قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: حیا ایمان کا ایک جزو ہے اور ایمان جنت میں ہے، اور بے حیائی بدی(یا دل کی سختی) میں سے ہے اور بدی (یا دل کی سختی) دوزخ میں ہوگی۔ (احمد، ترمذی)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں دنیا کے حالات جس قسم کے تھے، اس کی نشاندہی قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ۔
”خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب۔“
یعنی خشکی اور تری میں فساد کی جو کیفیت پھیلی ہوئی تھی، وہ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتوتوں کا نتیجہ تھی۔ اُس زمانے کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم جیسی کہ آج کل روس اور امریکہ ہیں، باہم دست و گریباں تھیں اور اُس زمانے کی پوری مہذب دنیا میں بدامنی، بے چینی اور فساد کی کیفیت رونما ہوچکی تھی۔ اس لپیٹ میں خود عرب بھی آچکا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی گویا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ قرآن میں اسی حالت کا اشارہ ان الفاظ میں ہے:
وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ
”اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کا نقشہ:۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والا انسان جو عرب کی اُس وقت کی حالت کو جانتا ہے، بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے کتنا صحیح نقشہ اُس وقت کے عرب کے حالات کا کھینچا ہے۔ قبائل کے درمیان مختلف قسم کی گمراہیوں کے نتیجے میں اور جاہلی عصبیتوں کی وجہ سے اس کثرت سے جنگیں ہوئی تھیں کہ ان میں سے بعض جنگیں سو سال تک طول کھینچ گئیں۔ اس کیفیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عرب کتنا تباہ و برباد ہوا ہوگا۔
پھر عرب کی اپنی آزادی کی کیفیت یہ تھی کہ یمن پر حبش کا قبضہ تھا اور باقی عرب کا کچھ حصہ ایران کے تسلط میں تھا اور کچھ رومی اثر کے زیر نگیں۔ پوری عرب دنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اُس وقت کی دو بڑی طاقتوں ایران اور روم کی وہی اخلاقی اور سیاسی حالت تھی جو آج کل امریکہ اور روس کی ہے۔
اس حالت میں جبکہ دنیا قبائلی عصبیتوں اور مختلف قسم کی دھڑے بندیوں میں، جن کی سربراہی ایران اور روم کررہے تھے، بٹی ہوئی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ وہ دنیا کے لیڈروں کی طرح کسی قبیلے کا جھنڈا لے کر نہیں اٹھے تھے، کسی قومی نعرے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا، کوئی اقتصادی نعرہ بلند نہیں کیا، ان تمام چیزوں میں سے کسی کی طرف آپؐ نے دعوت نہیں دی۔
جس چیز کی آپؐ نے دعوت دی، اس کا پہلا جزو یہ تھا کہ تمام انسانوں کو تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ایک کی بندگی کرنی چاہیے۔
بنی آدم کو توحید کی دعوت:۔
آپؐ کی دعوت اللہ کی طرف تھی، یہ کہ عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے اور اس کے سوا آدمی کسی کو کارساز نہ سمجھے۔ آپؐ نے یہ دعوت کسی مخصوص طبقے یا قوم کو نہیں دی بلکہ تمام بنی نوع انسان کو دی۔ آپؐ کی دعوتِ توحید تمام بنی آدم کے لیے تھی اور آپؐ نے کسی گورے کو، کسی کالے کو، کسی عربی کو، کسی عجمی کو اس کی قومی یا علاقائی حیثیت سے نہیں پکارا، بلکہ صرف ابنِ آدم کی حیثیت سے یا اَیُّھا النَّاسکہہ کر پکارا۔ پھر جو دعوت آپؐ نے دی، وہ بھی قومی یا علاقائی نہ تھی بلکہ اصلاح کی اصل جڑ یعنی توحیدِ خالص کی دعوت تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ
اصل خرابی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو چھوڑ کر مختلف قسم کے خدائوں کا دامن تھام لے۔ اور اصل اصلاح یہ ہے کہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے۔اگر یہ خرابی دور ہوگئی تو اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی، ورنہ لاکھ جتن کے باوجود درستی اور اصلاح نہیں ہوگی۔
دوسری بات جس کی طرف آپؐ نے انسانوں کو توجہ دلائی وہ آخرت کا تصور تھا۔ آپؐ نے فرد کو اس کی ذاتی حیثیت میں جواب دہ قرار دیا، تاکہ ہر فرد محسوس کرے کہ اسے اپنے اعمال کی ذاتی حیثیت میں جواب دہی کرنی ہے۔ اگر اس کی قوم بگڑی ہوئی تھی تو وہ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ میرا جس قوم سے تعلق تھا، وہ گمراہ تھی۔
اس سے پوچھا جائے گاکہ اگر قوم گمراہ تھی تو تم راہِ راست پر کیوں نہ رہے، تم کیوں شتر بے مہار بنے رہے۔
آپؐ نے پہلے لوگوں کے دلوں میں توحید اور آخرت کے دو بنیادی تصورات بٹھائے اور ان کو پختہ کرنے میں برسوں محنت کی، طرح طرح کے ظلم برداشت کیے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، لیکن آپؐ نے کسی پر ملامت نہ کی۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے پتھر اور گالیاں کھا کھا کر لوگوں کو سمجھایا کہ:
اگر خدا اور آخرت کا تصور انسان میں نہیں ہے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔
جب یہ دونوں چیزیں آپؐ نے اپنی قوم کے ذہن میں بٹھا دیں، تو پھر ان کے سامنے زندگی کا عملی پروگرام پیش کیا۔
زندگی کا عملی پروگرام:۔
عملی پروگرام میں سب سے پہلی چیز نماز ہے۔ اس کی سب سے اوّل تاکید کی گئی۔ نماز سے مقصود یہ تھا کہ انسان کے دل و دماغ میں یہ چیز رچ بس جائے کہ وہ اللہ کا مخلص بندہ ہے، اسے صرف اللہ ہی کے سامنے جھکنا اور اس کی اطاعت کرنی ہے۔
پھر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کی ہدایت کی گئی تاکہ آدمی کے دل میں انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا ہو۔ روزے کی ہدایت بعد میں آتی ہے۔ نماز کے بعد جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر سب سے بڑا فتنہ مال کی محبت ہے۔ قرآن میں اسی لیے آیاہے:
أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔
”تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں جااتروگے۔“
یعنی آدمی کا دل دنیا کی دولت اور کثرت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی کو دولت کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اسی حرص کی اصلاح کے لیے زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جہاں زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے، وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدمی حلال کمائی کی فکر کرے۔
اگر چوری کرنے والا زکوٰۃ کی فکر کرے گا تو اسے خود بخود کھٹکا ہوگا کہ اس کی کمائی بھی حلال ہونی چاہیے۔
اسے حلال کی کمائی اور حلال خرچ کی عادت پڑے گی۔ وہ دوسروں کے حقوق پہچانے گا، کیونکہ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی کمائی میں دوسروں کا بھی حق ہے۔
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ۔
”اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔“
یہ دونوں عملی پروگرام نماز اور زکوٰۃ انسان کی اصلاح کی بنیاد ہیں۔ یہ چودہ سو برس پہلے کا اصلاحی پروگرام جس طرح عرب کے لیے اصلاح کا پروگرام تھا اسی طرح دنیا بھر کے لیے اصلاح کا پروگرام ہے، اور اسی طرح آج بھی انسان کی اصلاح کا پروگرام ہے۔
اگر کوئی آدمی خدا کو نہیں جانتا، آخرت سے بے خوف ہے، اس کے سامنے کوئی معاشی پروگرام رکھ دینا بے معنی ہوگا۔ خدا اور آخرت کے خوف کے بغیر کوئی سیاسی اور معاشی اصلاح ہو نہیں سکتی، اور دنیا میں جو مختلف قسم کے ظلم ہورہے ہیں، ان کو دور نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ اور آخرت پر یقین اور جوابدہی کے خوف کے بغیر جو بھی انسان یا جماعت اصلاح کے لیے اٹھے گی وہ اصلاح کے بجائے فساد کا موجب ہوگی۔ وہ دوستی کے بجائے الٹا ظلم میں اضافہ کرے گی۔
جو آدمی بااختیار ہو اور بے خوف ہو وہ رشوت سے کیسے بچے گا؟ آپ لاکھ قانون بنایئے لیکن اس کی تنفیذ کے لیے جس قسم کے انسان درکارہیں وہ کہاں سے آئیں گے؟
(تفہیمات حصہ چہارم)