اعجاز رحمانی ،دلوں میں عشقِ مصطفےٰؐ کے چراغ روشن کرنے والا شاعر

عطا محمد تبسم
استاد شاعر اعجاز رحمانی، جمعیت الفلاح میں اپنے پرانے دوست خلیفہ انوار احمد کے تعزیتی جلسے میں بہت ٹوٹے ہوئے لگے۔ بیماری اور نقاہت کے باوجود انھوں نے خلیفہ انوار کو منظوم خراجِ عقیدت و محبت پیش کیا۔ اعجاز رحمانی اس دور کا بہت بڑا نام ہے۔ وہ شاعری میں اعلیٰ مقام کے حامل تھے۔ ایک عوامی شاعر، جو ترنم سے جب اپنے اشعار سناتا تو محفل میں سماں بندھ جاتا۔ وہ جلسوں کی رونق اور مشاعروں میں جان ڈال دینے والے تھے۔ ایک غریب پرور شاعر، جو اپنے حال میں مست رہتا۔ دنیا کے دکھ درد اور معاشرے کے تضاد اور ظلم و ستم پر ان کے جذبات اکثر اشعار کا روپ ڈھال لیتے۔ کانوں میں رس گھولتا ترنم اعجاز رحمانی کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ عشقِ نبویﷺسے سرشار تھے۔ نعت پڑھتے تو بے ساختہ اشک رواں ہوجاتے۔ وہ اپنے کام پر فخر نہیں کرتے تھے، بس ہر آن اس کی قبولیت کی دعا کرتے۔ کسی نے پوچھا: ”آپ نے تو ساری زندگی نعت گوئی میں بسر کی، اللہ اس خدمت کا بہترین صلہ دے گا“۔ دونوں ہاتھوں سے خاک اڑاتے ہوئے کہنے لگے: ”اگر خدمت قبول نہیں ہوئی تو پھر یہ ساری نعت گوئی خاک ہے خاک میاں، اسے یوں ہی ہوا میں اُڑا دیا جائے گا، بھئی اصل چیز کام کی قابلیت نہیں بلکہ قبولیت ہے“۔ اعجاز رحمانی نے اسوہ رسولؐ کا پیغام عام کرنے کا پرچم بلند کیا اور یہ کوشش کی کہ پیامِ سرکارؐ جذبہ و احساس کے ایسے کیف آور لَے میں پیش کیا جائے جو دلوں میں عشقِ مصطفےٰؐکے چراغ روشن کردے۔ وہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہیں اور معاشرے کو اسلامی اقدار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے کلام میں خیال کی تابندگی بھی ہے اور فکر کی بلندی بھی، روانی بھی ہے اور سلاست بھی، مترنم لب و لہجے نے ان کی نعت کو پُرتاثیر اور دل آویز بنادیا ہے، خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں: ’’اعجاز رحمانی کی نعتیہ شاعری کا اعجاز یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی اصل غایت کو پیش نظر رکھ کر انسان کی تمدنی زندگی کو اسوہِ رسولؐ کے مطابق بنانے کے لیے اپنی فکری توانائیوں کو الفاظ میں اس طرح ڈھالا ہے کہ شاعری کی مقتضیات بھی پوری ہوں۔‘‘

ہر طرف تیرگی تھی، نہ تھی روشنی
آپؐ آئے تو سب کو ملی روشنی
سوئے عرشِ علیٰ مصطفیٰؐ کا سفر
روشنی کی طلبگار تھی روشنی
ہے وہ خورشیدِ اخلاقِ خیرالبشر
جس سے پاتا ہے ہر آدمی روشنی
خلقتِ اوّلیں خاتم المرسلیں
آپؐ پہلی کرن آخری روشنی
آپؐ کے نقشِ پا سے ضیا بار ہیں
دھوپ، سورج، قمر، چاندنی روشنی
۔۔۔۔۔
آپؐ نے محنت کی عظمت کا لوگوں کو احساس دیا
آپؐ سے پہلے دنیا میں خوشحال کوئی مزدور نہ تھا
یہ آپؐ کا صدقہ ہے جو دنیا میں ہے جاری
تہذیب و تمدن کا سفر، رحمتِ عالمؐ

اعجاز رحمانی 12 فروری 1936ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے، پرائمری اور دینی تعلیم علی گڑھ میں حاصل کرنے کے بعد آپ 1954ء میں پاکستان آگئے تھے۔نعت خواں کی حیثیت سے انہیں نمایاں مقام حاصل رہا، ان کی تصانیف میں ’اعجازِ مصطفی‘،’پہلی کرن آخری روشنی‘(نعتیہ مجموعے)، ’کاغذ کے سفینے‘، ’افکار کی خوشبو‘، ’غبارِ انا‘، ’لہو کا آبشار‘، ’لمحوں کی زنجیر‘(غزلوں کے مجموعے)، ’چراغِ مدحت‘، ’جذبوں کی زبان‘، ’لباسِ غزل، اور ’خوشبو کا سفر‘ سمیت بہت سی تصانیف شامل ہیں۔
پاکستان کے نمائندہ شعراء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے معترف ملک سے باہر بھی بہت ہیں۔ پٹنہ کالج بہار کے صدر شعبہ انگریزی ڈاکٹر عبدالمغنی لکھتے ہیں کہ”اعجاز رحمانی کے کلام میں مسرت اور بصیرت دونوں موجود ہیں۔ ان کے اشعار بہت شستہ اور سلیس ہیں، جن میں کچھ آپ بیتی،کچھ جگ بیتی، اپنی تہذیبی اقدار کااحساس بھی ہے اور زمانے کی دست برد کا بھی۔ یہاںآدابِ محبت بھی ہیں اور اطوارِ سیاست بھی“۔ وہ انھیں ایک کامیاب غزل گو شاعر قرار دیتے ہیں۔قطعہ لکھنا اور روز لکھنا اور حالاتِ حاضرہ پر لکھنا ایک مشکل کام ہے، لیکن اعجاز رحمانی نے اس باب میں بھی کمال پیدا کیا، وہ جسارت میں قطعات لکھتے تھے، اور خوب لکھتے تھے، پروفیسر ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں کہ” اعجاز رحمانی جب جسارت میں قطعات لکھنے لگے تو میں نے سوچا کہ یہ شوق بھی پورا ہوجائے گا۔ لیکن میرے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ وہ برس ہا برس سے قطعات لکھ رہے ہیں۔ ان کے قطعات میں سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ قادر الکلامی کے نشانات موجود ہیں۔ یوں مولانا ظفر علی خان سے ان کی مماثلت اور مستحکم ہوگئی ہے۔“
فنِ عروض پر کامل عبور بھی اعجاز رحمانی کا ایک امتیازی وصف ہے۔ غزل میں کفایت لفظی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ڈاکٹر احمد سجاد رانچی لکھتے ہیں کہ ”اعجاز رحمانی نے چھوٹی چھوٹی بحروں میں سہلِ ممتنع میں کہی غزلوں میں بھی اپنے مافی الضمیر کو جس خوبصورتی کے ساتھ نکیلے انداز میں پیش کیا ہے وہ ان ہی کاحصہ ہے۔ وہ روایت اور جدت کی حسین آمیزش سے اپنے استعارے اور علائم کو مبہم اور گنجلک ہونے سے بچا لیتے ہیں“۔ بہت کم ایسے شعراء ہیں جنہیں حمد ونعت اور غزل میں یکساں عبور ہو۔ ان کا لہجہ اور آہنگ ہر جگہ منفرد ہے۔ منظوم سیرت النبی ؐ کے ساتھ ساتھ انھوں نے خلفائے راشدین کی سیرت کو منظوم کرنےکا کام کیا، برصغیر میں اور اردو کی دنیا میں ان کا یہ کارنامہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ نیا سویرا میں صفی سرحدی ان کے اس کام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”اردو ادب میں دو کام ایسے ہیں جو اعجاز رحمانی کے سوا کسی نے نہیں کیے۔ سیرتِ محمد ؐ پر الطاف حسین حالی نے ”مدو جزر اسلام“ لکھی لیکن وہ اسلام کی تاریخ ہے۔ جبکہ ابوالاثر حفیظ جالندھری نے ”شاہنامہ اسلام“ لکھی۔ وہ بھی تاریخِ اسلام پر ہے۔ ان دونوں میں بھی آنحضرت ؐ کے بارے میں تحریر ہے۔لیکن اعجاز رحمانی کی تصنیف ’’سلامتی کا سفر‘‘ منظوم سیرت نگاری ہے، جس میں پورے عہدِ رسالت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک شاہکار تخلیق ہے جو بعثت سے وصال تک دو حصوں پر مشتمل ہے، جس میں چھ ہزار سے زائد اشعار شامل ہیں۔ پہلے حصے میں قبلِ بعثت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو کر نزولِ رسالت اور اس کا دور شامل ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں مدینے آمد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات، ان کے اخلاق و اوصاف کا بیان اور آپ ؐ کے ارشادات اور آخر میں خلاصہ کلام پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں بے شمار شاعروں نے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام پر منقبتیں کہی ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر نظمیں بھی لکھی ہیں اور بہت سارا کام کیا ہے، لیکن خلفائے راشدین پر کسی نے کام نہیں کیا۔ اعجاز رحمانی کی ایک کتاب ’’عظمتوں کے مینار‘‘ کے نام سے چاروں خلفائے راشدین کے حالات پر مشتمل ہے، جس میں چار سو سے زائد بند شامل ہیں، جو ولادت سے وصال تک پورا کام ہے۔ روانی اور سلاست میں اعجاز رحمانی کا بحیثیت شاعر جواب نہیں۔ غزلیات، حمد و نعت نگاری اور نظموں میں لفظی آہنگ، شعری غنائیت، جذبے کی عقیدت اور سچائی، زبان کی خوبصورتی اور دلکشی اور بحروں کا صحیح استعمال، ان کی شاعرانہ فنکاری سے عبارت ہے۔“
وہ ایک مزدور شاعر تھے، ہر روز مشقت کرتے، کوئی دن گزرتا تھا کہ انھوں نے کوئی غزل یا نظم یا نعت، سلام، منقبت، رباعی، قطعہ نہ کہا ہو۔ انھوں نے محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔ ممتاز ادیب و شاعر جناب طارق رئیس فروغ کے مطابق ”اعجاز رحمانی اردو کے عصرِ حاضر کے ایک ایسے منجھے ہوئے اور ممتاز شاعر ہیں، جو بیشتر اصنافِ سخن میں اپنی حیثیت تسلیم کرا چکے ہیں۔ اعجاز رحمانی بیسویں اور اکیسویں صدی کے اُن شعرائے کرام میں سے ہیں جنھوں نے اپنی نعت و حمد گوئی، غزلیات اور خوش گوئی کی بدولت شہرت پائی۔ مطالعہ، محنت اور تجربے نے ان کے اسلوب میں مزید نکھار پیدا کیا۔ دین سے سچی وابستگی اور عشقِ رسول ؐ کے جذبوں نے ان کے کلام کو پُراثر بنادیا ہے“۔ انھوں نے برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت کئی عذاب جھیلے، اپنی اس بپتا کے بارے میں بتاتے ہیں ”وہ عرصہ میرے لیے کسی قیامتِ صُغریٰ سے کم نہ تھا، مجھے ہر جگہ، ہر پل، ہر موڑ، ہر دیوار، اپنی ذات کے ہر ہر انگ اور روآں روآں میں بے سروسامانی اور بے چارگی نظر آنے لگی تھی، یتیم الطرفین ہونا ایک عذاب، کم سنی دوسرا عذاب اور اس پر مستزاد تقسیم کا عذاب۔ ان داتا خدا نہ ہوتا تو شاید بے چارگی نے ہمیں ہڑپ کرجانا تھا۔ میں جب پاکستان آیا تو صغیر سنی کے باوجود عثمان آباد کی ابراہیم انڈسٹری میں ملازمت اور استاد قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی، دو کام کیے: حلال کمایا اور شاعری کی۔ حالات نے میری تربیت کی“۔ استاد قمر جلالوی کے شاگرد ہوئے، استاد کی سائیکلوں کا پنکچر بنانے کی دکان تھی، اور شاگرد ایک فیکٹری میں مزدور۔ اپنے اُن دنوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے، عدنان کریمی کو ایک بات چیت میں بتایا کہ ”پاکستان چوک میں واقع استاد جلالوی کی پنکچر کی دکان میں گویا ایک قسم کا چھوٹا مشاعرہ ہوا کرتا تھا، ہر وقت شعراء کا آنا جانا لگا رہتا، ہم بھی ایک کونے میں بیٹھے اُن کی باتوں اور شاعری کو کیچ کیا کرتے تھے، استاد اصلاح دیتے اور ہم اُن اصلاحات کو محفوظ کرتے رہتے، میں آج جو کچھ بھی ہوں یہ محض خدا کی عنایت اور استاد کا فیض ہے“۔ اعجاز رحمانی اپنے ماحول اور لوگوں سے گہرا تعلق رکھتے۔ وہ غریب اور کچی بستیوں کے لوگوں سے محبت رکھتے۔ وہ اپنے دل پر بہت سے غم کے سائے لیے ہوئے تھے۔ ان کی پہلی بیوی عرصہ حیات کی قید سے آزاد ہوئیں تو انھوں نے دوسری شادی کی، لیکن ان کے انتقال سے پہلے وہ بھی انھیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”میرا اپنے معاشرے اور ماحول سے گہرا ذہنی اور جذباتی تعلق ہے۔ خیال و خواب کی دنیا میری دنیا نہیں، میری دنیا وہ لوگ ہیں جو میرے اردگرد رہتے ہیں۔ وہ اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔ مگر میں ان سے ایک لمحے کے لیے بھی کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ ان پر جو گزرتی ہے، میں اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ رو رہے ہوں تو میں قہقہے قہقہے نہیں لگا سکتا۔ ان کے دکھ میرے دکھ ہیں“۔ وہ ظلم اور بے انصافی پر کبھی خاموش نہ رہے، وہ بارش کی تباہ کاری کو بھی دیکھتے تو کہہ اٹھتے: ۔

سکون لوٹ لیا ہے تیری نوازش نے
گھروں میں آگ لگا دی ہے اب کے بارش نے
نہ جانے کون سی منزل ہے یہ غم دل کی
ترس گئے ہیں مرے ہونٹ مسکرانے کو

کراچی میں ہونے والے واقعات پر وہ دل گرفتہ ہوکر کہتے ہیں کہ

باز کب آتے ہیں اپنی فتنہ سامانی سے لوگ
گھر پڑوسی کا جلا دیتے ہیں آسانی سے لوگ
سنگِ تعصب، سنگِ ملامت، سنگِ حقارت، سنگِ حسد

کیسے کیسے پتھر میرے شیش محل تک آتے ہیں
دامن میں اپنے فکر کے موتی لیے ہوئے
پہنچے جو ہم تو قیمتِ بازار گر گئی

اعجاز رحمانی صاحب پر حیدر آباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہورہی ہے اور ایم فل کے کئی مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ ہمارے عہد کےاتنے معتبر اور بزرگ شاعر کے ساتھ زیادتی یہ رہی کہ انھیں ان کی زندگی میں حکومت کی جانب سے کسی اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔ سیرت البنیؐ اور سیرت الصحابہ پر ان کے منظوم کلام پر انھیں حکومتی سطح پر پذیرائی ملنی چاہیے تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنے تعلق کو ہمیشہ نمایاں رکھتے تھے۔ اعجاز رحمانی بچوں سے بہت محبت رکھتے تھے۔ بچوں کے ادب پر ان کا کام اس لائق ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔ اعجاز رحمانی کی نعت اور لحن ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ وہ امید کے شاعر تھے، اچھی توقعات رکھتے تھے، ہر آن امید کا دیا

ہوا بجھانا بھی چاہے مگر بجھا نہ سکے
دیا اک ایسا جلا کر منڈیر پر رکھنا