سید خالد جامعی
دنیا کے 124 ملکوں نے پلاسٹک پر پابندی لگا دی ہے۔ بنگلہ دیش پہلا ملک تھا جس نے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کی۔ اس کے بعد کیپ ٹائون میں پلاسٹک کا مکمل استعمال ممنوع کردیا گیا۔ وہاں کی حکومت اور عوام نے پلاسٹک کا متبادل نہیں پوچھا، لیکن پاکستان کے سرکاری حکام پوچھ رہے ہیں کہ ہم پابندی تو ایک گھنٹے میں لگا سکتے ہیں مگر اس کا متبادل تو بتائو۔ ہزاروں سال تک دنیا کیسے چیزیں خریدتی اور بیچتی رہی؟ پلاسٹک ممنوع کرنے والے ٹیٹرا پیک پر کیوں پابندی نہیں لگا رہے؟ پاکستانی کمپنی پیکجز نے جتنے ٹیٹرا پیک بنائے ہیں، اور روح افزا نے جتنی شیشے کی بوتلیں تیار کی ہیں اس کوڑے کو اکٹھا کرلیا جائے تو پاکستان کا حشر کیا ہوگا؟
سمندر، دریا، ہوا، فضا، ماحول، گردونواح، انسانی صحت، پرندوں، مچھلیوں، جانوروں کو تباہ و برباد کرنے کے بعد سائنس جس نے پلاسٹک ایجاد کی، ہمیں بتا رہی ہے کہ اس ایجاد کو استعمال نہ کرو، یہ نقصان دہ ہے، تباہ کن ہے۔ سوال یہ ہے کہ پلاسٹک کی وجہ سے جو دنیا تباہ و برباد ہوگئی، وہ لاکھوں مخلوقات جو ہلاک ہوگئیں، دنیا اور ماحول کو جو خوفناک نقصانات پہنچ گئے ان کا ازالہ کیسے ہوگا؟ جدید ریاست سائنس و سرمایہ کی تنظیم کا نام ہے، اس کی سرپرستی کے بغیر ملٹی نیشنل کارپوریشن دنیا کو تباہ نہیں کرسکتیں۔ مثلاً ہر حکومت اگر تمام ملٹی نیشنل اور فیکٹریوں پر پابندی لگادے کہ تمہاری مصنوعات جو کوڑا پیدا کریں گی اسے جمع کرنا، ٹھکانے لگانا اور ری سائیکل کرنا تمہاری ذمہ داری ہے، ہماری زمین پر کوئی کوڑا نہ پھینکا جائے، اور پھینکو تو تم خود ہی اس کو اٹھانے کے ذمہ دار ہو… پھر دیکھیں کہ دنیا کیسے تباہ ہوسکتی ہے۔ لیکن ریاست کبھی پابندی نہیں لگائے گی، کیوں کہ ملازمتیں اور ٹیکس بھی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں، لہٰذا ان پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ دنیا کو تباہ کرنے کی ذمہ دار یہی کمپنیاں، کارپوریشنیں اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مصنوعات ہیں۔ سب جانتے ہیں، سب کو معلوم ہے، لیکن ترقی کا عقیدہ اتنا پختہ اور مستحکم ہے کہ ترقی کے لیے دنیا کی تباہی سب کو گوارہ ہے۔ کوئی ترقی نہ کم کرنا چاہتا ہے، نہ ترقی کے عقیدے کا انکار کرنا چاہتا ہے۔ اس عقیدے کی وجہ سے پوری دنیا تباہ ہورہی ہے، کارخانوں سے نکلنے والا صنعتی فضلہ اور مصنوعات سے پیدا ہونے والا صنعتی کوڑا یا تو زمین میں جائے گا یا سمندر، دریا، ندی، نالوں میں، یا آسمان میں… اس کے سوا اس کوڑے کو پھینکنے کی کوئی جگہ میسر نہیں۔ لہٰذا آج کسی انسان کو دریا، ندی نالوں، جھیلوں، سمندروں کا صاف پانی میسر نہیں۔ پانی کی ہر قسم آلودہ ہوچکی ہے۔ اسی آلودہ پانی کو کیمیائی مادوں سے صاف کرکے مہیا کیا جارہا ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ پانی آلودہ کیوں ہے؟ یہ پہلا سوال ہے۔ سب لوگ دوسرے سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ پانی تو آلودہ ہی ہوگا، بس اس کو صاف کیسے کیا جائے اصل مسئلہ یہی ہے۔
پلاسٹک نے جو آلودگی پیدا کی ہے وہ نہایت مہلک ہے، لیکن پلاسٹک نے بہت سی آسانیاں مہیا کیں۔ Disposable Culture میں انقلاب پیدا کیا۔ اب سب اس تباہ کن انقلاب سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نئے علوم، نئی ٹیکنالوجی، نئے کیمیکل ایجاد کیے جارہے ہیں۔ اس طرح علم میں اضافہ ہورہا ہے۔ کوڑے کو ٹھکانے لگانا خود ایک علم اور ایک صنعت بن چکا ہے، اور لوگ اس کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ ترقی کی پیدا کردہ تباہی یہ ہے کہ دنیا کا موسم تبدیل ہورہا ہے، موسموں کے مہینے اور تیور بدل رہے ہیں۔ دنیا دن بہ دن گرم سے گرم تر ہوتی جارہی ہے۔ بارشوں نے وقت کی پابندی ترک کردی ہے، جب چاہے جہاں چاہے برس جاتی ہیں۔
صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے
بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے
چترال میں 2017ء میں پلاسٹک پر پابندی لگائی گئی مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ AFP کے نمائندے نے چترال کے ایک اعلیٰ افسر خورشید عالم سے پوچھا تو انہوں نے وہی جواب دیا جو ہمارے اسلامی مفکرین دیتے ہیں کہ اس کا متبادل بتائو۔
یہی سوال دوسرے طریقے سے ہوتا ہے: مارکیٹ کا متبادل کیا ہے؟ جمہوریت کا متبادل کیا ہے؟ جدید معیشت کا متبادل کیا ہے؟ جدید شہر کا متبادل کیا ہے؟ پلاسٹک کا متبادل کیا ہے؟ دنیا صدیوں تک ان سب کے بغیر کیسے چلتی رہی وہ پڑھ لیں، دیکھ لیں، احمقانہ سوالات نہ کریں۔ پلاسٹک کو ایجاد ہوئے صرف پچاس برس گزرے ہیں، اس سے پہلے لوگ کیا کرتے تھے، تاریخ پڑھ لیں۔ کینیڈا میں بچوں کو پلاسٹک کی بوتلوں میں دودھ پلوانا ممنوع ہے، کیوں؟
دنیا کی پانچ فیصد گوری اقوام کی صرف تین سو سالہ ترقی نے پوری دنیا کو آگ کا گولہ بنادیا ہے، اوزون کی تہ ٹوٹنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا، جلد کا کینسر پھیل گیا۔ سمندروں کی سطح بڑھ رہی ہے، سیلاب آرہے ہیں۔ زلزلے، قحط، بھوک، تباہی، زمین کی تباہی عام بات ہے جس کے باعث کروڑوں لوگ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ افریقہ، وینزویلا اور یونان میں جو تباہی آئی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ گرمی کے باعث خشکی بڑھ گئی ہے، لہٰذا یورپ اور امریکہ میں خشکی سے ہر سال کروڑوں ایکڑ جنگلات میں خودبخود آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جنگلات جل رہے ہیں، لاکھوں جنگلی مخلوقات ہلاک ہورہی ہیں، لاکھوں لوگ ان علاقوں سے نقل مکانی کررہے ہیں۔ جدید طرزِ زندگی کے باعث بے شمار بیماریاں پہلی مرتبہ پھیل رہی ہیں۔ قبض، شوگر، ٹینشن، دل کی بیماری، کینسر، موٹاپا، نفسیاتی بیماریاں، پاگل پن… ان کے باعث لوگ سسک سسک کر مررہے ہیں۔ پوری دنیا میں کسی کو نہ صاف پانی میسر ہے، نہ صاف ہوا۔ صنعتی فضلے نے زمین، ہوا، پانی سب کو آلودہ کردیا ہے۔ منرل واٹر کے نام پر جو پانی لوگ پی رہے ہیں اسے کیمیکل سے صاف کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تازہ عمدہ پانی کسی کو میسر ہی نہیں ہے۔ جب پانی آلودہ ہے تو پانی سے پیدا ہونے والی تمام اشیاء سبزیاں، گوشت، جانور سب زہریلے ہوگئے ہیں۔ انسان زہر کھانے، زہر پینے، زہریلی ہوا کھینچنے پر مجبور ہے۔ پوری کائنات زہریلی ہے تو تازہ ہوا، اصلی پانی، اصلی غذا کہاں سے ملے! GMF کے باعث بہت پیداوار ہوئی، مگر اس کھانے نے کینسر کی بیماری پیدا کی۔ بے ذائقہ رس، خوشبو سے محروم کھانے کے بعد Organic Food بازار میں لائی گئی، جس کی قیمت چالیس فیصد زیادہ ہے۔ مغرب میں نیچرل فوڈ اسٹور کھولے گئے۔ جدیدیت سے پہلے دنیا کا ہر آدمی غریب، امیر غیر سائنسی، اصلی، حقیقی غذا خرید سکتا تھا، اسے GMF کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اب دنیا کے صرف ایک فی صد لوگ اصلی غذا خرید سکتے ہیں۔ دنیا بھر کی اسّی فیصد دولت ستّر اسّی لوگوں کے پاس ہے۔ پانچ ارب انسان دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے کھا رہے ہیں۔ دو ارب لوگ سمندروں کے ساحل پر رہتے ہیں، ان کو لحمیات (Protiens)، مچھلی اور سمندری خوراک مفت میں ملتی ہے کیوں کہ یہ لوگ گوشت خرید نہیں سکتے۔ لیکن سمندروں سے اب مچھلی ختم ہورہی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں، حکومتیں مچھلی بہت بڑی تعداد میں نکال رہی ہیں۔ پلاسٹک اور Chemical Waste سے مچھلیاں مر رہی ہیں۔ چند برس بعد یہ دو ارب انسان مفت کی مچھلی کے گوشت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں گے۔ ان دو ارب انسانوں کو خوراک کون مہیا کرے گا؟ ان کے مالی حالات ایسے نہیں کہ یہ خود گوشت خرید سکیں، ان کو مفت گوشت کون فراہم کرے گا؟ ان کی صحت کا کیا ہوگا؟ گرمی بڑھنے سے سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے جس کے باعث ہزاروں علاقے ڈوب رہے ہیں۔ کئی ملک اس صدی کے آخر تک ڈوب جائیں گے۔ تفصیلات کے لیے ایک کتاب پڑھیے:
Algore: An Inconvenient Truth
(اقتباس مضمون’’پلاسٹک اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی‘‘)