سِلوی کافمین -ترجمہ;محمدابراہیم خان
مورخہ26 نومبر کو برلن میں جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس برلن کی کاربر فاؤنڈیشن کے تحت ایک کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں کہ میرے موبائل فون کی اسکرین پر ایک پیغام ابھرا، مالی میں عسکری کارروائی کے دوران دو ہیلی کاپٹر ٹکرانے سے فرانس کے 13فوجی ہلاک ہوگئے۔ جو کچھ ہیکو ماس کی زبان سے نکل رہا تھا، وہ میرے موبائل فون کی اسکرین پر نمودار ہونے والی تفصیلات کے خلاف تھا۔ جرمن وزیر خارجہ نے ٹھوس لہجے میں کہا کہ نیٹو آج بھی مستحکم ہے اور کسی بھی جگہ کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اور یہ کہ جرمن خارجہ پالیسی صورتِ حال کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیٹو کی خرابیوں کے حوالے سے تشخیص میں اگرچہ فرق پایا جاتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ نیٹو اب بھی ہے اور اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
جرمن وزیر خارجہ کا اشارہ بہت حد تک فرانس کے صدر ایمانویل میکراں کی طرف تھا، جنہوں نے دو ماہ قبل کہا تھا کہ نیٹو کی ’’برین ڈیتھ‘‘ واقع ہوچکی ہے یعنی وہ دماغی طور پر مرچکا ہے۔ معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ کو دیے گئے اس انٹرویو کے مندرجات نے یورپ بھر میں خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس انٹرویو سے جرمن بہت برافروختہ ہوئے۔ بنڈسٹیگ میں خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ اور پارلیمان کے رجعت پسند رکن ناربرٹ روٹجن نے کہا کہ نیٹو کے حوالے سے انتہائی مایوس کن بات کہنا محض حماقت ہے، اور کچھ نہیں۔
فرانس کے فوجی افریقا میں ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں، جس کے حوالے سے انہیں کسی بھی بات کا یقین نہیں۔ دوسری طرف برطانیہ خود کو الگ تھلگ رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ بیرون ملک فوجی مشن شروع کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے اس کے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ اختلافات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ لندن میں حال ہی میں نیٹو سربراہ کانفرنس ختم ہوئی ہے، جس میں رکن ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنے کا رسمی نوعیت کا عزم ظاہر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نیٹو کے حوالے سے غیر یقینیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی پورے یقین کے ساتھ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔
نیٹو کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ امریکا۔ جی ہاں، امریکا کی پالیسیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے نیٹو کے لیے غیر معمولی مسائل پیدا کیے ہیں۔ عالمی امور میں اپنی پوزیشن میں کمزوری محسوس کرتے ہوئے امریکا نے مغربی دنیا کی قیادت سے خود کو مرحلہ وار الگ کیا ہے۔ نیٹو کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ امریکا پیچھے ہٹتا جارہا ہے اور یورپی طاقتوں میں کوئی بھی امریکا کے پیدا کردہ خلاء کو پُر کرنے کے لیے تیار نہیں۔
امریکا کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کی افواج پر غیر معمولی دباؤ بھی ہے۔ امریکا نے دنیا بھر میں پاؤں پھیلا رکھے ہیں۔ وہ ہر ابھرتی ہوئی طاقت پر نظر رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ فوجی اڈے قائم کیے جائیں۔ چند ایک ممالک میں اس نے اپنے فوجیوں کو براہِ راست میدان جنگ میں بھی بھیجا ہے۔ شام کا بھی یہی معاملہ تھا۔ امریکی قیادت کو بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ شام میں فوجی پھنسانے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ گزشتہ اکتوبر میں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا تو جرمنی نے اِسے سراسر غیر سفارتی طریقہ قرار دیا۔ فرانس کے لیے معاملہ اِس سے کہیں آگے کا تھا۔ شام میں فرانس کے فوجی بھی اسلامی شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ امریکا کا اپنے فوجی نکال لینا فرانس کے لیے انتہائی پریشان کن امر تھا اور ہے۔ امریکی فوجیوں کی موجودگی میں نیٹو اتحادیوں کی کسی نہ کسی حد تک ڈھارس بندھی رہتی تھی۔ اب فرانس کے فوجی شدید الجھن کا شکار ہیں۔
دفاع کے حوالے سے جرمنی اور فرانس کے نقطۂ نظر اور فلسفے میں بہت فرق ہے۔ جرمنی نے اپنے دفاع کی ذمہ داری بالعموم نیٹو اور بالخصوص امریکا پر ڈال رکھی ہے۔ جرمن سرزمین پر اس وقت بھی 35ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے قدرے غیر موثر ہوکر رہ گیا اور وہ اپنی اس حیثیت کے ساتھ زیادہ خوش ہے۔ دوسری طرف فرانس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جوہری قوت ہونے کے ناطے آج بھی خود کو ایک طاقت سمجھتا ہے اور اوسط درجے کی قوت ہونے پر بھی اپنے دفاع کے لیے کسی اور پر انحصار سے گریز کرتا ہے۔
فرانسیسی صدر نے دی اکنامسٹ کو جو انٹرویو دیا ہے، اس کے مندرجات بیشتر یورپی ممالک میں خوش دلی سے قبول نہیں کیے گئے۔ جرمنی میں اس حوالے سے شدید ردعمل پیدا ہوا۔ روس سے جڑی ہوئی ریاستوں بالخصوص پولینڈ، بالٹک خطے اور شمالی یورپ کے ممالک میں فرانسیسی صدر کا انٹرویو شدید پریشانی پیدا کرنے کا باعث بنا اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایمانویل میکراں نے روس سے غیر مشروط وسیع البنیاد مذاکرات کی بات کی ہے۔ بیشتر یورپی طاقتوں کو کچھ اندازہ نہیں کہ فرانس آخر روس سے مذاکرات کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔
نیٹو کو مردہ قرار دینا جرمنی کے لیے ایسا ہی ہے جیسے اس کے پیروں تلے سے غالیچہ کھینچ لیا جائے۔ اس حوالے سے برلن میں بدحواسی کا پیدا ہونا لازم ہے۔ پیرس کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ فرانسیسی قیادت نے غالیچے کے کنارے کنارے چلنا سیکھ لیا ہے۔ جرمنی میں قائم ٹرانس اٹلانٹک تھنک ٹینک ’’جرمن مارشل فنڈ‘‘ کے ڈائریکٹر ٹامس کلائن بروکوف کہتے ہیں ’’یہ تو کیپوچینو (جھاگ والی کافی) کا کیس ہے۔ فرانس کے پاس کڑک کافی اور جھاگ کافی دونوں ہیں، مگر جرمنی صرف جھاگ کے سہارے نہیں جی سکتا‘‘۔
گھوم پھر کر یہ معاملہ امریکا تک پہنچتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ نیٹو میں کوئی گڑبڑ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا پیچھے ہٹ رہا ہے۔ امریکی صدر نے بھی نیٹو کو obsolete کہا تھا مگر اس پر کوئی ہنگامہ کھڑا نہ ہوا۔ فرانس کے صدر نے نیٹو کو مردہ کہا ہے تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ایمانویل میکراں کے انٹرویو نے یورپ میں کھلبلی مچادی ہے۔ نیٹو کے آئین کے آرٹیکل 5کے تحت کسی بھی رکن ملک پر حملہ تمام ارکان پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ فرانسیسی صدر اس آرٹیکل کے خلاف بول گئے ہیں۔ یورپ کی بیشتر قوتیں اس حوالے سے پریشان ہیں۔ اب تک تو معاملہ یہ تھا کہ دفاع کی ذمہ داری نیٹو کو سونپ کر سکون کے سانس لیے جاتے رہے ہیں۔ بیشتر یورپی ممالک میں آج بھی یہ امید پائی جاتی ہے کہ نومبر2020ء میں امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ منتخب نہ ہوئے تو سب کچھ پلٹ جائے گا، امریکا دوبارہ نیٹو کی طرف پلٹ آئے گا اور نیٹو کے ارکان کی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا۔ فرانسیسی صدر کے پریشان کن انٹرویو نے نیٹو کے دوبارہ طاقتور ہونے سے متعلق بیشتر یورپی ممالک کی توقعات کو بُری طرح جھنجھوڑ دیا ہے۔
فرانسیسی قیادت نے یہ بات بہت پہلے اچھی طرح محسوس ہی نہیں کی بلکہ سمجھ بھی لی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہر معاملے میں یک طرفہ طور پر کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے امریکی مزاج کی انتہائی شکل یا علامت ہیں۔ فرانسیسی صدر کہتے ہیں کہ انہوں نے نیٹو کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا ہے اس پر یورپی طاقتوں کو پریشان ہونے یا بُرا ماننے کے بجائے اِس انتباہ کو ایک ویک اپ کال کے طور پر لینا چاہیے کہ اب امریکا اُن کے دفاع کی ذمہ داری سے دست بردار ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ اپنے دفاع کے لیے سبھی اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھانیں اور حکمتِ عملی تبدیل کرلیں۔ ہوسکتا ہے کہ یورپ کے بہت سے قائدین کو فرانسیسی صدر کی بات معقول لگی ہو اور وہ نجی گفتگو میں اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہوں، مگر منظر عام پر آکر تو انہوں نے یہی کہا ہے کہ فرانسیسی صدر نے جو کچھ کہا ہے، وہ بہت ’’تیکھا‘‘ ہے۔ بیشتر یورپی قائدین کا موقف ہے کہ فرانسیسی صدر نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ اُن کا یعنی مجموعی طور پر پورے یورپ کا انداز نہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اب نیٹو کے لیے سیاسی میدان میں کیا بچا ہے؟ فرانسیسی صدر بہت خوش ہیں کہ اُن کی باتوں سے یورپی قائدین کو سوچنے کی توفیق نصیب ہوئی اور وہ اب مستقبل کے حوالے سے کچھ سوچ رہے ہیں۔ اب ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شتر مرغ کی طرح اپنے سر ریت میں دباکر مشکلات کے ٹل جانے کی امید وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ ایک اور انٹرویو میں ایمانویل میکراں نے کہا ہے کہ ’’جب برف بہت سخت ہو جاتی ہے تو آئس بریکر استعمال کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ اِس سے شور تو مچتا ہے اور دھماکا بھی ہوتا ہے مگر خیر، راہ اِسی سے ہموار ہوتی ہے‘‘۔ اب معاملہ یہ ہے کہ یورپی طاقتوں کی میز پر تمام اہم مسائل دھرے ہوئے ہیں۔ چین، روس اور ترکی کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی، انسدادِ دہشت گردی اور مزید ہتھیاروں کے ساتھ تخفیفِ اسلحہ سے متعلق نئے معاہدے … ہر معاملہ فوری توجہ چاہتا ہے اور یورپی طاقتیں اس حوالے سے بیدار مغز دکھائی دے رہی ہیں۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ان تمام چیلنجوں کا بھرپور انداز سے سامنا کرنے کے لیے یورپ کی قیادت کون سنبھالے گا۔ نیٹو کی صورت میں یہ قیادت امریکا نے سنبھال رکھی تھی۔ یہ بات تو اب بہت حد تک طے دکھائی دیتی ہے کہ اگر آئندہ برس ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوگئے تو وہ یورپ کا دفاع یقینی بنانے اور اُس کے حتمی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے قائدانہ کردار ادا نہیں کریں گے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تین برس کے دوران یورپی قائدین نے سیکھ لیا ہے کہ ٹرمپ سے معاملات کس طور نمٹائے جائیں … اور اُن کے بغیر بھی! بکنگھم پیلیس میں کینیڈا، برطانیہ اور ہالینڈ کے قائدین نے امریکی صدر کی جو نقّالی کی تھی، اُس کی ویڈیو چونکانے والی تھی۔ مگر اِس سے زیادہ چونکانے والی بات اِس ویڈیو کے ریلیز ہونے سے قبل امریکا اور فرانس کے صدور کے درمیان ہونے والی گفتگو تھی۔ فرانسیسی ہم منصب سے پوچھا ’’آپ چند اچھے آئی ایس آئی ایس (داعش) فائٹرز لینا پسند کریں گے؟‘‘ یہ سوال ایک ایسے ملک کے صدر سے کیا گیا تھا جہاں چار سال قبل داعش کے جنگجوؤں نے ایک شام صرف ایک حملے میں130افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اور فرانس ہی نے کچھ دن قبل داعش کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے 13فوجیوں کو دفنایا ہے۔ ایسے ماحول میں یہ سوال بہت دل دُکھانے والا تھا۔ فرانس کے صدر نے نہایت سنجیدگی سے حقائق کی روشنی میں مشورہ دیا کہ امریکی صدر ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ داعش میں حالات کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کس حد تک ہے۔ اس بار کسی نے اُن کا تمسخر نہیں اُڑایا۔
لندن میں نیٹو سربراہ کانفرنس کے دوران ہی فرانس کے صدر ایمانویل میکراں اور جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے ڈنر پر ملاقات کی۔ ہوسکتا ہے انہوں نے دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ کاربر فاؤنڈیشن کے لیے کیے جانے والے پیو ریسرچ سینٹر کے حالیہ سروے پر بھی بات کی ہو، جس کے مطابق 52 فیصد جرمن چاہتے ہیں کہ اُن کا ملک دفاع کے معاملے میں امریکا پر غیر معمولی انحصار ترک کردے، خواہ دفاعی اخراجات دگنے ہوجائیں۔ سروے کے مطابق 40فیصد جرمنوں کا خیال ہے کہ ان کے ملک کو فرانس اور برطانیہ سے جوہری تحفظ یقینی بنانے پر متوجہ ہونا چاہیے۔
(اس مضمون کی اشاعت کے بعد فرانس اور جرمنی کے قائدین نے پیرس میں روس اور یوکرین کے صدور سے ملاقات کی۔ امریکا کے بغیر ہونے والی یہ ملاقات معنی خیز تھی۔)
(بشکریہ:نیویارک ٹائمز، معارف فیچر۔16 دسمبر2019ء)