بحرِ روم میں بالا دستی کی جنگ

اسرائیل اور مصر کے گٹھ جوڑ پر ترکی کی تشویش

بدقسمتی سے دنیا بھر کی بڑی آبی گزرگاہیں، شاہراہیں، آبنائیں اور سمندر عسکری کشیدگی کی زد میں ہیں۔ بحر جنوبی چین (South China Sea) میں آزاد جہازرانی کے مسئلے پر امریکہ اور چین کو ایک دوسرے کے مؤقف سے سخت اختلاف ہے۔ چین بحرالکاہل کے جنوبی حصے کو اپنی ملکیت تصور کرتا ہے اور اس نے یہاں بہت سے مصنوعی جزیرے بناکر بحری اڈے قائم کرلیے ہیں۔ امریکہ بہادر کو بحرِ جنوبی چین پر بیجنگ کی اجارہ داری کسی طور قبول نہیں اور تباہ کن جہازوں کے گشت سے واشنگٹن مسلسل یہ باور کرا رہا ہے کہ بحر جنوبی چین اقوام عالم کے لیے ایک کھلا سمندر اور آبی گزرگاہ ہے۔ جاپان، ملائشیا اور انڈونیشیا کا بھی یہی مؤقف ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ جزیرہ نمائے کوریا، بحرِ جاپان، خلیج کوریا، بحرِ زرد (Yellow Sea) اور آبنائے کوریا کا ہے کہ جہاں جوہری ہتھیار سمیت حشر بپا کرنے کے سامان سے آراستہ و پیراستہ روس، چین اور امریکی بحریہ کے جہاز ایک دوسرے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور جنوبی کوریا چچا سام کی نصرت کو موجود ہیں۔ بحرالکاہل کے جنوب میں چین و تائیوان کے درمیان واقع آبنائے فارموسا بھی کشیدگی کی زد میں ہے۔
بحر احمر اور بحر عرب کے درمیان آبنائے باب المندب کے قریب ایک عرصے سے صورت حال کشیدہ ہے، جبکہ خلیج فارس گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ کے ایک جدید ترین ڈرون کی تباہی اور سعودی جہازوں پر تباہ کن میزائل حملوں کا نظارہ بھی کرچکی ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے ایک نیا آبی محاذ گرم ہوتا نظر آرہا ہے، اور وہ ہے بحرِ روم کا مشرقی کنارہ۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں کے برعکس یہاں علاقائی ممالک اپنی قوت کا مظاہرہ کررہے ہیں، اور ’سپر پاورز‘ کی براہِ راست دلچسپی فی الحال ظاہر نہیں ہوئی۔ یہ درست کہ کشیدگی میں مغرب و امریکہ کے دلاروں یونان، مصر اور اسرائیل کے ملوث ہونے کی بنا پر واشنگٹن اور برسلز کی حمایت بڑی واضح ہے، لیکن اب تک کسی بڑی طاقت نے اپنے عسکری اثاثے یہاں نہیں اتارے۔
9 لاکھ 70 ہزار مربع میل پر مشتمل بحر روم خشکی سے گھرا سمندر ہے جسے ہسپانیہ اور مراکش کے درمیان واقع آبنائے جبل الطارق خلیج یونان کے راستے بحر اوقیانوس سے ملاتی ہے۔ 711ء میں اسی مقام سے طارق بن زیاد نے 1700 (کچھ روایتوں میں 12000) بربر مجاہدین کے ساتھ سمندر عبور کرکے ہسپانیہ پر کامیاب حملہ کیا۔
مشرق میں سوا کلومیٹر چوڑی آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) یا آبنائے چناکلے بحر روم کو بحیرہ مرمرا سے ملاتی ہے۔بحیرہ مرمرا کو ترکی میں نہر استنبول کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس (Strait of Bosporus) کے ذریعے بحیرہ مرمرا کو بحر اسود تک رسائی مل جاتی ہے۔ جنوب مشرق میں 675 فٹ چوڑی نہر سوئز بحر روم کو بحر احمر سے ملاتی ہے۔ بحر احمر کو بحر قلزم بھی کہا جاتاہے۔
بحر روم اور بحر اسود پر ترکی کی گرفت بہت گہری ہے جو حاسدوں کو پسند نہیں۔ تاہم حالیہ کشیدگی کی وجہ جہازرانی و مواصلات سے زیادہ معدنیات ہیں۔ بحرروم کی تہ کے نیچے تیل وگیس کے چشمے موجزن ہیں جن پر قبضے کے لیے علاقے کے تمام ممالک اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔ جنوب مشرقی ساحل پر لبنان، غزہ اور مصر کے پانیوں میں گیس کے کئی بڑے ذخائز دریافت ہوئے ہیں۔ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کہ فلسطین اور لبنان کے خزانے پر اسرائیل بہت بے شرمی سے ہاتھ صاف کررہا ہے لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ اس ڈکیتی کے خلاف آواز اٹھائے۔ غزہ اور لبنان کے ساحلوں کے قریب اسرائیل کی نجی تیل کمپنی دالیک (DALEK) اور امریکہ کی نوبل انرجی نے لیویاتن (Leviatan)، تامر، ماری، میرا، میرین 1 اور 2 کے نام سے گیس کے میدان دریافت کیے ہیں، جبکہ کئی مقامات پر گیس کی تلاش و ترقی کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے۔ لیویاتن نام بھی اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ عبرانی روایات کے مطابق قدرت نے اپنے متقی بندوں کی حفاظت کے لیے خوفناک اژدھوں کا ایک جوڑا تخلیق کیا ہے۔ مادہ اژدھا لیویاتن ہے جو اسرائیل کے گرد گہرے پانیوں میں ’مومنین‘ کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتی ہے، جبکہ نر اژدھا بہیمہ (Behemoth)خشکی و صحرا میں ’اہلِ ایمان‘ کی حفاظت کرتا ہے۔ دلچسپ بات کہ راسخ العقیدہ یہودی اس کہانی کو مہمل بلکہ شرک تصور کرتے ہیں۔
معاملہ صرف غزہ اور لبنان کے وسائل کی چوری تک محدود نہیں۔ جس دلیری سے مصر کی دولت پر شب خون مارا جارہا ہے وہ اس سے زیادہ دردناک ہے۔ مصر کے ساحل سے متصل سمندر میں ہالینڈ کی شیل(Shell) کمپنی ایک عرصے سے قسمت آزمائی کررہی تھی۔ حسنی مبارک کے دورِ نامبارک میں فوجی جنتا اور کمیشن مافیا کا گٹھ جوڑ عدم دلچسپی اور ناکامی کے باوجود شیل کے ٹھیکے کی بار بار تجدید کرکے مال بٹور رہا تھا۔ 2012ء کے وسط میں اقتدار سنبھالتے ہی صدر محمد مرسی نے وزارتِ پیٹرولیم کی تنظیمِ نو کرتے ہوئے انھیں بحرِ روم میں گیس کی تلاش تیز کرنے کا ہدف دیا۔ نئی انتظامیہ نے شیل کا ٹھیکہ منسوخ کرکے دنیا بھر کی تیل کمپنیوں کو تلاش و ترقی کے کام میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ بحر روم کا یہ علاقہ بے حد پُرکشش ہے، چنانچہ اطالوی کمپنی eni نے بھاری بولی لگاکر شروق بلاک میں تلاش کے حقوق اپنے نام کرلیے۔ ٹھیکہ ملتے ہی eni نے کھدائی کا آغاز کیا اور پے درپے 7 کنویں کھود کر 30 ہزار ارب مکعب فٹ گیس کا عظیم الشان ذخیرہ دریافت کرلیا جسے ’ظہر‘ کا نام دیا گیا۔ ’ظہر‘ سے یومیہ پیداوار کا حجم 2 ارب 70 کروڑ مکعب فٹ ہے۔ صرف 12 ماہ بعد ہی صدر مرسی معزول کرکے عقوبت خانے پہنچا دیے گئے اور کمیشن مافیا کو سونے کی ایک نئی چڑیا ہاتھ لگ گئی۔ اسرائیل کی خوشنودی کے لیے ترقی کا کام سست کردیا گیا۔ دوسری طرف اسرائیل کو اونے پونے گیس کی فروخت شروع ہوئی لیکن کچھ ہی ماہ بعد معاہدہ یہ کہہ کر منسوخ کردیا گیا کہ مصر قومی دولت صرف اپنے لیے استعمال کرے گا اور ظہر سے نکلنے والی گیس فروخت نہیں ہوگی۔ بظاہر تو یہ بڑی عمدہ بات تھی، لیکن سیاسی ہاتھیوں کے کھانے اور دکھانے کے دانت مختلف ہوتے ہیں۔
ظہر گیس کی برآمد پر پابندی کا اصل محرک لیویاتن (Leviathan) سے نکلنے والی گیس کے لیے خریدار کی تلاش تھا۔ لبنان، ترکی، شام اور یونان اسرائیلی گیس خریدنے کے لیے تیار نہیں، اور لیبیا تیل و گیس میں خودکفیل ہے۔ اسرائیل کے پاس اس کی فروخت کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گیس کو LNGمیں تبدیل کرکے اسے ٹینکروں کے ذریعے یورپ برآمد کردیا جائے۔ لیکن LNG پلانٹ لگانے کا خرچ بہت زیادہ تھا، چنانچہ 2010ء میں دریافت ہونے والی یہ گیس فیلڈ گزشتہ 9 سال سے بند پڑی تھی۔
دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اسرائیل اور مصر کے درمیان گیس فروخت کے ایک معاہدے (GSA)کی خبر شائع ہوئی۔ معاہدے کے تحت مصر لیویاتن سے 54 کروڑ 80 لاکھ (548mmcfd) مکعب فٹ گیس یومیہ خریدے گا۔ یہ معاہدہ 15 سال کے لیے ہے، یعنی ان پندرہ برسوں کے دوران 3tcf گیس فروخت کی جائے گی۔
مصری ذرائع ابلاغ پر تو اسے کوئی اہمیت نہیں ملی لیکن ساری دنیا میں شور برپا ہے کہ اب اسرائیل بھی گیس برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ کچھ منچلے تو یہ بھی کہہ گئے کہ اسرائیلی وزارتِ پیٹرولیم اوپیک (OPEC)کی رکنیت کے لیے درخواست دے رہی ہے اور متحدہ عرب امارات نے اس سلسلے میں اسرائیل کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
بحرروم کا محلِ وقوع کچھ اس طرح ہے کہ اس سمندر کی حدود واضح نہیں، اور ہر ملک اس کے پانیوں پر اپنا حق جتا رہا ہے۔ جنوب مشرقی حصے میں لیویاتن اور مصر کی ظہر گیس فیلڈ کی دریافت کے بعد سے بحر روم کے شمال مشرقی علاقے میں بھی تیل و گیس کی تلاش وترقی کے کام میں تیزی آگئی ہے۔ یہاں اپنی سرحدوں سے جزیرہ قبرص تک کے علاقے کو ترکی نے مخصوص اقتصادی زون یا EEZ قرار دیا ہے، اور انقرہ اس علاقے میں کسی اور کی موجودگی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ برس کے آغاز میں اٹلی کی Eni نے قبرص کے قریب تیل و گیس کی تلاش کے لیے Saipem 12000 نامی رگ بردار جہاز (Drillship) بھیجا جسے وہاں پہنچتے ہی ترک بحریہ نے گھیر لیا اور ڈبونے کی دھمکی دے کر وہاں سے چلے جانے پر مجبور کردیا۔ اس رگ بردار جہاز نے بعد میں کراچی کے قریب مشہورِ زمانہ ’کیکڑا ون‘ کی کھدائی کی۔ یونان اس علاقے پر ترکی کا حق قبول نہیں کرتا اور وہ یونانی قبرص سے مل کر علاقے میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے۔ کئی مرتبہ دونوں کی بحریہ آمنے سامنے آچکی ہیں لیکن صدر اردوان کے دوٹوک رویّے کی بنا پر یونانیوں نے پسپائی اختیار کرلی۔ ترکی و یونان دونوں ہی نیٹو (NATO)کے رکن ہیں، چنانچہ دسمبر کی نیٹو سربراہ کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ اٹھا۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت تمام یورپی ممالک نے یونان کی حمایت کی، لیکن صدر اردوان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ترکی نیٹو چھوڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنی اقتصادی شہ رگ سے دست بردار نہیں ہوگا۔
بحر روم پر بالادستی کے لیے اسرائیل اور مصر کے گٹھ جوڑ پر ترکی کو سخت تشویش ہے۔ یونان بھی ترکی کی مخالفت میں اسرائیل سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ چنانچہ صدر اردوان بحر روم کے جنوبی ساحل پر شمالی افریقہ کے ممالک لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش سے قریبی تعلقات استوار کررہے ہیں۔ ان تمام ممالک کو بحر روم میں اسرائیلی بحریہ کی بڑھتی ہوئی قوت پر تشویش ہے۔ اس کے علاوہ لیبیا میں بدامنی سے تیونس بھی متاثر ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترک صدر نے تیونس کا دورہ کیا جہاں تیونس کے دفاع اور اس کے قدرتی وسائل کی ترقی پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ نئے تیونسی صدر قیس سعید ترکی سے قریبی تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ دوسری طرف النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کے تیونسی پارلیمان کا اسپیکر منتخب ہوجانے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان ہاہمی تعلقات میں خاصی گرم جوشی آگئی ہے۔
لیبیا کو شدید دہشت گردی کا سامنا ہے جس کے سرغنہ امریکی شہریت کے حامل خودساختہ جنرل خلیفہ ابوالقاسم حفتر ہیں۔ 76 برس کے حفتر کرنل قذافی کی آنکھ کا تارہ تھے اور چاڈ کی خانہ جنگی کو کچلنے کے لیے 1986ء میں جب لیبیا کی فوج وہاں بھیجی گئی تو اس کے سربراہ کرنل حفتر ہی تھے۔ اس دوران اُن کا رویہ انتہائی خراب تھا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اُن کے خلاف مقدمہ بھی قائم ہوا۔ کرنل قذافی کے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے بھی حفتر صاحب نے انتہائی وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کیے، لیکن جیسے ہی انھیں اندازہ ہوا کہ قذافی اقتدار کی بنیادیں ہل چکی ہیں تو موصوف فوج سے استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے، جہاں کچھ عرصے بعد انھیں شہریت دے دی گئی۔ 2014ء میں وہ لیبیا واپس آئے اور بھتہ خوری کے لیے اپنی ملیشیا بنالی۔ ان کا ہدف تیل کی تنصیبات ہیں اور کامیاب کارروائیوں کی بنا پر لیبیا کی حکومت کو شبہ ہے کہ حفتر ملیشیا کو درپردہ اسرائیل، امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
امریکہ اور یورپ سے مایوس ہوکر لیبیا اب اپنے دفاع کے لیے ترکی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ 27 نومبر کو ترکی اور لیبیا نے ’مشترکہ آبی حدود‘ کے عنوان سے مفاہمت کی ایک یادداشت یا MOU پر دستخط کردیے۔ استنبول میں صدر اردوان اور لیبیا کے وزیراعظم فیض السراج کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترکی اور لیبیا کے درمیان واقع سمندر کے جملہ معدنی اور قدرتی وسائل ان دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت ہیں جن کی حفاظت کو یقینی بنانا ترک بحریہ کی ذمہ داری ہوگی۔ ترکی کے وزیر توانائی جناب فاتح دنمیز نے اعلان کیا کہ جیسے ہی دونوں ملکوں نے MOUکی توثیق کی، ترکی اپنا Yavuz Drillship کھدائی کے لیے روانہ کردے گا، جبکہ اس کی Seismicکشتیاں پہلے ہی سے آزمائش و پیمائش میں مصروف ہیں۔
اس معاہدے پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے یونان نے لیبیا کے سفیر کو ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔ اسی کے ساتھ یونانی وزیراعظم نے نیٹو کو مطلع کیا ہے کہ وہ خلیج یونان اور وسطی بحر روم میں ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے بحری اثاثے تعینات کررہے ہیں۔ دوسری طرف یونانی قبرص نے ترکی کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے، تاہم ترکی امریکہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عالمی عدالتِ انصاف کو اس معاملے میں ٹانگ نہ اَڑانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ جنرل السیسی جنھیں صدر اردوان کی صورت سے بھی نفرت ہے، اس تنازعے میں دامے، درمے، قدمے، سخنے یونان کے ساتھ ہیں۔ ترکی اور یونان کے مابین 1974ء میں قبرص کے مسئلے پر گھمسان کی جنگ ہوچکی ہے جس میں ترک فوج نے نہ صرف یونانیوں کو سخت نقصان پہنچایا، بلکہ قبرص کے ایک بڑے علاقے پر سے یونانی قبضہ ختم کرواکر وہاں آزاد و خودمختار ترک قبرصی ریاست قائم کردی گئی۔ اسرائیل نے اپنے سرکاری مؤقف کا اعلان نہیں کیا، تاہم ترکی سے نفرت میں اُس کی ہمدردی یونان کے ساتھ ہے۔
خیال ہے کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ترک پارلیمان لیبیا سے ہونے والے معاہدے پر بحث کرے گی اور بہت آسانی سے اس معاہدے کی توثیق ہوجائے گی۔ صدر اردوان کہہ چکے ہیں کہ جیسے ہی ان کی پارلیمان نے معاہدے کی منظوری دی، وہ لیبیا کے دفاع اور جنرل حفتر کی سرکوبی کے لیے اپنی فوج وہاں بھیج دیں گے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ ان کی فوج اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کی عمل داری قائم کرنے کے لیے جارہی ہے لہٰذا اس کی مخالفت کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور پیچیدگی یہ ہے کہ حفتر مافیا میں کرائے کے روسی فوجی بھی شامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ روسی باشندہ یوجنی پرگوزن جو حفتر مافیا کے لیے کرائے کے لڑاکا بھرتی کرتا ہے، روسی فوج کے لیے اشیائے خورونوش کا کنٹریکٹر رہ چکا ہے۔ پرگوزن کو روسی صدر پیوٹن کا باورچی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس بات کا ڈر بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر ترک فوج نے حفتر مافیا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو کہیں روسی فوج اس کے دفاع میں نہ آجائے۔ تاہم روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے بہت صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ روسی حکومت اپنے شہریوں کو دوسرے ملک جانے سے روک نہیں سکتی، اور نہ ہی کریملن اپنے شہریوں کی ’نجی سرگرمیوں‘ کا ذمہ دار ہے۔ اس وضاحت سے ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ ترک فوج اور حفتر سے تصادم میں روس غیر جانب دار رہے گا، لیکن ہر قسم کے خدشات اور اندیشے موجود ہیں۔ امریکہ اور یورپ بھی ترک فوج کے ہاتھوں حفتر مافیا کی پامالی کو شاید ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کریں اور اسرائیل و مصر کے ذریعے حفتر دہشت گردوں کی مدد اور پشت پناہی خارج از مکان نہیں۔
………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹوئٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔