بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے تضادات

بلوچستان میں قوم پرست پارٹیوں کے تضادات بڑے دل چسپ اور عبرت انگیز ہیں۔ 1954ء سے 1972ء تک پشتون بلوچ قوم پرست پارٹیاں اور لیڈر نیشنل عوامی پارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے۔ ان میں اکثریت روس نواز خیالات کی حامی پارٹیوں کی تھی، اور 1972ء ہی میں ان کے درمیان اندر ہی اندر کشمکش شروع ہوگئی تھی اور 1973ء میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ جیل میں یہ پارٹیاں اور لیڈرشپ اکٹھی داخل ہوئیں، اور درِ زنداں کھلا تو ان کی راہیں جدا ہوگئیں، پھر دوبارہ اس طرح کا اتحاد نہ بن سکا، بس چند برسوں کے لیے پونم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے اور پھر علیحدہ ہوگئے۔
یہ مختصر سا پس منظر سردار اختر مینگل کے ایک انٹرویو کے حوالے سے لکھا ہے جو انہوں نے ایک پرائیویٹ چینل کی ویب سائٹ پر دیا ہے۔ یہ ویب سائٹ بلوچ قومیت کے رجحان کی حامل ہے۔ ان سے بڑے دل چسپ سوالات ہوئے۔ کچھ کا جواب انہوں نے کھل کر دیا، اور جو تلخ سوالات تھے انہیں گول کردیا۔ لیکن تاریخ تو ایک بے رحم صراف کی مانند ہے، وہ کھوٹے اور کھرے کو الگ کرکے رکھ دیتی ہے۔ جس سوال سے سردار اختر مینگل نے جان چھڑانے کی کوشش کی وہ بڑا تلخ تھا، اور اس کے تاریخِ بلوچستان پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد نواب بگٹی اور سردار عطا اللہ مینگل میں ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا، اس میں پہلے مرحلے پر وزارت علیا کا تاج سردار اختر مینگل کے سر پر رکھا گیا۔ یہ معاہدہ 1997ء میں ہوا جس میں طے ہوا کہ پہلے مرحلے پر سردار اختر مینگل اور دوسرے مرحلے پر نواب زادہ سلیم بگٹی وزیراعلیٰ ہوں گے۔ اس حوالے سے اینکر پرسن نے سوال کیا کہ آپ اور نواب بگٹی کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ ایک ٹرم آپ وزیراعلیٰ ہوں گے اور دوسری ٹرم میں نواب زادہ سلیم بگٹی ہوں گے، تو انہوں نے کہا کہ تاریخ کے تلخ حقائق ہیں جس پر بولنا مناسب نہیں ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے، میں یہ نہیں سمجھتا کہ ان کی طرف سے غلطیاں نہیں ہوئیں، شاید ہم سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہوںگی جس کی وجہ سے ہم اس اتحاد کو آگے لے کر نہیں چل سکے۔ اُس وقت یہ معاہدہ تین جماعتوں کے درمیان تھا: (1) بگٹی صاحب کی جمہوری وطن پارٹی، (2) جمعیت علمائے اسلام، اور (3) ہماری پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی۔ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے بی این پی میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ اس دوران سردار عطا اللہ مینگل برطانیہ سے بلوچستان لوٹ آئے تھے۔ ریلوے کے ہال میں پارٹی کا اجلاس تھا جس میں سردار عطا اللہ نے اپنی پارٹی کے لیڈروں پر سخت تنقید کی۔ اس اجلاس کے بعد پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور بی این پی عوامی کے نام سے آگے آگئی۔ ایک طرف ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور دوسری طرف نواب بگٹی سے اختلافات میں شدت پیدا ہوگئی۔ نواب بگٹی نے مطالبہ کیا کہ معاہدے پر عمل کیا جائے، تو سردار اختر مینگل نے انکار کردیا۔ حالانکہ یہ معاہدہ تحریری ہوا تھا۔ یوں نواب بگٹی اور اختر مینگل کے درمیان بیان بازی کا میدان گرم ہوگیا۔ مرکز میں اُس وقت نوازشریف کی حکومت تھی۔ مرکز میں نوازشریف کی پارٹی کے اندر اختلافات شروع ہوگئے۔ غلام اسحاق خان صدر تھے اور بے نظیر قائد حزب اختلاف تھیں۔ حالات نازک موڑ کی طرف تیزی سے جا رہے تھے، اس مرحلے تک جمہوری وطن پارٹی سردار مینگل کی حکومت میں وزارتوں میں شامل تھی۔
سردار اختر مینگل نے نواب بگٹی کے خلاف بیان دیا کہ ہم تو کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن جمہوری وطن پارٹی کی شکل میں کمبل ہم سے چمٹا ہوا ہے۔ نواب بگٹی نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ہم تو اپنے بلوچی کمبل پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اختر مینگل مستعفی ہوجائیں کیونکہ انہوں نے تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ یوں دونوں پارٹیوں کے درمیان بیان بازی کی جنگ تیز ہوگئی، اور اس کے بعد نواب بگٹی کی پارٹی نے وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا۔ اور اب یہ آخری مرحلہ تھا کہ جنرل وحیدکاکڑ نے صدر اسحاق خان اور نوازشریف سے ملاقات کی، اس کے بعد صدر اسحاق خان نے پارلیمنٹ توڑ دی اور صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہوگئیں۔ بلوچستان میں صدراسحاق خان نے نواب بگٹی کے داماد میر ہمایوں مری کو نگراں وزیراعلیٰ بنادیا۔ بعد میں 1993ء کے انتخابات میں جمہوری وطن پارٹی نے 15 نشستیں جیت لیں۔ یہ پس منظر ہے اس سوال کا، جس کا جواب اختر مینگل نے نہیں دیا۔
ان سے ایک سوال پونم کے حوالے سے ہوا۔ پونم میں بلوچستان کی بڑی پارٹیاں بی این ایم اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی تھیں۔ اس اتحاد میں جمعیت علمائے اسلام شامل نہیں ہوئی، اس لیے کہ پشتون خوا اور جمعیت 1970ء کے بعد سے ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ اس اتحاد میں صوبہ سندھ اور پنجاب سے تانگا پارٹیاں شامل تھیں، لیکن یہ اتحاد بھی زیادہ دیر نہ چل سکا۔ اس حوالے سے سردار اختر مینگل سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ پونم کا اصل مقصد چھوٹی قومی پارٹیوں کا اتحاد قائم کرنا تھا تاکہ ملکی سطح پر ہم جدوجہد کرسکیں۔ ابتدا میں سردار عطا اللہ مینگل اس کے صدر تھے اور دوسرے مرحلے میں محمود خان اچکزئی تھے۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ مشرف کے دور حکومت میں پونم زبردست طریقے سے چلی۔ اُس دور میں ہماری پارٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کیا گیا، اس مرحلے پر پونم کو جس طرح ہمارا ساتھ دینا تھا وہ اپنا کردار ویسا ادا نہیں کرسکی۔ ان کا اشارہ محمود خان اچکزئی کی طرف تھا۔ ان کا دور ایک طرح سے پونم سے لاتعلقی کا تھا، اس طرح پونم اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ پشتون خوا اور بی این پی میں قربت تھی وہ دوری میں بدل گئی۔ جنرل مشرف کا دور بلوچستان میں ایک بڑے آپریشن کا دور ثابت ہوا۔ بلوچستان میں نواب بگٹی کے بہیمانہ قتل کے بعد بالکل نئی صورت حال بن گئی۔ قوم پرست پارٹیوں میں دوریاں پیدا ہوگئیں اور مذہبی پارٹیاں بھی مدمقابل آگئیں۔ اس دور میں بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر پیدا ہوگئی۔ بی ایل اے متحرک ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف ناموں سے کئی دہشت گرد تنظیمیں قائم ہوگئیں۔ سردار اختر مینگل نے اس دور میں دبئی کو اپنا مسکن بنا لیا اور سردار عطا اللہ خاموش ہوگئے۔ بی این پی کی اس خاموشی اور سردار اختر مینگل کی دبئی میں رہائش نے نیشنل پارٹی کو موقع فراہم کردیا اور وہ متحرک ہوگئی۔ اس دوران بلوچستان میں کیا نقشہ تھا اس کی ایک جھلک سے اندازہ ہوجائے گا۔
اس مرحلے پر جماعت اسلامی، بی این پی، پشتون خوا اور دیگر پارٹیوں نے ایک نیا اتحاد بنا لیا جس کا پہلا جلسہ سائنس کالج کوئٹہ میں کیا گیا، دوسرا جلسہ پشین میں ہوا۔ تیسرا جلسہ مستونگ میں ہونا تھا تو جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہم مستونگ میں جلسہ نہیں کرسکتے، ہمیں بی ایل او کی طرف سے دھمکی ملی ہے۔ کوئٹہ اور بلوچ علاقوں میں بڑی تیزی سے دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے، ٹارگٹ کلنگ علیحدہ سے جاری تھی، ہزارہ قبائل اس کی زد میں تھے۔ پنجاب کے لوگ مارے جارہے تھے۔ بلوچ علاقوں سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ چلے گئے۔ کوئی بھی پنجابی اس علاقے میں جانے کو تیار نہیں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سردار اختر مینگل دبئی میں رہائش اختیار کرچکے تھے، کبھی کبھی وہ بلوچستان کا دورہ کرتے تھے۔ اس خلا کو نیشنل پارٹی نے پُر کیا اور عبدالمالک بلوچ نے بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ ان کی پارٹی کے 50 کے قریب لوگ مارے گئے، بی ایل اے نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس پورے عرصے میں سردار اختر مینگل انتخابات میں شرکت کے حوالے سے یکسو نہ تھے، کبھی کہتے کہ ہم انتخابات میں حصہ لیں گے اور کبھی کہتے کہ نہیں لیں گے، اور کبھی ان کا مؤقف ہوتا کہ پارٹی نے ابھی تک حصہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ جب انتخابات سر پر آگئے تو سردار اختر مینگل متحرک ہوگئے، مگر وقت ان کے ساتھ نہ تھا۔ انہوں نے جمعیت علمائے اسلام سے معاہدہ کیا اور وہ اپنی قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرسکے، کوئٹہ سے بھی جیت گئے، مگر اکثریت نیشنل پارٹی نے حاصل کی اور پشتون خوا کے ساتھ حکومت بنا لی۔ اس تجزیے کا پس منظر سردار اختر مینگل سے یہ سوال بنا تھا کہ ہم نے نواب بگٹی کی شہادت کے بعد استعفیٰ دیا لیکن نیشنل پارٹی نے استعفیٰ نہیں دیا۔ عبدالمالک اس وقت سربراہ تھے، انہوں نے پشتون خوا سے اتحاد کیا۔ مسلم لیگ (ن) اس اتحاد میں شریک تھی اور ہم اس سے دور ہوگئے۔ دبئی میں عبدالمالک اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی لیکن ہم اتحاد کی طرف نہ بڑھ سکے اور ہماری راہیں جدا ہوگئیں۔
عبدالمالک کے دورِ حکومت میں ہمارے بے شمار کارکن دہشت گردی کا شکار ہوگئے، ہمارے 6 ہزار سے زیادہ بلوچ اٹھائے گئے، اب تک 400 سے زیادہ لوگ گھروں کو لوٹ آئے ہیں، اب ہمارا معاہدہ 6 نکات کے حوالے سے پی ٹی آئی سے ہوا ہے اور ہم صوبے میں حزب اختلاف کی بینچوں پر ہیں اور مرکز میں پی ٹی آئی کے حامی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمیں چلتی گاڑی کا مسافر نہ سمجھا جائے ۔ یہی اپوزیشن سابقہ دور حکومت میں حکمرانی میں شامل تھی۔ اپوزیشن کو ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا پڑے گی۔ صرف دور سے آوازیں دینا کہ آجائو ہمارے جلوس اور دھرنے میں شامل ہو جائو ،ایسا نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے مذہبی اورقوم پرست پارٹیوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا ورنہ بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے، ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر بیٹھنا ہوگا، خود غرضی چھوڑ کر ایک آواز بننا پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر آواز لگائیںاور دوسری طرف وزارتیں حاصل کرلیں۔
سردار اختر مینگل نے نواب ثناء اللہ زہری کی مخلوط حکومت کو گرانے میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا اور مسلم لیگ(ن) کی مخالفت کی۔ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام کے تین تین ارکانِ اسمبلی نے سینیٹ کے چیئرمین کے لیے سنجرانی کو ووٹ دیا۔ دونوں پارٹیاں اس پر مہر بہ لب رہیں اور ان ارکان کا احتساب نہ کرسکیں۔ تاریخ کے حقائق بڑے تلخ ہیں اور کوئی پارٹی جس کا تعلق بلوچستان سے ہے، وہ تاریخ کے اوراق میں شرمندہ ہی کھڑی رہے گی۔ مستقبل کا کیا نقشہ بنتا ہے، تاریخ جلد اس ورق کو پلٹ دے گی۔