جدید طبی آلات سے آراستہ چنیوٹ شہر کے نواح میں مفت علاج کی سہولیات
خوش نصیب اور لائقِ مبارک ہیں وہ افراد اور ادارے، جن کو اللہ نے حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ جو زبان، نسل، برادری، فقہی مسالک، مسلم اور غیر مسلم کی تمیز کے بغیر اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق اپنے اردگرد بسنے والے محروم طبقات کے لیے مفت طبی سہولیات اور مفت تعلیم کا انتظام دینی فریضہ اور دین کا بنیادی تقاضا سمجھ کر کرتے ہیں، اور اسے اپنی ذات اور اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے استعمال بھی نہیں کرتے۔
مسلم معاشرہ کسی دور میں بھی ایسے نیک طینت افراد سے خالی نہیں رہا ہے، اور نہ آج ہے۔ خلافتِ راشدہ کے دور کے بعد غریب اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری میں اہم اور بنیادی کردار ہمارے روحانی سلسلوں سے جڑے خانقاہی نظام نے ادا کیا ہے۔ دینی مدارس، یتیم خانے اور اہلِ خیر کے قائم کردہ ’’وقف املاک کے ٹرسٹ‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اگر ہم اپنے’’چیریٹی‘‘ کے نظام کو ترقی یافتہ اقوام کی طرح مربوط بنالیں اور اداروںکی سطح پر غربت کے خاتمے کی اسکیموں کا ایسا قابلِ عمل نظام وضع کرلیں جو عصرِ حاضر کے جدید تقاضوں کو پورا کرتا ہو، تو مسلم سماج میں بھی چیریٹی کے ذریعے وہی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جو دوسری اقوام نے اپنے چیریٹی کے نظام کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے حاصل کیے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان آج بھی اپنی زکوٰۃ، صدقات، خیرات، انفاق فی سبیل اللہ اور صلۂ رحمی کے ذریعے ’’چیریٹی‘‘ میں سب سے آگے ہیں۔ ہمارے رفاہی ادارے انہی عطیات سے چل رہے ہیں۔ دینی مدارس جہاں قرآن و سنت کی تعلیم کے مراکز ہیں، وہیں یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی این جی او بھی ہیں۔ پاکستان میں ان این جی اوز کے ذریعے کم و بیش 30 لاکھ ایسے بے وسیلہ بچوں کی کفالت ہوتی ہے جن کے والدین کے پاس اپنے بچوں کے لیے سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلوانے کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ مسلم سماج جب تک ترقی یافتہ اقوام کی طرح کا نظام وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، اُس وقت تک وسائل سے محروم طبقات کی دادرسی خلقِ خدا کی خدمت کے جذبے سے سرشار ایسے ہی افراد اور ادارے کریں گے اور وہ جماعتیں جو خدا کی مخلوق کی مشکلات و مصائب میں کمی لانے کے عمل کو بھی عبادت کے درجے میں رکھتی ہیں۔ آج بھی ہمارے ملک میں نہ ایسے افراد کی کمی ہے اور نہ ہی ایسے اداروں کی جو دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت میں دن رات مصروف ِعمل ہیں۔ انہی کی بدولت ملک میں بڑے بڑے رفاہی تعلیمی ادارے قائم ہیں اور مفت علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کرنے والے اسپتال موجود ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب اہلِِ خیر نے اپنی توجہ دیہی علاقوں کی طرف مرکوز کی ہے۔ ’’الخدمت‘‘ اور ’’اخوت‘‘ جیسے رفاہی ادارے اس ضمن میں نہایت قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں جس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ ان دو بڑے رفاہی اداروں کے علاوہ بھی بہت بڑی تعداد میں ایسے ادارے ہیں جو خلقِ خدا کی مشکلات کو کم کرنے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی اپنی کمیونٹی کے پلیٹ فارم سے وسائل سے محروم اپنے متعلقین کی کفالت کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں عرصۂ دراز سے عطیات کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے لیے جدید درس گاہیں بھی قائم ہورہی ہیں، دینی مدارس بھی اور بڑے اسپتال اور چھوٹے چھوٹے شفاخانے بھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اس کا دائرہ پس ماندہ دیہی علاقوں تک وسیع ہورہا ہے۔ گزشتہ سال تحصیل صادق آباد کے ایک دور افتادہ گائوں میں جانے کا اتفاق ہوا تھا، جہاں میرے بھائیوں کی طرح کے عزیز دوستوں برادرم محترم طارق مصطفی باجوہ، ڈاکٹر قاسم مصطفی باجوہ، احسن مصطفی باجوہ، محسن مصطفی باجوہ، ڈاکٹر سکندر مصطفی باجوہ اور جناب امین مصطفی باجوہ کا مشترکہ زرعی فارم ہے۔ وہاں یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت اور مسرت ہوئی کہ باجوہ برادران نے اپنے عظیم والد محترم چودھری محمد اشرف باجوہ (مرحوم و مغفور) کی دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے، اور اپنے علاقے کے پس ماندہ لوگوں کے بچوں کی مفت تعلیم اور طبی سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں پر ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے ’’اخوت‘‘ کے اشتراک سے کام کررہے ہیں۔ اسی طرح کی مسرت اور خوش گوار حیرت ’’چنیوٹ‘‘ شہر کے نواحی گائوں میں واقع حاجی سنز فائونڈیشن کے زیرانتظام قائم ’’مجیدہ میموریل اسپتال‘‘ کا شان دار منصوبہ دیکھ کر ہوئی۔ مجیدہ میموریل اسپتال حاجی سنز کے بانی حاجی حاکم علی (مرحوم) کی اولاد حافظ محمد نسیم (مرحوم)، حافظ محمد سلیم، حافظ محمد نعیم، محمد طاہر اور ذوالفقار، اور ان کی بہنوں نے اپنی والدہ محترمہ کی یاد میں قائم کیا ہے۔
جدید طبی آلات سے آراستہ اِس اسپتال میں علاقے کے غریب لوگوں کو 2013ء سے او پی ڈی میں بالکل مفت علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی جاری ہے۔ اس رفاہی ادارے کے لیے حاجی حاکم علی (مرحوم) کے بچوں نے اپنے زرعی فارم کی چار ایکڑ زمین مختص کی، جہاں اب ایک شان دار اسپتال کی تعمیر کا ایک مرحلہ ایک ایکڑ کے رقبے پر مکمل ہوچکا ہے۔ او پی ڈی میں روزانہ کئی سو افراد کو طبی معائنے، دوائی اور لیب میں ٹیسٹ کی بالکل مفت سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ اب یکم اکتوبر سے مریضوں (اِن ڈور پیشنٹ) کو وارڈ میں داخل کرنے کی سہولت بھی حاصل ہے۔ حاجی سنز فائونڈیشن کے منتظم اعلیٰ حافظ محمد نعیم نے اس کالم نگار کو اسپتال کے دورے کے موقع پر اسپتال کی لیب بھی دکھائی۔ بین الاقوامی معیار کی اس لیب میں ہونے والے ٹیسٹ کا معیار کسی طرح بھی پاکستان کی بڑی سے بڑی معیاری لیب سے کم نہیں ہے۔ اس لیب میں کینسر جیسے موذی مرض سمیت تمام مہلک امراض کے ٹیسٹ بالکل مفت کیے جاتے ہیں۔ ’’مجیدہ‘‘ میموریل اسپتال کا آپریشن تھیٹر بھی بین الاقوامی معیار کا قائم کیا گیاہے۔ ساری مشینری برطانیہ سے منگوائی گئی ہے۔ کئی سال سے اس اسپتال میں زچہ بچہ کی ماہر ڈاکٹر کی زیر نگرانی میٹرنٹی ہوم بھی کام کررہا ہے۔
۔27 اکتوبر سے 31 اکتوبر تک المصطفیٰ اسپتال کراچی کے تعاون سے تین روزہ آئی کیمپ لگایا جارہا ہے جس کے لیے المصطفیٰ اسپتال ڈاکٹرز اور ٹیکنیکل اسٹاف کی سہولت فراہم کرے گا۔ باقی تمام اخراجات ’’مجیدہ میموریل اسپتال‘‘ اٹھائے گا، جس میں مریضوں کی آنکھوں میں لگائے جانے والے لینس بھی شامل ہیں۔ حاجی سنز فائونڈیشن چنیوٹ شہر میں ایک تعلیمی ادارہ بھی چلا رہی ہے جہاں بچوں کو میٹرک کے ساتھ قرآن پاک کا حفظ بھی مکمل کرایا جاتا ہے۔ اس ادارے کے تحت چلنے والے اسپتال اور مدرسے کی قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہاں صفائی ستھرائی کا معیار اس حدیثِ مبارکہ ’’الطہارت نصف ایمان‘‘ کے عین مطابق دیکھنے کو ملا۔ اللہ اس طرح کے تمام رفاہی اداروں کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، آمین۔