خصوصی عدالت کا فیصلہ، غدّاری کے مقدمے میں جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت اور اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل

جنرل پرویز کی سزا پر عمل کی نوبت آئے گی بھی یا نہیں۔ تاہم جنرل پرویز کی سزا کی ’’علامتی اہمیت‘‘ بھی کم نہیں

خصوصی عدالت نے سنگین غداری کے مقدمے میں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویزمشرف کو موت کی سزا سنادی ہے۔ سزائے موت کا فیصلہ اکثریتی ہے۔ سزا سنانے والا بینچ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ ان میں سے دو اراکین نے جنرل پرویز کو موت کی سزا سنائی، جبکہ تیسرے رکن نے موت کی سزا کے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ جنرل پرویز کو موت کی سزا آئین کی دفعہ 6 کے تحت سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق جنرل پرویز پر آئین کو توڑنے، اس کو معطل کرنے، اس میں غیر آئینی ترامیم کرنے اور غیر قانونی پی سی او جاری کرنے کے الزامات درست ثابت ہوگئے ہیں۔
یہ بات اب پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کی داخلی تقسیم کا نتیجہ تھا، یعنی مولانا کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ ہی کے کچھ عناصر تھے۔ اس تناظر میں یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ عدلیہ کے ’’تحرّک‘‘ کی پشت پر کیا ہے؟ یہ حقیقت عیاں ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کا جو تفصیلی فیصلہ سامنے آیا ہے اُس میں یہ بات واضح ہے کہ اگر حکومت 6 ماہ کے اندر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی نہیں کرسکے گی تو جنرل باجوہ کو 6 ماہ بعد ’’Back Date‘‘ سے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔ یہ امر بھی ’’راز‘‘ نہیں کہ جنرل پرویز کی غداری کا مقدمہ گزشتہ 6 سال سے عدالت میں موجود تھا مگر اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔ بہرحال اب فیصلہ ہوگیا ہے اور جنرل پرویز غداری کے جرم کے مرتکب قرار پاگئے ہیں۔ چنانچہ قوم کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری ہے کہ عدلیہ کے تحرّک کا سبب بھی کہیں اسٹیبلشمنٹ کی داخلی تقسیم تو نہیں؟ دنیا کے کسی اور ملک میں یہ بات ایک ’’Wild Speculation‘‘ قرار پاتی، مگر پاکستان کی تاریخ پوری دنیا کی تاریخ سے جدا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جنرل ایوب پاکستان کے ’’جنرل ڈیگال‘‘ کہلاتے تھے۔ وہ خیر سے ’’فیلڈ مارشل‘‘ بھی تھے۔ مگر پھر وہ وقت بھی آیا کہ سڑکوں پر ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگتے دیکھے گئے۔ ابتدا میں ان نعروں کا مفہوم کسی کی بھی سمجھ میں نہ آتا تھا، مگر ایک دن جنرل یحییٰ خان پانچ چھے سینئر افسروں کے ساتھ ایوانِ صدر میں آدھمکے اور انہوں نے جنرل ایوب سے کہا:
’’Mr President now you have to go‘‘
جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے سے پہلے کی دنیا پر جنرل ضیاء کا مکمل غلبہ تھا، اور انہیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی سنجیدہ چیلنج درپیش نہیں تھا۔ مگر ان کے طیارے کے حادثے نے اسٹیبلشمنٹ کی داخلی تقسیم کو اشتہار بنادیا۔ طیارے کے حادثے سے یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ جنرل ضیاء کے طیارے کے حادثے میں ’’گھر کے لوگوں‘‘ کا ہاتھ ہے، اس لیے کہ جنرل ضیاء کے طیارے تک عام لوگوں کی رسائی ممکن ہی نہیں تھی۔
پاکستان کی نام نہاد ’’وکلا تحریک‘‘ کی کہانی بھی یہی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جسٹس افتخار چودھری بڑے دبنگ تھے، انہوں نے جنرل پرویز کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ ان کی اکڑ تکڑ کی پشت پر جنرل کیانی کھڑے تھے۔ وکلا تحریک بھی جنرل کیانی کی آشیرباد کا حاصل تھی۔ چنانچہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق فیصلے اور جنرل پرویز کی سزا بھی اسٹیبلشمنٹ کی داخلی کشمکش اور داخلی سیاست کا حاصل ہوسکتی ہے۔ لیکن صرف اصول اور آئین کی روح کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل پرویزمشرف کی سزائے موت کا فیصلہ ’’تاریخی‘‘ ہے۔
تحریکِ پاکستان اور تخلیقِ پاکستان میں جرنیلوں کا کوئی کردار نہیں تھا، مگر اس کے باوجود جرنیل پورے ملک کے مالک بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں کوئی اہلیت بھی نہیں ہے کہ قوم انہیں سر آنکھوں پر بٹھائے۔ جرنیلوں میں کوئی اہلیت و صلاحیت ہوتی تو ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا، اور چار جرنیلوں کے اقتدار کے نتیجے میں ملک کے اندر دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ بلاشبہ پاکستان کے سول حکمران نااہلوں کے سردار ہیں، مگر جرنیلوں کی نااہلی کا تو چرچا بھی عام نہیں، حالانکہ ان کی ناکامیاں سول حکمرانوں کی ناکامیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان نااہلیوں میں سے ایک بڑی نااہلی یہ ہے کہ جرنیلوں نے پاکستان کو بھٹو، نوازشریف، الطاف حسین اور عمران خان جیسے نااہل سول حکمرانوں کا ’’تحفہ‘‘ دیا۔ جرنیلوں کے اس جرم پر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جہاں تک جنرل پرویزمشرف کا تعلق ہے تو انہوں نے پاکستان کے نظریے، پاکستان اور پاکستانی قوم کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ویسے تو ہمارے تمام فوجی آمر امریکہ کے آلہء کار رہے ہیں، مگر جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد امریکہ کا ایسا آلۂ کار بن کر دکھایا کہ ہماری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ انہوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی آڑ میں ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے فلسفے کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے لبرل ازم کو اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ انہوں نے ملک کو خانہ جنگی میں جھونک دیا اور چند برسوں میں 75 ہزار پاکستانیوں کو شہید کرا دیا۔ انہوں نے امریکہ کی جنگ کو گود لے کر پاکستان کا 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان کرایا۔ انہوں نے بے گناہ اور پاکستان سے محبت کرنے والے طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا، اور اُن کے اپنے اعتراف کے مطابق کروڑوں ڈالر کمائے۔ یہاں تک کہ ان کے زمانے میں پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملّا ضعیف کو امریکہ کے حوالے کیا گیا، حالانکہ انہیں سفارتی قوانین کے تحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جنرل پرویز خود کو کارگل کا ہیرو کہلاتے تھے، مگر پھر کارگل کے ہیرو کو صبح شام بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا گیا۔ انہوں نے کشمیر پر بھارت کے ساتھ مذاکرات فرمائے اور کشمیر کاز سے غداری کا ارتکاب کیا۔ ان کی بدباطنی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی سید علی گیلانی کو ’’بڈھا‘‘ کہا کرتے تھے۔ حالانکہ پرویزمشرف کیا، تمام جرنیلوں کی ’’پاکستانیت‘‘ سید علی گیلانی کی پاکستانیت کا ’’پاسنگ‘‘ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارے جرنیلوں کی پاکستانیت تو پیشہ ورانہ ہے، مگر سید علی گیلانی کی پاکستانیت ’’عاشقانہ‘‘ ہے۔ بلاشبہ جنرل پرویزمشرف نے آئین کو بھی بازیچۂ اطفال بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ انہوں نے عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کو کوشش کی۔ انہوں نے آئین کو سبوتاژ کیا۔ چنانچہ جنرل پرویزمشرف کے ساتھ جو ہوجائے، کم ہے۔
البتہ مسئلہ یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے جو کیا ’’تنہا‘‘ نہیں کیا۔ چنانچہ اُن کے تمام معاونین اور سہولت کاروں پر بھی غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جنرل پرویز پاکستان کی تاریخ کے واحد فوجی آمر نہیں ہیں۔ جنرل پرویز نے آئین توڑا تو جنرل ایوب نے بھی آئین توڑا۔ جنرل پرویز نے آئین کو معطل کیا تو جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق نے بھی آئین کو معطل رکھا۔ چنانچہ فوجی آمریت کے سلسلے میں اصل، حقیقی اور جامع انصاف تو اُس وقت ہوگا جب جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق پربھی علامتی مقدمے چلیں گے اور انہیں علامتی سزائیں دی جائیں گی۔ پوری قوم جانتی ہے کہ جنرل پرویز کے دور میں بہرحال ملک نہیں ٹوٹا، جنرل یحییٰ کے دورِ اقتدار میں تو ملک ٹوٹ گیا۔ چنانچہ اُن پر اور اُن کے معاونین پر تو ملک توڑنے کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ ملک توڑنے کا جرم تو آئین توڑنے کے جرم سے بھی بڑا ہے۔ ملک توڑنے کے جرم کے مرتکبین کو تو سو سو مرتبہ موت کی سزا دی جانی چاہیے۔ تاریخ کا حساب اس کے بغیر بے باق نہیں ہوسکتا۔
خصوصی عدالت نے جنرل پرویزمشرف کو موت کی سزا سنادی ہے، مگر اس سزا پر عمل کی کیا صورت ہوگی یہ واضح نہیں، اس لیے کہ جنرل پرویز تو ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔ بلاشبہ جنرل پرویز کو سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے، لیکن اپیل کے لیے انہیں وطن واپس آنا ہوگا۔ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عدالت انہیں بیرونِ ملک سے اپیل کرنے کی رعایت بھی دے سکتی ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں یہ کہنا دشوار ہے کہ جنرل پرویز کی سزا پر عمل کی نوبت آئے گی بھی یا نہیں۔ تاہم جنرل پرویز کی سزا کی ’’علامتی اہمیت‘‘ بھی کم نہیں۔ ہمارے جرنیلوں نے خود کو ہمیشہ قانون سے ماورا ثابت کیا ہے، لیکن جنرل پرویزمشرف کی سزا بتارہی ہے کہ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کی بے مثال عطا تھی، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے کفرانِ نعمت کی انتہا کردی۔ چنانچہ پاکستان کے حکمرانوں کو اُن کے کیے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والوں کو سزا دنیا میں ہی مل جائے تو اچھا ہے، لیکن وہ دنیا میں سزا سے بچ بھی گئے تو آخرت میں انہیں اللہ کی بے مثال عطا کو کھلونا بنانے کی سزا ضرور ملے گی۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سزا سخت ترین ہوگی۔ اللہ کی عدالت میں کسی آمر، کسی جابر اور کسی قاہر کی ایک نہ چلے گی۔
یہ سطور لکھی جا چکی تھیں کہ عدالتی فیصلے پر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور کا بیان سامنے آگیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر فوج میں شدید غم و غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل پرویزمشرف آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور صدرِ پاکستان رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 40 سال وطن کی خدمت کی ہے، ملکی دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں، چنانچہ وہ غدار نہیں ہوسکتے۔ بیان کے مطابق جنرل پرویز کو سزا دیتے ہوئے آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، نہ انہیں دفاع کا حق دیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں جنرل پرویزمشرف کو اس لیے غدار قرار نہیں دیا گیا کہ انہوں نے کسی غیر ملکی طاقت کے ساتھ سازباز کی اور پاکستان کی وحدت و سلامتی کو دائو پر لگایا، بلکہ عدالتی فیصلے میں جنرل پرویز کو اس لیے غدار کہا گیا ہے کہ انہوں نے آئین معطل کیا، اسے سبوتاژ کیا، اور آئین کی دفعہ 6 کے تحت ایسا کرنا غداری ہے۔ یہ صرف آئین کا تصور نہیں، بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان اور آئین سے وفاداری پر اصرار کیا ہے۔ انہوں نے اسٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ان کا حلف یاد دلایا۔ قائداعظم نے فرمایا:
I Would like to take the opportunity of refereshing your memory by reading the prescribed oath to you! “I solemnly affirm in the presence of Almighty God, that i owe allegiance to the constitution and to the Dominion of Paksitan”
(14 جون 1948ء، اسٹاف کالج کوئٹہ)
جیسا کہ قائداعظم کے مذکورہ بالا خطاب سے ظاہر ہے فوجی افسروں کے لیے پاکستان اور آئین دونوں سے وفاداری ناگزیر ہے، بلکہ اس خطاب میں قائداعظم نے آئین کا ذکر پہلے اور پاکستان کا ذکر بعد میں کیا ہے۔ چونکہ جنرل پرویزمشرف نے آئین سے وفاداری نہیں نبھائی، اس لیے عدالت نے انہیں غدار قرار دیا ہے۔ لیکن یہ تو مسئلے کا ایک پہلو ہے۔
مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کے بیان نے فوج کے ادارے کو متوازی عدالت بناکر کھڑا کردیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ عدالتی فیصلہ کوئی عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ ایسا ’’سیاسی بیان‘‘ ہے جس کا فوج نے ایک سیاسی بیان کے ذریعے جواب دیا ہے۔ یہ صورتِ حال معاشرے، ریاست اور نظامِ انصاف کے لیے انتہائی خطرناک ہے، اس لیے کہ اب ہر عدالتی فیصلے پر متاثرہ فریق اپنے غم و غصے اور ’’اضطراب‘‘ کے اظہار کو اپنا حق سمجھے گا، اور اس طرح پورا نظامِ انصاف ایک مذاق بن جائے گا۔ فوج ملک کا طاقت ور ترین ادارہ ہے، چنانچہ اسے اپنے ردعمل کے اظہار میں بہت محتاط ہونا چاہیے۔ عام افراد طاقت ور اداروں اور طاقت ور لوگوں کی نقل کی کوشش کرتے ہیں۔ فوج کے مذکورہ ردعمل سے معاشرے میں یہ احساس بھی پیدا ہوگا کہ طاقت ور لوگ اور طاقت ور ادارے عدلیہ کو للکار سکتے ہیں، چنانچہ عام لوگوں کو بھی کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ وہ بھی عدلیہ کو چیلنج کرسکیں۔ اس صورت میں ملک کے نظامِ انصاف کی جو ’’وقعت‘‘ لوگوں کے دل میں رہ جائے گی وہ ظاہر ہے۔ جنرل پرویزمشرف کا مقدمہ چھے سال سے چل رہا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں اپنے دفاع کے تمام مواقع مہیا کیے گئے، لیکن انہوں نے خود ان مواقع کو ضائع کیا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ جنرل پرویز کو اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، قرین انصاف بات نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل پرویز خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں۔ وہ آئندہ 30 دن میں اعلیٰ عدالتوں سے فیصلے پر نظرثانی کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
جنرل پرویز کی سزائے موت کے فیصلے کی اہم بات یہ ہے کہ کئی ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی اہلکاروں نے فیصلے پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً جنرل(ر) فیض علی چشتی نے کہا ہے کہ جنرل پرویز نے جرم کیا ہوگا تبھی عدالت نے انہیں قصوروار ٹھیرایا ہے۔ جنرل(ر) طلعت مسعود نے کہا ہے کہ جنرل پرویز خود اپنا مؤثر دفاع نہ کر سکے (روزنامہ جنگ۔ 18 دسمبر 2019ء)۔ اس سلسلے میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے ردعمل کی کوئی اوقات ہی نہیں، اس لیے کہ پیپلزپارٹی نے جنرل پرویز کے ساتھ این آر او فرمایا، اور نوازشریف جنرل پرویز سے معاہدہ کرکے ملک سے فرار ہوئے تھے اور انہوں نے ہی جنرل پرویز کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ البتہ اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ردعمل کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ جماعت اسلامی کا مؤقف ہر اعتبار سے ’’اصولی‘‘ ہے۔ چنانچہ جنرل پرویز سے متعلق فیصلے پر امیر جماعت اسلامی کا یہ کہنا اہم ہے کہ فیصلے سے عدلیہ پر قوم کا اعتماد بڑھے گا اور فیصلے سے جمہوریت محفوظ ہوگئی ہے۔