جے یو آئی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی قربت بلوچستان کے اندر انتخابی تبدیلی لا سکتی ہے
جمعیت علمائے اسلام اور حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں نے آزادی مارچ کے تسلسل میں حکومت مخالف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ ملک بھر میں جلسے اور مظاہرے وقتاً فوقتاً منعقد کیے جاتے ہیں۔ کوئٹہ میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے بانی اور محمود خان اچکزئی کے والد خان عبدالصمد خان کی 46 ویں برسی کی مناسبت سے جلسہ عام کو بھی گویا حکومت مخالف احتجاج کا عنوان حاصل ہوا۔ یہ جلسہ 2 دسمبر 2019ء کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے ہاکی گرائونڈ میں ہوا، جس میں پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی خصوصی دعوت پر جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن بھی شریک ہوئے۔ مولانا فضل الرحمٰن یکم دسمبر کو کوئٹہ پہنچے۔ ایئرپورٹ پر محمود خان اچکزئی، ان کی جماعت اور جے یو آئی کے رہنمائوں نے استقبال کیا۔ مغرب کے بعد مولانا نے ذرائع ابلاغ سے بھی گفتگو کی۔ انہوں نے ملک میں نئے انتخابات آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے ضمن میں منعقد کرانے کا مطالبہ کیا، تاکہ نئی حکومت اور پارلیمنٹ کی تشکیل ہو اور نئے انتخابات اگلے چھ ماہ میں ہوں۔ مولانا نے وزیراعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ دہرایا، بلکہ سخت الفاظ ادا کیے کہ ان کا باپ بھی استعفیٰ دے گا۔ اور کہا کہ اس ماہِ دسمبر میں حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کا جلسہ بھرپور تھا۔ ہاکی گرائونڈ سیاسی کارکنوں سے بھر گیا تھا، جہاں کارکنوں نے کھڑے ہوکر محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن کا فلک شگاف نعروں اور تالیوں کی گونج میں استقبال کیا۔ بلاشبہ یہ نظارہ شاید پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنی انتہائی نظریاتی و انتخابی مخالف جماعت کے اسٹیج پر موجود ہوں۔ بلوچستان کے اندر جے یو آئی (ف) اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی 1970ء کی دہائی ہی سے سیاسی حریف ہیں۔ نظریات اور اہداف میں دونوں جماعتوں میں بُعدالمشرقین ہے۔ محمود خان اچکزئی نے فقط مولانا فضل الرحمٰن کو دعوت دی تھی۔ یہ اشتراک ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں قائم ہوا ہے اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی بلاشبہ آزادی مارچ میں نمائشی کے بجائے عملاً شریک تھی۔ پس و پیش کی پالیسی اس جماعت نے قطعی نہیں اپنا رکھی تھی۔
تحریک انصاف کی حکومت کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق)، شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ اور سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی یقیناً گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے۔ آئے روز پکار اُٹھتی ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے اس سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا تو وہ مزید حمایت سے دست بردار ہوجائے گی۔گویا سردار اختر مینگل کے لیے یہ شراکت مشکل فیصلہ تھا، جس نے انہیں ہنوز بے چینی میں مبتلا کیے رکھا ہے۔ یعنی یہ جماعت یکسو دکھائی نہیں دیتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت فی الحقیقت تنکے کے سہارے پر قائم ہے۔ جماعت اسلامی اگرچہ متحدہ حزبِ اختلاف کی صفوں میں کھڑی احتجاج نہیں کررہی، مگر وہ اپنے مؤقف میں واضح ہے، بلکہ اصولی طور پر حکومت مخالف جماعت کا کردار نبھا رہی ہے، اور اپنے کارکنوں کے ساتھ حکومت کی غلط پالیسیوں و اقدامات کے خلاف ہمہ وقت سڑکوں پر ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر حالات مزید ناسازگار ہوگئے تو شاید جماعت اسلامی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل جائے۔
جے یو آئی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی قربت بلوچستان کے اندر انتخابی تبدیلی لا سکتی ہے۔ بالخصوص کوئٹہ اور صوبے کے پشتون اضلاع میں یہ دو جماعتیں واضح پارلیمانی قوت حاصل کرسکتی ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں ان دو جماعتوں کے آپس میں اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے خان عبدالصمد خان شہید کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ خان شہیدکی علمی، سیاسی، صحافتی اور معاشرتی خدمات کو تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے، بلکہ ان کے کردار، قربانیوں اور شہادت کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آزادی مارچ میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور کارکنوں کی بھرپور شرکت قابلِ تعریف و ستائش ہے۔ ان کی شرکت نے ہمیں حوصلہ اور ہمت دی جسے ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ آزادی مارچ قومی اور ملّی وحدت کا ذریعہ بنا، اسی لیے آج ملک بھر کی اپوزیشن جماعتیں ایک صفحے پر ہیں، بلکہ اس کے ذریعے سلیکٹڈ حکومت کو ریجیکٹڈ بھی قرار دیا جا چکا ہے جس پر جمعیت علمائے اسلام، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سمیت پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے۔ ہمیں آزادی کا جذبہ اپنے آبا و اجداد اور اکابرین سے میراث میں ملا ہے جس کے ہم امین ہیں، بلکہ اس کی حفاظت کو ہم اولین ذمہ داری بھی گردانتے ہیں۔ کہنے کو تو پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور یہاں عوامی حکمرانی بھی ہے، مگر حقیقت میں ہم بیرونی قوتوں کے غلام ہیں اور ہمارے انتخابات خاص قوتوں کے رحم وکرم پر ہیں، ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم بیرونی قوتوں کی بالادستی کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم بیرونی قوتوں سے دوستی اور تعلقات ضرور چاہتے ہیں، مگر اس کے لیے کسی کی غلامی قبول نہیں۔ ہم ملکی اداروں کی عزت و تکریم چاہتے ہیں مگر عوام پر ان کی بالادستی ہمیں قبول نہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ کو ہم کسی صورت بھی جائز اور عوامی نمائندہ نہیں کہیں گے، نہ ہی عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے والے ڈاکوئوں کو ہم حقِ حکمرانی دینے کو تیار ہیں۔ پاکستان عوام کا ہے، ہمارے اکابرین نے کبھی بھی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا، ہم اُن کے جذبۂ آزادی کے امین ہیں، اسی لیے ہم امریکہ اور مغرب کی بالادستی اور غلامی سے بھی انکاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں جمہوریت ہے تو پھر ووٹ کا حق عوام کا ہے، جمہوری ملک میں کسی ادارے اور جماعت کو عوام کی رائے پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم اچھی طرح آزادی کی قیمت اور لاج جانتے ہیں، بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آزادی کے لیے سر کیسے کٹوائے جاتے ہیں، انڈیمان اور مالٹا کے جزیرے کیسے آباد کیے جاتے ہیں۔ ہم نے غلامی کی نہیں، آزادی کی نہر کا پانی پیا ہے۔ ایک مرتبہ پرویزمشرف نے مجھ سے کہا کہ مولانا صاحب آپ کیا کررہے ہیں، تسلیم کرلیں کہ ہم امریکہ کے غلام ہیں، تو میں نے انہیں مخاطب کیاکہ ایک راستہ تمہارے اکابر اور اسلاف کا تھا جبکہ ایک راستہ میرے اکابر اور اسلاف کا ہے۔ تمہیں اپنا اور مجھے اپنا راستہ مبارک ہو۔ میرا راستہ غلامی کے خلاف لڑنے کا ہے۔ ہم آئین کا احترام اور پاس داری کرتے ہیں، بلکہ پارلیمنٹ میں مَیں خود رکن منتخب ہونے کے بعد متعدد بار آئین کی وفاداری کا حلف اٹھا چکا ہوں۔ یہ حلف اس لیے نہیں اٹھایا کہ ایک بیرونی ایجنٹ، ان کا لاڈلا ووٹ چوری کرکے ہم پر حکومت کرے، ہم ایسے گماشتوں کی حکومت قبول کرنے کے لیے نہیں آئے، موجودہ حکمرانوں کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں، ہم نے انگریز کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کیا، اُن کے غلاموں ابن غلاموں کے سامنے کیسے سرنگوں ہوں گے! ہم پاکستان میں مضبوط، مستحکم اور جائز نظام کا نفاذ چاہتے ہیں، چوری کا نظام نہیں چاہتے۔ اس بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا احترام چاہتے ہیں جو ہماری طرح آئین کا احترام اور پاسداری کرے۔ ووٹوں کی گنتی بندوق کے ذریعے ہمیں قبول نہیں۔ ہم اداروں سے جنگ کی پالیسی نہیں رکھتے بلکہ چاہتے ہیں کہ تمام ادارے اپنے اپنے آئینی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ مولانا نے موجودہ حکمرانوں کو ایک بار پھر ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں ناجائز، نالائق اور نااہل لوگ حکمرانی کررہے ہیں اسی لیے تو ملک کی معیشت تباہ حال ہے، پاکستانی کرنسی کی ویلیو سب کے سامنے ہے، یہی نہیں بلکہ ملک کے مالی ذخائر کم ترین سطح پر آچکے ہیں، اشیائے خور و نوش کا حصول عوام کے لیے چیلنج بن چکا ہے، اور کمال تو یہ ہے کہ بازار جائیں تو ٹماٹر بھی 300روپے کلو بتایا جاتا ہے، جبکہ مشیر خزانہ ٹماٹر کا 17روپے کلو بتاتا ہے۔ بازار جائیں تو مٹر فی کلو 200 روپے میں ملتا ہے، مگر ایک ٹماٹر نما وزیر اس کی قیمت5 روپے بتاتی ہے۔ ہم اسے قوم کے ساتھ مذاق سمجھتے ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، استاد، حتیٰ کہ جہاز کا عملہ بھی رو رہا ہے کہ ان کا گزارا نہیں ہورہا، ایسے میں عوام کا کیا حال ہوگا! نیازی نے نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا خوشنما نعرہ دیا، لیکن نوکریاں دینا تو درکنار ایک کروڑ برسرِ روزگار لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ لوگ بیرونی دنیا سے پاکستان میں ملازمتیں کرنے کے لیے آئیں گے، لیکن ایسا بھی کچھ نہیں ہوا، ہاں دو لوگ ضرور پاکستان میں آکر ملازمت کرنے لگے ہیں، ان میں ایک اسٹیٹ بینک کا گورنر اور دوسرا ایف بی آر کا چیئرمین ہے۔ موجودہ دور حکومت میں لوگوں کا کاروبار تباہ ہوچکا ہے، کارخانے بند ہوکر رہ گئے ہیں، لو گ بیرونی دنیا میں روزگار کے لیے جارہے ہیں، پیداوار اور مارکیٹ تک رسد نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح کے طرزِ معیشت سے تو سوویت یونین اپنا وجود کھو بیٹھا تھا۔ بتایا جائے کہ موجودہ وزیراعظم بھی گورباچوف بننا چاہتے ہیں؟ لوگ سمجھتے تھے کہ عمران کی حکومت مضبوط ہے کیونکہ اس کے پیچھے عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے، بلکہ کہا جاتا تھا کہ حکمرانوں کی پشت پر فوج کھڑی ہے، کسی میں یہ خوف نکالنے کا حوصلہ نہ تھا، ہم نے اس چیلنج کو قبول کیا اور آزادی مارچ کے ذریعے دنیا پر یہ واضح کیا کہ یہاں اقتدار کا فیصلہ امریکہ اور مغرب نہیں بلکہ ملک کے عوام کریں گے۔ آزادی مارچ نے قوم کو نئی امید، حوصلہ، جرأت اور زبان دی۔ عوام کے حقوق کی یہ جنگ جاری رہے گی، ہم اس ملک کو متحد رکھیںگے۔ اس وقت ملک کے کسی بھی صوبے کے عوام مطمئن نہیں۔ آزادی مارچ کے شرکاء پنجاب، سندھ میں داخل ہوئے تو ہمارا فقیدالمثال استقبال کیا گیا، بلکہ انٹرچینج پشاور سے جو جلوس نکل رہا تھا اس کا دوسرا سرا اسلام آباد میں تھا۔ عوام کے اس سمندر کو تاریخ میں لکھا جائے گا۔ کچھ ایجنٹ ضرور بولیںگے کہ آزادی مارچ میں چند ہزار لوگ جن کا تعلق کچھ اضلاع سے تھا، شامل تھے۔ اس دن بھی ایک آدمی کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ میں تین اضلاع کے لوگ شامل تھے۔ ایسے اندھے اپنی آنکھوں کا علاج کرائیں۔ ہم پُرعزم ہیں بلکہ تمام جماعتیں اس بات کا فیصلہ کرچکی ہیں کہ عمران مستعفی ہو، موجودہ اسمبلیوں کو ختم کرکے نئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے جن میں فوج کی مداخلت نہ ہو۔ اس کے علاوہ آئین کی تمام اسلامی دفعات کے تحفظ پر بھی ملک بھر کی جماعتیں متفق ہیں، ہم اس سلسلے میں تمام تر سازشوں کو ناکام بنائیں گے، پاکستان اور عوام کا مستقبل بھی روشن ہوگا۔
اپنے خطاب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئین میں واضح ہے کہ تمام ادارے پارلیمنٹ کے ماتحت ہیں، مقتدر ادارے جتنے بھی طاقتور ہوں انہیں ملکی سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان معدنی وسائل سے مالامال ہے، بیرونی قوتیں ملکی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ اپنے مہروں سے کام لے رہی ہیں، لیکن ہم واضح کردیں کہ ہم پشتون عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ پاکستان میں سلیکٹڈ وزیراعظم کی حکو مت ہے۔ چین، امریکہ، روس سمیت تمام ممالک پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چور حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کا صوبائی معدنی دولت کا منصوبہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ ہمیں کسی خیرات کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگر یہاں کے وسائل کسی کو چاہئیں تو ہمار ے ساتھ آکر معاہدہ کرے۔ اس سلیکٹڈ حکومت کا کوئی معاہدہ قبول نہیں کریں گے۔ سازش کے تحت پشتون قوم کو تباہی کے دہانے پر لے جایا جارہا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ افغانستان میں دراندازی کے لیے دنیا بھر کے جنگجوئوں کو اکٹھا کیا گیا، اور آج اس کا حال سب کے سامنے ہے، اور اس کے اثرات یہاں پر بھی پڑے ہیں۔ میں اپنی جماعت اور تمام کارکنوں کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کی جلسے میں آمد پر ان کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ دونوں جماعتوں کے کارکن جس طرح آج اکٹھے ہوئے ہیں اور تکبیر کے نعرے لگا رہے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو بھی ایسی تربیت دینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت سب سے زیادہ ہے، اس کے بغیر کوئی طاقت نہیں ہے، پشتونوں کے حقوق شریعت سے بھی واضح ہیں جن کے اپنی سرزمین پر تمام وسائل پر حقوق ہیں۔ 40 سالہ جنگ میں افغانستان کے اندر عیسائیوں، یہودیوں، مسلمانوں سب نے وہاںکے عوام کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں، ہماری قوم کی نسل کشی و برباری آج بھی جاری ہے، ہماری سرزمین وسائل سے مالامال ہے، اس پر بیرونی قوتیں قابض ہونا چاہتی ہیں۔ یہ کسی کی میراث نہیں ہے۔ دنیائے کفر اور اسلامی قوتیں ہمیں جو خیرات دیتی ہیں وہ ہمیں نہیں چاہیے۔ یہاں سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچ اپنی سرزمین پر آباد ہیں جن کے وسائل پر ان کا حق ہے۔ جنگ میں کے پی کے میں ہزاروں لوگ مرے ہیں۔ ازبک، تاجک کوکوئی نہیں جانتا تھا، انہیں یہاں لایا گیا، اب یہ پشتونوں سے تنگ ہیں۔ اس ملک میں ایک آئین ہے، سب کچھ اس میں لکھا گیا ہے۔ پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہے، ہمیں سیاست میں مداخلت برداشت نہیں ہے، لیکن یہاں جو وفاداری بدلتا ہے وہ وفادار، اور جو نہ بدلے غدار کہلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین میں کے جی بی والا تجربہ ناکام ہوگیا جس سے گزرکر وزیراعظم بنتا تھا۔ سوویت یونین کے پاس اس قدر ایٹمی ہتھیار ہیں کہ وہ دنیا کو دو مرتبہ تباہ کرسکتا ہے لیکن وہاں پر 16ملک آزاد ہوئے۔ ہم اس وطن کو فروخت کرنے والے نہیں بلکہ اس کا دفاع کرنے والے لوگ ہیں۔ جو اس ملک کے آئین کو مانے گا ہم اُسے سلیوٹ کریں گے۔ اس ملک کے آئین کے مطابق تمام وسائل پر عوام کا حق ہے، ہم امریکہ، روس اور چین سے کہتے ہیں کہ وہ اس نااہل حکومت کے ساتھ معاہدے نہ کریں، انہیں ہمارے عوام کے ساتھ معاہدے کرنے ہوں گے ورنہ انہیں ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ سلیکٹڈ حکومت نے مختصر عرصے میں ہر ایک کو بے روزگار کیا۔ کرپٹ لوگوں کی وفاداریاں بدل کر حکومت میں شامل کیا جارہا ہے۔ اداروں کے کنٹرول کا تجربہ روس میں ناکام ہوچکا ہے۔ اپنے وطن کے حقوق کے لیے عوام متحد ہوکر جدوجہد کریں۔