علامہ شبلی نعمانی

چمنستانِ دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں، چرخ نادرۂ کار نے کبھی کبھی بزمِ عالم اس سر و ساماں سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوکر رہ گئیں، لیکن آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیرِ کہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کردیے۔ سیارگانِ فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشمِ براہ تھے۔ چرخِ کہن مدت ہائے دراز سے اسی صبحِ جاں نواز کے لیے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا۔ کارکنانِ قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں، ابروباد کی تردستیاں، عالمِ قدس کے انفاسِ پاک، توحیدِ ابراہیم، جمالِ یوسف، معجز طرازیِ موسیٰ، جاں نوازیِ مسیح سب اسی لیے تھے کہ متاع ہائے گراں اور شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کام آئیں گے۔
آج کی صبح وہی صبحِ جاں نواز، وہی ساعت ہمایوں، وہی دورفرخ فال ہے۔ ارباب سِیَر اپنے محدود پیرایہ بیان میں لکھتے ہیں کہ آج کی رات ایوانِ کسریٰ کے 14 کنگرے گر گئے، آتش کدۂ فارس بجھ گیا، دریائے سادہ خشک ہو گیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ نہیں بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ آتشِ فارس نہیں بلکہ جحیم شر، آتش کدہ کفر، آذر کدہ گم راہی سرد ہو کر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی۔ بت کدے خاک میں مل گئے۔ شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا۔ نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔ توحید کا غلغلہ اٹھا۔ چمنستانِ سعادت میں بہار آگئی۔ آفتابِ ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں۔ اخلاقِ انسانی کا آئینہ پرتو قدس سے چمک اٹھا۔ یعنی یتیمِ عبداللہ، جگر گوشہ آمنہ، شاہِ حرم، حکمرانِ عرب، فرماں روائے عالم، شہنشاہِ کونین عالمِ قدس سے عالمِ امکان میں تشریف فرمائے عزت و اجلال ہوا۔
[تعمیر افکار، کراچی۔ مارچ 2010ء، سیرت پارے صفحہ 45]

اِمامت

تُو نے پُوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملّتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے!۔

ملت ِ بیضا: مسلمان قوم۔ سلاطین: سلطان کی جمع، بادشاہ۔ پرستار: پجاری۔
1۔ اے مخاطب! تُو نے مجھ سے پوچھا ہے کہ امامت کی حقیقت بیان کروں۔ سوال کے جواب سے پہلے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا نے جس طرح مجھ پر مختلف چیزوں کے بھید کھول دیے ہیں، اسی طرح یہ بھید تجھ پر بھی کھول دے تاکہ تُو میرے جواب کو سمجھے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔
2۔ تیرے عہد کا سچا امام وہی ہے، جو تجھے موجودہ زمانے کے حالات سے بیزار کردے۔ تیرے دل میں اسلامی ماحول کے لیے عشق و شیفتگی کی ایسی آگ لگا دے کہ تُو موجودہ دور کو بدلے بغیر ایک دم بھی چین نہ لے۔
3۔ وہ امامِ برحق تجھے موت کے آئینے میں محبوبِ حقیقی کا چہرہ دکھا دے اور ایسی لگن لگا دے کہ جینا تیرے لیے اور بھی مشکل ہوجائے۔
4۔ سچے امام کا ایک نشان یہ ہے کہ اے مسلمان! تیرے دل میں اس عظیم الشان نقصان کا احساس پیدا کردے جس کا نشانہ تُو صدیوں سے بنا چلا آرہا ہے۔ نقصان کا احساس ہوجائے تو تیرا لہو گرما جائے گا اور تُو نقصان کی تلافی کے لیے تیار ہوجائے گا۔ امامِ برحق ہی تجھے درویشی کی سان پر چڑھاکر وہ تلوار بنا سکتا ہے، جو باطل کی صفوں کو کاٹ کر رکھ دے۔
گویا سچے امام کی یہ خصوصیتیں ہیں:
٭ مسلمان کے دل میں موجودہ حالات سے بیزاری پیدا کردے۔
٭ اسے شہادت کی موت کا شیدائی بنائے۔
٭ دل میں نقصان کا احساس پیدا کرکے لہو کو گرما دے۔
٭ مسلمان کو درویشی کی سان پر چڑھا کر جوہردار تلوار بنادے۔
5۔ جو شخص مسلمانوں کو بادشاہوں کا پجاری بناتا پھرے، اس کی امامت مسلمان قوم کے لیے ایک فتنہ، ایک مصیبت اور ایک آزمائش ہے۔