افغانستان کے الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ جب تک صدارتی انتخابات کے ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوجاتی اُس وقت تک ابتدائی نتائج کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان عبدالعزیز ابراہیمی نے ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ 23 صوبوں میں صدارتی انتخابات کے ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے جبکہ چارصوبوں میں اب بھی جاری ہے، تاہم بعض امیدواروں کے حامیوں کے اعتراض کی بنا پر سات صوبوں میں ووٹوں کی گنتی روک دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں دوبار کے التوا کے بعد 28 ستمبر کو ہونے والے چوتھے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان تکنیکی مسائل کی بنا پر اب تک تین بار ملتوی کیا جا چکا ہے۔ شروع میں کہا گیا تھا کہ ابتدائی نتائج کا اعلان 19اکتوبر کوکیا جائے گا، جب کہ بعد میں بعض تکنیکی وجوہات سامنے آنے کے بعدکہا گیا تھا کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان 14نومبر کوکردیا جائے گا۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے رکن مولانا عبداللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزاد الیکشن کمیشن نتائج کے بروقت اجراء کے لیے ہر ممکن کوششیں کررہا ہے۔ تاہم اب ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ صدارت کے سب سے مضبوط امیدوار اور سابق اتحادی حکومت میں چیف ایگزیکٹو رہنے والے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ووٹوں کی گنتی پر بعض ایسے اعتراضات اٹھائے ہیں جن کا جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 28 ستمبر کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں 96 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے ابتدائی اعداد وشمار کے مطابق تقریباً26 لاکھ، اور تازہ اعداد وشمار کے مطابق 18 لاکھ سے بھی کم ووٹرز نے حصہ لیا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ دونوں اپنی کامیابی کے حوالے سے خاصے پُرامید ہیں اور دراصل ان کی یہ پیشگی امید ہی نہ صرف الیکشن کے نتائج کو مشکوک بنارہی ہے بلکہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے ان دونوں طاقتور امیدواران کے درمیان 2014ء کے انتخابی نتائج کی طرح پیدا ہونے والے تعطل کے خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات کا یہ پہلو بھی پہلی دفعہ کھل کر دنیا کے سامنے آچکا ہے کہ موجودہ امریکی پروردہ افغان حکومت جو خود کو مغربی دنیا کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر ظاہر کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتی، کی تمام تر کوشش کے باوجود حالیہ انتخابات میں کسی بھی خاتون امیدوار نے حصہ نہیں لیا۔ یوں تو افغانستان کے سیاسی اور امن عمل میں پہلی دفعہ خواتین آگے آنا شروع ہوئی ہیں، لیکن اِس بار صدارتی امیدواروں میں کوئی بھی خاتون شامل نہیں ہے۔ اس انتخاب میں مرکزی امیدواروں میں افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ تھے، جبکہ سابق جنگجوکمانڈروں اور سابقہ کمیونسٹ حکومت کے ارکان سمیت اٹھارہ افراد ابتدا میں الیکشن لڑنے کے لیے سامنے آئے تھے، لیکن بعد میں ان میں سے پانچ افراد دست بردار ہوگئے تھے۔
چوتھے صدارتی انتخابات میں ووٹرز میں جوش و جذبے کی کمی کی وجہ ملک میں گزشتہ تین انتخابات کے برعکس امن وامان کی سنگین صورت حال کو قراردیا جاتا رہا ہے، جب کہ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اِس مرتبہ بھی چونکہ صدارت کے لیے ان ہی دو امیدواروں میں مقابلہ تھا جنھوں نے 2014ء کے انتخابات میں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کے لیے نہ صرف مقابلہ کیا تھا بلکہ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی اور نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں سنگین بحران پیدا ہوگیا تھا۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ افغانستان کے حالیہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح ملک میں2001ء میں طالبان دورِ حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک ہونے والے چار صدارتی انتخابات میں سب سے کم رہی ہے۔
2004ء میں افغانستان میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 70 فیصد تھی، 2009ء میں اس میں ایک تہائی کمی ہوئی، جبکہ 2014ء میں یہ پھر بڑھ کر دگنی ہوگئی تھی۔ صدارتی انتخابات میں ووٹروں کی تعداد میں کمی کی وجہ ملک میں سلامتی اور تحفظ کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ امر پیش نظر رہے کہ طالبان نے انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی جس کے پیشِ نظر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور 70 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کو ملک کے طول وعرض میں تعینات کیا گیا تھا، تاہم اس کے باوجود پولنگ اسٹیشنوں پر بم اور مارٹر حملوں میں الیکشن کے دن کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوگئے تھے۔ ووٹوں کی کم شرح کے بارے میں مبصرین کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کے مسائل، بائیو میٹرک مشین کا استعمال اور پولنگ اسٹیشنوں میں خواتین کارکنوں کی کمی کے علاوہ لوگوں کا موجودہ سیٹ اَپ پر عدم اعتماد وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث اِس بار عام لوگوں نے الیکشن کے عمل میں زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسی طرح ووٹر کی تصویر اتارنے کو لازم قرار دینے سے بھی خواتین کی بڑی تعداد کو مسئلہ پیش آیا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ووٹنگ کے دوران ان کی تصویر اتاری جائے۔ ویسے بھی افغانستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کی محض ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی تصاویر اتارنے پر آمادگی یقیناً ایک مشکل مرحلہ تھا۔ خواتین کے نزدیک ایک اور مسئلہ پولنگ اسٹیشنوں میں خواتین عملے کی کمی بھی تھی جس کی وجہ سے کئی خواتین اپنی رائے دینے پولنگ اسٹیشن نہیں آئیں۔ البتہ کچھ خواتین ایسی بھی تھیں جو خطرات کے باوجود ووٹ ڈالنے آئیں، ایسی خواتین کی اکثریت کا تعلق کابل جیسے ماڈرن شہروں سے تھا۔
انتخابات سے قبل عمومی تاثر یہ تھا کہ الیکشن کے دوران ماحول صحیح نہیں رہے گا، کیونکہ طالبان نے لوگوں کو دھمکیاں دی تھیں کہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ الیکشن سے قبل ان خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر دھماکے ہوں گے، لیکن توقع کے برخلاف انتخابات پُرامن ماحول میں ہوئے سوائے کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے، جہاں کچھ واقعات پیش آئے اور کچھ جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ افغانستان کے جدید جمہوریت نواز حلقوں کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابات کے دوران اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرکے افغانستان کے لوگوں نے دنیا بالخصوص جمہوریت مخالف عناصر پر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنا قانونی حق اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ وہ جمہوریت کے دفاع کے لیے ہمیشہ کھڑے رہیں گے اور اس سلسلے میں کسی دبائو اور دھمکی کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔
ویسے یہ بات حیران کن ہے کہ حالیہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سخت دھمکیوں کے باوجود طالبان اپنی ان دھمکیوں کو بڑے پیمانے پر عملی جامہ پہنانے میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آئے جس کے متعلق مختلف تاویلات پیش کی جاتی رہی ہیں، اس ضمن میں طالبان کے حمایت یافتہ حلقوں کا کہنا ہے کہ طالبان چونکہ سول آبادی اور عام لوگوں کو نشانہ بنانے کے حق میں نہیں ہیں اور انہوں نے الیکشن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کا پروپیگنڈا محض لوگوں کو پولنگ کے عمل سے دور رکھنے کے لیے کیا تھا جس میں وہ ووٹوں کی کم شرح کی پولنگ کی صورت میں کامیاب رہے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب جمہوریت نواز حلقوں کا دعویٰ ہے کہ لوگوں نے طالبان کی دھمکیوں کا زیادہ اثر نہیں لیا۔ ووٹوں کی شرح میں کمی کی وجہ پولنگ سسٹم میں پائی جانے والی خامیاں اور عام لوگوں کا اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی کارکردگی پرعدم اعتماد ہے۔
پورے افغانستان سمیت سارے خطے، حتیٰ کہ مغربی حلقوں میں اس وقت سب سے اہم سوال یہ زیرگردش ہے کہ 28 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کا نتیجہ کس صورت میں سامنے آئے گا؟ کیونکہ اشرف غنی کے سب سے مضبوط حریف ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کے نمائندوں نے ملک کے بعض شمالی صوبوں میں نہ صرف جاری گنتی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ کُل پول شدہ ووٹوں میں کم از کم 3 لاکھ ووٹ ایسے ہیں جو الیکشن سے پہلے یا پھر الیکشن کے بعد پول کیے گئے ہیں جس سے الیکشن کا پورا عمل ایک شدید قضیے اور بحران کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کی جانب سے بعض علاقوں میں الیکشن دفاتر کے گھیرائو کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ شاید اس صورت حال کی سنگینی کا احساس کرنے کی وجہ ہی سے صدر ٹرمپ کو اشرف غنی کو فون کرکے صورت حال کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچنے سے روکنے کے لیے 25 منٹ تک ٹیلی فون پر گفتگوکرنی پڑی ہے۔ اشرف غنی نے اس نازک موقع پر صدر ٹرمپ کی کال کے ذریعے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی ہے گویا الیکشن کے نتائج کے سلسلے میں امریکہ ان کی حمایت کررہا ہے، جس پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے حامیوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر انتخابی نتائج ان کی توقعات کے برعکس آئے تو ان نتائج کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ جس پر تجزیہ کار ایک بار پھر ان خدشات کا اظہارکررہے ہیں کہ اگرمعاملات کو اس مرحلے پر کنٹرول نہ کیا گیا تو بعد میں انتخابی دھاندلی کے ایشو پر اپوزیشن جماعتوں کے کسی بھی حد تک جانے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ بعض غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کے دبائو ڈالنے کا مقصد جہاں اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرنا ہے وہیں وہ اپنے اس سیاسی حربے کے ذریعے اپنے امیدوار کو پہلے مرحلے کے الیکشن میں ہار کی صورت میں ناک آئوٹ ہونے سے بچانے کے لیے رن آف کے دوسرے مرحلے میں لے جانے کی سیاسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ واضح رہے کہ اگر اس پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکا تو پھر پہلے مرحلے میں اوّل اور دوم آنے والے پہلے دو امیدواران کے درمیان 2014ء کے انتخابات کی طرح رن آف الیکشن ہوگا، لہٰذا عمومی تاثر یہی ہے کہ پہلے مرحلے میں ناکامی کے خوف سے عبداللہ عبداللہ رن آف الیکشن میں جانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں، اور ان کے بائیکاٹ اور الیکشن کمیشن پر دبائو ڈالنے کا اصل پس منظر بھی ان کی اس حکمت عملی کو قرار دیا جارہا ہے۔ لہٰذا چند دنوں میں اس حوالے سے ساری صورت حال ازخود ہی کھل کر سامنے آجائے گی۔