تیسرا حصہ
مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق
طلیطلہ کے وقت نویس (الزرقالی)کی وفات کے دہائیوں بعد، قریب ہی مراکش میں نورالدین ابن اسحاق البتروجی پیدا ہوا، جس کا لاطینی نام Alpetragius رکھا گیا۔ اُس نے شہرSeville کا رُخ کیا، اس شہرکو مسلمان اشبیلیہ پکارا کرتے تھے۔ مسلم اشبیلیہ طلیطلہ جتنا ہی قدیم شہر تھا، یہاں دریا الوادی الکبیرکی بندرگاہ مشہور تھی۔ ممکنہ طور پر اس شہر کی بنیاد بھی فونیقی یہودیوں نے رکھی تھی، بعد میں یونانیوں اور رومیوں نے اسے اپنا مستقر بنایا۔ بنو امیہ اور پھر عیسائی بادشاہوں کے لیے یہ شہر اسپین کا گوہرِ نایاب ثابت ہوا۔ مسلمانوں نے اسے عظیم الشان مساجد سے پُرشکوہ بنایا، جنھیں بعد میں عیسائیوں نے ڈھاکرگرجا گھر اٹھائے۔ ایک مسجد کا اونچا مینار، جس کا رنگ ریتیلا تھا، جو ایک رصدگاہ کا کام بھی کرتا تھا، بعد میں گرجاگھرکا گھنٹہ گھر بنادیا گیا، اسے La Giralda پکارا جاتا تھا۔ الموحدون کا محل اور باغات جن کے سامنے کھلا میدان تھا، اُسے ایک دن عیسائیوں کا Alcazar بن جانا تھا۔ اگرچہ اشبیلیہ امویوں کے اندلس کا دارالحکومت کبھی نہیں رہا، اس کے باوجود یہ سب سے بڑا، امیر ترین اورطاقت ور شہر تھا۔ یہاں کی زراعت، زیتون اور لیموں کی پیداوار بہترین تھی۔ یہ سمندری تجارت کا مرکز تھا۔
البتروجی نے علم مثلثات اورکروی جیومیٹری میں ابن الہیثم کی پیروی کی، اوربطلیموس کے کام کے چند پہلوؤں پر کڑی تنقید کی۔ تاہم البتروجی نے سورج اور سیاروں کے بے ضابطہ مداروں پرگہری توجہ دی، اور زمین کی مرکزیت کے نظریے پر سوال نہیں اٹھایا۔ اُس نے یہ جاننے کے لیے انتھک محنت کی کہ کسی طرح قبل از بطلیموسی ’ہم مرکز دائروں‘ (concentric circles) کے مداروں کا نظام بحال کیا جاسکے، مگر یہ تجربہ ایک دن غلط کوشش ثابت ہوا۔ تاہم بعد میں البتروجی نے بہت سے نئے طریقے وضع کیے اور بطلیموسی ریاضیات کی بہت سی بے قاعدگیوں کو قاعدے میں کیا۔ البتروجی کے بڑے کام (مصنف نے اس کام کا کوئی نام نہیں دیا، غالباً متواتر یورپی سرقہ کی نذر ہوگیا۔ مترجم) کو مسلم سسلی کے مائیکل اسکاٹ نے لاطینی میں منتقل کیا، البتروجی کے اس کام نے Seville کے یہودی علماء کی توجہ حاصل کی، اور اُن میں سے دو نے اُس کام کا عبرانی میں ترجمہ کیا۔ ان علماء کے نام موسیٰ بن تبون اور یہوداہ بن سلیمان تھے۔ البتروجی کا یہ کام بارہویں صدی کا اہم کارنامہ ہے، اس سے یورپ نے تیرہویں صدی میں استفادہ کیا، اور پھر متواتر اس کا سرقہ کیا جاتا رہا۔ سولہویں صدی میں جب کاپرینکسheliocentric کلیہ لکھ رہا تھا، وہ البتروجی کونقل کررہا تھا۔
اب اندلسی علم فلکیات مزید پیچیدہ ہوچکا تھا، یہ قابلِ قبول نظریات سے ٹکرا رہا تھا۔ مغرب میں مسلم فلکیات، دوا سازی، اور فلسفہ کی تاریخ ہی کسی قدر یہودی تحصیلِ علوم کی تاریخ بھی ہے۔ نویں اور دسویں صدی تک مسلم اسپین میں یہودی علماء کی سرگرمیاں اور معیشتیں اپنے عروج پر تھیں۔ وہ قرطبہ، اشبیلیہ، اور طلیطلہ میں سنہرے دن بسر کررہے تھے۔ یہ دوسری اعلیٰ ترین سیاسی حیثیت کے حامل تھے۔ حسدائی بن شپروط خلیفہ عبدالرحمان سوم کا وزیراعظم تھا۔ یہ لوگ بہترین ادب، موسیقی، اورفلسفہ تخلیق کررہے تھے۔ وہ یہ کام انفرادی اوراجتماعی دونوں سطح پرکررہے تھے۔ مسلم حکماء سے اشتراک میں بھی علوم کو ترقی دے رہے تھے۔ امویوں اور پھر المرابطوں کے ادوار میں یہودیوں نے اعلیٰ حیثیتوں میں اہم کردار ادا کیے۔ اُن کے سنہرے دنوں کی خبریں سرحد پار شمالی افریقا اور دیگر مقامات کی یہودی آبادیوں تک پہنچ رہی تھیں۔ دسویں صدی تک دیگر خطوں کے یہودی تارکینِ وطن بہت بڑی تعداد میں مسلم اندلس منتقل ہورہے تھے۔
ہسپانوی یہودی دانشوروں میں موسیٰ بن میمون کا نام نمایاں تھا، اُسے یورپ میں Maimonides کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موسیٰ بن میمون کا بہترین کام شعبہ طب میں سامنے آیا۔ وہ فلسفہ اور معاشرتی اصلاحات کے حوالے سے زیادہ مشہور ہوا۔ اُس نے اپنی کتاب Guide of the Perplexed میں فلسفیانہ دلیل کا استعمال کیا، کہ بائبل اور یہودی عقیدہ ارسطو کی فکرسے متصادم نہیں ہیں۔ اُس نے علم فلکیات میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے۔ وہ 1135ء میں قرطبہ کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوا۔ عربی، ہسپانوی، اور عبرانی روانی سے بولتا تھا۔ اس تہذیب یافتہ اور ہم آہنگ ماحول میں تینوں ابراہیمی سلسلے مستحکم ہوچکے تھے۔ مگر یہ سب اُس وقت تہ وبالا ہوا جب 1148ء میں شدت پسند الموحدون افریقا سے حملہ آور ہوئے۔ انھوں نے کیتھولک ملکہ ازابیلا کی طرح انتباہ کیا کہ: یہودی اسلام قبول کریں، یا انخلاء کرجائیں، یا جان گنوائیں۔ موسیٰ بن میمون جو اُس وقت صرف تیرہ برس کا تھا، خاندان کے ہمراہ جنوبی اسپین میں پناہ گزین ہوا، جہاں یہ لوگ تقریباً دس سال رہے۔ آخرکار یہ خاندان شمالی افریقا منتقل ہوا۔ مراکش کی جامع قرویین سے میمونائڈز نے علم ادویہ کی تحصیل کی۔ وہاں سے قاہرہ کا رخ کیا، جہاں شاہی دربار میں اُسے وزیراعظم کا طبیب مقررکردیا گیا، بعد میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا ذاتی معالج مقرر ہوا، جس نے صلیبی افواج کے مقابل ایک مدبر سپہ سالار اور رحم دل دشمن کے طور پر مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ میمون خاندان شدت پسند مسلمانوں سے جان بچاکر عیسائی یورپ میں پناہ لینے کے بجائے مسلم شمالی افریقا میں پناہ گزین ہوا۔ وہ اور اُس کا خاندان اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلم ریاستوں کے بڑے شہر بارہویں صدی کے کسی بھی یورپی شہر سے زیادہ تہذیب یافتہ تھے، اور تعلیم وتحقیق کے اہم مراکز تھے۔
موسیٰ بن میمون بہت سے ہم عصروں کی طرح علم فلکیات میں گہری دلچسپی لے رہا تھا۔ اُس نے بطلیموسی شماریات میں عدم تسلسل کا جائزہ لیا۔ خاص طور پر اُس نے بطلیموس کی ’مساوی دائرے میں سیارہ زحل کی توضیح‘ پر سوال اٹھایا، جو ناقص معلوم ہورہی تھی، کیونکہ یہ براہِ راست سیارہ عطارد کے مدار میں حائل ہورہا تھا۔ ’مساوی گر دائرہ‘(equant) علم الحساب کی ایک ایسی ترکیب ہے جسے بطلیموس نے زمین کے گرد سیاروں کی بے قاعدہ حرکات واضح کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ’مساوی گر دائرہ‘ اصول کے تحت زحل اور دیگراجرام فلکی مقرر وقت میں معین محور میں گردش کے پابند ہیں۔ میمونائڈز واحد جوہر قابل فلسفی نہ تھا، جو سیاروں اور ستاروں کی حرکات میں گُم تھا۔ ایک اور اندلسی مفکر، جس نے تینوں ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کو صدیوں اپنا گرویدہ بنائے رکھا، سیاروں کی مداروں میں حرکت کا بغورمطالعہ کررہا تھا۔ ابوالولید محمد ابن احمد ابن رُشد جسے لاطینی میں Averroes بنادیا گیا، بارہویں صدی کے قرطبہ میں پیدا ہوا، یہ خاصا ہنگامہ خیز دور تھا۔ قرطبہ علم فلکیات کی نسبت اپنے فلسفے کے سبب زیادہ مشہور تھا۔ ابن رُشد کے بنیادی عقائد فکری فعلیت اور ارسطو کی عقلیت پسندی پر مشتمل تھے۔ ایک ایسا فلسفہ جو مشرقِ بعید کے عمر خیام سے ملتا جُلتا تھا۔ یہ فلسفہ اتنا طاقت ور تھا کہ ہم عصر یہودی عالم میمونائیڈز اورعیسائی علماء جیسے تھامس ایکویناس پر یکساں طور پر اثرانداز ہوا۔ رینیسانس (یورپی بیداری) کے معروف مصور رفائیل نے فن پارے The School of Athen میں ابن رُشد کو تاریخ کے عظیم ترین فلسفیوں میں شمار کیا ہے۔
جرأت مند فلسفیوں کی مانند، جب روایتی طرزِفکر سے مقابلہ ہوا، ابن رُشد نے خطرات کو دعوت دی۔ اُس کی فکری فعلیت اور عقل پسندی نے قرطبہ کے قدامت پرستوں کو چونکا دیا۔ کچھ لکھنے والوں نے اُسے مسلمان سے زیادہ بدھ بھکشو خیال کیا اور لکھا۔ تاہم ایک خاص عرصے تک ابن رُشد نے الموحدون حکمرانوں کی سرپرستی سے لطف اٹھایا۔ مزے کی بات ہے کہ یہی وہ سلسلۂ اقتدار تھا جو دیگر اسپین میں قدامت پرستی مسلط کررہا تھا۔ ابن رُشد بہت ہوشیار تھا، مؤثر دلائل سے اکثر قدامت پرستوں پر غالب آجاتا تھا۔ مگر آخرکار بہت سارے لوگ اُس سے بیزار ہوئے، اور اُسے مراکش جلا وطن کردیا گیا، جہاں اُس نے اپنی زندگی تحریر و تحقیق میں صرف کی۔ پُرآشوب حالات کے باوجود ابن رُشد کی علمی استعداد متاثر نہ ہوئی، وہ بطلیموس کے کاموں کا مطالعہ کررہا تھا اورتنقید کررہا تھا۔ اُس نے اسکندریہ کے قدیم یونانی علمِ فلکیات اور علم الحساب پر کڑی تنقید لکھی۔
وہ لکھتا ہے: ’’منحرف کرے یا تدویری Epicyclic Sphere کے وجود کا اظہار فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارے عہد کا علم فلکیات ’سچ‘ کا ترجمان نہیں، بلکہ محض حساب و شمارسے اتفاق کرتا ہے، اُس حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا جو دراصل وجود رکھتی ہے۔‘‘
ابن رشد نے البتروجی سے اتفاق کیا، اور اکثر بطلیموسی حساب وشمار مسترد کردیا، اور زمین کے مدار میں گردش کرتے سیاروں کے ’ہم مرکز‘ (concentric) نمونے کی وکالت کی۔
تیرہویں صدی میں، بادشاہ الفانسو نے پہلی بار ابن الہیثم کے اہم کام کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کروایا، جو بعد میں لاطینی میں ترجمہ کیا گیا، اور یورپی ماہرینِ فلکیات اور ریاضی دان کتاب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہورہے تھے۔ بارہویں صدی کے تین عظیم مفکرین البتروجی، ابن رُشد، اور موسیٰ بن میمون آٹھ سال کے اندر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ابن رُشد نے 1198ء، ابن میمون نے 1204ء، اور البتروجی نے 1206ء میں وفات پائی۔ ان کی موت کے بعد مزید پُرآشوب دورکا آغازہوا۔ اندلس شہری ریاستوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ عیسائیوں اور شمالی افریقا کے حملہ آوروں کے درمیان صدیوں تک مسلح تصادم برپا رہا۔ دور مشرق میں بھی اسلام تنازعات سے گزر رہا تھا۔ یہ مشرقِ بعید سے اٹھنے والی بے چینی دراصل اُس ڈرامے کا حصہ بھی تھی، جو ایک ایشیائی حملہ آور کی بے پناہ قوت کے ظہور سے پیدا ہوئی تھی۔ یہ قوت مستقبل میں تمام براعظموں، سلطنتوں اور لوگوں تک پھیل جانے والی تھی۔ یہ دہشت ناک قوت المرابطون اور الموحدون سلسلوں کی مداخلتوں سے بہت زیادہ بڑھ کرتھی۔
فارس، موت کا قلعہ، 1256ء، وہ آرہے ہیں! اور پھر اُن کی دہشت ناک کہانیاں نصف صدی اور دونسلوں تک لوگوں کا پیچھا کرتی رہیں۔ وہ ایک زمانے سے حرکت میں تھے، یہاں تک کہ اُن کی ابتدائی کہانیاں بھولی بسری بات ہوچکی تھیں۔ اُن کی نئی کہانی زیادہ ہولناک تھی۔ زندگی بھر کے لیے ہزاروں لوگ مسلسل اُن سے بھاگ رہے تھے۔ مغرب، جنوب اور جہاں اُن کے قدم پڑتے، نکل جاتے تھے۔ مکانات اور باغات بیچ دیے گئے تھے، کاروبار اور پرانے دوست چھوڑ دیے گئے تھے، گھر ویران پڑے تھے جہاں چوہے دندناتے پھرتے تھے، اور ہوائیں سائیں سائیں کیا کرتی تھیں۔
ہر وہ شہر جو اُن کے راستے میں آیا، خواہ وہ چین کا ہو یا روس کا، یا فارس کا… مغلوب ہوگیا۔ جن کی جان کسی طرح بچ گئی، وہ خوفناک کہانیاں سنایا کرتے تھے، کہ حملہ آور تاتاری انسان نہیں لگتے تھے بلکہ گھوڑے اور سوار کا کوئی قاتل مرکب نظرآتے تھے، جن کی کوئی لگام نہ تھی۔ اتنی اکثریت میں کہ لشکروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر معلوم ہوتا تھا، مغرب کی طرف بل کھاتی ایک ایسی لہر جسے نہ روکا جاسکے۔ یہ تھے منگول، جوچین کے شمال میں چراگاہوں کی زمین سے اٹھے تھے۔ وہ انتہائی جنگجو تھے۔ چین سے کوریا اور وسطی ایشیا تک جوتباہی مچی، لوگ پناہ کے لیے قاہرہ، ماسکو، ترک شہروں، اور ہندوستان کی جانب دوڑے، اور میزبان معاشروں کی ترقی اور ارتقاء میں شامل ہوگئے، ساتھ ساتھ علوم کا اکتساب کیا، اور نامور دانشور اور حکماء پیدا کیے۔
منگولوں میں ایسی کیا شے تھی کہ ہرطرف دہشت چھا گئی تھی؟ وہ محض ایشیائی قبائل کا ایک اتحاد تھا، جو بیس لاکھ انسانوں پرمشتمل تھا، ٹٹوؤں پر سوار بستیاں روندتا چلا جارہا تھا۔ یہ بالکل اُجڈ لوگ تھے، معاشرتی و تہذیبی طرزِ زندگی سے یکسرعاری تھے۔ وہ انتہائی چُست اور طاقتور لڑاکا تھے۔ سفاکی اور سنگ دلی اُن کی بھرپورصفات تھیں۔ دشمن کو زندہ چھوڑنے کے قائل نہ تھے، بہت ہی کم قیدی بنایا کرتے تھے۔ میدانِ جنگ میں سرپٹ دوڑتی اس وحشی سلطنت کا سردارچنگیز خان تھا، چینیوں میں یہ تموجن کے نام سے معروف ہے۔
چنگیز خان کی نسطوری عیسائی علماء سے ملاقات بھی تاریخ کا ایک نامعلوم باب ہے۔ تاریخ گُم گَشتہ انکشاف کرتی ہے کہ جب نسطوری مشرق وسطیٰ میں نئے گھر تلاش کررہے تھے، فارس میں آباد ہورہے تھے، وہ بتدریج ساتویں صدی عیسوی میں چین کے دروازوں تک بھی پہنچے۔ دسویں صدی تک چند ترک منگول قبائل نسطوریت کو ایک ریاستی مذہب کے طور پر قبول کرچکے تھے۔ تیرہویں صدی میں چنگیز خان نے اپنے ایک بیٹے کی شادی ایک نسطوری شہزادی سے کی، یہ ترک منگول نسل سے تھی، اور ہلاکوخان کی ماں تھی۔ وہ ہلاکو خان، جس نے بغداد برباد کیا۔ تیسرے بیٹے قبلائی خان جس نے چین پر حکمرانی کی، نسطوریوں کو چین کے قلب میں داخلے کی اجازت دی، جہاں وہ بدھ مت اور تاؤ مذہب کے پیروکاروں میں گھل مل گئے۔ چودھویں صدی عیسوی میں، چین میں منگولوں کے ساتھ ساتھ ہی عیسائی نسطوری بھی زوال پذیر ہوئے۔ انیسویں صدی تک عیسائیت چین سے غائب ہوگئی۔ بہت سے مؤرخین نے چنگیز خان کی طوفان خیز وحشت ناکی پر سوال اٹھائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ منگول مخالفین کو صرف پیشگی ہتھیار ڈالنے پر چھوڑتے تھے، ورنہ تہس نہس کردیتے تھے۔ منگولوں کی جنگی تکنیک اور سفاکی پر بستیوں کی بستیاں صدمے سے دوچار ہوئیں۔ وہ جہاں سے گزرے، دہشت بٹھاگئے۔ شہر کے شہر خاک میں ملا دیے، جلاکر راکھ کردیے۔ چند غداروں، مقامی کاریگروں، اور دیگر ماہرین کو چھوڑکر، کسی کو نہ چھوڑا گیا۔ دیکھنے والے لاشوں کے اونچے اونچے ڈھیر دیکھ رہے تھے، جلی ہوئی ہڈیوں کے انبار لگے تھے، میلوں تک تعفن پھیل چکا تھا، جلتے ہوئے اجسام سے اٹھتا دھواں بہت دور سے دکھائی دے رہا تھا۔ مؤرخ ابن اثیر نے سال 1221کی ستم ظریفی پر لکھا:
’’کئی برس تک میں اُس سانحے کے بیان سے ہچکچاتا رہا، وحشت و دہشت سے یہ حال تھا کہ کچھ قلم بند نہ کرسکا تھا۔ جہاں ایک قدم بڑھاتا فوراً واپس کھینچ لیتاتھا۔ کسی کے لیے بھی یہ اعلان کرنا مشکل نہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو یہاں موت کی مہلک ضرب لگی تھی۔ بہت سے دوستوں اور احباب نے مجھ سے اصرارکیا کہ سقوطِ بغداد سپردِ قلم کروں، میں نے بہت گریز کیا، اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ اس معاملے کو چھوڑنا مفید نہ ہوگا۔
اگر دجال کی کوئی اتباع کرے تو وہ بھی اُس کی جان بخش دے گا، مگر تاتاریوں نے کسی کو نہ بخشا۔ عورتوں، بچوں، اور مردوں سب کا قتلِ عام کیا، حاملہ عورتوں تک کے پیٹ چاک کرڈالے، اور نومولود بچوں کو مارڈالا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سوائے خدائے ذوالجلال کے کوئی حفیظ و کریم نہیں، جو ہمیں اس عتاب سے نجات دینے والا ہو، ایک ایسا عتاب جو موت کی ہواؤں کی طرح ہرسو پھیل گیا۔ یہ لوگ چین کے مرغزاروں سے اٹھے تھے، انھوں نے ترکستان کے شہروں کاشغر اور بلاساغون پر حملے کیے، اور پھر ماوراء النہر کے شہروں سمرقند، بخارا اوردیگر کی جانب گئے، لوگوں کے مال واسباب چھینے اور پھر خراسان کی طرف بڑھے، یہاں تک کہ ہر جگہ لوٹ مار مچائی… اور پھر رے، ہمدان، اور دیگر فارسی علاقوں میں جاگھسے، اور وہاں سے عراق، آذربائیجان، اور دیگرخطوں میں داخل ہوئے، اور ان زمینوں کے اکثر باسیوں کو قتل کیا، بستیاں اجاڑدیں، شہر برباد کیے… اور یہ سب کچھ ایک سال سے بھی کم مدت میں ہوا۔‘‘
تاتاریوں کے حملوں نے مسلم دنیا میں زلزلہ برپا کردیا تھا، جس کے بعد از جھٹکے صدیوں محسوس کیے گئے۔ ہندوستانی فوج مستقل چوکنی رہنے لگی تھی۔ یورپی، سرحدوں کی حفاظت جی جان سے کرنے لگے تھے۔ جنھوں نے منگولوں کی گھن گرج ہنگری اورپولینڈ میں دیکھی تھی، انھوں نے اپنے اسکاؤٹ فرانس تک پھیلادیے تھے۔
تاہم، مسلم فکر اور علم فلکیات کی ترویج حالات کی زد میں نہ آسکی۔ مسلمانوں کی تہذیبی تشکیل وتکمیل جاری رہی۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ جواب تاریخ گُم گَشتہ میں چھپا ہے۔ منگولوں کی جنگی مہمات میں اُن کی ثقافتی خوبیاں دھندلا گئی ہیں۔ جب منگول عرب زمینوں تک پہنچے، اُن کی سلطنت مستحکم ہوچکی تھی، اوراُن کے شہر تہذیب و تمدن سے آشنا ہوچکے تھے۔ خاص طورپر چینی تہذیب، شمالی ہندوستان کی ثقافت، وسطی ایشیا کی تہذیب، اور فارس کی دانائی سے وہ بہت کچھ سیکھ رہے تھے۔ مثال کے طور پر چنگیز خان نے جو قوانین ’’یاسا‘‘ وضع کیے تھے وہ مذہبی رواداری، امن، تجارت، اور جرائم سے تحفظ پرمبنی تھے۔ مزید یہ کہ منگولوں کی جنگی مہمات اُتنی ہولناک نہیں تھیں جتنی بتائی جاتی ہیں۔ منگولوں کی باقاعدہ ایک اسمبلی تھی، جہاں قبائلی اشرافیہ تزویراتی پہلوؤں کا جائزہ لیا کرتی تھی، اورنظام حکومت چلایا کرتی تھی۔ مسلمانوں کی طرح منگولوں نے بھی بعد میں دیگر ملکوں سے تجارتی روابط مستحکم کیے، اور تجارتی سفر کے قوانین متعارف کروائے۔ منگولوں نے علماء، حکماء، اور فنکاروں کی قدر افزائی کی، انھیں اپنی انتظامیہ میں مناسب جگہ دی۔ انھوں نے مفتوحہ علاقوں میں مسلمانوں، عیسائیوں، اور بدھوں کے ساتھ ہم آہنگی ممکن بنائی۔ فارس، وسطی ایشیا، اور ہندوستان میں شاندار شہر تعمیر کیے۔ ان شہروں نے علمی بیداری اور تحقیق کی ترویج میں صدیوں تک اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ یوں، منگولوں نے آنے والی دنیا کے لیے چینی، اسلامی، اور یورپی دانش کی بے مثال میراث چھوڑی۔
(جاری ہے)