہی مملکت میں یکجا نہیں رہ سکتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشترکہ ہند میں کانگریس تو سیکولر حکومت کا پرچار کررہی تھی مگر مسلمانانِ ہند یہ نعرہ لگا رہے تھے ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان… بن کے رہے گا پاکستان‘‘… ’’پاکستان کا مطلب کیا…؟ لا اِلٰہ الا اللہ‘‘۔
لہٰذا یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا، تحریکِ پاکستان کے عروج پر کلمہ طیبہ کا نعرہ لگا، مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے نئی مملکت میں شریعت کے نفاذ کی بات کی، اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ان کی تائید کی۔ جب حقیقت یہ ہے تو پھر آئیں بائیں شائیں کیوں…؟ جناح ایسے تھے، جناح ویسے تھے، جناح یہ چاہتے تھے، جناح وہ چاہتے تھے، سے آپ کا مقصود کیا ہے؟ جناح آپ کے رب ہیں یا آپ انھیں معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ان کی غیر مشروط اطاعت کیوں؟ پھر جناح کی ظاہری وضع قطع کو دلیل بناکر پورے ملک میں سیکولر نظامِ حکومت کی بات آپ کیسے کرلیتے ہیں؟آپ اپنے پیٹ کا درد بیان کیجیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ شریعت کا نفاذ آپ نہیں چاہتے۔ اسلامی طرزِ حکومت آپ پسند نہیں کرتے، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کبھی ان کے حق میں دلائل نہیں دیتے۔ البتہ مغربی آزادی کے نظام کے آپ دلدادہ ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے بندوق بے چارے جناح کے کاندھے پر رکھ کر چلاتے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی غیر مشروط اطاعت کریں۔ اجتماعی زندگی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی غیر مشروط اطاعت کا تقاضا اسلامی نظام عدل اور شریعت کا نفاذ ہے۔ جب آپ جناح کا حوالہ دیتے ہیں تو چلیںدیکھ لیں پاکستان سے متعلق جناح کا وژن کیا تھا اور انھوں نے اسلامیانِ ہند سے کیا وعدے کررکھے تھے، ذرا دل تھام کر آپ بھی پڑھ لیجیے۔
پاکستان کے قیام سے متعلق جناح کی مُراد کیا تھی، اس کی وضاحت میں 18 جون 1945ء کو انھوں نے کہا:
’’پاکستان کا مطلب صرف حریت و آزادی نہیں، بلکہ نظریۂ اسلام ہے جس کا تحفظ لازم ہے۔ اور یہ نظریہ ہمیں ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر ملا ہے اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی اس میں ہمارے ساتھ شریک ہوں گے‘‘۔
معلوم ہوا کہ قائد کے نزدیک پاکستان ایک نظریاتی ریاست بننے جارہا تھا۔ اور اس کا نظریہ سیکولر نہیں بلکہ اسلامی نظریہ تھا جس کا تحفظ انھوں نے مسلمانانِ ہند پر لازم قرار دیا۔ پھر 24 نومبر 1945ء کو پشاور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
’’مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں، ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور ایک نبی کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگ انھیں سیاسی طور پر ایک پلیٹ فارم اور سبز اسلامی پرچم تلے منظم کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔
یہاں ہمارا کوئی دوست نہیں۔ برطانوی ہمارے دوست ہیں نہ ہندو۔ ہم اچھے طریقے سے جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان دونوں سے لڑنا ہے۔ اگر یہ دونوں ہمارے خلاف متحد ہوجائیں تب بھی ہم ان سے ڈریں گے نہیں۔ ہم ان کی مشترکہ قوت سے ٹکرائیں گے اور ان شا اللہ فتح بالآخر ہماری ہی ہوگی‘‘۔
چلو جی، خیر سے یہاں سے جناح کا عقیدہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ مسلمان تھے اور ایک رب، ایک نبی اور ایک کتاب پر ایمان رکھتے تھے۔ نیز یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کو سیکولر نہیں بلکہ ’’اسلامی پرچم‘‘ تلے متحد کیا، تاکہ ہندوئوں اور برطانویوں سے لڑ کر نظریہ اسلام کے تحفظ کی خاطر پاکستان قائم کیا جاسکے۔ اسی طرح ایک دوسرے جلسے میں، 21 نومبر 1945ء کو انھوں نے اپنے عزم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:
’’ہمیں دو طرفہ جنگ لڑنی ہوگی، ایک ہندو کانگریس کے خلاف اور دوسری برطانوی سامراج کے خلاف، ہیں دونوں سرمایہ دار۔ مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اپنے نظامِ حیات، اپنی ثقافت و روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘۔
قائداعظم کے مذکورہ الفاظ پر غور کیجیے اور ان کے جذبات دیکھیے کہ وہ حصولِ پاکستان کی خاطر ہندو کانگریس اور برطانوی سامراج سے لڑ مرنے کو تیار ہیں۔ اور ایسا وہ اس لیے کررہے ہیں تاکہ مسلمان سرمایہ دارانہ نظام کے بالمقابل اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں اور اپنی تہذیب و روایات کے مطابق جی سکیں۔ اب سوال یہاں یہ ہے کہ اگر جناح سیکولر نظامِ حکومت کے دلدادہ تھے، آپ کی طرح، تو انھوں نے اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرنے کی بات کیوں کی…؟ غالباً اتنا تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اسلامی قوانین کے مطابق حکومت سے کیا مُراد ہے…!
اب آپ کی معلومات کے لیے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ 14 اگست 1948ء کو جناح نے پاکستان کو ’’اسلامی ریاست‘‘ قرار دیا، اور ایک موقع پر جب نوجوانوں نے ان سے اسلامی حکومت کی بابت پوچھا تو انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے‘‘۔
اب آپ مسٹر جناح کا نظریہ و عقیدہ جان چکے ہوں گے۔ تو آئیے ہم پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدو جہد کریں، تاکہ وطنِ عزیز، اسلامی پاکستان، خوشحال پاکستان اور جناح کا پاکستان ہونے کا اعزاز پاسکے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ سے یہ نہ ہوپائے گا۔
سچی بات یہ ہے کہ آج اگر قائداعظم زندہ ہوتے تو ان کے یہ الفاظ سن کر یہی لونڈا سب سے پہلے کالم لکھ مارتا کہ جناح دقیانوس بن گیا ہے کہ پین اسلام ازم کی بات کرتا ہے!!
Refrences:
(1)Teachings of Quaid-i-Azam Rizwan Ahmed-National Institute of Historical and Cultural Research (61,p) 1989, reprinted 1989.
(2)Ahmed-ul-Din-Jamil Writing and Speeches of Mr.Jinnah, Sh, Muhammad Ashraf Lahore 1947 Vol:11 p.239.
(3)Vol:p.237 ایضاً
(4)[اسلام اور قائد اعظم، محمد حنیف شاہد، (لاہور: مکتب زرّیں، دسمبر 1976ء )، صفحہ نمبر -49]، [قائد اعظم کا پیغام؛ سید قاسم محمود، (پاکستان اکادمی، لاہور 1967ء گیارہواں ایڈیشن 1976ء)، صفحہ نمبر -104]، [حیاتِ قائد اعظم، صفحہ نمبر -428]