بچوں کے ممتاز ادیب ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کا خصوصی انٹرویو
بچے ہمارا مستقبل ہیں اور دنیا کی عقلمنداور باشعور قومیں اپنے اس سرمائے کی سب سے زیادہ قدر کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے ہمارے ہاں صورتِ حال بہت اچھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر افتخار کھوکھر بچوں کے ادیب ہیں۔ ان کے والد صاحب آرمی میں تھے۔ پیدائش کاکول ایبٹ آباد کی ہے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ پرائمری کے بعد میٹرک بھی وہیں سے کیا، اور انٹر گورنمنٹ کالج پسرور سے کیا، اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ جون 1975ء میں بچوں کے رسالے ’’پیغام‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فوٹو اسٹیٹ مشین کے بجائے سائیکلو اسٹائل مشین ہوتی تھی۔ ان دنوں لیاقت بلوچ صاحب ناظم صوبہ تھے۔ آپ بتاتے ہیں کہ پھر پیغام ضلعی سطح پر نکلنے لگا۔ اس عرصے میں محمودالرشید لاہور ڈویژن کے ناظم تھے۔ پھر پیغام کا لاہور سے باقاعدہ اجراء پرنٹڈ صورت میں ہونے لگا۔ اس کے بعد صوبہ پنجاب سے نکلنے لگا۔ آپ بتاتے ہیں کہ پھر اگست 1977ء میں ’’ساتھی‘‘ کا اجراء ہواجو پہلے ’’پیامی‘‘ تھا، اس کے بعد ماہنامہ ساتھی نام رکھا گیا۔ پھر کے پی کے سے ماہانہ مجاہد شروع ہوا بعد میں اس کا نام ’’شاہین اقبال ڈائجسٹ‘‘ رکھ دیا گیا۔ کشمیر سے ماہنامہ ’’روشنی‘‘ کا اجراء ہوا۔ گریجویشن کراچی یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں کیا، پھر بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں فرسٹ کلاس فرسٹ آئے۔ گولڈ میڈل ملا۔ بچوں میں ہی کام کرنے کی لگن تھی، پھر دعوۃ اکیڈمی میں بچوں کے شعبے کے قیام کے بعد سے کام کا آغاز کیا۔ پچیس چھبیس سال رہے۔ پاکستان میں تقریباً ساڑھے پانچ سو رائٹرز کی کیمپوں کی شکل میں ٹریننگ کی۔ سیمینارز، ورکشاپس، کتابیں پرائمری، مڈل، میٹرک کے لیول پر آپ کی نگرانی میں تیار ہوئیں۔ آپ کی بچوں کے ادب پر تقریباً پچاس کتابیںشائع ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’تاریخِ صحافت‘‘، ’’اسلام کا نظریۂ ابلاغ‘‘ و دیگر دس کتابیں ہیں۔ تقریباً چوبیس کتابیںطباعت کے مراحل میں ہیں جو دارالسلام کی طرف سے شائع ہوں گی۔آپ سے بچوں کے ادب سے متعلق گفتگو نذرِ قارئین ہے جو یقیناوالدین اور اساتذہ کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بچے کی آپ کیا تعریف کریں گے؟کیا مشرق اور مغرب کے بچوں میں کوئی فرق ہے؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: میں جب اپنے قصبے میں تھا جہاں ہماری فیملی کا اسکول تھا اُس کا چوکیدار رشید بہت ضعیف تھا، ایک بار اس کی طبیعت خراب تھی اور غالباً چھٹی کا دن تھا، میں گیا تو وہ برآمدے میں لیٹا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا ’’ہائے مائے‘‘ یعنی ہائے ماں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہماری تو والدہ حیات ہیں لیکن اس بابا کی عمر ستّر پچھتر سال ہے اور یہ ماں کو پکار رہا ہے! تو اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ انسان کی عمر کچھ بھی ہو مگر اس کے اندر ایک بچہ موجود ہوتا ہے، وہ بچہ چاہے پاکستانی ہو، چاہے ہندوستانی، برطانوی، امریکی یا افریقا کے کسی ملک کا ہو۔ جیسے ایک حدیث بھی ہے کہ جو بھی بچہ ہے وہ سلیم الفطرت پیدا کیا جاتا ہے، آگے جو ماحول اسے ملتا ہے وہ اسے یہودی بناتا ہے، نصرانی بناتا ہے۔ اب اس کی تعلیم اور ماحول پر منحصر ہے کہ وہ اسے کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔ اسرائیل کا بچہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی سے پوری دنیا پر غلبے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ایران میں بھی ان کی کوشش ہوتی ہے کہ شعوری طور پر اپنے بچوں کی تربیت کی جائے۔ اور یورپ میں ظاہر ہے جو ان کا سسٹم ہے اس حساب سے وہ پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں جس کو مواقع ملتے ہیں وہ آگے نکل جاتا ہے، اور جسے نہیں ملتے وہ وہیں کا وہیں ہے۔ اور ہمارے ہاں کا جو سسٹم ہے اس میں ایک دو نہیں، بے شمار نظام تعلیم ہیں، اور مغرب کی پلاننگ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا جارہا ہے، کیونکہ وہ قرضے دیتے ہیں، گرانٹ دیتے ہیں اور اپنی بات منوانے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ جو ہمارے بچے کو ہونا چاہیے تھا ایک سوچ اور فکر و نظریے کے تحت، وہ نہیں ہے۔ البتہ کچھ دینی سوچ کے حامل ادارے اپنی اپنی سطح پر کام کررہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آ پ نے زندگی بھر بچوں کے حوالے سے ہی سوچا، بچوں کے حوالے سے ہی کام کیا۔ یہ بتائیے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بچوں کے ادب کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: پہلے تعلیمی اداروں کا مشن تعلیم تھا مگر اب پوری انڈسٹری بن چکی ہے۔ اب ہر ادارہ کوشش کرتا ہے کہ بچہ اگر اسکول میں ہے تو صرف رٹا لگانا ہے، اسکول سے گھر گئے ہیں تو پھر ٹیوشن ہے، ٹیوشن کے بعد گھر میں بھی وہی کچھ ہورہا ہے، ماں باپ بھی اسی چکر میں لگے ہوئے ہیں کہ نمبر آنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اگر اس بچے کو کوئی اور چیز مہیا بھی کی جائے گی تو اساتذہ اور والدین سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کا ضیاع ہے۔ اس لیے جو کسی زمانے میں بچوں کے ادب کا مقام تھا،وہ اب نہیں رہا کوئی 40کے قریب بچوں کے رسالے شائع ہوتے تھے اب تو سکڑ کر18،20 رہ گئے ہیں اس لیے کہ وہ کلچر ہی تبدیل ہوگیا،اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بچے سماجی اور معاشرتی لحاظ سے نابلد ہیں۔ مراد یہ ہے کہ کسی پوسٹ پر تو وہ پہنچ جاتے ہیں مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ معاشرتی ایشوز کیا ہیں مسائل کیا ہیں۔ہم نصابی سرگرمیاں بالکل نہیں اور اسکول بھی ڈربے بنے ہوئے ہیں۔ چار پانچ کمرے ہیں اسی میں سارا نظام ہے رٹوں کے ذریعے نمبر لینے ہیں ان کی صحت کی نشو و نما اور باقی ساری سرگرمیاں بالکل نہیں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک بچے کی زندگی میں اپنی عمر کے لحاظ سے غیر نصابی لٹریچر کہانی، افسانے، ناول پڑھنے کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: جب کوئی بچہ درسی کتابوں کے ساتھ ہم نصابی کتابیں پڑھتا ہے یعنی ناول، رسائل وغیرہ، تو اس کی معلومات کا ذخیرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ وہ تخیلاتی چیزیں دیکھ رہا ہوتا ہے، معاشرے میں اگر کسی سے کوئی زیادتی ہے تو اس کو محسوس کررہا ہوتا ہے، کوئی اچھا کام کررہا ہے اور اسے پذیرائی مل رہی ہے یہ ساری چیزیں اس بچے کے اندر کیفیات کو تبدیل کررہی ہوتی ہیں۔ ایک بچہ ہے جو راستے سے پتھر ہٹا دیتا ہے، ایک بچہ کسی بزرگ کی مدد کردیتا ہے تو دوسرے بچے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ مجھے بھی یہ کرنا چاہیے۔ اگر کسی بچے کو غلط کام پر سزا ملتی ہے تو اسے بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مجھے بھی بچ کر رہنا ہے۔ تو اس طرح سے ایک تربیتی عمل جاری رہتا ہے۔ اب والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جاب کا سلسلہ ہو۔ اب تو انٹرنیٹ، موبائل، کارٹونز کی وجہ سے ہر کوئی اپنی اپنی دنیا میں مگن ہے، کہیں بھی چلے جائیں بچے اپنی دنیا میں مست ہیں، ماں باپ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ کتاب نہیں بھی پڑھتا تو دو دو تین تین منٹ کے سبق آموز کلپس بنائے جائیں۔ کیونکہ اب بچوں کو اس طرح سے کتاب نہیں پڑھا سکتے۔ اب تو بڑوں میں بھی کتب بینی کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔ کتب بینی کا کلچر ہمارے ہاں بدقسمتی سے شروع سے ہی پروان نہیں چڑھ سکا۔ یورپ میں آج بھی آپ کسی ریلوے اسٹیشن پر چلے جائیں، ایئر پورٹ پر چلے جائیں، آپ کو کتاب پڑھتے ہوئے لوگ ملیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ بچہ کتاب کی طرف آئے، مگر آپ ایسے اقدامات کرنے جارہے ہیں کہ وہ ڈیجیٹل دنیا میں ہی رہ جائے، جب کہ آج بھی علم و ادب سے متعلق اہم لوگ کاغذ اور کتاب کو ہی اہمیت دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کچھ بھی ہوجائے، کتاب کاغذ کا دور واپس آئے گا جس طرح لوگ پلاسٹک کے برتن سے مٹی کے برتن کی طرف آرہے ہیں؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: اصل میں کاغذ کی اہمیت اپنی جگہ ہے، وہ ہم ختم نہیں کررہے، بلکہ بات یہ ہے کہ اگر ہم زمانے کے ہم رکاب نہ ہوئے تو اندیشہ ہے کہ بچے اور پیچھے چلے جائیں گے۔ یورپ میں ایج گروپ کے حساب سے کتابیں چھپتی ہیں، کلاس ون کے لیے، ٹو کے لیے، تھری فور کے لیے… اور پانچ سال کا بچہ ہے اُس کے لیے کیا ہو، چھ سال کے لیے سارا سلسلہ ہے۔ مگر یہاں تو یہ کلچر ہے ہی نہیں۔ ہم نے یہاں کوشش کی کہ کچھ اسکول جو مشنری انداز میں کام کررہے ہیں وہ کم از کم ایک ایک کلاس کی لائبریری قائم کریں۔ خود ہم نے جو پرائمری، مڈل اور میٹرک لیول پر کتابیں تیار کی ہیں انہیں وہاں رکھا جائے۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ پڑھنے کے شوق کو رواج دیا جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسکول کی لائبریری نہ ہو بلکہ کلاس لائبریری ہو۔ مگر چونکہ نہ اسکول چاہتے ہیں، نہ انتظامیہ چاہتی ہے، نہ والدین چاہتے ہیں کہ اسے رواج دیا جائے۔ یہی ہمارا مقصد ہے کہ کتابوں کے علاوہ اگر بچے کے ہاتھ میں موبائل یا کوئی چیز ہے ہم اسی کے ذریعے اُس کی تربیت کی کوشش کریں۔ اچھائی، بھلائی اور نیکی کی کوئی بات اُس تک پہنچے۔
فرائیڈے اسپیشل: پوری دنیا میں بچوں کے ادب کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ہمارے یہاں بھی بعض بڑے لکھنے والوں نے بچوں پر لکھا ہے، مثلاً علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی اور دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے کام کیا، لیکن اتنا زیادہ کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ اس کا کیا سبب ہے؟ ہمارے لکھنے والوں نے بچوں کے ادب کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دی؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: اصل میں کئی لوگوں نے آغاز بچوں کے ادب سے ہی کیا، احمد ندیم قاسمی بڑا نام ہے، وہ ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے، غلام عباس بہت بڑا نام ہے وہ بھی ’’پھول‘‘ کے مدیر رہے۔ عطاء الحق قاسمی ہیں، اصغر ندیم سید ہیں… جتنے بھی لوگ ہیں انہوں نے آغاز بچوں کے ادب ہی سے کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بچوں کا ادب ریٹرن نہیں کرتا، یعنی اگر آپ اس کے لیے کہانی لکھیں گے تو نہ آپ کو کہانی کا معاوضہ ملے گا نہ وہ رسالہ آپ کو ملے گا جس میں وہ کہانی چھپی ہے۔ لکھنے والا یہی کہے گا کہ مجھے کم از کم کوئی رسالہ ہی دے دیں اعزازی طور پر۔ اگر رسالہ بھی اعزازی نہیں ملے گا، تو وہ کیا لکھے گا؟ جبکہ دوسرے میگزین میں اسے اس تحریر کا دو سے چار ہزار روپے معاوضہ ملے گا تو وہ اس کے لیے لکھے گا۔ ظاہر ہے صرف کہانیاں لکھنے سے تو پیٹ نہیں بھرے گا۔ یا تو پھر جو بڑوں کے ادب کو پے کررہا ہے و ہ بچوں کے ادب کو بھی کرے۔ بچوں کے رسائل کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں ہیں کہ ہم انہیں چھاپ سکیں، حالانکہ اس کے باوجود چھاپتے ہیں، لیکن لکھنے والوں کے لیے معاوضے اور اعزازی کاپی کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: بچوں کے ادب کے حوالے سے بیرونی دنیا میں ٹرینڈ ہے کہ وہ اپنی زبان کے کلاسک کو مختلف ذہنی سطح کے لیے بناتے ہیں، مثلاً پانچویں کلاس کے بچوں کے لیے الگ شیکسپیئر ہے، چھٹی جماعت کے لیے الگ، اور آٹھویں کلاس کے بچوں کے لیے الگ… تو بچہ شروع سے ہی مختلف مرحلوں میں شیکسپیئر کو پڑھتا آتا ہے۔ ہمارے اردو لٹریچر میں اس طرح کا تجربہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ کیا اس کو ہمارے یہاں شروع نہیں ہونا چاہیے، مثلاً پانچویں کا اقبال، میٹرک کا اقبال وغیرہ؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: کراچی میں سندھ ایجوکیشنل کونسل نے’’میرا اقبال‘‘ کے نام سے کلاس ون، ٹو، تھری، فور اور فائیو کے لیے کتابیں چھاپی تھیں، اور اس حوالے سے اقبال اکیڈمی نے بھی کام کیا ہے۔ خود میری بھی کتاب ’’اقبال کہانی‘‘ کے پیش لفظ میں یہ تحریر ہے کہ اسلامیات، سیاسیات، معاشیات کے لحاظ سے باقاعدہ مضمون ہونا چاہیے اقبالیات کا، تاکہ کلاس ون سے بچے مضمون کے طور پر اس کو پڑھیں۔ اگر ہم اسے مضمون کے طور پر پڑھائیں گے تو ہی وہ جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے جو اقبال چاہتے تھے شاہین کے حوالے سے، خودی کے حوالے سے۔ مگر ہمارے ہاں عمومی مزاج ہے عدم توجہی کا ہر سطح پر۔
فرائیڈے اسپیشل: اس عدم توجہی کی وجہ؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: سبب صرف ایک ہے کہ یہ ملک تو بن گیا ہے ہم بحیثیت قوم ایک نہیں بن سکے۔ ہمارے اندر جو بھی لیڈرشپ آئی، قیادتیں آتی رہیں کبھی سول کبھی فوج۔ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں ایک تسلسل رہا لیڈرشپ اور نظام میں، مگر ہمارے یہاں تسلسل ایسا نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک طرزِ تعلیم بھی جاری نہیں رکھ پائے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں کوئی بھی نظام تسلسل سے جاری نہ رہ سکا۔ ظاہر ہے اس سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں ہائی لیول کے ٹیچر پرائمری لیول کے بچوں کو پڑھاتے ہیں کہ اگر ہم اپنی بنیاد استوار کرلیں گے تو آگے چل کر ہمارا سلسلہ ٹھیک چلے گا۔ مگر ہمارے یہاں اس کے الٹ ہے کہ جو بالکل نکمے ہیں، جنہیں کچھ نہیں آتا وہ اسکول چلے جاتے ہیں۔ جب انہیں خود کچھ نہیں آتا تو بچوں کو کیا سکھائیں گے! کراچی میں تو خیر بڑی تعداد چھوٹے چھوٹے اسکولوں کی ہے کہ انٹر یا بی اے پاس بچیوں کو چار یا پانچ ہزار روپے ماہانہ پر رکھ لیا جاتا ہے بطور ٹیچر، اور بچوں سے فی بچہ پانچ ہزار روپے لیا جاتا ہے۔ ہمارے نظام کا المیہ ہے کہ بچوں کو ہر سطح پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک اور کلچر ہے بیرونی دنیا کا، کہ وہاں بچوں کے اسکول کے ساتھ لائبریری ضروری ہے جس سے بچوں کا خود رجحان بنتا ہے، مگر ہمارے ہاں نہیں ہے؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: وہاں ہر روز لائبریری پیریڈ ہوتا ہے۔ ہم نے کئی لوگوں سے کہا ہے کہ اگر آپ روزانہ نہیں تو ہفتے میں ایک دن لائبریری پیریڈ رکھیں تاکہ بچوں کا رجحان تو بنے۔
فرائیڈے اسپیشل: اسکول انتظامیہ کو کتابی کلچر کے فروغ کے لیے آپ کیا مشورہ دیں گے؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: اس کے لیے ضروری ہے کہ کلاس1سے لے کر کلاس5 تک لائبریری کا انتظام کیا جائے۔ کلاس 1کے لیے دس کتابیں جو ان کے لیول کی ہوں، ان کے کمرے میں موجود ہوں اور بچے یہ کتابیں پڑھیں۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ کتابوں کو تالے میں رکھ دو کہ نہ وہ پڑھیں نہ پھاڑیں، کیونکہ اگر پھاڑیں گے تو ٹیچر کو پیسے دینے پڑیں گے۔ پورے سال کے لیے ان کی فیسوں میں بے شک کتابوں کے پیسے شامل کرلیے جائیں لیکن انہیں پڑھنے کے لیے فراہم کی جائیں۔ اس طرح پورے سال بچے تقریباً کوئی دس کتابیں باقاعدگی کے ساتھ پڑھیں۔ دوسری کلاس میں کتابوں کی تعداد بڑھاکر پندرہ کردی جائے، تھری میں بیس کردی جائے، فور میں پچیس اور فائیو میں تیس کتابیں پڑھائی جائیں۔ نئے موضوعات پر معلوماتی کتابیں جب بچہ پانچویں تک پڑھے گا تو پھر اس کی عادت بن چکی ہوگی، پھر وہ گھر میں بھی مطالعہ کرے گا اور اسکول میں بھی۔ اس حوالے سے مسلسل والدین کو، اساتذہ کو اور انتظامیہ کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکول کے یونیفارم کے لیے جیسے آپ نے جگہ مقرر کررکھی ہے اور سات سو روپے کا یونیفارم آتا ہے، تو سو روپے کی کتابیں جن میں کوئی پیغام ہو، اس یونیفارم کے ساتھ ہوں۔ جب وہ یونیفارم لے جائیں گے تو اس میں کتابوں کا وہ پیکٹ نکلے گا، اس طرح بچے کو لگے گا کہ یہ تو میری ہیں۔ پھر یہ کہ ہمارے یہاں جو تقریری و دیگر مقابلے ہوتے ہیں ان میں شیلڈ یا کپ دینے کے بجائے جس لیول کے بچے ہیں اس لحاظ سے انہیں کتابیں دی جائیں۔ پیسے اتنے ہی خرچ ہوں گے لیکن اگر ایک منصوبہ بنالیں کہ ہمیں بچوں کو ذوقِ مطالعہ کی طرف لانا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اگر پانچ سال یہ سلسلہ بلا تعطل جاری رہا تو چھٹے سال میں ماحول بدل جائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: والدین گھر کے اندر کیسے ایسا ماحول پیدا کریں کہ بچہ کتاب کی طرف آئے؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: عام طور پر ہمارا جو متوسط اور خوشحال طبقہ ہے وہ اپنے بچوں کی سالگرہ مناتا ہے۔ اس میں یہ طے ہو کہ ان کے جتنے بھی دوست احباب آئیں وہ کیک نہ لائیں، کچھ اور تحفے نہ لائیں، بلکہ کتابیں تحفے میں دی جائیں۔ جب کتابیں آئیں گی تو بچے کو احساس ہوگا کہ یہ اتنی اہم چیز ہے کہ میری سالگرہ پر تحفے میں دی گئی ہے۔ بلکہ یہ بھی ہو کہ سب آپس میں طے کرلیں کہ ایک ہی موضوع پر کتابیں نہ ہوں، اور بچہ سمجھ جائے کہ میرے جو چاہنے والے ہیں کتاب اُن کے لیے عزیز ہے تو وہ اسے پڑھے گا۔ طے کرلیں کہ ہمیں ہر حال میں، ہر صورت میں بچے تک اس کلچر کو فروغ دینا ہے تب کلچر بنے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: آج ماضی کی بہ نسبت والدین بچوں کے حوالے سے زیادہ سوچتے ہیں، اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ اچھا پڑھنے والا اور بااخلاق ہو۔ لیکن بچہ تو بچہ ہوتا ہے، وہ ان کے خواب اور خواہش کو اہمیت نہیں دیتا تو ایسے میں والدین کیا کریں اور کہاں سے رہنمائی حاصل کریں؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کے اندر امانت، دیانت، سچائی آئے تو خود والدین کو اس پر عمل کرنا ہوگا، اور پھر یہ بھی طے کرلیں کہ مثلاً اگر گھر میں کوئی چیز کسی سے ٹوٹتی ہے، وہ ماں باپ سے بھی ٹوٹ سکتی ہے تو وہ کیا کرتے ہیں؟ لیکن اگر بچہ توڑے گا تو سزا ملے گی۔ تو جب اگلی مرتبہ ٹوٹے گی تو وہ جھوٹ بولے گا ناں، کہ بھائی نے توڑی ہے، بہن نے توڑی ہے۔ کوشش کی جائے کہ انہیں صرف یہ احساس دلایا جائے کہ یہ اہم چیز تھی، اس سے ہمارا نقصان ہوا ہے، اور کوشش کریں کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ اس کا اثر دیرپا ہوگا۔ لیکن اگر آپ ماریں گے اور سزا دیں گے تو اس کا نتیجہ غلط نکلے گا اور بچہ جھوٹ بولنا سیکھے گا۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے ایک دوستانہ ماحول بنائیں۔ بات چیت کے ذریعے اپنے تجربات کی مدد سے انہیں قائل کریں۔ جس گھر میں ڈانٹ ڈپٹ، لڑائی جھگڑے کا ماحول رہتا ہے وہاں اولاد بھی اس سے متاثر ہوتی ہے اور آگے ان کی شخصیت اسی طرح سے پروان چڑھتی ہے۔ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو وہ چیزیں ان میں منتقل ہوچکی ہوتی ہیں۔ والدین کی تربیت اور رہنمائی کے حوالے سے اب اردو میں بھی کچھ لٹریچر ملنا شروع ہوگیا ہے، بلکہ دو میگزین’’پرورش‘‘ اور ’’امی ابو‘‘ کے نام سے ہیں۔ اگر یہ والدین تک پہنچیں اور وہ انہیں پڑھیں تو ضرور فائدہ ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: بچوں کے کون سے رسائل نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ہم ان رسائل کی کاوشوں کو مزید کس طرح بہتر اور مؤثر بنا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: سب سے پرانا پرچہ ’’تعلیم و تربیت‘‘ ہے جو 1941ء میں شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد ’’نونہال‘‘ ہے، اسے بھی تقریباً ساٹھ سال ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد ’’پھول‘‘ ہے جو تقریباً 68 سال چھپنے کے بعد بند ہوگیا۔ اب نوائے وقت والے اسے چھاپ رہے ہیں، اور اسے بھی تقریباً 28سال ہوگئے ہیں۔ ’’پیغام‘‘ لاہور کو چھپتے ہوئے 44 سال ہوگئے ہیں۔ ’’پیغام‘‘ راولپنڈی کو بیس سال ہوگئے ہیں۔ ماہنامہ ’’ساتھی‘‘ کو چھپتے ہوئے چالیس سال ہوچکے ہیں۔ یہ پرچے بچوں کی شعوری تربیت کے حوالے سے رہنما رہے ہیں۔ دعوۃ اکیڈمی کا اس حوالے سے سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے بچوں کو جنوں پریوں کی کہانیوں سے نکالا ٹھیک ہے مافوق الفطرت چیزیں ہونی چاہئیں، مگر اب تو سائنسی ایجادات اس سے زیادہ ایڈوانس ہیں۔ اس لیے اخلاقی لحاظ سے دعوۃ اکیڈمی کا کردار نمایاں رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بچوں کے لیے لکھنے والوں میں کون عہد ِحاضر میں اہم ہیں اور انہوں نے کام کیا کیا ہے؟مثلاً شاعری کے اندر،کہانی کے اندر،ناول کے دائرے میں، جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کی تربیت میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: جو بڑا لکھنے والا ہے اس نے آغاز تو بچوں کے ادب ہی سے کیا ہوتا ہے۔ اب تو بڑوں کے پرچے بھی محدود ہوگئے ہیں، لکھنے والے اب مختلف چینلز کے لیے ڈرامے لکھتے ہیں یا کچھ اور کرتے ہیں، یا کوئی نہ کوئی جاب کررہے ہوتے ہیں۔ دعوۃ اکیڈمی نے پچیس سال میں جن رائٹرز کو تیار کیا، پالش کیا ان میں کثیر تعداد میں لوگ شامل ہیں جو اس حوالے سے کام کررہے ہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں لوگ موجود ہیں اور ہم نے ینگ رائٹرز فورم بنایا، اس کے ذریعے مختلف سلسلے جاری رہے اور اب بھی چل رہے ہیں۔ سینئر لوگوں کا نئے آنے والوں کو سکھانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: دنیا بھر میں بچوں کے ادب کے ترجمے کی ایک روایت موجود ہے۔ ہمارے بچوں کے ادب کے ترجمے کی روایت کا کیا حال ہے اور اس میں ہم کیا بہتری پیدا کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر: ہمارے ہاں بڑوں کے لیے تو مقبول جہانگیر نے ترجمے کیے، ستار طاہر نے کیے، کچھ اور لوگوں نے کیے، البتہ بچوں کے لیے مسعود برکاتی صاحب نے کچھ ناول ترجمہ بھی کیے اور قسط وار چھاپے بھی۔ ان کے سوا بہت کم لوگوں نے بچوں کے عالمی ادب کی جانب توجہ دی۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں احمد عدنان طارق، جو فیصل آباد میں ہوتے ہیں، انہوں نے خاصہ کام کیا ہے۔ انہوں نے بچوں کے عالمی ادب کو اپنے ماحول میں رنگ کر تحریر کیا ہے۔ ان کی چیزیں مختلف پرچوں میں شائع بھی ہوتی ہیں۔ ایک کارنامہ ان کا یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں بچوں کی جو کتابیں چھپی ہیں وہ ساری ان کے پاس ہیں۔ فیروزسنز، شیخ غلام علی اینڈ سنز،ہمدرد و دیگر کی طبع شدہ مطبوعات ان کے پاس ہیں۔ اگر کوئی بچوں کے ادب پر تحقیقی کام کرنا چاہتا ہے تو ان کی وسیع لائبریری سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔