جناب وزیراعظم کا مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کا فیصلہ درست ہے۔ وزیر دفاع پرویزخٹک تو ابھی دوستوں کے ذریعے رابطہ کررہے ہیں، جن رابطوں کی طرف شیخ رشید نے اشارہ کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان محترمہ مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ان رابطوں کے بارے میں حزبِ اختلاف کی قیادت کو اعتماد میں بھی لیا ہے اور یہ بھی بتادیا ہے کہ اس کے بعد بھی آزادی مارچ کا پروگرام طے شدہ تاریخ یعنی 27 اکتوبر کو شروع ہوگا، اور اسلام آباد 31 اکتوبر کو پہنچے گا۔ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں اُن سب کے اندازے غلط ہوگئے ہیں جو اُن کی سیاسی بالغ نظری اور سیاسی قد کاٹھ کو انڈر اسٹیمیٹ کررہے تھے، جن کا خیال تھا کہ وہ تنہا رہ جائیں گے۔ حزبِ اختلاف کی پوری ٹیم نے ’’احتجاجی میچ‘‘ مولانا فضل الرحمن کی کپتانی میںکھیلنے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ مولانا فضل الرحمن اپنے پروگرام کے مطابق اسلام آباد پہنچ پاتے ہیں یا نہیں، وہ گرفتار بھی ہوگئے تو اب حکومت کے لیے حزبِ اختلاف کے احتجاج کو روکنا آسان نہیں ہوگا، اور نہ ہی حزبِ اختلاف کی قیادت کو نیب کے مقدمات، اور پکڑ دھکڑ کے ہتھیار سے خوف زدہ کرکے احتجاج سے روکا جاسکے گا۔
پارلیمانی نظامِ حکومت میں پارلیمنٹ حزبِ اختلاف کے بغیر فنکشنل نہیں ہوتی۔ جس کے لیے حکمران اتحاد کو حزبِ اختلاف سے معمول کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ناگزیر ہے۔ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے امورِ مملکت صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے زیادہ دیر چلانا حکومت کے لیے ممکن نہیں ، کیوں کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فروری 2020ء میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات تو پورے ملک میں ہونے ہیں، اور جماعتی بنیادوں پر ہونے ہیں۔ اگرچہ سرد موسم کی وجہ سے فروری میں انتخابات کا انعقاد خیبر پختون خوا میں بھی مشکل ہوگا اور پنجاب میں بھی، تاہم پنجاب میں حکومت اپریل 2020ء تک انتخابات کرانے کی پابند یوں بھی ہے کہ اس نے خود جو قانون سازی کی ہے اس کے مطابق یہ کرانے ضروری ہیں۔ قومی انتخاب ہو یا بلدیاتی انتخاب، الیکشن کمیشن کا مکمل ہونا آئینی ضرورت ہے، جس کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے قائدِ حزبِ اختلاف سے وزیراعظم کا بامعنی مشاورت کرنا آئینی تقاضا ہے۔ اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئینی تقاضے پورے کیے بغیر سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کو خلافِ آئین قرار دے کر الیکشن کمیشن کو غیر فعال قرار دے دیا ہے۔ اس لیے وزیراعظم پسند کریں یا نہ کریں انہیں قائدِ حزبِ اختلاف سے بامعنی مشاورت کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔ عمران خان جس ملک کے وزیراعظم ہیں اس کا نظامِ حکومت پارلیمانی ہے جسے پارلیمانی نظام کے تحت ہی چلایا جاسکتا ہے۔ چین کی طرح پارٹی کے پولٹ بیورو کے تحت نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پارلیمانی نظامِ حکومت کو آئینِ پاکستان کے ’’اساسی‘‘ خدوخال کا حصہ قرار دے چکی ہے، جسے دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت تو کیا پارلیمنٹ کی سو فیصد اکثریت بھی تبدیل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
آئینِ پاکستان نے پارلیمنٹ میں چیک اینڈ بیلنس کا جو طریقہ کار مقرر کیا ہے، اس پر عمل درآمد کرنا حکمران جماعت کی بھی ذمہ داری ہے اور حزبِ اختلاف کی بھی۔ کسی کے لیے اسے بائی پاس کرنے کی گنجائش آئین میں موجود نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں حزبِ اختلاف آئین کے دائرۂ کار میں رہ کر احتجاج کا حق بھی رکھتی ہے، اور رائے کو ہموار کرکے دبائو کے ذریعے ایسی فضا پیدا کرنے کا آئینی اور قانونی جواز بھی رکھتی ہے جو حکومت کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کردے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک ایسا کر پاتی ہے یا نہیں، اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ حزبِ اختلاف کی احتجاجی تحریک کو اب ریاستی جبر و تشدد کے ہتھکنڈوں سے روکنا آسان نہیں ہوگا۔ ماضی میں اس طرح کے طرزعمل نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے اگر ان مذاکرات کرنے والوں کی بات نہیں مانی تو گرفتاری کی دھمکی کیسے کارگر ہوگی! ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا فرمایا کہ ان کا دھرنے کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس سے حکومت نہیں گرائی جاسکتی۔ یہاں اگر یہ ذکر کردیا جائے تو نامناسب نہیں ہوگا کہ اگر ان کے خلاف میاں نوازشریف کی حکومت بھی وہی کچھ کرتی جو اِس حکومت میں حزبِ اختلاف کے ساتھ ہورہا ہے اورحکومت احتجاج کے لیے نکلنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کر رہی ہے، تو میاں نواز شریف کی تیسری حکومت کا دورانیہ سب سے مختصر ہوتا۔ میاں نوازشریف کا تیسرا دورِ حکومت حزبِ اختلاف کے دھرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرنے کی پالیسی اپنانے، اور تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان کی عملی سپورٹ کے باوجود اپنی آئینی مدت مکمل کرنے والی حکومت کے طور پر یاد رہے گا۔
رہی یہ بات کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس اسٹریٹ پاور تو دینی مدارس کے معصوم طلبہ کی وجہ سے ہے، سو فیصد درست نہیں ہے۔ مولانا نے تو اپنے احتجاج میں 18 برس سے کم عمر کے کسی شخص کو شامل نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ مولانا کی جماعت 1970ء سے لے کر 2018ء تک ہونے والے تمام انتخابات میں قابلِ ذکر ووٹ بینک رکھنے والی اور اسمبلیوں میں نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ہے۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی میں اس جماعت کی 15 نشستیں ہیں۔ خیبر پختون خوا میں قائد حزبِ اختلاف اس جماعت کا ہے۔ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی میں مولانا کی جماعت سردار اختر مینگل کی اتحادی ہے جو کسی وقت بھی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر وزیراعلیٰ جام کمال کی حکومت کو زیر و زبر کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ مولانا کی جماعت کے پاس سندھ میں خاصا بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔ وہ کئی انتخابی حلقوں میں کسی کو جتوانے یا ہروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ مولانا کی جماعت ضلع گھوٹکی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں کرچکی ہے۔اس نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حق میں اپنا امیدوار دست بردار کرواکے پیپلزپارٹی کو کامیاب کروادیا۔ حالانکہ قومی اسمبلی کی یہ نشست 2018ء کے عام انتخابات میں سردار علی ِمحمد مہر (مرحوم) نے آزاد امیدوار کے طور پر جیتی تھی اور تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا جی ڈی اے کا امیدوار تھا جو پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں ہار گیا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو مولانا کی جماعت کی عملی حمایت حاصل تھی۔ اسی طرح 17 اکتوبر کو لاڑکانہ شہر کے حلقہ 11 کی صوبائی نشست لاڑکانہ شہری اتحاد کا مشترکہ امیدوار معظم علی عباسی ایک بار پھر پیپلزپارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کے مقابلے میں جیت گیا۔ یہاں مولانا کی جماعت کا اتحاد لاڑکانہ شہری اتحاد کے ساتھ تھا۔ واضح رہے پیپلزپارٹی 2018ء کے عام انتخابات میں بھی یہ نشست ہار گئی تھی، اس حلقے سے قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری کامیاب ہوئے تھے، مگر ان کی کامیابی دیہی علاقوں کے ووٹرز کی مرہونِ منت تھی، وہ شہر کے اس صوبائی حلقے سے خاطر خواہ ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے میں جمعیت علما اسلام کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا راشد محمود سومرو بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں امیدوار تھے جو55 ہزار ووٹ حاصل کرکے بلاول بھٹو زرداری کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔