مائیکل ہیملٹن مورگن/ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق
۔’’اے گر وہ جنّ و اِنس، اگر تم زمین اور آسمانوں کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے۔ اس کے لیے بڑا زور چاہیے۔‘‘ (سورہ رحمٰن، آیت 33)۔
ْقرطبہ، اندلس، سن 852ء، مسلم حکمۃ (سائنس) کے بہت سارے دستاویزی پہلو تاریخ میں گُم ہیں، تاہم چند پہلوؤں پر ہزار سال تک گفتگو جاری رہی۔ ایک کہانی کہتی ہے: مسجد قرطبہ کے سامنے چوک پرایک دن بڑا مجمع لگا، سب کی نگاہیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں، وہ ایک ایسے آدمی پر نظریں جمائے ہوئے تھے، جو اپنی جان کے درپے تھا، یا پھر تاریخ رقم کرنے جارہا تھا۔ وہ مسجدکے مینار سے ملحق چھوٹی سی بالکونی پر جہاں سے مؤذن اذان دیتے ہیں، کھڑا نیچے دیکھ رہا تھا، اونچائی کا اندازہ لگا رہا تھا، نیچے مجمع میں چہ میگوئیوں کی بھنبھناہٹ اسے سنائی نہیں دے رہی تھی، کچھ نے چلّا کر اُسے آواز دی، کوئی ڈرا رہا تھا، کوئی حوصلہ دلا رہا تھا۔ کوئی چلاّیا ’’اٹھاؤ اپنا اڑن کھٹولا اور نیچے آجاؤ، کیوں اپنی جان کے دشمن ہوئے جاتے ہو؟‘‘ دوسرا چیخا’’ارے ڈرو نہیں، چھلانگ لگاؤ‘‘۔ ’’کیا اس نے امام صاحب سے اس کرتب کی اجازت لی ہے؟‘‘ ایک عورت نے پوچھا۔ قریب سے ایک ڈری ڈری سی ہنسی سنائی دی۔
یہ تھا قرطبہ، جسے ایک دن Cordoba کے نام سے معروف ہونا تھا، یہ اموی اسپین کا گوہرِ نایاب تھا۔ صدی بیت چکی تھی کہ جب عبدالرحمان اوّل نے یہ شہر گزشتہ امیر سے لڑکر حاصل کیا تھا۔ اموی مصلح کودنیا سے گزرے عرصہ ہوا تھا۔ یہ امیر عبدالرحمان دوئم کی حکمرانی کا دور تھا۔ آئندہ صدی میں امویوں نے قرطبہ کو دارالخلافہ کا درجہ دیا۔
سن 852ء میں ہسپانوی اموی اہمیت میں بغداد سے قریب تر ہورہے تھے۔ قرطبہ اب یورپ کا جدید ترین اور (ٹیکنالوجی کے اعتبار سے) ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا۔ یہاں تک کہ نویں صدی کے وسط میں قرطبہ شہری انتظامی خوبیوں کا بہترین نمونہ تھا۔ عراقی موسیقار زریاب ابوالحسن علی ابن النافعی کے سُروں کی بڑی دھوم تھی۔ کئی صلاحیتوں کے حامل اس فنکار کو اندلسی حکومت نے بغداد کے دربار سے بہلا پھُسلا کریہاں بلا لیا تھا۔ اسے سالانہ دوسو دینار اور ہزار دینار بونس کی پیشکش کی گئی تھی۔ اسلامی دنوں پر بھی خاص بخشش اور دیگر مراعات دی جاتی تھیں۔ قرطبہ میں ایک محل اور شہر کے نواح میں کئی رہائش گاہیں عنایت کی گئیں۔ زریاب اب ایک عراقی غلام موسیقار سے ایک مالدار اندلسی فنکار بن چکا تھا۔ وہ لوگوں کو لباس کے نئے ڈھنگ سکھا رہا تھا، نت نئے پکوان کے طریقے بتارہا تھا، موسیقی کے گُر سمجھا رہا تھا، اور سکھا رہا تھا کہ کس طرح بغداد کے مقابلے میں بہتر شہری طور طریقے اور طرزِ زندگی اختیار کیا جائے۔ اہلِ قرطبہ زریاب کی نقل کرنے لگے، اُس کی طرح کا لباس پہننے لگے، اُس کی طرح کے بال ترشوانے لگے، اور اُس کے انداز میں گفتگو کرنے لگے تھے۔ پہلی بار زریاب نے قرطبہ شہر میں خواتین کے لیے ’بیوٹی پارلر‘ متعارف کروایا۔ انھیں نئی خوشبوؤں اور سامانِ آرائشِ حسن (کاسمیٹک) سے آشنا کیا۔ مردوں کی خدمت میں پہلا ٹوتھ پیسٹ پیش کیا۔ اُس نے آلۂ موسیقی ’اُد‘ میں تکنیکی جدت پیدا کی، پانچویں تار کا اضافہ کیا، جو بتدریج ڈھل کر جدید ’گٹار‘ بن گیا۔ اُس نے قرطبہ کے باشندوں کا طرزِ زندگی بدل کر رکھ دیا تھا۔
’’چھلانگ لگادو!‘‘ کوئی چلّایا۔ ’’اوہ ڈرپوک!‘‘ کسی نے اشتعال دلایا، اور مجمع میں قہقہہ پھوٹ پڑا۔ مگر حقیقت یہی تھی کہ سارا مجمع اندر سے گھبرایا ہوا تھا۔ سب اُس کرتب باز کے لیے دل میں ہمدردی اور خوف محسوس کررہے تھے۔ اُس کا نام ارمان فرمان تھا، اور یہی کرتب بازیاں اُس کا ذریعہ روزگار تھا۔ وہ شرطیں لگاکر مشکل سے مشکل کام کرگزرتا اور اگلی مہم جوئی تک گزر اوقات کیا کرتا، پھر نئی مہم جوئی کے لیے تیار ہوجاتا۔ قرطبہ کے اس عوامی مجمع میں ایک غیر معمولی شخص عباس ابن فرناس بھی موجود تھا۔ امیر کا مقررکردہ یہ محقق علمی و تجرباتی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر فرمان کا یہ کرتب دیکھنے چلا آیا تھا۔ وہ میکانیکی آلات، گھڑیوں، شیشے اور بلورکی خاصیتوں میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ وہ ایک ماہرِ فلکیات بھی تھا، اور ایک دن امیر کے لیے ایک ایسی میکانیکی سیارہ گاہ (planetarium) تعمیر کرنے والا تھا، جس میں دھاتی طیارے باقاعدہ گردش کرتے دکھائی دیتے تھے۔ بلور، سلیکا، اور ریت میں اُس کی تحقیق ایک دن شیشہ سازی تک لے گئی، اور پھر خوبصورت اندلسی بلوری گلاس وجود میں آئے۔ عدسوں پر تجربات سے کسی شے کا اصل سے بڑا نظر آنا واضح ہوا، اور وہ سب کچھ جو شیشے اور بلور سے ظہور میں لایا جاسکتا تھا، لایا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ہسپانوی لکڑی، مٹی، یا دھات کے پیالوں میں پانی اور شراب پیا کرتے تھے۔
ابنِ فرناس نے ایک فارمولا ایجاد کیا جس کی مدد سے بلور مصنوعی طریقے سے بنایا جاسکتا تھا۔ مگر اُس کی دلچسپی کا مرکز بتدریج بدل گیا، اور وہ انسان کی پرواز کے خواب دیکھنے لگا، یہی وجہ تھی کہ فرمان کا کرتب دیکھنے چلا آیا، جو ایک اُڑن کھٹولے کی مدد سے زمین پر اترنے جارہا تھا۔
مینار کی بلندی پر، کرتب باز فرمان کمرکس رہا تھا۔ یہ خاصی اونچائی تھی، اُس نے ریشم کے کپڑے اور لکڑی کے ڈنڈوں کی مدد سے جو اڑن کھٹولا بنایا تھا، یہ جلد بازی کا کام تھا، اور اڑنے والی چیزوں (پرندے ، پتے وغیرہ) کے میکانکس کے مختصر مطالعے ومشاہدے کا حاصل تھا۔ فرمان محقق نہیں بلکہ ایک کرتب باز تھا۔ ابنِ فرناس نیچے کھڑا خاموشی سے کرتب دیکھ رہا تھا، اُس نے پہچان لیے جانے کے ڈر سے خود کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا، کہ کہیں علمائے قرطبہ سوال نہ اٹھائیں کہ ابنِ فرناس جیسے بڑے محقق کو احمقانہ کرتب بازی سے کیا لگاؤ ہوسکتا تھا؟
آخرکار وہ لمحہ آگیا۔ مجمع بے تاب ہورہا تھا۔ کچھ لوگ انتظار سے تنگ آکر جانے بھی لگے تھے۔ شرط میں شامل کچھ لوگ سوچ رہے تھے کہ فرمان ہار مان گیا۔ اچانک اُس نے اپنے ہاتھ پروں کی طرح پھیلائے اور پرواز بھری، وہ ہوا میں چھلانگ لگا چکا تھا، وہ تیزی سے نیچے کی طرف گرا، مگر پھر ریشم سے بنے پروں سے رفتار کچھ تھم گئی، وہ جب زمین سے ٹکرایا تو قدرے قابو میں تھا۔ اس دوران مجمع سانس لینا بھول گیا تھا۔ عورتوں کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ ابن فرمان کو معمولی چوٹ آئی تھی، وہ چکراگیا تھا، مگر مرنے سے بچ گیا تھا، جیسا کہ اکثرتماشائیوں کا گمان تھا کہ شاید نہ بچے۔ فرمان کے حواس اتنے بحال ضرور تھے کہ جتنے لوگوں سے شرط لگائی تھی، اُن کو آواز لگاکر رقم وصول کرلی۔ وہ جیت چکا تھا۔ ارمان فرمان نے جوکچھ کیا تھا، یہ غالباً انسانی تاریخ کی پہلی پیراشوٹ پرواز تھی۔
جس جگہ فرمان گرا تھا، وہاں سے کچھ فاصلے پر کھڑا ابنِ فرناس گہرائی سے مشاہدہ کررہا تھا، کہ آیا یہ کرتب کن پہلوؤں سے کمزور تھا، مگر نتیجے نے اُسے توقع سے بڑھ کر متاثر کیا تھا۔ نت نئے خیالات کا ایک سلسلہ تھا، جو اُس کے دماغ میں تیزی سے چل رہا تھا۔ وہ اڑتے ہوئے پرندوں کی حرکات وسکنات کو تخیل میں لارہا تھا، وہ فانی انسان کی آسمانی اڑان متصور کررہا تھا۔
جس وقت مجمع فرمان کے گرد گھیرا لگائے داد دے رہا تھا، ابنِ فرناس ایک اہم فیصلہ لے رہا تھا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ شیشے کے کام، موسیقی کے کلیے، گھڑی سازی، اور سیاروں کی سیاحت کا دائرۂ کار بڑھائے گا۔ وہ انتہائی سنجیدگی سے ہوا نوردی (aeronautics)میں تحقیق وتجربے کا عزم کررہا تھا۔ تاہم اُسے خاصا وقت لگا، حالات کے الٹ پھیر اور زمانے کی گردشوں نے کئی سال سراٹھانے کی فرصت نہ دی۔ وہ تیزی سے بڑھاپے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ آخرکار سن 875ء میں قرطبہ کے ایک خوشگوار دن، فرمان کی کرتب بازی کے تئیس سال بعد، ستّر سال کے بوڑھے ابنِ فرناس نے احباب اور درباری علماء کے سامنے اعتماد سے اعلان کیا کہ وہ جلد ہوا میں پرواز بھرنے والا ہے۔ وہ کسی کرتب بازی کی تہمت کا متحمل ہونا پسند نہ کرتا تھا۔ وہ ایک سچا مسلمان تھا، اور ہوا نوردی کے خواب کی تعبیر پر بہرصورت عمل کرنا چاہتا تھا، وہ عزم مصمم کرچکا تھا کہ جب تک جسم میں طاقت باقی ہے وہ ضرور یہ کرگزرے گا۔
ابنِ فرناس نے مغربی شہر کے پہاڑی علاقے میں شاگردوں، دوستوں اور علماء کو مدعو کیا، کہ انسان کی پہلی باقاعدہ پرواز کا مشاہدہ کریں۔ یہ وہی پہاڑیاں تھیں جہاں خلیفہ عبدالرحمان سوم نے مدینہ الزہرہ کی تعمیر شروع کی تھی۔ ان پہاڑوں میں کہیں کہیں درختوں کے سلسلے بھی تھے، تیز ہوائیں یہاں چلتی تھیں، اور پرندے یہاں خوب پرواز بھرا کرتے تھے۔ ابنِ فرناس نے کافی مشاہدے کے بعد اس جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ اُس نے کئی سال پرندوں کی اڑان پر تحقیق کی تھی۔ ابنِ فرناس نے پروں کا ایک جوڑا تیار کیا تھا، اسے ریشم کے کپڑے اور لکڑی سے بنایا گیا تھا، ریشمی کپڑے پر اُس نے پرندوں کے اصلی پر بھی لگائے تھے۔ اُس نے تنہائی میں ہلکی پھلکی مشق بھی کی تھی۔ اب وہ بھرے مجمع میں پرواز بھرنے کے لیے تیار تھا۔ وہ ایک اونچی چٹان پر جا کھڑا ہوا، تیز ہوائیں اُسے اڑائے لے جارہی تھیں، نیچے سے دوست احباب دم بخود یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ اُس دن ہوائیں بہت تیز تھیں۔ اگرچہ یہ اُس کی پرواز کے لیے بہت اچھا تھا، مگر ہواؤں کے جھکڑ ڈانواڈول بھی کرسکتے تھے۔ آخر جب ہوا کچھ تھمی تواُس نے تیزی سے قدم بڑھائے اور چھلانگ لگادی۔ اندلس کے صاف نیلے آسمان پر اُسے واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا، مجمع سانس لینا بھول گیا تھا۔ ارمان فرمان کی مانند ابنِ فرناس تیزی سے زمین کی جانب نہیں آیا بلکہ وہ ایک پرندے کی طرح فضا میں پرواز بھر رہا تھا، رخ بدل رہا تھا، پرندے کی طرح دائروں میں اتر رہا تھا۔ ابنِ فرناس تقریباً دس منٹ تک فضا میں اڑان بھرتا رہا تھا۔ ابنِ فرناس کے لیے شہر، دریا، اور وادی کے اوپر کسی پرندے کی مانند اڑنا ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر پاچکا تھا۔ اے خدا تیرا شکر کہ تُو نے بندے کواس کامیاب تجربے کی توفیق بخشی۔
جب وہ زمین پر اترنے لگا، تو زمینی حقیقت تیزی سے قریب ہوتی چلی گئی۔ اُس نے اڑان کی تیاری بھرپور کی تھی، مگر اترنا کیسے ہے؟ یہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہوگیا، وہ تیزی سے زمین سے آٹکرایا۔ ابنِ فرناس نے محسوس کیا کہ یہاں وہ غلطی کرگیا تھا۔ وہ چلّایا ’’یاخدا میں نے یہ کیا حماقت کردی!‘‘
ستّر سال کے بوڑھے ہوا نورد کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ ابنِ فرناس کو گہرے زخم آئے تھے۔ وہ اب اپنی ہی تنہائی میں اپنی ہی حماقت پر غم وغصے کا شکار تھا۔ جب وہ زمین پر گرکر بے ہوش ہوا تولوگوں کا رش لگ گیا تھا۔ کسی نے آواز لگائی تھی کہ ’’ابو عباس، زندہ ہو؟‘‘ ’’ہاں زندہ ہوں‘‘ اُس نے کراہتے ہوئے جواب دیا تھا۔ ’’کیا تم زخمی ہو؟‘‘ پوچھا گیا۔ ’’ہاں بہت شدید چوٹیں آئی ہیں‘‘ جواب آیا۔ ابنِ فرناس کی کمرکا درد ساری عمر پھر ساتھ ہی رہا۔ زندگی کے بقیہ بارہ سال شدید جسمانی تکلیف میں بسر ہوئے، اور اس احساس کے ساتھ کہ لمحوں کی حماقت برسوں کی تکلیف کا سبب بن گئی تھی۔ تاہم وہ اس قابل ہوگیا تھا کہ امیر کے لیے متحرک سیارہ گاہ تیار کرسکے جس میں بادل گرجتے اور بجلیاں کڑکتی تھیں، پانی کی گھڑیاں اور وقت بتانے والے آلات بنائے تھے۔ وہ اس دوران ذہن دوڑاتا رہا تھا کہ آخر غلطی کہاں ہوئی؟ زمین پراترنے میں ناکامی کا سامنا کیونکرہوا؟ اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اُترنے کی تکنیک میں غلطی سرزد ہوئی تھی۔ یہ تھی دُم، جو وہ بنانا بھول گیا تھا۔ یہ دُم ہی پرندوں کی پرواز میں توازن پیدا کرتی ہے، اور انھیں دھیرے دھیرے اترنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ ایک دُم بنانا بھول گیا تھا!
(جاری ہے)