چقندر

دوہزار سال سے استعمال ہونے والا وٹامن ب، ج سے بھرپور

چقندر پاکستان، ہندوستان، شمالی امریکہ اور یورپ میں کثرت سے سبزی کے طور پر کاشت کیاجاتاہے۔ یورپ میں اس کا پودا 1584میں لایا گیا اور اب یہ وہاں کی غذا اور صنعت میں آلو کے بعد سب سے مقبول سبزی ہے۔ چقندر کاتعلق پالک کے خاندان سے ہے البتہ اس کاغذا کے طور پر کھایاجانے والا پسندیدہ حصہ اس کی جڑ ہے۔ سلاد کے طور پر کھائیے یا اُبال کریا گوشت کے ساتھ پکائیے، ہر طرح سے مفید ہے۔
مردان میں بھی یورپ کی طرح چقندرسے شکر بنائی جاتی ہے۔دنیا میں تقریباً ۲ہزار سال سے چقندراستعمال کیاجارہا ہے۔ یہ بحر روم سے دنیا میں پہنچا۔سب سے بڑی بات یہ ہے ہمارے پیارے نبی مہربان ﷺکو بھی چقندربہت پسند تھاآپ شوق سے تناول فرماتے تھے۔
ترمذی میں حضرت ام منذرؓ سے روایت ہے کہ ایک بارحضرت محمد ﷺ میرے پاس حضرت علی ؓ کے ساتھ تشریف لائے اس وقت کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے حضور اکرم ﷺ نے ان کھجور وں میں سے کچھ تناول فرمائیں توحضرت علی ؓ بھی کھانے لگے اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے علی! تم کمزور ہو، اس لیے تم یہ نہ کھائو حضرت ام منذر ؓ کہتی ہیں اس کے بعد میں نے چقندرپیش کیے تو حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایاکہ اس میں سے کھائو کیونکہ یہ تمہارے لیے مفید ہیں۔
حضرت علی ؓ کی ان دنوں دونوں آنکھیں دکھ رہی تھیںاوردکھتی آنکھوں پر کھجور کھانا مضر ہے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ کومنع فرمایا اور جب آپ کے سامنے چقندرپیش کیے گئے تو آپﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ یہ کھائو یہ تمہارے لیے مفید ہیں اور یہ تمہاری کمزوری کو دور کردیں گے۔
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر ہر جمعہ ایک بوڑھی خاتون چقندر اور جوکی دیگ تیار کرکے لاتیں اس کو خوب گھوٹ کر ہر یسے کے مانند دکرلیتیں جمعہ کی نماز پڑ ھرکر لوگ ان کے پاس جاتے، سلام کرتے اور خوشی خوشی چقندر اور جوکا پکوان کھاتے۔
چقندر ہمارے ملک میں ضرورت کے مطاق بویاجاتاہے، چقندر کا شلغمی حصہ اور پتے خوراک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں چقندر کو گوشت کیساتھ ملا کر پکانے سے بڑا لذیذ سالن پکتا ہے۔ بعض لوگ چقندر کا اچار بھی ڈال لیتے ہیں۔ اس کے پتے پالک کی طرح چوڑے ہوتے ہیں۔چقندر، شلجم، پالک ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں چقندر کا آدھا حصہ زمین کے اندر اور آدھا باہر کی جانب ہوتاہے یعنی پتے باہر ہوتے ہیں۔ اس میں شکر کی خاصی مقدار ہوتی ہے اسی لیے ہم اسے بطور سبزی تو استعمال کرتے ہیں مگراس سے شکر بھی حاصل کی جاتی ہے چقندر سے حاصل کی ہوئی شکر گنے کی شکر جیسی مٹھاس تو نہیں رکھتی مگر پھر بھی لوگ اسے شوق سے اپنے میٹھے کھانوں میں استعمال کرتے ہیں۔
چقندر ہماری جانی پہچانی ترکاری ہے۔ اس کے گودے کارنگ سرخ ہوتا ہے۔سالن کی صورت میں پکانے سے پوری سالن کی سرخ کردیتاہے۔ اس کچا یا ابال کر بطور سلاد بھی کھایا جاتاہے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ گر م مسالے کااستعما ل مفید ہوتا ہے۔ چقندر میٹھا ہوتا ہے، اس لیے ذیابیطس کے مریضوں کو استعمال نہیں یا کم کم کرنا چاہیے۔چقندرمیں حیاتین ب اور ج کے علاو کیلسیم، فاسفورس اورفولاد بھی پایا جاتا ہے۔ اسے کھانے سے جسم کو طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ہاضم ہے، جگر کے فعل کودرست کرتا ہے۔تلی کے لیے مفید ہے۔ سردرد دور کرتاہے۔ آج کل مغرب میں چقندر کوسرطان روکنے کے لیے مفید سمجھاجارہا ہے۔ فرانس کے معالج روزانہ ایک کلو چقندر کھانے کا مشور ہ دیتے ہیں۔یہ صحت کے لیے ایک عمدہ غذائی ٹانک ہے۔ اس میں شوگر کی صورت میں کاربوہائیڈ ریٹس پائے جاتے ہیں۔ پروٹین اور چکنائی کی بہت کم مقدار اس میں موجود ہوتی ہے۔ چقندر کو آلو کی طرح ابال کر، بھون کریا بھاپ میں پکا کر استعمال کیاجاتا ہے۔اسے پکانے سے پہلے اچھی طرح دھولینا چاہیے اور کھانے سے پہلے اس کاچھلکا اتار لینا چاہیے۔ اس کے پتوں کودیگر سبزیوں کی طرح بہت کم پانی میں اور بہت کم وقت تک پکا ناچاہیے۔ چقندر جس قدر تازہ ہوں گے ان کا ذائقہ اچھا ہوگا اور جلد پکائے جاسکیں گے۔
گاجرمیں ایک کیمیائی جزو Betinپایاجاتاہے، یہ خون بڑھاتا ہے۔ گردوں کی صفائی کرتاہے۔ معدے اور آنتوں میں ہونے والی جلن سے آرام دیتاہے۔ سرخ چقندر سے خواتین کا ماہانہ نظام درست ہوتاہے۔
یورپ میں چقندر کی شکر کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ یہ چینی زیادہ سفید دانہ دار اور مٹھاس میں گنے سے پھیکی ہوتی ہے گلوکوز کی کمی ہوجانے پر مریضوں کو چقندر کی شکر کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
اگر آپ اُبلا ہوا چقندر بھی کھا لیتے ہیں تو بھی گلوکوز کا کام کرے گا۔ جسم میں مطلوبہ مقدار میں شکر کی موجودگی کمزوری کو دور کرتی ہے۔
چقندر کاجوس، سبزیوں کے ہر جوس سے زیادہ بہتر سمجھاجاتاہے۔یہ قدرتی شکر کا سب سے اچھاذریعہ ہے۔ اس میں سوڈیم، پوٹاشیم،فاسفورس، کیلشیم،سلفر،کلورین،آیوڈین،آئرن، تانبا،وٹامن بی (1)بی(2)، سی اور پی موجود ہوتی ہیں۔ چقندرکے جوس میں پائے جانے والے کاربوہائیڈریٹس آسانی سے ہضم ہوجاتے ہیں لیکن کیلوریز بہت کم ہوتی ہیں۔ ایک اورخوبی یہ ہے کہ اس میں پائے جانے والے پروٹین کے اجزا یا امینو ایسڈ معیار اور مقدار کے اعتبار سے بہت اعلیٰ ہیں۔
چقندر کھانے سے جگر کا فعل بہتر ہوتا ہے اور یہ تلی کی سوزش کو کم کرتا ہے۔ چقندر کے پا نی کو شہد کے ساتھ پیا جائے تو بڑھتی ہوئی تلی کو کم کرتا ہے اور جگر میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو کم کرتا ہے۔ شہد اور چقندر کا پانی نہ صرف یرقان میں مفید ہے بلککہ صفراء کی نالیوں میں پتھری یا دوسرے اسباب سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کا علاج بھی ہے۔
چقندر کی کیمیاوی ہیت پر غور کریں تو اہم ترین بات جو سامنے آتی ہے، وہ اس میں شکر کی موجودگی ہے۔ عام طور پر یہ مقدار 24فیصدی کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ یہ عام بات ہے کہ لوگ بیماری کے دوران یا اس کے بعد کی کمزوری کے لیے گلو کوز دیتے ہیں۔ شکر اور نشاستہ کی قسم خواہ کوئی ہو، جسم کے اندر جا کر ایک مختصر سے عمل کے بعد گلوکوز میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس لیے چقندر کے دیگر اجزاء سے قطع نظر بھی کریں تو شکر کی موجودگی کمزوری کے لیے یقینا فائدہ مند ہوگی۔ سبزی اور پھر جیسے بھی ہوں، ان میں ناقابل ہضم مادہ کثیر مقدار میں ہوتا ہے جو قبض کو دور کرتا ہے۔
یرقان، پیپاٹائٹس، صفرا کی وجہ سے متلی اور قے،پیچش، اسہال میں چقندر کا جو س عمدہ چیز ہے۔ اس جوس میں اگر ایک چمچہ لیموں کارس بھی شامل کرلیاجائے تو اس کی طبی افادیت بڑھ جاتی ہے اور اسے سیال غذا کے طو پر پلایاجاسکتاہے۔ چقندر کاجوس شہد کے ساتھ روزانہ صبح ناشتہ سے پہلے لیاجائے تو معدے کاالسر مندمل ہوجاتاہے۔چقندر کے پتے اگر پتوں والی سبزیوں کی طرح پکا کر کھائے جائیں اور اس کا جوس لیموں کے رس کے ساتھ لیاجائے تویہ یرقان کے لیے مفید ہیں۔ جوس روزانہ ایک دفعہ پینا چاہیے۔
کہنے کو چقندر ایک عام سی سبزی ہے۔ یہ دراصل ایک پودے کی جر ہوتی ہے جس کا ذائقہ شیریں ہوتا ہے اور چھلکے سے لیکر اندر کے گودے تک سب کا رنگ خون کی طرح سرخ ہوتا ہے۔ سبزی خوروں کی یہ پسندیدہ غذا ہے لیکن اس میں اور بھی بہت سارے فوائد مضمر ہیں۔ کھلاڑیوں کے لیے توانائی بحال کرنے کا یہ خفیہ ہتھیار ہے، کینسر سے محفوظ رکھتا ہے اور ہائی بلڈ پریشر کی سطح کو نیچے لے آتا ہے۔ چقندر میں موجود جو چیز سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتی ہے،۔ وہ غیر معمولی مقدار میں شامل نائیٹرٹس ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ نہر ایک گرام چقندر میں تقریباً اتنا ہی نائیٹریٹ موجود ہوتا ہے۔ دیگر سبزیوں کے مقابلے میں چقندر میں 20گنا زیادہ نائیٹریٹ ہوتا ہے۔ حالیہ جائزوں میں دیکھا گیا ہیکہ چقندر میں شامل نائیٹریٹس بلڈ پریشر کم کرتے ہیں لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں 2010میں ایک جائزہ لیا گیا تھا جس میں دیکھا گیا کہ روزانہ اگر 250ملی لیٹر والے ایک گلاس میں چقندر کا جوس بھر کر پی لکیا جائے تو کئی گھنٹے تک بلڈ پریشر کم رہ سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بلڈ پریشر جتنا زیادہ بڑھا ہوا ہو، چقندر کے جوس سے اس میں اتنی ہی کمی آجاتی ہے۔ ایک اور نیا جائزہ ملبورن، آسٹریلیا میں لیا گیا جہاں بیکر ہارٹ اینڈ ڈایا بیٹیز انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے یہ دیکھا کہ چقندر کا جوس اگر 500ملی لیٹر والے گلاس میں بھر کر پیا جائے تو چھ گھنٹے بعد بلڈ پریشر میں نمایا ں کمی آجاتی ہے۔ ریسرچز نے کہا ہے کہ اگر چقندر کے رس کا استعمال عام ہوجائے تو بہت ممکن ہے کہ قلبی شریانی امراض سے ہونے والی اموات 10فیصد تک کم ہوجائیں۔ نائیٹریٹس میں بلڈ پریشر کم کرنے کی خوبی اس وجہ سے ہے کہ منہ اور آنتوں میں موجود صحت کے لیے مفید جراثیم نائیٹریٹس جو نائیٹرک آکسائیڈ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ گیس خون کی نالیوں کو پُر سکون کر کے انہیں پھیلا دیتی ہے جس سے خون زیادہ آزادی سے جسم میںگردش کرنے لگتا ہے۔
یونیورسٹی آف ایگزٹر کی جانب سے کیے گئے جائزوں میں دیکھا گیا ہے کہ نائیٹریٹس نہ صرف بلڈ پریشر کم کرتے ہیں بلکہ جسمانی توانائی اور قوتِ برداشت بھی بڑھاتے ہیں۔ 2010ء کے ایک جائزے میں دیکھا گیا کہ جن بالغ افراد نے 520ملی لیٹر چقندر کا جوس پیا تھا، انہوں نے دوسرے نوجوانوں کے مقابلے میں جنہیں نائیٹریٹس شامل کیے بغیر کوئی اور مشروب پلایا گیا تھا 16فیصد زیادہ دیر تک ورزش کی۔ اس جائزے پر کام کرنے والے اسٹیفن بیلی نے بتایا کہ نائیٹریٹس، چقندرمیں شامل دیگر اینٹی آکسیڈینٹس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پٹھوں کو کم آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ زیادہ دیر تک کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور دیر میں تھکتے ہیں۔
دماغی صلاحیت بڑھانے والا نارتھ کیرولینا کی ویک فارلیسٹ یونیورسٹی کے 2011کے جائزے میں بتایا گیا تھا کہ چقندر کا جوس استعمال کرنے سے مخبوط الحواسی کی آمد میں تا خیر ہوسکتی ہے۔ وجہ اس کی غالباً یہ ہے کہ نائیٹرک آکسائیڈ دماغ کی طرف خون کے بہاؤ کو بڑھا دیتی ہے۔ چقندر میں فولک ایسڈ کی مقدار بھی قابلِ ذکر ہوتی ہے۔ اس غذائی جز و کے استعمال کی یومیہ سفارش کردہ مقدار کا فیصد دو یا تین چھوٹے سائز کے چقندر سے حاصل ہو سکتا ہے۔ فولک ایسڈ نسیان کے مرض ’’الزائمر‘‘ سے تحفظ فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
چقندرمیں ایک رنگ دار مادہ Betacyaninہوتا ہے جو چقندر کو اس کی سرخی بخشتا ہے۔ یہ ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہے۔ جس میں کینسر کا مقابلہ کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ 2011میں واشنگٹن کی ہاورڈ یونیورسٹی کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ’’بیٹا سایانین ‘ نے پروسٹیٹ اور چھاتی کے سرطانی خلیات کی افزائش کی رفتار 12.5فیصد تک گھٹا دیتی ہے۔
جن لوگوں کے چہروں یاجسم پر داغ پڑجاتے ہیں یا چھیپ ظاہر ہوجاتے ہوں تو انہیں چاہیے کہ چقندر کو روازنہ خوراک میں کھانا شروع کردیں چندہفتوں میں چہرے کے داغ درست ہوجائیں گے چقندر کاپانی جوئون کوبھی ختم کرتا ہے لہٰذا جس کے سر میں جوئیں پڑگئیں ہوں تو اسے چاہیے کہ سر میںچقندر کا پانی لگائے چند یوم میں جوئیں ختم ہوجائیں گی اگر جسم کے کسی مقام پر ورم ہوتو چقندر کاپانی نکال کر ورموں پر لگائے جس سے ورم دور ہوجائے گا آگ سے جلے ہوئے جسم پر بھی چقندر کاپانی لگانے سے فوراً فائدہ ہوتا ہے۔چقندر کے پانی کو بادام کے روغن کے ساتھ ملا کر تھوڑا ساگرم کرکے کان میں ڈالنے سے کان درد بند ہوجاتاہے۔
چقندر کے پتوں کاپانی نکا ل کر اس سے کلی کرنا یا اسے مسوڑھوں پرملنے سے دانت کا درد جاتارہتاہے۔ بعض اطباء کا خیال ہے کہ ایساکرنے کے بعد آئندہ درد نہیں ہوتا۔ سرکے بال کم ہوں تو چقندر کے پانی سے دھونا مفید ہے۔ اس میں بورہ ارمنی ملا کر استسقاء اورہاتھ پیروں کے ورم پر لیپ کرناچاہیے۔چقندر کے اجزاء دست آور ہیں۔ جبکہ اس کا پانی دستوں کوبندکرتاہے۔ سرخ قسم کو پکاکر کھانا کمزوری اور ضعف باہ میں مفید ہے۔ اس کورائی اور سرکہ ڈال کر پکانے کے بعد کھایاجائے تو یہ جگر اور تلی سے سد ے نکال دیتا ہے، اسے کافی دنوں تک کھانے سے درد گردہ،مثانہ اور جوڑوں کے درد کو فائدہ ہوتا ہے یہی ترکیب مرگی کی شدت کو کم کرنے میں مفید ہے۔
چقندر کے قتلوں کو پانی میں ابال کراس پانی کی ایک پیالی صبح ناشتہ سے ایک گھنٹہ پہلے پینے سے پرانی قبض جاتی رہتی ہے اوربواسیر کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔ یورپ اور ایشیا میں اکثر لوگ چقندر کے قتلوں کو ابال کرکھانے کے ساتھ سلاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہ پالک کے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود اس جیسے مضر اثرات نہیں رکھتا۔ اس لیے چقندر کے پتے متعدد مقامات پر سبزی کی مانند پکائے جاتے ہیں اور مفید اثرات رکھتے ہیں۔
غذائی ماہرین چقندر کو نظام ہضم کی خرابیاں دور کر نے میں استعمال کرنے کی بھی سفارش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چقندر میں غذائی ریشے بہت زیادہ ہو تے ہیں۔ اگر دو یا تین چھوٹے سائز کے چقندر پر مشتمل 100گرام کا ایک پورشن کھا لیا جائے تو اس سے یومیہ سفارش کردہ مقدار کا 10فیصد حاصل ہو سکتا ہے اور اس سے آنتیں متحرک ہو کر فضلے کا اخراج آسان بنا تی ہیں۔چقندر میں ایک اور چیز Betaineبھی پائی جاتی ہے جومعدے میںتیزابی مادے کو معمول کے مطابق رکھتی ہے۔چقند ر میں شامل مختلف اینٹی آکسیڈ نٹس مثلاBetalain, VulgaxanthinاورBetaninباہم مل کر ایک اور چیز Ghutathioneتیار کرتے ہیں جو زہریلے مادوں کے اخراج میں جگر کی مدد کرتی ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق اگر زیادہ مقدار میں چقند ر کھایا جائے یا اس کا رس پیا جائے تو پیشاب کا رنگ گلابی ہو سکتا ہے جو قابل تشویش بات نہیں ہے۔
چقندر کے کھانے سے خون کے سرخ خلیات خوب بنتے ہیں۔ تجربے سے ثابت ہو ا ہے کہ اگر سرطان خون(لیوکیمیا) کے مریض کو علاج کے ساتھ روزانہ ایک کلو چقندر کھلائے جائیں تو اسے بہت فائدہ ہو تا ہے کیونکہ اس میں سرطان دور کرنے والا جوہر لائکوپین خوب ہو تا ہے۔ضروری نہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک چقندر کھائیں۔دن میں تین چار مرتبہ کھا کر بھی یہ مقدار پوری کی جا سکتی ہے لیکن چقندر تازہ ہو چاہیے۔ اس کا رس نکال کر بھی پیا جاسکتا ہے۔ چقندر کا رس ایک پیالی دن میں تین مرتبہ پینے سے گردے اور مثانے کی پتھری بھی نکل سکتی ہے۔اس سے گردے اور مثانے کا ورم بھی دور ہو جاتا ہے۔یہی رس یرقان کے لیے بی مفید ہوتا ہے کیونکہ گنے کے رس کی طرح اس میں بھی شکر ہو تی ہے۔ اسی طرح یہ رس گٹھیا کے لیے بھی مفید ثابت ہو تا ہے بشرطیہ مریض کو ذیابطیس نہ ہو۔
واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں ایک اہم مطالعہ کیاگیا جس سے معلوم ہوا کہ جو س پینے کے صرف دو گھنٹے بعد ہی دل پر اس کے اچھے اثرات پڑنے لگتے ہیں اس سے قبل کھلاڑیوں اور دوڑنے والوں کو جب چقندر کا جوس پلایا گیا تو ان کی کارکردگی میں تیرہ فیصد بہتری نوٹ کی گئی اس کے بعد ڈاکٹروں نے ایسے مریضوں پر آزمایا جو دل کا دورہ برداشت کر چکے تھے۔
مطالعہ کے مطابق اس کے لیے9مریضوں کوپابندی سے چقندر کا جوس پلایا گیا تو دو گھنٹے بعد ہی ان کے دل کے پٹھوں میں فوری اور تیز کام کی کاکردگی دیکھی گئی تاہم بہت لمبے ٹیسٹ میں کاکردگی زیادہ موثر نہیں تھی۔
ماہرین کے مطابق چقندر فور ی طور پر بلڈ پریشر کو کنٹرول کر تا ہے جب کہ عمر رسیدہ افراد میں یہ رس پٹھوں کو بھی مضبوط کر تا ہے۔
خون میں پھیپھڑوں سے جسم کے باقی حصوں کو آکسیجن فراہم کر نے والے ہیموگلوبن نامی لحمیات اور چقندر میںپائے جانے والے لحمیات کا 50فیصدآپس میں ملتاجلتا ہے۔سائنسدانوںکا خیال ہے کہ اس کی خون ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے بیشتربھی بعض جڑی بوٹیوں میں ہیموگلوبن سے مشابہ لحمیات دریافت کیے گئے تھے لیکن پہلی دفعہ چقندر اور انسانی خون کے لحمیات میں اس قدر مشابہت پائی گئی ہے۔سائنسدان اب اس کے اثرات کے بارے میں خنزیروں پر تجربہ کر رہے ہیں۔چقندر جنسی طاقت کو بڑھانے کے لیے بھی موثرہے اور اس سے انسان کے خون میں ہیموگلوبن کی کمی دور ہوجانے کے بعدانسان میں جنسی طاقت بڑھ جاتی ہے۔
چقندر کے فائدے بے شمار ہیں خواتین کے لیے تو یہ اللہ کی رحمت ہے۔