۔1946ء

۔1946ء کے آتے آتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تینوں فریقوں کو شدید احساس ہوچلا تھا کہ اب ان کے پاس زیادہ وقت نہیں۔ انگریز تھک چکا تھا، نہ صرف جنگوں سے بلکہ حکمرانی سے بھی۔ وہ عاجز آچکا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ملوکیت کی بساط اب زیادہ دیر تک بچھی رہے۔ قائد 70 برس کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ قویٰ میں اضمحلال بشریت کا لازمہ تھا۔ ہتھیار ڈالنے اور جنگ جیتنے کے درمیان صرف قوتِ ارادی حائل تھی۔ گاندھی جی 77 برس کے ہوچکے تھے اور زندگی کا کارواں طویل سفر کے بعد منزل پر پہنچا چاہتا تھا۔ یہاں پہنچ کر ہر فریق محسوس کررہا تھا کہ انجام کامیڈی ہو یا ٹریجڈی، یہ کردار آخری بار اسٹیج پر جمع ہورہے ہیں۔ چنانچہ اسی احساس کے پیش نظر تینوں فریق انگریز، ہندو اور مسلمان اس تیزی سے سرگرم عمل تھے کہ ہر ایک کو گمان تھا کہ ’’یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دورشد‘‘۔ قائداعظم کے بجائے عنانِ قیادت اگر کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی تو شاید یہی صورتِ حال ہوتی۔ لیکن وہ ہر لحظہ اپنے عمل کا احتساب کررہے تھے۔ 1946ء کا مسلم لیگ کنونشن بھی احتساب کی صورت تھی۔ قراردادِ لاہور کو پاس ہوئے 6 برس ہوچکے تھے۔ اس اثنا میں قراردادوں، بیانوں، تقریروں اور نامہ و پیام کے انبار لگ چکے تھے اور ان میں بہت سے ایسے نکات ابھر آئے تھے جن کو آخری معرکے سے قبل قطعی صورت دینا ضروری تھا۔
کنونشن 7 اپریل کو دلّی کے اینگلو عربک کالج کے احاطے میں منعقد ہوا۔ جلسہ گاہ کو جگہ کی قلت کے باوجود بڑی خوب صورتی سے آراستہ کیا گیا تھا۔ کنونشن کو ساڑھے چار بجے شروع ہونا تھا لیکن بنگال کے مندوبین جس گاڑی سے آرہے تھے وہ جگہ جگہ رکتی ہوئی بڑی دیر سے پہنچی۔ چنانچہ جلسہ 6 بجے شروع ہوا۔ قائداعظم صدر چنے گئے۔ ہلکے بادامی رنگ کی ریشمیں اچکن اور سفید شلوار میں ملبوس جب قائد تقریر کے لیے اٹھے تو پورا پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔ آپ نے کہاکہ پاکستان کے مسئلے پر کسی سمجھوتے کی قطعی گنجائش نہیں۔ پاکستان کامل طور پر ایک آزاد و خودمختار مملکت ہوگی۔ ہم چونکہ حق پر ہیں اس لیے اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے۔ یہ حل ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان حق و انصاف پر مبنی ہے۔ ہم اس کے لیے لڑیں گے۔ جان دینا پڑی تو جان بھی دیں گے لیکن اسے لے کر رہیں گے۔
دو کتبے بڑے اہم آویزاں تھے۔ ایک پر قائد کے خط کا وہ مشہور اقتباس تھا جس میں انہوں نے بتلایا تھا کہ مسلمان کیوں علیحدہ قوم ہیں، اور دوسرے پر یہ رقم تھا کہ ’’آزادی کی منزل پاکستان کی راہ سے حاصل ہوگی‘‘۔ اس کنونشن میں دو باتیں بڑی اہم طے ہوئیں۔ ایک بالتصریح اور دوسری نتیجتاً۔ ایک قراردادِ لاہور کی تکمیل تھی اور دوسری ایک عہدنامہ تھا۔
1946ء تک پہنچتے پہنچتے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ اسے شائبے کا حتمی طور پر ازالہ کردیا جائے کہ مسلمانوں نے دو ریاستوں کا مطالبہ پیش کیا ہے یا ایک کا۔ گو وجود میں آنے والی ریاست کا نام اب دنیا بھر میں پاکستان مشہور ہوچکا تھا، تاہم یہ ازالہ ضروری تھا کہ انگریز (دلّی سے لندن تک)، ہندو (ہر مہاشے سے مہاتما تک)، مسلمان (پشاور سے چٹاگانگ تک) اب کسی شک و شبہ میں نہ رہے تھے کہ مسلمان دو بازوئوں پر مشتمل ایک ریاست کے خواہاں ہیں اور اس ریاست کا نام پاکستان ہوگا۔ قائداعظم 1944ء میں اپنی خط کتابت میں یہ بات مہاتما جی پر واضح کرچکے تھے۔
ویسے بھی اگر مسلمانوں کے اس عزم میں خفیف سا رخنہ رہ جاتا اور کسی نئے خیال کو ہوا دینے یا کسی پرانے مفروضے کو پھر سے زندہ کرنے کی گنجائش ہوتی تو مہاتما جی کی نگاہِ باریک بین اس سے فائدہ اٹھانے سے کبھی نہ چوکتی۔ پاکستان کے حق میں 99 فیصد رائے دینے والے پٹھانوں کے اندر جو سیاست دان پختونستان کا شوشہ کھڑا کرسکتا ہے اُسے اگر ایک پاکستان کے بجائے دو یا دو کے بجائے تین پاکستان بنانے کی گنجائش نظر آتی وہ کہاں چوکنے والا تھا! واقعہ یہ تھا کہ قراردادِ لاہور کا مطلب سمجھنے میں ہندوئوں نے کبھی کوئی ٹھوکر نہیں کھائی تھی، بلکہ اس کے خدوخال وہ اپنے ذہنوں میں خود متعین کرتے گئے۔ مسلمانوں کی تاریخ کے نوادرات میں ایک بات یہ بھی ملتی ہے کہ وہ اپنی کوتاہ بینی سے راستوں سے بھٹک جائیں تو کچھ بعید نہیں، لیکن ان کا حریف اپنی دور شناسی سے اُن کی منزل سے ناواقف نہیں رہتا۔ ملک چونکہ دو قومی نظریے کی بنا پر تقسیم ہورہا تھا اس لیے دونوں قوموں کا اپنا اپنا تشخص اور اسی رعایت سے ایک ایک ملک تھا۔ ایک ملک ہندو کا، ایک مسلمان کا۔ اگر لسانی یا ثقافتی تقسیم منظور ہوتی اور یہ عوامل بھی یپش نظر ہوتے تو پھر تین یا تین سے زیادہ ملکوں کا مطالبہ ہوتا، بلکہ ہندوستان چُور چُور ہوچکا ہوتا۔ ہندوستان کو حتمی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہونا تھا۔ ہندو علاقہ اور مسلم علاقہ۔ ہندو علاقے کا نام بھارت، اور مسلم علاقے کا نام پاکستان۔ جس طرح ہندو علاقے میں کسی اور وطن کی گنجائش نہیں تھی، اسی طرح مسلم وطن میں کسی اور وطن کی گنجائش نہیں تھی۔ تقسیمِ ملک کے بنیادی اصول نے ہر دوسرے اصول کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔ کنونشن میں اسی بات کا اعادہ ہوا۔
دوسری بات اس سے کم اہم نہیں تھی۔ کنونشن کی قرارداد پر جو صحیح معنوں میں پاکستان کی قرارداد تھی، جو حلف ارکانِ اسمبلی نے اٹھایا اُس کی پیشانی پر ’’قل ان صلاتی ونسکی و محیای و مماتی اللہ رب العالمین‘‘ (کہیے میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، میری موت اللہ کے لیے وقف ہے جو پروردگارِ عالم ہے)۔ گویا قرارداد نے سیاسی اور جغرافیائی طور پر پاکستان کے حدود مقرر کردیے اور اس میثاق نے اس کے اندر رائج ہونے والے نظام کا تعین کردیا۔
(”آہنگ ِبازگشت“-محمد سعید )

اسرار پیدا

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد!۔
ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالمِ مجبور ہے، تُو عالمِ آزاد!۔
موجوں کی تپش کیا ہے؟ فقط ذوقِ طلب ہے
پنہاں جو صدف میں ہے وہ دولت ہے خداداد!۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پردم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد!۔

اسرار پیدا:کھلے ہوئے بھید۔ پردم:انتھک۔ افتاد: گر جانا۔
-1جس قوم کے جوانوں کی خودی فولاد کی طرح مضبوط و مستحکم ہوجائے اسے تلوار کی حاجت نہیں رہتی۔ یعنی وہ سازو سامان کے بغیر ہی اپنے مقاصد پورے کرلیتی ہے۔
-2 اے مخاطب! یہ چاند اور تاروں کی دنیا تیرے سامنے بالکل بے حقیقت ہے۔ تُو خود غور کر کہ یہ دنیا سراسر مجبور ہے، اس لیے کہ علم اور ارادے اور نظر سے محروم ہے اور تُو آزاد دنیا ہے۔ اس لیے کہ خدا نے تجھے علم، نظر اور ارادے کی دولت عطا کررکھی ہے۔
-3 موجوں کی تڑپ کیا ہے؟ فقط ذوقِ طلب کا کرشمہ ہے۔ باقی جو کچھ سیپی میں چھپا ہوا ہے یعنی موتی، وہ خدا کی دین ہے۔
-4شہباز کی طرح اڑنے کی ایسی مشق کرلینی چاہیے کہ تھک کر گرنے کی نوبت نہ آئے، اگر تُو انتھک بن جائے تو پھر تجھے گرنے کا خطرہ ہوہی نہیں سکتا۔