کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب ناگزیر ہے

نعیم قریشی ایڈوکیٹ، سیف الدین ایڈوکیٹ، عائشہ شوکت ایڈوکیٹ، فریدہ حبیب ایڈوکیٹ، محمد عاقل ایڈوکیٹ، جسٹس ارشد حسین خان کا اظہار خیال
ویمن اسلامک لائرز فورم کے زیر اہتمامآٹھویں سالانہ کنونشن ’’کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب ناگزیر ہے‘‘ کا آغاز حافظ محمد خان ایڈوکیٹ نے تلاوت کلام پاک اور ترجمے سے کیا۔ نظامت کے فرائض افشاں سلیم الدین ایڈوکیٹ نے خوبصورتی سے انجام دیے۔ فریدہ حبیب ایڈوکیٹ نے فورم کے تعارف کے ساتھ مہمانوںکو خوش آمدید کہا۔ پہلے مقرر کراچی بار کے صدر نعیم قریشی ایڈوکیٹ نے موثر انداز میں کرپشن کے خاتمے کے لیے بلاامتیاز احتساب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بار نے ہمیشہ آزاد عدلیہ کے لیے جدوجہد کی ہے مگر ہر دور میں نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ سے کام لیا گیا۔ اسلام میں کرپشن کا تصور نہیں، ہم کھانا تو حلال کھاتے ہیں مگر ان پیسوں کے بارے میں نہیں پوچھتے کہ یہ کہاں سے آئے ہیں۔ آج ہمارے ہاں آئین خواص کے لیے اور ہے عوام کے لیے اور، ناقص تفتیش، ناقص پریکٹس کی وجہ سے کیسز کئی کئی سال تک چلتے رہتے ہیں اور انصاف کا خون ہو جاتا ہے۔ ہمیں عدالتوں کو ایسا ماحول دینا ہو گا کہ ججز انصاف کر سکیں، کرپشن کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مجسٹریٹ اور چھوٹے ججز کو بھی مناسب بہتر سہولتیں دینا ہوں گی۔ آج ہماری نچلی عدالتوں میں ہائی کورٹ کا رول کہیں نظر نہیں آتا ایک زمانہ تھا کہ جسٹس نعیم الدین، جسٹس اجمل میاں بغیر پروٹوکول کے دورے کرتے تھے آج بھی ہمارے اعلیٰ ججز کو سرپرائز وزٹ کرنے چاہیں انہوں نے کہا کہ کراچی بار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آج تک یہاں ’’وکلا گردی‘‘ نہیں ہوئی ہمیں نچلی سطح سے بلاامتیاز احتساب کرنا ہو گا جبھی کرپشن کے خاتمے میں کامیابی ہو گی۔
سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ ذاتی طور پر کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اس کے لیے ایک مسلسل نظام کی ضرورت ہے اور ویمن اسلامک لائرز فورم اس کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہے۔ ہمیںقانون میںدیے گئے بڑے لوگوں کا استثنا ختم کرنا ہو گا اور تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو اس کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ حال ہی میںکراچی کے شہری علاقوں میں ناجائز تجاوزات کا خاتمہ شروع ہوا مگر جب معاملہ کنٹونمنٹ حدود میں آیا تو رک گیا۔ افسوس ہے کہ آج ہمارے بڑے بڑے وکلا کی توجہ فیس کی جانب ہوتی ہے۔ انصاف دلانے کی طرف نہیں۔
عائشہ شوکت ایڈوکیٹ نے دس سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فورم نے 2009ء سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ کرنٹ ایشوز پر کانفرنسیں منعقد کیں۔ یوم پاکستان کے موقع پر سیمینار، ملیر بار اور کراچی بار میں سوشل ویلفیئر تنظیموں، نیوز چینل کے ساتھ مذاکرے کیے، 800 جیل وزٹ کیے۔ 2000 ہزار سے زائد کیسز فائل کیے۔ 139 ورکشاپ منعقد کیں۔ 142 طلبہ کو جیل میں تعلیم دی، 20 قیدیوں کی زرضمانت جمع کرائی۔ لوگوںکو روزگار فراہم کیے۔ہمارے ریسرچ ڈپارٹ میں تحقیقی کام جاری رہتا ہے۔ اسمبلی میں پیش ہونے والے بلوں پر بھی ریسرچ کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ہمارا کتابچہ ’’آئین کی اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم سے متعلق اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ تحفظ ختم نبوت پر 600 سے زائد وکلا نے ہماری قرارداد پر دستخط کیے۔ہماری رکن دردانہ ایڈوکیٹ، روبینہ جتوئی ممبر منیجنگ کمیٹی منتخب ہوئیں۔
صدر ہائی کورت بار سندھ محمد عاقل ایڈوکیٹ نے کہا کہ کرپشن کے لیے بلاامتیاز احتساب آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
صدر تقریب جسٹس ارشد حسین خان نے وویمن اسلامک لائرز فورم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج ہمارا معاشرہ بدعنوانی کا شکار ہے جب تک ہم برائی کو ختم کرنے میں کل کر اپنا کردار ادا نہیں کریں گے معاشرہ درست نہیں ہو گا ہم سب کو اب اپنی ذمہ داری سمجھنا ہو گی افسوس کی بات ہے کہ ہم نے اس ضمن مین قوانین بنائے مگر ان پر عمل درآمد نہ کرا سکے۔ جن ممالک نے کرپشن پر قابو پا لیا آج وہ ترقی کر رہے ہیں ہمیں احتساب کے عمل کوتیز اور جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے اور جو بلاامتیاز ہو۔
چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنے تمام کاموں کو شفاف طریقے سے کریں گے اور ہم اس پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن صرف رشوت لینا ہی نہیں ہے بلکہ اقربا پروروی، عدم احتساب، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال یہ بھی کرپشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے ہاں وفاقی، صوبائی محتسب ہے، آڈیٹر جنرل ہے، پبلک اکائونٹس کمیٹی ہے۔ پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات ہیں، الیکشن کمیشن ہے، یہ سب احتساب کے لیے ہیں۔ مگر یہ سب ناکام ہیں اور کرپشن کی گرم بازاری ہے۔ ہم اگر 40فیصد کرپشن پر قابو پالیں تو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جو ادار کرپشن کے خاتمے کے لیے بنائے گئے وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ احتساب کے قانون اور اداروں میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہر ایک شخص کے دل میں اگر احتساب کی عدالت قائم ہو جائے تو کرپشن ختم ہو جائے گی۔ مگر آج دولت کی پیاس ہمیںدنیا کی طرف لے جارہی ہے، ہمیں اس سے نکلنا ہو گا غلط کو غلط کہنے کا کلچر عام کرنا ہو گا۔ دیانت دار قیادت کو منتخب کرنا ہو گا۔ انہوںنے کہا کہ احتساب کے معنی نیکی کا حکم دینا،برائی سے روکنا ہے سورۃ حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر ہم انہیں اقتدار دیں گے تو یہ نیکی کا حکم دیں گے، برائی کو روکیں گے‘‘۔آج ہر فرد پوری سوسائٹی اور سیاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ برائی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کرپشن کثیر الجہتی سماجی برائی ہے جس نے فساد فی الارض کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ہم اس سلسلہ میں اپنا کردار اداد کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر 7 قراردادیں بھی متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔
1۔ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کرپشن سے پاک کرنا ضروری ہے۔
2۔ ملک میںکوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور میرٹ کینظام کو ترجیح دی جائے۔
3۔ سودی نظام کا خاتمہ کر کے محاصل زکوۃ کا مالیاتی نظام نافذ کیا جائے۔
4۔ ملکی خزانوںسے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے۔
5۔ پلی بارگین کے اصول و ضوابط کو واضع اور مشتہر کیا جائے۔
6۔ کرپشن پر سزائوں کا اطلاق عوام و خواس کے لیے یکساں ہو۔
7۔ کرپشن کے مقدمات کو ماڈل کورٹس یا سپیڈی ٹرائل کورٹس کے طرز پر چلانے کر فوری فیصلے کیے جائیں۔
8۔ چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے ایسا طریقہ ہو جو سیاسی اثر و رسوخ سے مبرا ہو۔
9۔ چین میں جس طرح کرپشن کو ملک سے غداری تصور کرتے ہوئے سخت سزائوں کا اطلاق کیا جاتا ہے پاکستان میں بھی ایسا ہی سمجھا جائے اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سزائوں کا نفاذ کیا جائے۔
10۔ تمام سطح کے محکمہ جاتی اداروں تعلیم، صحت، پولیس، انکم ٹیکس، بجلی، ایف بی آر، واپڈا، پیمرا اور بلدیاتی اداروں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے موجودہ احتسابی قوانین کو موثر بنایا جائے۔
تقریب میں بڑی تعداد میں وکلا نے شرکت کی، نوشین ایڈوکیٹ نے عمدہ طور پر صحافیوں کو بریفنگ دی۔ مذاکراے کے دوران نماز عصر کا وقفہ بھی دیا گیا ور مہمانوں کی تواضع عصرانے سے کی گئی ۔ شاہد حسین ایڈوکیٹ کی دعا پر تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

ویمن اسلامک فورم ایک تعارف

وویمن اسلامک لائرز فورم کا قیام دس برس قبل 2009ء میں عمل میں آیا۔ فورم کے تحت غریب متوسط طبقے کے قیدیوں خصوصاً نوجوان نسل کی اصلاح اور انہیں معاشرے کا ایک اچھا شہری بنانے کے لیے جیل میں تعلیمی و اصلاحی پروگراموں کے ساتھ ان کی قانونی مدد اور معاشی پریشانیوں کے حل کے لیے بھی پروگرام ترتیب دینا اور ساتھ ہی ملک میں نافذ قوانین کا اسلامی تناظر میںجائزہ لینا اس کے منشور کا حصہ ہے۔
فورم کی موجودہ چیرپرسن طلعت یاسمین ایڈوکیٹ اور سابقہ چیرپرسن فائزہ خلیل ایڈوکیٹ کی نگرانی میں ان کی ریسرچ ٹیم افشاں سلیم الدین ایڈوکیٹ، ذیشان ایڈوکیٹ، ثریا انجم ایڈوکیٹ، فرحان الحسن (ایم بی اے) افشاں دلفراز ایڈوکیٹ اور نورالعین خواجہ نے ’’سود کا مقدمہ‘‘ پاکستان کی عدالتوں میں دلائل اور تجزیہ کی روشنی میں مرتب کیا جو کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔
فورم کی دوسری اہم تحقیق اور تجزیہ ’’پاکستان میں عالمی منصوبہ (برائے نسواں ہے جس کے نظرثانی ایڈیشن کی آٹھویں سالانہ کنونشن میں رونمائی کی گئی اس کے علاوہ فورم کے تحت ثالثی سیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جو فریقین کے درمیان ثالثی کراتا ہے۔
خواندگی پروگرام برائے کمپیوٹر کے ذریعے بچہ جیل میں قید نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے قرآن کی تعلیم، کمپیوٹر لٹریسی، انگریزی زبان کو بہتر بنان اور مقامی طور پر روزگار کے لیے ہنرمند بنانا۔ جیل میں اصلاحی ورکشاپس کے ذریعے ملک کے مشہور ماہرین کے ساتھ نہ صرف نوجوان ملزمان کی اصلاح کرنا بلکہ جیل اسٹاف کی بھی تربیت کرنا ہے۔ بچہ جیل اور خواتین جیل کے باقاعدگی سے وزٹ کیے جاتے ہیں اور سروے فارم بھروائے جاتے ہیں اور انہیں لیگل ایڈ فراہم کی جاتی ہے اور ساتھ ہی انکم سپورٹ پروگرام کے تحت انہیں مالی امداد فراہم کر کے انہیں کارآمد شہری بنانے کا عمل جاری ہے۔