محبت سے آشنا ہونے والا انسان، ہر طرف حُسن ہی حُسن دیکھتا ہے۔ اس کی زندگی نثر سے نکل کر شعر میں داخل ہوجاتی ہے۔ اندیشہ ہائے سودو زیاں سے نکل کر انسان جلوئہ جاناں میں گم ہوجاتا ہے۔ اس کی تنہائی میں میلے ہوتے ہیں۔ وہ ہنستا ہے بے سبب، روتا ہے بے جواز۔ محبت کی کائنات جلوئہ محبوب کے سوا کچھ اور نہیں۔
محبوب کا چہرہ، محبّ کے لیے کعبہ بن کے رہ جاتا ہے۔ محبت انسان کو زمان و مکاں کی ظاہری قیود سے آزاد کردیتی ہے۔ محبت میں داخل ہونے والا، ہر داستانِ الفت کو کم و بیش اپنا ہی قصہ سمجھتا ہے۔ وہ اپنے غم کا عکس دوسروں کے افسانوں میں محسوس کرتا ہے۔ محبت وحدت سے کثرت اور کثرت سے وحدت کا سفر طے کراتی ہے۔ محبت آسمانوں کی بے کراں وسعتوں کو ایک جست میں طے کرسکتی ہے۔ محبت قطرے کو قلزم آشنا کردیتی ہے۔ محبت زمین پر پائوں رکھے تو آسمانوں سے آہٹ سنائی دیتی ہے۔ محبت کرنے والے کسی اور مٹی سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ خلوص کے پیکر دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے الگ ہوتے ہیں۔ دراصل محبت زندگی اور کائنات کی انوکھی تشریح ہے۔ یہ قرآن فطرت کی الگ تفسیر ہے۔ یہ حیات و مرگ کے مخفی رموز کی جداگانہ آگہی ہے۔ محبت میں دھڑکنے والے دل کے ساتھ کائنات کی دھڑکنیں ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ محبت کا تقرب موسموں کو خوشگوار بنادیتا ہے۔ محبوب کی جدائی سے بہاریں روٹھ جاتی ہیں۔ محبوب کا فراق بینائی چھین لیتا ہے اور محبوب کی قمیص کی خوشبو سے بینائی لوٹ آتی ہے۔ یہ بڑا راز ہے، یہ انوکھا عمل ہے۔ اس زندگی میں ایک اور زندگی ہے۔ اسی کائنات میں ایک اور کائنات ہے۔ محبت ہو تو انسان کو اپنے وجود ہی میں کائنات کی وسعتوں اور رنگینیوں سے آشنائی ہوتی ہے۔ اسے خوشبوئوں سے تعارف نصیب ہوتا ہے۔ اسے آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ دھڑکنوں سے آشنا ہوتا ہے۔ اسے نالہ نیم شب کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ محبت کرنے والا اپنی ہستی کے نئے معنی تلاش کرتا ہے۔ وہ باطنی سفر پر گامزن ہوتا ہے۔ زندگی کے تپتے ہوئے ریگ زار میں محبت گویا ایک نخلستان سے کم نہیں۔ محبت کے سامنے ناممکن و محال کچھ نہیں۔ محبت پھیلے تو پوری کائنات، اور سمٹے تو ایک قطرئہ خوں۔
درحقیقت محبت، آرزوئے قربِ حسن کا نام ہے۔ ہم ہمہ وقت جس کے قریب رہنا چاہتے ہیں، وہی محبوب ہے۔ محبوب ہر حال میں حسین ہوتا ہے کیونکہ حسن تو دیکھنے والے کا اپنا اندازِ نظر ہے۔ ہم جس ذات کی بقا کے لیے اپنی ذات کی فنا تک بھی گوارا کرتے ہیں، وہی محبوب ہے۔
محبّ کو محبوب میں کجی یا خامی نظر نہیں آتی۔ اگر نظر آئے بھی، تو محسوس نہیں ہوتی۔ محسوس ہو بھی تو ناگوار نہیں گزرتی۔ محبوب کی ہر ادا دلبری ہے، یہاں تک کہ اس کا ستم بھی کرم ہے۔ اس کی وفا بھی پُرلطف اور جفا بھی پُرکشش۔ محبوب کی جفا کسی محبّ کو ترکِ وفا پر مجبور نہیں کرتی۔ دراصل وفا ہوتی ہی بے وفا کے لیے ہے۔ محبوب کی راہ میں انسان معذوری و مجبوری کا اظہار نہیں کرتا۔ محبوب کی پسند و ناپسند محبّ کی پسند و ناپسند بن کے رہ جاتی ہے۔ محبت کرنے والے جدائی کے سوا کسی اور قیامت کے قائل نہیں ہوتے۔
محبت اشتہائے نفس اور تسکینِ وجود کا نام نہیں۔ اہلِ ہوس کی سائیکی (PSYCHE) اور ہے، اور اہلِ دل کا اندازِ فکر اور محبت دو روحوں کی نہ ختم ہونے والی باہمی پرواز ہے۔
محبت کے لیے کوئی خاص عمر مقرر نہیں۔ محبت زندگی کے کسی دور میں بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان کو پوری زندگی میں بھی محبت سے آشنا ہونے کا موقع نہ ملے۔ سوز دل پروانہ کسی مگس کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
عقیدوں اور نظریات سے محبت نہیں ہوسکتی۔ محبت انسان سے ہوتی ہے۔ اگر پیغمبرؐ سے محبت نہ ہوتو خدا سے محبت یا اسلام سے محبت نہیں ہوسکتی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجاز کیا ہے اور حقیقت کیا ہے؟ دراصل مجاز بذاتِ خود ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت اُس وقت تک مجاز کہلاتی ہے، جب تک رقیب ناگوار ہو۔ جس محبت میں رقیب قریب اور ہم سفر ہو، وہ عشق حقیقی ہے۔ اپنا عشق، اپنا محبوب اپنے تک ہی محدود رکھا جائے تو مجاز، اور اگر اپنی محبت میں کائنات کو شریک کرنے کی خواہش ہو تو حقیقت۔ رانجھے کا عشق مجاز ہوسکتا ہے، لیکن وارث شاہ کا عشق حقیقت ہے۔ عشقِ حقیقی، عشق نور حقیقت ہے۔ یہ نور جہاں سے بھی عیاں ہوگا، عشق کے لیے محبوب ہوگا۔ عشقِ نبیؐ عشقِ حقیقی ہے۔ عشقِ آل نبیؐ عشقِ حقیقی ہے۔ عشقِ اصحابِ نبیؐ عشقِ حقیقی ہے۔ عشقِ جامیؒ عشقِ حقیقی ہے۔ اویس قرنیؒ کا عشقی حقیقی ہے۔ عشقِ رومیؒ عشقِ حقیقی ہے۔ بلکہ اقبالؒ کا عشق بھی عشق ِحقیقی ہی کہلائے گا۔
اگر قطرئہ شبنم واصل قلزم ہو اور آنسو بھی سمندر سے واصل ہو، تو شبنم اور آنسو کا عشق بھی عشقِ قلزم یا عشقِ حقیقی کہلائے گا۔ پیر کامل کا عشق، عشقِ نبیؐ ہی کہلائے گا۔
حضور اکرمؐ کو نورِ خدا کہا جاتا ہے، اور ولی چونکہ مظہرِ عشقِ نبیؐ ہوتا ہے اسے مظہرِ نبیؐیا مظہرِ نورِ خدا کہا جاسکتا ہے۔ پیر کامل کو عشق میں صورتِ ظل الٰہ کہنا جائز ہے۔ مولانا روم نے اس کو یوں کہا ہے؎
ہر کہ پیرو ذات حق را یک ندید
نے مرید و نے مرید و نے مرید
بہر حال عشقِ مجازی کو بہ وسیلہ شیخ ِکامل، عشقِ حقیقی بننے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔
ہر انسان کے ساتھ محبت الگ تاثیر رکھتی ہے، جس طرح ہر انسان کا چہرہ الگ، مزاج الگ، دل الگ، پسند ناپسند الگ، قسمت نصیب الگ، اسی طرح ہر انسان کا محبت میں رویہ الگ۔ کہیں محبت کے دم سے تخت حاصل کیے جارہے ہیں، کہیں تخت چھوڑے جارہے ہیں، کہیں دولت کمائی جارہی ہے، کہیں دولت لٹائی جارہی ہے۔ محبت کرنے والے کبھی شہروں میں ویرانے پیدا کرتے ہیں، کبھی ویرانوں میں شہرآباد کرجاتے ہیں۔ دو انسانوں کی محبت یکساں نہیں ہوسکتی۔ اس لیے محبت کا بیان مشکل ہے۔ دراصل محبت ہی وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنی اصلی شکل، باطنی شکل، حقیقی شکل دیکھتا ہے۔ محبت ہی قدرت کا سب سے بڑا کرشمہ یہ۔ ’’جس تن لاگے سو تن جانے‘‘۔ محبت ہی کے ذریعے انسان پر زندگی کے معنی منکشف ہوتے ہیں۔ کائنات کا حسن اسی آئینے میں نظر آتا ہے۔
آج کا انسان محبت سے دور ہوتا جارہا ہے۔ آج کا انسان ہر قدم پر ایک دوراہے سے دوچار ہوتا ہے۔ مشینوں نے انسان سے محبت چھین لی ہے۔ آج کے انسان کے پاس وقت نہیں کہ وہ نکلنے اور ڈوبنے والے سورج کا منظر تک بھی دیکھ سکے۔ وہ چاندنی راتوں کے حسن سے ناآشنا ہوکر رہ گیا ہے۔ آج کا انسان دور کے سیٹلائٹ سے پیغام وصول کرنے میں مصروف ہے۔ وہ قریب سے گزرنے والے چہرے کے پیغام کو وصول نہیں کرسکتا۔ انسان محبت کی سائنس سمجھنا چاہتا ہے اور یہ ممکن نہیں۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں، زندگی ملٹن بھی ہے۔ زندگی صرف حاصل ہی نہیں،ایثار بھی ہے۔ ہرن کا گوشت الگ حقیقت ہے، چشم آہو الگ مقام ہے۔ زندگی کارخانوں کی آواز ہی نہیں، احساسِ پرواز بھی ہے۔ زندگی صرف ’’میں‘‘ ہی نہیں، زندگی ’’وہ‘‘ بھی ہے، ’’تُو‘‘ بھی ہے۔ زندگی میں صرف مشینیں ہی نہیں، چہرے بھی ہیں، متلاشی نگاہیں بھی۔ زندگی مادہ ہی نہیں، روح بھی ہے۔ اور سب سے بڑی بات زندگی خود ہی معراجِ محبت بھی ہے۔
(”دل دریا سمندر“۔واصف علی واصف)
اقبال
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں فراغ
ضربِ کلیم کی ایک غزل کا یہ شعر اپنے اندر بہت بڑا سبق اور مکمل فلسفہ رکھتا ہے۔ علامہ نے آزاد اور غلام انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو اس شعر میں بیان کیا ہے کہ وقت بہت قیمتی چیز ہے مگر صرف آزاد انسان کے لیے۔ وہ اس لیے کہ کوئی نہ کوئی بڑا مقصد اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کا لائحہ عمل اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی ایک امانت ہے۔ اس کا ایک ایک لحظہ قیمتی ہے۔ اور اسی مناسبت سے مصروفِ عمل رہنا ہی انسان کو زیب دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک غلام کی زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ انسانیت کے شعور سے ہی بے خبر ہوتا ہے، اور اُس کے پاس اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی۔ نہ تو اس کے پاس اپنا کوئی منصوبہ کار ہوتا ہے اور نہ اس کے کوئی تقاضے۔ وقت ہی تو زندگی ہے، اور وقت کے ضیاع کا تصور ایک آزاد اور خودمختار انسان ہی کے پاس ہوتا ہے۔