مسئلہ کشمیر اور حکومت کی کمزور خارجہ پالیسی

نیب قانون میں ترمیم، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کے فیصلے، اور جنرل پرویزمشرف کیس کے فیصلے میں نظرثانی اپیل اہم ترین موضوعات ہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر جو اب بھارتی آئین کے نیچے ایک ریاست بننے جارہا ہے، ان سب سے اہم موضوع ہے، اور اس معاملے میں حکومت کی خاموشی کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ یہ بات مسلسل ہمیں سمجھائی جارہی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ یک جان دو قالب ہیں، لیکن یہ جڑے ہوئے دھڑ آپریشن سے کسی بھی وقت الگ کیے جاسکتے ہیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو اقتدار دلانے کا مقصد تو کچھ اور تھا، تاہم عوامی حمایت کے لیے اسے کرپشن کے خلاف ایک بھرپور مزاحمتی قوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اس کا یہ تشخص ایک سال کے اندر ہی ملیامیٹ ہوگیا۔ بے شمار یوٹرن اور اپنے ہی نعروں کی نفی کرتے ہوئے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کے وہ لوگ کابینہ میں شامل کرلیے گئے جو خود نیب کو مطلوب تھے۔ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے حامیوں نے کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا، تاہم اس کے بعد حکومت کی نااہلی آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آتی رہی، تب کہا گیا کہ برداشت کیا جائے کیونکہ انہیں حکومت کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے بعد تو غیر مقبول فیصلوں کی سیریز شروع ہوچکی ہے۔ پہلا غیر مقبول فیصلہ نوازشریف کی بیرونِ ملک روانگی ہے، نیب قانون میں ترمیم دوسرا غیر مقبول فیصلہ ہے، جنرل پرویزمشرف کیس کے فیصلے پر حکومت کا اضطراب تیسرا غیر مقبول فیصلہ ہے۔ یہ سب فیصلے تحریک انصاف کے بیانیے کی نفی ہیں۔ خارجہ محاذ پر کشمیر پر خاموشی اور اس معاملے میں ترکی اور ملائشیا کی حمایت کے باوجود انہیں خود سے دور رہنے پر مجبور کرنا ایک اور انتہائی غیر مقبول فیصلہ ہے۔ اسلام آباد کے حلقوں میں جب بھی یہ بحث ہوتی ہے کہ حکومت کب تک رہے گی، تو یہی جواب ملتا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے قابل نہیں ہے، لہٰذا حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ حکومت بے روزگاری اور مہنگائی پر عوام اور اپوزیشن جماعتوں کی خاموشی کے باوجود قائم نہیں رہ سکتی، اور یہ اپنے غیر مقبول فیصلوں کے بوجھ تلے دب جائے گی، اور حکومت مخالف تحریک کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
جن محاذوں پر حکومت غلط فیصلے کررہی ہے اُن میں وزارتِ خارجہ سب سے اہم ہے۔ یہ وزارت ہمارے ملک کا چہرہ ہے۔ اقوام عالم سے تعلقات کے بارے میںسارے فیصلے یہیں ہوتے ہیں کہ پاکستان کو کس کیمپ میں جانا ہے اور کسے پاکستان آنا ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جوہری سفارت کاری کا ملائشیا سمٹ کے بارے میں فیصلہ یہی تھا کہ جو بھی وعدہ کرنا ہے سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ لیکن وزیراعظم تنہا فیصلے کرنے کے عادی ہیں اور اس لیے انہیں بعد میں یوٹرن لینا پڑتا ہے۔ ملائشیا سمٹ کے بارے میں فیصلہ مشاورت سے کیا جاتا تو ایسی سبکی نہ ہوتی۔ سعودی عرب تحفظات ظاہر کرتا اور نہ ملائشیا اور ترکی ہمارے فیصلے سے مایوس ہوتے۔ وزارتِ خارجہ کی جوہری عرق ریزی کو دیکھا اور پرکھا جائے تو چین، قطر، ایران، امریکہ، سعودی عرب، افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت خصوصی طور پر ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہیں۔ روایتی طور پر ہمیں ایران اور قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالے سے سعودی عرب کے تحفظات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے، اور ملائشیا سمٹ کے بعد اب ہمیں ملائشیا اور ترکی کے بارے میں بھی ان کے تحفظات کا خیال رکھنا پڑرہا ہے۔ چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے لیے ہمیں توازن سے چلنا پڑتا ہے، جب کہ بھارت کے معاملے میں ہماری خارجہ پالیسی، تزویراتی سوچ اور ذہن بہت واضح ہے، لیکن کشمیر کے موضوع پر ہمیں ہماری توقع کے مطابق حمایت نہیں مل رہی، یہی ہماری خارجہ پالیسی کا سب سے کمزور پہلو ہے۔ حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان السعود ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ جس روز انہوں نے یہاں قدم رکھا وہ مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ انسانوں کے گھروں میں قید ہونے کا ایک سو پینتالیسواں روز تھا۔ 5 اگست کو بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے تصفیہ طلب علاقے جموں و کشمیر کو ایک آئینی ترمیم کی کند چھری سے ذبح کیا تھا، اور کرفیو اور لاک ڈائون کے اقدامات کے ساتھ پوری وادی کو ہولناک عقوبت خانے کا جو روپ دیا، اُس روپ کا یہ 145واں دن تھا۔ سعودی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے الگ الگ ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے معاملات اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال ہوا، اورکشمیر سمیت اہم علاقائی امور پر مشاورت ’’جاری‘‘ رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ’’ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ کے مصداق او آئی سی کو کشمیر پر متحرک کرنے کا بھی فیصلہ ہوا۔ سعودی وزیر خارجہ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات اور تعاون پر تبادلہ خیال کرکے واپس روانہ ہوگئے۔ شہزادہ فیصل سعودی شاہی خاندان کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہیں، وہ جرمنی میں پیدا ہوئے، اور امریکہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس بلانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ملائشیا سمٹ کے بعد پاک سعودی تعلقات میں یہ اہم پیش رفت ہے۔
کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ ملائشیا سمٹ تھی، 52 ممالک کی شرکت کے ساتھ یہ تقریباً او آئی سی کے سربراہی اجلاس کی سطح کا ہی غیر معمولی اہمیت کا حامل اکٹھ تھا جسے دنیا بھر میں اہمیت ملی۔ جن تین ممالک نے مسئلہ کشمیر پر کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، ان تینوں کے سربراہان ہمارے وزیراعظم کے دائیں بائیں ہوتے تو کشمیر پر ہمارے مؤقف کو کس قدر شنوائی اور پذیرائی مل سکتی تھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ موقع بھی سفارتی دباؤ کے آگے سرنگوں ہوکر ضائع کردیا گیا، اور اس سے مودی اور بھارت کو واک اوور ملا۔ اور یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت کو واک اوور ملا ہو۔ اس سے قبل او آئی سی کا اجلاس ہم اس لیے نہیں بلا پائے کہ خلیجی ممالک راضی نہیں ہوئے تھے، بلکہ ہمیں مشورہ دیا گیا کہ اسے امہ کا مسئلہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ ملائشیا سمٹ میں کشمیر کا ذکر ہوا مگر ہماری وہاں نمائندگی نہیں تھی۔ حکومت کا یہ سفارتی نکتہ نظر سمجھ سے بالاتر ہے۔ بس یوں سمجھ لیں دفتر خارجہ کشمیر جیسے معاملے پر ڈھیلی ڈھالی، بے جان مہم چلائے گا، لیکن جب بھی مثبت خبر ملے گی اُسے اپنا کارنامہ بناکر پیش کرے گا۔ ابھی چند ماہ قبل کشمیر پر سفارتی و سیاسی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں تین سویلینز کے ساتھ ڈی جی ایم او، اور ڈی جی آئی ایس پی آر بھی اس کے ممبر تھے۔ اس کمیٹی کے آج تک کتنے اجلاس ہوئے؟ ان اجلاسوں میں کیا فیصلے ہوئے؟ ان فیصلوں کے کیا نتائج نکلے؟ مستقبل کے لیے اس کمیٹی نے کیا لائحہ عمل ترتیب دے رکھا ہے؟ پانچ ماہ ہونے والے ہیں پارلیمنٹ، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کسی جماعت کے پارلیمانی لیڈر نے آج تک یہ سوال نہیں اٹھایا کہ حکومت نے اس کمیٹی کو کن سات پردوں میں چھپا کر وزارتِ خارجہ کے کس تہ خانے میں ڈال رکھا ہے۔ یہ دلیل کسی بھی طرح رد نہیں کی جاسکتی کہ ہماری وزارتِ خارجہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن آزاد خارجہ پالیسی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ اور امریکہ کے پیچھے کھڑے مسلم ممالک ہیں۔ صدرِ آزاد کشمیر سردار مسعود خان کہتے ہیں کہ کشمیر پر کوئی سودا نہیں ہوا۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ اگر سودا نہیں ہوا تو مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے انتظامی طور پر کیوں وادی، جموں اور لداخ تین حصوں میں تقسیم کردیا؟ اس پر حکمران جماعت کی خاموشی سودا نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ہماری حیثیت یہی ہے کہ کوئی بھی ہمیں پانچ ارب ڈالر کی امداد کے بدلے خاموش کرادے! سعودی عرب اور یو اے ای سے اربوں ڈالر کا قرض پکڑ کر ہم نے دونوں ممالک سے پانچ ارب ڈالر اپنے اکاؤنٹ میں رکھوا رکھے ہیں اور اب یہ امداد قرضے میں تبدیل ہورہی ہے یعنی اصل زر کے ساتھ ہمیں سود بھی ادا کرنا ہوگا۔ برادرانہ تعلقات پر مبنی سفارت کاری کا عالم یہ ہے کہ سعودیوں سے ملاقات کے لیے تین دن منت سماجت کرنا پڑی۔ ایران، ترکی اور ملائشیا وہ تین ممالک ہیں جنہوں نے ڈٹ کر کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیا، کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی۔ ان تینوں حکومتوں کو او آئی سی کے عضوِ معطل ہونے کا احساس ہے، اسی لیے پاکستان کے ساتھ مل کر نئے اسلامی بلاک کی تشکیل کا قدم اٹھانا چاہا، مگر ہمارے حکمران ملکی معیشت کو غیرملکی امداد سے چار چاند لگانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اس فورم پر نہ جانے سے سارا نقصان خود ہمارا ہی ہوا۔ جوبات ہم چھپا رہے تھے وہ اردوان اور مہاتیر نے کانفرنس میں کھول کر بیان کردی۔ جب اس کانفرنس میں شریک نہ ہونے سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹر مہاتیر کو بتایا تو اُن کا جواب تھا ’’آئی انڈراسٹینڈ‘‘۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس شخص کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی اُس کی کوئی کمٹ منٹ بھی نہیں ہوتی۔ اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ آج ان کی خاطر ہم نے اُنھیں ٹھکرا دیا جنھوں نے ڈٹ کر ببانگ دہل ہمارا ساتھ دیا تھا، جنھوں نے کشمیر کی خاطر بھارت سے تجارت تک داؤ پر لگا دی تھی، جن کے ووٹ نے ہمیں بلیک لسٹ ہونے سے بچایا۔
حکومت نے ایک اور فیصلہ کیا ہے جس کا خارجہ پالیسی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف کو قومی سلامتی کے لیے مشیر بنایا گیا ہے۔ وہ اس سے قبل اسٹرے ٹیجک پالیسی پلاننگ سیل کے چیئرمین تھے۔ معید یوسف معاون خصوصی قومی سیکورٹی ڈویژن کا چارج سنبھالیں گے۔ کابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ ڈاکٹر معید یوسف کو معاون خصوصی برائے قومی سلامتی و اسٹرے ٹیجک پالیسی پلاننگ تعینات کیا گیا، بعد ازاں سوال اٹھا کہ ایک ایسے شخص کو ایٹمی ہتھیاروں کے ڈویژن کا چارج دیا گیا جو امریکہ میں اہم عہدوں پر تعینات رہ چکا ہے؟ یہ سوال جائز تھا کیونکہ صاف معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان چین اور امریکہ کی گرفت کے اندر عجیب صورتِ حال میں پھنستا جا رہا ہے۔ ہمارے ایٹمی اثاثوں کا معاملہ بہت حساس ہے۔ ہم نے ایک ایسے شخص کو تعینات کیا ہے جو ساری زندگی امریکہ میں رہا ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر اور پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہونے کے علاوہ بین الاقوامی تھنک ٹینکس اور جامعات کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ ڈاکٹر معید کی تحقیق کا مرکز جنوبی ایشیا کو درپیش دفاعی خطرات، جنوبی ایشیائی ملکوں کے درمیان باہمی تجارت اور خطے میں غربت کے خاتمے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف بین الاقوامی تنازعات کے تصفیے کے لیے قائم امریکی ادارے یو ایس آئی پی سے کم و بیش 10 برس منسلک رہے ہیں۔ 17 اکتوبر 2019ء کو ڈاکٹر معید یوسف نے چیئرمین اسٹرے ٹیجک پالیسی پلاننگ سیل کا عہدہ سنبھالا تھا، سیل کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ قومی سلامتی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔