حجاج اور بنی عجل کا دیوانہ

ابوسعدی
حجاج ایک دن سیر کے لیے نکلا، راستے میں وہ اپنے ساتھیوں سے الگ رہ گیا۔ اچانک اس نے بنی عجل کے ایک شخص کو دیکھا اور پوچھا: ’’اے شیخ! کہاں سے آنا ہوا؟‘‘ اس نے کہاکہ اس گائوں سے۔ حجاج نے پوچھا: ”تم نے اپنے حکام کو کیسا پایا؟“ کہنے لگا: ”بدترین حاکم ہیں، لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔“ حجاج نے پوچھا: ”اچھا یہ بتائو، حجاج کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟“ اس نے کہا: ”اس سے زیادہ شریر آدمی آج تک عراق کا والی نہیں ہوا، خدا اس کا برا کرے اور اُس کا بھی جس نے اسے گورنر بنایا۔“ حجاج نے کہا: ”مجھے پہچانتے ہو، میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ حجاج نے کہا: ”میں حجاج ہوں۔“ وہ بولا: ”مجھے جانتے ہو، میں کون ہوں؟“ حجاج نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ کہنے لگا: ”میں بنی عجل کا دیوانہ ہوں، دن میں دو بار مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے۔“ حجاج ہنس پڑا اور اسے بہت انعام دیا۔
(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ، جون 2004ء)

سیرت طیبہ(6)۔

ام احمد
شراب کی حرمت کا ابتدائی حکم: 3ہجری۔
کعب بن اشرف کا خاتمہ: 3ہجری۔
امام حسنؓ کی ولادت: 3ہجری۔
غزوہ بحران: ربیع الاول 3 رہجری۔
غزوہ احد: 5یا 6 یا 7 شوال 3 ہجری (مشرکینِ مکہ کے ساتھ)
غزوہ حمرء الاسد: معرکہ احد کے دوسرے دن 3 ہجری۔
سود کی حرمت کا ابتدائی حکم: غزوہ احمد کے بعد 3 ہجری۔
اُم المومنین حضرت زینب بنتِ خزیمہؓ سے آپؐ کا نکاح: 3 ہجری۔
رجیع کا حادثہ: صفر 4 ہجری۔
بئر معونہ کا المیہ: ربیع الاول 4 ہجری۔
غزوہ بنی نضیر: ربیع الاول 4 ہجری (اگست 625ء) (یہودیوں کے ساتھ)۔
غزوہ نجد: 4 ہجری۔
اُم المومنین حضرت زینب بنت ِخزیمہؓ کا انتقال: 4 ہجری (نکاح کے 2 یا 3ماہ بعد)۔
حضرت اُم سلمہؓ سے نکاح: 4ہجری۔
غزوہ بدر دوم: شعبان 4 ہجری (مشرکینِ مکہ کے ساتھ)
غزوہ دومتہ الجندل : ربیع الاول 5 ہجری۔
غزوہ احزاب: شوال 5 ہجری (مشرکینِ مکہ اور مختلف قبائل کے ساتھ)
غزوہ بنو قریظہ: ذی قعدہ 5 ہجری (یہودیوں کے ساتھ)

سینٹ ایا صوفیہ

ایا صوفیہ پہلے آرتھوڈاکس چرچ تھا۔ اس کی تاریخ طویل ہے، یہ 375ء تا 1054ء کرسچن کیتھڈرل، پھر 1054ء سے 1204ء تک گریک آرتھوڈوکس کیتھڈرل بنا، پھر 1204ء سے 1261ء کے دوران یہ رومن کیتھولک کیتھڈرل ہوا۔ اس کے بعد 1261ء تا1453ء گریک آرتھوڈوکس کیتھڈرل ہوگیا۔ پھر 1453ء سے1931ء کے دوران امپیریل مسجد بن گیا۔ پھر اس کے بعد اب یہ ایک میوزیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 532ء میں ہوا اور یہ 537ء میں مکمل ہوا۔ جب 1453ء میں استنبول کے ترک سلطان Mehmed ’’فاتح‘‘ نے اسے فتح کیا تو ترک سلطان کے حکم پر اس مشہور چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں اس میں ضروری تبدیلیاں کی گئیں، جس میں حضرت عیسیٰؑ کا مجسمہ، بی بی مریم اور حضرت عیسیٰؑ کے دیگر حواریوں کے مجسموں سمیت تمام آثار کو ختم کردیا گیا اور ان کی جگہ اسلامی فنِ تعمیر کے مظہر محراب، منبر اور چار مینار بنائے گئے اور یہاں مسلمانوں نے عبادت شروع کردی۔ بلیو مسجد کی تعمیر سے پہلے یہی استنبول کی بڑی اور سینٹرل مسجد کہلاتی تھی۔ اس کے طرزِ تعمیر اور اسٹائل نے بعد کے عمارت کاروں کو بہت متاثر کیا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بلیو مسجد، شہزادہ مسجد، رستم پاشا مسجد اور علی پاشا مسجد میں اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اس کے اطراف پھیلے وسیع و عریض باغ بھی بہت خوب صورت ماحول پیش کرتے ہیں۔
(اقبال احمد صدیقی۔ ”عمارت کار“)

زبان زد اشعار

بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
(ثاقب لکھنوی)

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
(میاں داد خان سیاح)

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
(علامہ اقبال)

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)