نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

ربیع الاوّل وہ ماہِ مقدس ہے جس میں محسنِ انسانیت، رسولِ رحمت، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیؐ اس دنیا میں تشریف لائے۔ جب آپؐ کی تشریف آوری ہوئی یہ دنیا جہالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔ ایک طرف کفر و جہالت کا دور دورہ تھا تو دوسری جانب کون سی معاشرتی، سماجی اور اخلاقی برائی تھی جس میں یہ دنیا مبتلا نہیں تھی! عورت کو بطور انسان قبول کرنے سے انکار کیا جارہا تھا اور اسے اس قدر باعثِ ننگ و عار بنادیا گیا تھا کہ بچیوں کو زندہ درگور کرنا عام معاشرتی چلن ہوگیا تھا۔ شرک اور بت پرستی کے عادی اس معاشرے میں قبائلی عصبیت، ضد اور انا پرستی کا عالم یہ تھا کہ کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا، کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا۔ سود، بددیانتی، بدکاری، بدمعاشی، جوا، جھوٹ، فریب اور شراب نوشی وغیرہ کو برا تک نہ جاناجاتا تھا… اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنا کر ان پر ظلم اور جبر روا رکھنا باعثِ فخر سمجھا جاتا تھا۔ ایسے حد سے گزرے ماحول میں خالقِ کائنات کو اپنی مخلوق پر رحم آ گیا اور پھر اس کا محبوبؐ انسانیت کا نجات دہندہ بن کر مبعوث ہوا:۔

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

نبیِ مکرم، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالق کے عطا کردہ نسخۂ کیمیا کی روشنی میں انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے عظیم کام کا آغاز کیا تو جبر کی قوتیں ہر جانب سے آپؐ کے درپئے آزار ہوگئیں، مگر آپؐ نے ایسی ثابت قدمی سے ان تمام مصائب و آلام کا مقابلہ کیا اور اپنے مشن کی خاطر ایسی استقامت کا مظاہرہ کیا کہ ربع صدی سے بھی کم عرصہ، محض 23 برس کی مدت میں دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ آپؐ نے نہایت مختصر مدت میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ تاریخِ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ کلمۂ حق جس دل میں اترا اُس کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرح کی معاشرتی آلودگیوں میں لتھڑا ہوا ماحول ایسے پاکیزہ معاشرے میں تبدیل ہوگیا اور عرب کے بدو ایسے تہذیب آشنا ہوئے کہ آج کی مہذب ہونے کی دعویدار دنیا اُن کے قدموں کی خاک کو چھونے سے بھی قاصر ہے۔ آپؐ نے ہر طرح کی خرافات اور مسائل و آلام میں الجھی ہوئی دنیا کی گتھیوں کو کچھ اس انداز میں سلجھایا کہ دنیا آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ بقول مولانا ظفر علی خان ؎

جو فلسفیوں سے حل نہ ہوا اور عقدہ وروں سے کھل نہ سکا
وہ راز اک کملی والے نے سمجھا دیا چند اشاروں میں

حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا جس گمبھیر صورتِ حال اور جن لاینحل مسائل سے دوچار ہے اس کا علاج بھی سیرتِ مطہرہ کے مطالعے اور اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے، جسے خود امتِ مسلمہ بھی فراموش کیے ہوئے ہے درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محض محدود مدت اور مخصوص زمانے کے لیے رہبر و رہنما بنا کر نہیں بھیجا تھا، بلکہ ان کی ذاتِ اقدس رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے بہترین نمونہ اور کامل رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ خود خالقِ کائنات نے اپنی کتابِ ہدایت میں انسان کو بتادیا کہ اگر تم فلاح و کامیابی کے طلب گار ہو تو ’’بے شک تمہارے لیے رسول ؐ اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ ہماری بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ہم دنیا کے ہر ایرے غیرے کی پیروی پر تیار ہیں، مگر حیاتِ طیبہ کے مطالعے اور اسوۂ حسنہ کی پیروی پر آمادہ نہیں، جس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔
انسانیت آج امن و سکون سے عاری ہوچکی ہے اور غربت و افلاس اور ناانصافی کا شکار ہے۔ بے حیائی اور بے وفائی اس کا شعار بن چکا ہے۔ انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کا دم گھٹ رہا ہے اور انسان ہی انسان کا شکاری بن چکا ہے۔ دنیا کے حالات پکار پکار کر اہلِ دنیا کو اس جانب متوجہ کررہے ہیں کہ تمہیں رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے جن پر عمل پیرا ہوکر آج سے پندرہ صدیاں قبل انسانیت نے فلاح پائی تھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و سلامتی کا جو راستہ دنیا کو دکھایا، امانت و دیانت کا جو سبق پڑھایا، اسراف و تبذیر سے بچاکر اعتدال و میانہ روی سے روشناس کرایا، فحاشی و بے حیائی سے ہٹا کر وقار، متانت اور حیا کی راہ پر لگایا، بدلے اور انتقام کے بجائے عفو و درگزر پر عمل کرکے دکھایا، عبادت ہی نہیں سیاست اور تجارت میں بھی رہنمائی کی، حرام اور حلال میں تمیز کرنا سکھایا، علم و عمل، آسائشِ دنیا اور جہاد کو مومن کی متاع قرار دے کر جہالت اور رہبانیت کی جڑ پر تیشہ چلایا… غرضیکہ ایک فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر قومی اور بین الاقوامی معاملات تک کے ہر ہر شعبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین رہنمائی اور اسوۂ کامل عطا فرمایا۔ آج بھی انسانیت خصوصاً امتِ مسلمہ کے لیے ذلت و خواری، غربت و افلاس، بے وقاری اور زوال و ادبار سے نجات کی واحد صورت اس اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ کاش ہم سمجھ سکیں… علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے؎

وہ دانائے سبل، مولائے کل، ختم الرسل، جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

(حامد ریاض ڈوگر)