دیارِ مجددؒ سے داتاؒ نگر تک

کتاب : دیارِ مجددؒ سے داتاؒ نگر تک
مصنف : جمیل اطہر قاضی
مرتب : مشتاق سرور
ضخامت : 424 صفحات قیمت:2000روپے
ناشر : بک ہوم، بک اسٹریٹ۔ مزنگ روڈ لاہور، پاکستان

محترم و مکرم جمیل اطہر قاضی صاحب زندگی کی 78 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور الحمدللہ آج بھی تندرست و توانا اور مستعد و فعال زندگی بسر کررہے ہیں۔ کم و بیش چونسٹھ برس قبل صحافت کی وادیِ پُرخار میں قدم رکھا اور پھر یہیں کے ہورہے۔ اخبار فروش، نیوز ایجنٹ، نامہ نگار، اسٹاف رپورٹر، سب ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر سے ہوتے ہوئے مالک مدیر تک پہنچے۔ 1974ء میں اپنے روزنامہ ’’تجارت‘‘ کا اجراء کیا جو آج کل ایک گروپ آف پبلی کیشنز کی شکل اختیار کرچکا ہے، اور روزنامہ ’’تجارت‘‘ کے علاوہ روزنامہ ’’جرات‘‘، انگریزی اخبار ’’دی بزنس‘‘، روزنامہ ’’منشور‘‘ سرگودھا، ہفت روزہ ’’جرات انٹرنیشنل‘‘ اور ہفت روزہ ’’اخبار خواتین‘‘ اس گروپ کی مطبوعات میں شامل ہیں۔ بطور مالک مدیر، اخبارات کے مدیران و مالکان کی سیاست میں بھی پوری طرح متحرک اور فعال رہے۔ انجمن مدیرانِ جرائد (سی پی این ای) کے تین بار صدر، اور مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے دس بار سینئر نائب صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ انجمن مدیرانِ جرائد کے نمائندے کے طور پر ’’پریس کونسل آف پاکستان‘‘ کا بھی حصہ رہے۔ ساٹھ برس قبل 1959ء میں ’’پاک نیوز سروس‘‘ کے نام سے اردو خبر رساں ادارہ اور ’’پاک ایڈورٹائزرز‘‘ کے نام سے اشتہاری ادارہ بھی قائم کیا، یوں اخباری صنعت اور صحافتی دنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں جناب جمیل اطہر قاضی نے اپنی محنت و مہارت کے جوہر نہ دکھائے ہوں۔ ان کی انہی طویل و جلیل خدمات کے اعتراف کے طور پر صدرِ مملکت نے انہیں 2016ء میں ’’تمغائِ امتیاز‘‘ عطا کیا۔
’’دیارِ مجددؒ سے داتاؒ نگر تک‘‘جناب جمیل اطہر قاضی کے بچپن سے زمانۂ حال تک کی یادداشتوں پر مبنی خودنوشت ہے۔ کتاب کے آغاز میں ’’میری کہانی‘‘ کے عنوان سے وہ خود رقم طراز ہیں:
’’کافی عرصے سے یہ خیال تھاکہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو سپردِ قلم کردوں، مگر فرصت میسر آئی اور نہ حالات نے اجازت دی۔ میری پہلی کتاب ’’شیخ سرہند‘‘ تھی جو امام ربانی حضرت مجدد الف ثانیؒ کی زندگی اور تعلیمات پر مبنی تھی، اس کتاب کو دینی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی، اس کے بعد دوسری کتاب ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی جس میں اُن اصحاب کا تذکرہ تھا جن کی زندگی کے مختلف گوشوں نے مجھے متاثر کیا۔ اس کتاب میں اگرچہ میری اپنی داستان کے کچھ حصے بھی کسی نہ کسی شکل میں شامل ہوگئے تھے مگر ایک مربوط خودنوشت کی کمی بہرحال موجود رہی، اب ’’دیارِ مجددؒ سے داتاؒ نگر تک‘‘ کے نام سے اپنی کہانی بیان کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ یہ تلخ و شیریں داستان ہے، مگر جو کچھ پیش آتا رہا اسے پوری دیانت داری سے من و عن بیان کردیا ہے۔‘‘
اپنی صحافتی سرگرمیوں، مطبوعات اور تحریروں کے بارے میں نہایت خوبصورت وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ان سب کاوشوں کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وطنِ عزیز کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ پاکستان میں امکانات کی ایک وسیع دنیا موجود ہے۔ آپ اپنی منزل کا تعین کریں اور اس پر استقامت اور ثابت قدمی سے گامزن رہیں تو منزل نہ بھی حاصل ہو، آپ اپنے اپنے دائرے میں ایسے نقوشِ پا ضرور چھوڑ سکیں گے جن پر چل کر زندگی کی صعوبتوں کو آسانیوں میں تبدیل کرنا ممکن ہوجائے۔‘‘
’’دیارِ مجددؒ سے داتاؒ نگر تک‘‘ کہنے کو تو جناب جمیل اطہر قاضی کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہے جس میں انہوں نے اپنی جائے پیدائش سرہند سے لاہور آمد اور یہاں طویل قیام، اس دوران اپنے روز و شب کی مصروفیات اور حالات کے تغیر و تبدل کا تذکرہ کیا ہے، مگر اس کے مطالعے سے ہمیں ان کی ذاتی زندگی سے کہیں زیادہ گزشتہ پون صدی کے دوران خطے کے سیاسی و سماجی حالات کے اتار چڑھائو سے آگاہی ہوتی ہے، اور تاریخ کے بعض ایسے گوشے ہمارے سامنے آتے ہیں جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس طرح وطنِ عزیز کی بہت سی ممتاز دینی، سیاسی اور صحافتی شخصیات سے تفصیلی ملاقات کا موقع بھی قاری کو کتاب کے مطالعے سے حاصل ہوتا ہے۔ محترم جمیل اطہر قاضی کی یہ خودنوشت خاص طور پر پاکستانی صحافت اور یہاں کی صحافتی سیاست کی ایک تاریخی دستاویز ہے جس کا مصنف خود ایک چلتا پھرتا کردار رہا ہے۔ یوں وہ بجا طور پر یہ دعویٰ بھی کرسکتا ہے کہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘۔ اس لیے نوواردانِ صحافت اور پاکستان کی صحافت کی تشکیل و ترقی کے مختلف مراحل و مدارج سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جو یقینا ان کے ذوق کی تسکین کا باعث ہوگا۔
ناشر ادارہ ’بک ہوم‘ لاہور نے اپنی روایات کے مطابق کتاب کی اشاعت میں نہایت اعلیٰ معیار، عمدہ سفید کاغذ اور نفیس طباعت کا اہتمام کیا ہے، حروف خوانی بھی بہت احتیاط سے کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں دبیز ملائم کاغذ کے 32 صفحات پر مصنف کی خاندانی اور اعلیٰ سیاسی، صحافتی اور سماجی شخصیات کے ساتھ مختلف مواقع کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جس سے کتاب کی وقعت اور افادیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے۔ رنگین سرورق کتاب کے نام کی معنویت کا عکاس ہے جسے شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت علی ہجویریؒ کی آخری آرام گاہوں اور ان سے پھوٹتی رشد و ہدایت کی روشنی کی کرنوں سے مزین کیا گیا ہے۔ کتاب کی جلد مضبوط اور حسین گردپوش سے آراستہ ہے۔ توقع ہے کہ علمی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں ’’دیارِ مجددؒ سے داتاؒ نگر‘‘ تک کی بھر پور پذیرائی کی جائے گی۔