پروفیسر اطہر صدیقی
کارل ایک کم گو، مسکین مزاج انسان تھا۔ وہ بات بھی زیادہ نہیں کرتا تھا، لیکن جب کبھی وہ آپ سے ملتا تھا تو ایک بڑی مسکراہٹ کے ساتھ اور گرم جوشی سے ہاتھ ملاتا تھا۔ ہمارے پڑوس میں پچھلے پچاس برس سے مقیم رہنے کے باوجود کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اس کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے وہ ہر صبح بس پکڑ کر اپنے کام پر جاتا تھا۔ اس کو اکیلے سڑک پر جاتے دیکھ کر ہم لوگوں کو اکثر تشویش بھی رہتی تھی۔ سڑک پر چلتے میں اس کی ایک ٹانگ میں دوسری جنگِ عظیم میں گولی لگ جانے کی وجہ سے لنگ نظر آتا تھا۔
اسے دیکھ کر ہم لوگوں کو اکثر خیال آتا تھا کہ اس نے دوسری جنگِ عظیم تو جھیل لی اور اس سے گزر بھی گیا تھا، لیکن آج کے بدلتے حالات میں ہمارے شہر اور خاص طور سے ہمارے علاقے میں جو روزانہ بڑھتے جرائم اور نشیلی دوائوں کا استعمال ہورہا ہے، بدمعاشی اور غنڈہ گردی کرنے والے لوگ آپس میں لڑ کر ماحول کو سنگین بناتے جارہے ہیں، اس میں وہ اکیلا کیسے گزر کر پائے گا۔
جب علاقے کے چرچ نے ایک اشتہار کے ذریعے گرجا گھر کے باغ اور پیچھے پادری کے مکان کے باغیچے کی دیکھ بھال کرنے کی رضاکارانہ طور پر ضرورت کا اعلان کیا تو کارل نے بغیر کسی دکھاوے کے سادگی سے اپنی خدمات پیش کردیں۔ اُس وقت اس کی عمر ستاسی برس تھی جب اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جس کا ہم لوگوں کو ہمیشہ سے خدشہ تھا۔
وہ اس وقت پودوں کو پانی دے کر دن بھر کے کام سے فارغ ہوکر جانے ہی والا تھا کہ ایک گروہ کے تین غنڈوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ان لوگوں کے جارحانہ رویّے کو نظرانداز کرتے ہوئے کارل نے ان لوگوں سے پوچھا: ’’کیا آپ لوگ ہوز سے پانی پینا چاہیں گے؟‘‘ ان تینوں غنڈوں میں سے سب سے لمبے اور اڑیل نظر آنے والے نے کہا ’’ہاں، کیوں نہیں‘‘۔ ذرا ملائمت سے مسکراتے ہوئے کارل کو ہوز اس کی طرف بڑھاتے ہوئے دیکھا، باقی دو نے اس کی کہنی کو زور سے پکڑا اور کارل کو زمین پر پٹخ دیا۔ ہوز ہاتھ سے چھوٹ گیا اور پانی کے پریشر سے سانپ کی طرح لہراتا ہوا اپنے راستے کی ہر چیز کو بھگوتا گیا۔ کارل پر حملہ کرنے والوں نے اس کی ریٹائرمنٹ پر ملی گھڑی اتروائی اور بٹوہ لے کر چمپت ہوگئے۔
کارل نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اسے اس کی خراب یعنی لنگڑی ٹانگ پر گرایا گیا تھا اس لیے وہ خود سے اٹھ نہیں سکتا تھا۔ وہ وہاں پڑا رہا جب تک کہ گرجا کا پادری دوڑتا ہوا اس کی مدد کو نہ آگیا۔ حالانکہ پادری نے سارا واقعہ کھڑکی سے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، لیکن وہ تیزی سے اس کی مدد کو نہیں پہنچ پایا کہ ان بدمعاشوں کو روک سکتا۔ پادری نے کارل کو اس کے پیروں پر سیدھا کھڑا کرتے وقت کئی بار پوچھا ’’کارل، کیا تم ٹھیک ہو، تمہیں کہیں چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ کارل نے صرف اپنے ہاتھ سے اپنا ماتھا پونچھا، لمبی سانس لی اور سر ہلاکر گویا ہوا ’’بس کچھ بدمعاش لڑکے تھے، مجھے امید ہے کہ ایک دن کچھ عقل آئے گی تو سدھر جائیں گے‘‘۔ اس کے گیلے کپڑے اس کے منحنی جسم سے چپٹ گئے تھے، جب وہ ہوز اٹھانے کے لیے جھکا۔ اس نے ہوز کے نوزل کو کھولا اور پھر سے پانی دینا شروع کردیا۔ کچھ گھبراہٹ اور فکرمندی کے ساتھ پادری نے پوچھا ’’کارل تم کیا کررہے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’مجھے اپنا پانی دینے کا کام تو ختم کرنا ہی ہے، آج کل سوکھا زیادہ ہی پڑ رہا ہے‘‘۔ پادری مطمئن ہوگیا کہ کارل کو کچھ نہیں ہوا ہے اور وہ ٹھیک ہے، لیکن متعجب ضرور تھا۔ کارل کسی اور وقت اور زمانے کا انسان تھا۔
چند ہفتے بعد وہ تینوں غنڈے پھر لوٹ آئے۔ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی ان کی دھمکی کا جواب نہیں دیا گیا۔ کارل نے انہیں پھر ہوز سے پانی پینے کی پیش کش کی۔ اس مرتبہ انہوں نے اس کی کوئی چیز نہیں چرائی۔ اب کی بار اس کے ہاتھ سے ہوز چھین کر اسے سر سے پیر تک برفیلے پانی سے خوب بھگودیا۔ جب وہ اس کی بے حرمتی کرچکے تو وہ سڑک کی طرف چل دیئے آپس میں ہنستے ہوئے، آوازیں لگاتے ہوئے، ایک دوسرے پر گرتے پڑتے، اس کا مذاق بناتے ہوئے، اور ابھی جو کچھ انہوں نے کیا اس پر خوش ہوتے ہوئے۔ کارل بس ان کو دیکھتا رہا۔ مڑ کر سورج کی طرف رخ کیا تاکہ کچھ گرمی حاصل ہوسکے اور اپنا پانی دینے کا کام جاری رکھا۔
گرمی خاتمے پر تھی اور سردی کی آمد تھی۔ کارل مٹی کی چھان بین میں مشغول تھا جب کسی کے اپنے پیچھے یکایک آجانے سے وہ چونک سا گیا تھا۔ اس نے ٹھوکر کھائی اور سدا بہار سرسبز جھاڑیوں میںگر گیا۔ وہ اپنے پیروں پر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا تھا کہ اس نے مڑ کر دیکھا وہ تینوں بدمعاش جو گرمیوں میں اسے ستانے آئے تھے، اُن میں سے لمبا والا نوجوان جو غنڈوں کا لیڈر تھا، شاید اس پر حملہ کرے۔ اس نے اپنے آپ کو تیار کرلیا۔
’’گھبرائو مت بڑے میاں، میں اس دفعہ تمہیں ستانے نہیں آیا‘‘۔ وہ نوجوان اِس مرتبہ نرمی سے بات کررہا تھا اور کارل کو اٹھنے میں مدد دینے کے لیے اس نے اپنا ٹیٹو سے بھرا ہاتھ کارل کی طرف بڑھایا۔ اس نے کارل کی اٹھنے میں مدد کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک مڑا تڑا بیگ نکالا اور کارل کو دیا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ کارل نے پوچھا۔ ’’یہ تمہاری امانت ہے‘‘ اس شخص نے بتایا۔ ’’بٹوے میں تمہارے پیسے بھی ہیں‘‘۔
’’میں کچھ سمجھا نہیں‘‘ کارل نے کہا۔ ’’تم اب میری مدد کیوں کررہے ہو؟‘‘
اس آدمی نے اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا، اور کچھ خفت محسوس کرتے ہوئے شرمندگی کے اظہار کے ساتھ کہا ’’میں نے تم سے کچھ سیکھا ہے‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں ان غنڈوں کے گینگ کے ساتھ رہتا تھا اور تم جیسے لوگوں کو ستاتا تھا۔ ہم نے تم کو چنا تھا کیوں کہ تم بوڑھے تھے اور ہم جانتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ کچھ بھی کرسکتے تھے۔ لیکن ہر مرتبہ جب ہم آئے اور تمہارے ساتھ برا برتائو کیا، تم نے بجائے چیخنے، چلّانے، شور مچانے یا لڑنے کے، ہمیں پینے کے لیے پانی پیش کیا۔ تم نے ہم سے نفرت کا اظہار نہیں کیا ہمارے نفرت زدہ برتائو کے جواب میں، تم ہماری نفرت کے جواب میں محبت سے ہی پیش آئے‘‘۔ وہ کچھ دیر کے لیے رکا۔ ’’میں تمہاری چیزیں چرا کر رات کو سو نہیں سکا، اس لیے یہ رہیں تمہاری سب چیزیں‘‘۔ وہ ایک اور شرمندگی بھرے لمحے کے لیے رکا، یہ نہ جانتے ہوئے کہ اب اور زیادہ کیا کہے۔ ’’یہ بیگ کی واپسی میرا تمہارا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ ہے کہ تم نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا اور ٹھیک راستے پر چلنا بتایا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ سڑک پر چل دیا۔ کارل نے نہایت احتیاط سے اپنا بٹوہ کھولا اور اپنی ریٹائرمنٹ پر ملی گھڑی نکال کر ہاتھ میں پہن لی، بٹوہ کھول کر اس نے اپنی شادی کا فوٹو چیک کیا۔ ایک لمحے کے لیے اپنی نوجوان بیوی پر نظر ڈالی جو تصویر میں مسکراتی نظر آرہی تھی، اور جو برسوں پہلے اسی طرح مسکراتی رہی تھی۔
ایک سرد دن وہ فوت ہوگیا اس کرسمس کے جاڑوں کے بعد۔ باوجود خراب موسم کے بہت لوگ اس کی تدفین کے وقت موجود تھے۔ خاص طور سے پادری نے دیکھا کہ ایک لمبا نوجوان جس کو وہ پہچانتا نہیں تھا، چرچ سے دور کونے میں خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ پادری نے اپنی تعزیتی تقریر میں کارل کی باغ میں کارکردگی کا زندگی میں ایک اہم سبق کے طور پر ذکر کیا، اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’اپنی کوشش کرنا چاہیے اور اپنے باغ کو جتنا خوب صورت بناسکتے ہیں بنانا چاہیے۔ ہم کبھی کارل کو اور اس کے باغ کو بھلا نہیں سکیں گے‘‘۔اگلا بہار کا موسم آنے پر پھر ایک اشتہار نکالا گیا جس میں لکھا تھا ’’ضرورت ہے کسی کی جو کارل کے باغ کی دیکھ بھال یعنی چرچ کے باغ کی دیکھ بھال کرسکے‘‘۔ بہت دن تک اپنی زندگی میں مشغول چرچ آنے والوں نے اشتہار کا نوٹس بھی نہیں لیا۔ پھر ایک دن پادری کے دفتر کے دروازے پر کسی نے کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھولنے پر پادری نے دیکھا کہ ٹیٹو سے بھرے کھردرے ہاتھوں میں اشتہار پکڑے ایک لمبا سا انسان کھڑا ہے۔ ’’میں سمجھتا ہوں یہ کام میرے لیے مناسب ہے اگر آپ مجھے موقع دیں‘‘۔ نوجوان نے کہا۔ پادری نے اسے پہچان لیا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے کارل کا چوری ہوا بٹوہ، گھڑی وغیرہ لوٹائی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ کارل کی مہربانی نے اس شخص کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ پادری نے اسے باغ کے شیڈ کی چابیاں دیتے ہوئے کہا ’’ہاں ضرور، کارل کے باغ کی حفاظت کرو اور اسے عزت دو‘‘۔ اس آدمی نے کام شروع کردیا اور اگلے کئی برسوں تک پھولوں اور سبزیوں کی دیکھ بھال اسی طرح کی جیسے کارل کیا کرتا تھا۔ اسی زمانے میں وہ کالج بھی جاتا رہا، شادی کرلی، اور معاشرے کا ایک اہم رکن بن گیا۔ لیکن اس نے اپنا وعدہ کارل کی یاد کو زندہ رکھنے میں کبھی نہیں بھلایا، یعنی اس کے باغ کو اتنا ہی خوب صورت بنانے میں جتنا کارل کے زمانے میں ہوتا تھا کبھی لاپروائی نہیں برتی!!
ایک دن وہ نئے پادری کے پاس آیا اور کہاکہ اب وہ چرچ کے باغ کی مزید دیکھ بھال نہیں کرسکے گا۔ اس نے ایک شرمیلی سی خوش گوار مسکراہٹ کے ساتھ بتایا ’’کل رات میری بیوی کے لڑکا ہوا ہے اور وہ سنیچر کے دن اسے گھر لارہی ہے‘‘۔
’’بہت مبارکباد!‘‘ پادری نے کہا، باغ کے شیڈ کی چابیاں لیتے ہوئے ’’یہ تو بہت خوشی کی خبر ہے!! لڑکے کا نام کیا رکھا؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’کارل‘‘۔