بھارت کا’’ فسانۂ کشمیر‘‘اور زمینی حقائق

یشونت سنہا کی قیادت میں بھارتی وفد کا دورہ کشمیر،چشم کشا رپورٹ

مودی حکومت کے وزیر داخلہ اور ہندوتوا پالیسی کے اصل حکمت کار امیت شاہ نے پانچ اگست کے بعد بھارتی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں کشمیر میں حالات نارمل ہوجانے کا دعویٰ کیا تھا۔ امیت شاہ نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ کشمیر میں اخبارات چھپ رہے ہیں اور کاروبارِ حیات رواں دواں ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہی کانگریسی لیڈر غلام نبی آزاد اور اپوزیشن کے دوسرے ارکان نے امیت شاہ کے اس دعوے کو پوری قوت سے جھٹلایا تھا۔ غلام نبی آزاد کی بات میں اس لحاظ سے وزن تھا کہ وہ محدود انداز میں ہی سہی، بچشمِ خود وادی کے حالات کا مشاہدہ کرچکے تھے، مگر اس کے باوجود مودی حکومت ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگائے رہی۔ امیت شاہ نے کشمیر میں نارملسی کی جو فرضی منظرکشی کی تھی اُسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ وہ کسی دوسرے سیارے کے کشمیر کی بات کررہے ہیں جہاں اخبارات چھپ رہے ہیں، لوگ آزادانہ نقل و حمل جاری رکھے ہوئے ہیں، بازار کھلے ہیں اور دفاتر میں کام ہورہا ہے، کشمیر کا چاول اور پھل آزادانہ طریقے سے بھارت کی منڈیوں میں پہنچ رہے ہیں اور تعلیمی ادارے پوری طرح آباد ہیں۔ امیت شاہ کی یہ منظرکشی محض تصوراتی عیاشی کے زمرے میں آتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں سے پوچھا گیا: اگر کشمیر میں نارملسی ہے تو تین سابق وزرائے اعلیٰ قید میں کیوں ہیں؟ بھارتی ارکانِ پارلیمنٹ کو وادی میں جانے کی اجازت کیوں نہیں؟ ان سوالوں کا مودی حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جبکہ بھارت کا ’’فسانۂ کشمیر‘‘ حقیقت کے ترازو میں تُل کر اب پوری طرح عالمی سطح پر بے نقاب ہوچکا ہے۔ بھارت نے یورپی پارلیمنٹ کے جن ارکان کو بہلا پھسلا کر کشمیر لاکر نارملسی کا تاثر دینے کی کوشش کی تھی، واپس جاکر وہ بھی بھارت کی حمایت میں دوبول نہیں بول سکے۔
وادی میں انٹرنیٹ کی بندش اور مواصلاتی نظام پر طرح طرح کی پابندیاں برقرار ہیں، گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، اور لوگ سول نافرمانی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کے مصداق کشمیر کے حالات کی اصلی اور سچی تصویر بھی خود بھارت کی سول سوسائٹی ہی دنیا کے سامنے پیش کررہی ہے۔ بھارت کی حکومت کشمیر میں حالات کو سو پردوں کے پیچھے اور قالینوں کے نیچے دباکر دنیا کو اس سے جس قدر بے خبر اور بے گانہ رکھنا چاہتی ہے، اسی رفتار وانداز سے کشمیر کی اندرونی اور صاف تصویر دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ یوں بھارت کا جھوٹ خود اپنے ہی لوگوں کے ذریعے بے نقاب ہورہا ہے۔ بھارت کے سابق وزیر یشونت سنہا کی قیادت میں سول سوسائٹی کے چار رکنی وفد نے کشمیر میں کیا دیکھا؟ اور کیا محسوس کیا؟ وہ بلا کم وکاست بیان کررہے ہیں۔
بھارت کی سول سوسائٹی کی تنظیم کنسرنڈ سٹیزنز گروپ نے تین دوسرے ارکان کے ہمراہ یشونت سنہا کی قیادت میں وادی کشمیر کا چار روزہ دورہ کیا۔ وفد کو پہلے تو بہت رد وکد اور ناگواری کے ساتھ دورے کی اجازت ملی۔ اس اجازت کی وجہ بھی یورپی پارلیمنٹ کو دھوکا دہی سے کرایا جانے والا دورۂ کشمیر بنا تھا، کیونکہ اس دورے کے بعد بھارت میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ خود اپنے ارکانِ پارلیمنٹ کو تو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں مگر یورپی ارکانِ پارلیمنٹ کو دورہ کرایا گیا، اور یوں اس تضاد سے بھارت کی خودمختاری کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کردیا گیا۔ اس اعتراض کے بعد ہی بھارتی حکومت یشونت سنہا کو وادی کے دورے کی اجازت دینے پر مجبور ہوئی۔ یہ دورہ بھارتی وزیر داخلہ کے پارلیمنٹ میں کیے گئے دعوے کو ناپنے کا بیرومیٹر بنا جس میں انہوں نے کشمیر کی صورت حال کو ’’نارمل‘‘ قرار دیا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ وفد کے ارکان نے قدم قدم پر حالات کی اسی ’’نارملسی‘‘کے دعوے کو جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی، مگر وہ درجنوں افراد سے ملاقاتوں اور بند بازاروں اور چہروں پر خوف کے تاثرات کو پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ کشمیر جس صورتِ حال سے گزر رہا ہے وہ قطعی نارمل نہیں، اور اگر بھارتی حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو صورتِ حال نہ صرف یہ کہ تبدیل نہیں ہوگی بلکہ مزید بگاڑ کی طرف چلی جائے گی۔ یشونت سنہاکے وفد کو اس بنا پر سری نگر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی کہ اُن پر عسکریت پسندوں کے حملے کا خدشہ ہے۔ یشونت سنہا نے اس دعوے کا مذاق یہ کہہ کر اُڑایا کہ وہ عسکریت کے عروج کے زمانے میں بھی کشمیر آیا کرتے تھے اور یہاں وہ قصبوں اور شہروں میں گھومتے اور لوگوں سے ملتے تھے۔ اُس وقت حملے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا، مگر اب جبکہ مودی حکومت نے اس دعوے کے ساتھ کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کیا کہ یہ عسکریت کے فروغ کی وجہ تھا تو تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ہمیں عسکری حملے سے ڈرایا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دفعہ370کے خاتمے کے باوجود عسکریت ختم نہیں ہوئی۔ حکومت کا پہلا مؤقف درست ہے یا دوسری بات صحیح ہے؟ وفد کو سابق وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اور یشونت سنہا نے اُن سے صرف ٹیلی فون پر بات کی۔ فاروق عبداللہ کی ہمشیرہ بیگم خالدہ شاہ اور بھائی مصطفیٰ کمال نے وفد سے ملاقات کی۔ چار روزہ دورے کے اختتام پر یشونت سنہا نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا، اور اس پریس کانفرنس کا ایک ایک حرف نارملسی کے دعووں کا مذاق اُڑا رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سری نگر میں بازار بند دیکھے اور لوگوں کا اقتصادی نقصان ہوتے دیکھا، یہ ہرگز حالات کے نارمل ہونے کا انداز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے باشندوں کو بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کا یقین نہیں تھا، مگر بھارت نے یہ فیصلہ کیا تو لوگ سکتے میں آگئے اور اب یہ سکتہ رفتہ رفتہ خوف میں ڈھل رہا ہے۔ خوف اس قدر ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے آتے تھے وہ اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے تھے، کہ ان کا خیال تھا کہ پتا نہیں دوبارہ انہیں یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ حتیٰ کہ جو لوگ ہم سے ملنے ہوٹل آنا چاہتے تھے انہیں بھی سیکورٹی اہلکار ڈرا دھمکا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کشمیر کے مختلف علاقوں کی طرف جانے سے روکنا ایک سوچی سمجھی چال تھی اور اس کا مقصد وفد کو زمینی حقائق سے دور رکھنا تھا۔
بھارتی وفد کی یہ رپورٹ چشم کشا ہے کہ کس طرح بھارت نے 80 لاکھ آبادی کو اپنی مٹھی میں بند کررکھا ہے۔ جدید دنیا میں اس قدر بڑی آبادی کے محاصر ے کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اب حکومتِ پاکستان کو اس رپورٹ کو عالمی اداروں میں اپنے مؤقف کی حمایت میں پیش کرتے ہوئے سفارتی مہم کو جارحانہ اور بامقصد بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔