کیا عالمی قوتیں نریندر مودی کے پانچ اگست کے قدم کو ایک وسیع تر پیکیج ڈیل میں بدلنا چاہتی ہیں
پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کے حوالے سے اپنا کارڈ کھیل لیا تو دنیا پاکستان کے جوابی وار اور کارڈ کے حوالے سے متجسس ہوکر رہ گئی۔ عمومی خیال یہ تھا کہ کشمیر میں اس کا ردعمل کسی زوردار عسکری تحریک کے احیاء کی صورت میں ہوگا۔ افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتا چند قدم کی دوری پر ہے اور اس مفاہمت میں پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔ افغانستان میں امن کے بعد دنیا کشمیر کو ایک نئے میدانِ کارزار اور رزم گاہ کے طور پر قبول کرنے کی کیوںکر متحمل ہوسکتی ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ امریکہ دنیا بھر کے جہادی ذہن کو افغانستان کے بعد کشمیر میں جمع ہونے کا تصور کرسکتا ہے، اور نہ ہی چین اویغور مسلمانوں کے حالات میں اپنے پچھواڑے میں ایک گرم میدانِ جنگ کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ایسے میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ ایک خاموش، غیر محسوس مگر بین الاقوامی انتظام اور مفاہمت کے تحت مسئلہ کشمیر پر ایک سمجھوتے کے لیے اہم پیش رفت ہورہی ہے، جس کے تحت پاکستان اور بھارت کو اپنی پوزیشنیں دوبارہ ترتیب دینا ہیں، اور اس نئے ماحول اور منظر میں ’’کشمیری‘‘ اور ’’کشمیریت‘‘کی اصطلاحات کی تشریح ازسرنو کی جارہی ہے۔ ان اصطلاحات کی تدوین اور تشکیلِ نو کے بعد مسئلے کے حل کو اس پر منطبق کیا جانا ہے۔
سب سے پہلے مسئلے کی شناخت ہونا تھی جو تیس سالہ عسکری اور مزاحمتی تحریک میں ہوچکی ہے۔ تیس برس میں دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع ریاست جموں وکشمیر میں اضطراب اور بے چینی کا اصل مرکز اس ریاست کا دل وادیٔ کشمیر ہے۔ تیس برس تک اسی پٹی میں شدید مزاحمت جاری رہی۔ تیس برس سے یہی پٹی فوجی جمائو کا شکار رہی، اور اس کے نتیجے میں بدترین فوجی مظالم کا شکار ہوئی۔ تیس برس میں اسی پٹی میں بغاوت اور سول نافرمانی جاری رہی۔ پانچ اگست کے بعد وادی ہی محاصرے کا شکار ہے، اور یہی آبادی فوج کے مکمل گھیرے میں ہے، جبکہ جموں اور لداخ میں راوی تیس برس کی طرح آج بھی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ وادی کی مزاحمت کو اگر باہر سے کوئی کمک ملی تو یہ جموں اور چناب ویلی اور آزادکشمیر کے مسلمانوں کی طرف سے ملی، جس سے یہ حقیقت مزید نمایاں ہوئی کہ وادی کشمیر کے بعد اگر مسئلے کی کوئی جہت موجود ہے تو وہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی حد تک ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک اقوام متحدہ کے کمیشن کے سربراہ سر اوون ڈکسن کو تنازعے کے دوسال بعد ہی 1950ء میں ہوگیا تھا۔ اوون ڈکسن آسٹریلین ہائی کورٹ کے جج اور ایک متوازن اور منصف مزاج شخصیت کی پہچان رکھتے تھے۔ اوون ڈکسن نے پنڈت نہرو سے لیاقت علی خان تک، اور شیخ عبداللہ سے چودھری غلام عباس تک کشمیر کے مسئلے سے وابستہ قابلِ ذکر شخصیات سے ملاقات کرکے اپنی تجاویز مرتب کیں، جنہیں 72 سال بعد بھی مسئلے کے حل کی جامع اور قابلِ عمل تجاویز سمجھا جاتا ہے۔ اوون ڈکسن کی تجاویز میں سے ایک تجویز کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول سمجھا جارہا تھا جس کے تحت انہوں نے جموں اور لداخ کے علاقے بھارت کے کنٹرول میں، اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے کنٹرول میں رہنے کی وکالت کی تھی، جبکہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر اور چناب ویلی کے مسلمان علاقوں میں رائے شماری کی بات کی گئی تھی۔ پنڈت نہرو نے رائے شماری کے بجائے مشترکہ انتظام کی جوابی تجویز پیش کی تھی۔ ڈکسن منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ہی ’’مسئلہ ‘‘ بھی سمجھا گیا تھا اور اسی کا حل بھی تجویز کیا گیا تھا، اور یہ حقیقت آج بھی اسی طرح قائم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی وادی سے باہر غیر مسلم حلقے حالات سے خوش، مطمئن اور مسرور ہی دکھائی دئیے۔ تیس سال کے ان رویوں نے مسئلے کی نوعیت کو بڑی حد تک زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں آزادکشمیراور گلگت بلتستان کے اسٹیٹس کی تبدیلی کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر کا ایک جملۂ معترضہ بھی موضوعِ بحث ہے کہ ’’میں آزادکشمیر کا آخری وزیراعظم ہوں‘‘۔ بعد میں اس جملے کی تردید ہوئی، مگر اس کو تردید برائے تردید ہی کہا جا سکتا ہے۔ تردید کچھ یوں تھی کہ ’’میں نے سنا ہے کہ میں آزادکشمیر کا آخری وزیراعظم ہوں‘‘۔ فاروق حیدر کے اس جملے کا مطلب آزادکشمیر کے اسٹیٹس کا خاتمہ ہی لیا جارہا ہے۔
ابھی اس جملے کی گونج فضا میں موجود ہی تھی کہ صدرِ آزاد کشمیر کے دستخطوں سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن نے ابہام کو مزید بڑھا دیا، جس کے تحت آزاد جموں وکشمیر مینجمنٹ گروپ کا نام تبدیل کرکے جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس رکھا گیا، یعنی آزادکشمیر کے لفظ کو جموں وکشمیر میں بدل دیا گیا، جس سے یہ لگا کہ آزادکشمیر کا نام اور تشخص آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے، گو کہ بعد میں ایک اور نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ تبدیلی واپس لے لی گئی، مگر شکوک کے سائے لہراتے ہی رہے۔
’’آخری وزیراعظم‘‘کی پیش گوئی یا انکشاف پر بات کرنے کے لیے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کا ایک بند کمرہ اجلاس بھی ہوا جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی حاضری رہی۔ اس بند کمرہ اجلاس کا ایک کمزور سا اعلامیہ جاری ہوا ہے جس میں ایک نکتہ یوں تھا کہ آزادکشمیر کے اسٹیٹس کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اسی دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں مہاراجا ہری سنگھ کے زمانے کی کشمیر پراپرٹی کی فروخت پر پابندی ختم کردی گئی، اور یوں پاکستان میں کشمیر پراپرٹی کے خاتمے کا مطلب مسئلے کی متنازع حیثیت کا خاتمہ ہی سمجھا جانے لگا ہے۔ ابھی تک اسلام آباد کے کسی ذمہ دار حلقے نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور ایک ٹی وی انٹرویو میں ایسے کسی منصوبے کی تردید کرچکے ہیں، مگر معاملہ علی امین گنڈا پور سے بہت اوپر کا معلوم ہوتا ہے۔ اُڑتی اُڑتی خبریں ہیں کہ عالمی قوتیں نریندر مودی کے پانچ اگست کے قدم کو ایک وسیع تر پیکیج ڈیل میں بدلنا چاہتی ہیں، جس پرمودی کے حوالے سے ’’لو آپ اپنے ہی دام میں صیاد آگیا‘‘ کا عنوان صادق آتا ہے۔ اس پیکیج ڈیل میں اصل سوال وہی ہے جو پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے، جنرل ضیاء الحق کے آپریشن ٹوپیک، ذوالفقار علی بھٹو کے شملہ معاہدے اور ایوب خان کے آپریشن جبرالٹرکے وقت تھا، یعنی یہ کہ نئے منظرنامے میں بھارت کے پنجہ ٔ استبداد میں کراہتی ہوئی وادیٔ کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا؟ سری نگر کے قلعہ ہری پربت پر کون سا پرچم لہرائے گا؟ اگر قلعہ ہری پربت سے ترنگا لپیٹ دیا جاتا ہے تو پھر کشمیریوں کے تمام مہربانوں، بہی خواہوں، ہمدردوں کو اس پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ انسانی تاریخ کی محیرالعقول قربانیاں دینے کے بعد کشمیری عوام کے لیے سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔
وادیٔ کشمیر کے عوام نے بھارت کے ہاتھوں اتنے دھوکے اور چرکے سہے، اور اتنی مار کھائی ہے کہ وہ اس ملک کے ساتھ ایک لمحہ بھی رہنے کو تیار نہیں۔ دہلی اور سری نگر کے درمیان پہلے اجنبیت کا لق ودق صحرا حائل تھا، اب دونوں میں نفرت کے کوہ ِ گراں بھی حائل ہوچکے ہیں۔ اس دوری، فاصلے اور نفرت کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اپنا مطیع اور فرماں بردار بنانے کے لیے مزید مقتل سجاتا رہا۔ اس کا منطقی نتیجہ ایک اور ’’سقوطِ غرناطہ‘‘کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔
اس لمحے کی آمد سے پہلے کشمیریوں کو بھارتی پنجہ ٔ استبداد سے نکالنا اور اس کی تدابیر اختیار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ اگر کسی پیکیج ڈیل کی باتوں میں کوئی صداقت ہے تو اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے۔ آزادکشمیر کا موجودہ سیٹ اَپ اور گلگت بلتستان کا موجودہ اسٹیٹس اس وجہ سے ہے کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور کشمیری عوام بھارت کے قبضے میں رہنے کو تیار نہیں۔ وادی کے عوام اگر قربانیوں کے نتیجے میں کسی کمزور ہی سہی، مگر منطقی حل کی طرف بڑھتے ہیں تو پھر بہت سی پوزیشنوںکا ازسرنو جائزہ لینا بھی ناگزیر ہوجائے گا۔ اس کے لیے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوا م کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی جانی چاہیے، اور یہ خیال رہنا چاہیے کہ کسی بھی قدم سے کشمیر کی تحریک کو نقصان نہ پہنچے۔