ہندوستانی مسلمان
ڈاکٹر طارق رمضان
ڈاکٹر طارق رمضان یورپ میں مقیم معروف ، ممتاز اور اہم مسلمان مفکر ہیں۔ اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کے نواسے اور اخوانی رہنما سعید رمضان کے صاحبزادے طارق رمضان کی پیدائش، تعلیم اور نشوونما یورپ میں ہوئی ہے۔ ان کے خیالات پر مغرب کے ساتھ خود عالم اسلام کے اہل دانش کے حلقوں میں بحثیں ہوتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بھارت کے مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کے لیے ایک تحریر لکھی ہے، جس کا ترجمہ دہلی سے شائع ہونے والے موقر اور ممتاز علمی جریدے ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ میں اپنے نوٹ کے ساتھ شائع کیا ہے اور اہل دانش کو مزید آراء کی دعوت دی ہے۔ زندگی نو نے بھارت کے دو اہل فکر و نظر کے تبصرے بھی شائع کیے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک طرف وہ مظلوم اقلیت ہیں دوسری طرف وہ کسی ایک ملک کے شہریوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ ’’زندگی نو‘‘ جماعتِ اسلامی ہند کا ترجمان جریدہ ہے۔ عالم اسلام کو درپیش مسائل مختلف بھی ہیں اور مشترک بھی۔ اس تحریر کو ہم ’’زندگی نو‘‘ کے شکریے کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ ہم اہل فکر و نظر کے تبصرے کا خیر مقدم کریں گے۔ مدیر۔
ملک و ملت میں اصلاح و دعوت کی تیز رفتار اور ہدف رخی پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ صورتِ حال کا بار بار جائزہ لیا جائے، اہلِ نظر کے بے لاگ تجزیوں سے استفادہ کیا جائے، اور ماضی کی غلطیوں کا تدارک کرتے ہوئے، بہتر سے بہتر وسائل اور اسالیب کی جستجو کی جائے۔ اسی کے پیش نظر معروف اسلامی مفکر طارق رمضان کی ایک فکری تحریر ہندوستان کے کچھ اہلِ فکر و نظر کے تبصرے کے ساتھ یہاں شائع کی جارہی ہے۔ اس تحریر پر مزید رایوں کا ہم استقبال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں موصول ہونے والی مختصر اور مفید تحریروں کو اگلے شمارے میں بشکل مراسلات شائع کیا جائے گا۔ امید ہے یہ سلسلہ زندگی نو کے قارئین میں فکری سرگرمی کو تحریک دے گا۔ (ادارہ)
ہندوستان میں مسلمان ہونے کے تقاضوں اور ذمہ داریوں کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق رمضان نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے بعض قابلِ توجہ اور غور وفکر کی دعوت دینے والے نکات پیش کیے ہیں جو پیش نظر تحریر میں اختصار کے ساتھ قلم بند کیے جاتے ہیں۔
اسلام کے تعلق سے یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کو سمجھنا بہت آسان ہے لیکن جس سماج اور سوسائٹی میں ان تعلیمات کو بروئے کار لانا ہے وہ بہت پیچیدہ اور تغیر پذیر ہے۔ چنانچہ مسلم ہونے کے واسطے جس طرح ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو سمجھیں، اسی طرح یہ بھی عین فرض ہے کہ ہم اس دنیا کو بھی سمجھیں جس میں ہم ان تعلیمات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلام میں کچھ اصولی اور ابدی تعلیمات تو متعین ہیں لیکن ان اصولوں کا عملی ماڈل ہمیشہ زمان ومکان اور حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ آج کا دور اس معاملے میں یک گونہ زیادہ چیلنج رکھتا ہے کہ اب ہماری معلومات اس دنیا، انسانیت اور کائنات کے تعلق سے پہلے کے لوگوں سے کہیں زیادہ وسیع اور گہری ہیں۔ سماجی ڈھانچے اور سماجی اداروں کی نوعیت بھی بالکل مختلف ہے۔ ایسے میں اگر مسلمانوں کو آج کی دنیا کے تعلق سے معلومات میں گہرائی اور مہارت نہیں ہے اور وہ کسی قدیم اسلامی ماڈل کو موجودہ دور میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ مسلمان ہونے کے منصب کے عین منافی اور ذمہ داریوں سے فرار ہے۔ چنانچہ نظریاتی طور سے اصولوں اور ماڈلز کا فرق ذہنوں میں واضح ہونا چاہیے اور عملی سطح پر ماڈل کی تیاری کے لیے مذکورہ بالا مطالبوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر دورِ نبوی میں ریاستِ مدینہ کی جو تشکیل ہوئی تھی وہ دراصل ایک تاریخی ماڈل تھا جس کی بنیاد وہ سیاسی اصول تھے جو اسلام نے سیاست کے تعلق سے پیش کیے تھے، جیسے عدل و انصاف، مساوات، شورائیت وغیرہ۔ اب اگر کوئی مدینے کی اس ریاست کا ماڈل آج کے دور میں جب کہ سیاست، معیشت، معاشرت اور خود انسانی حقائق میں بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے، کسی ملک کے لیے تجویز کرتا ہے تو یہ اس کے اسلامی اصولوں کی روح اور سماج کے حقائق دونوں سے ناواقفیت کی دلیل ہوگی۔
ہندوستان جیسے معاشرے میں مسلمانوں کے سامنے ایک اہم چیلنج اقلیتی اسٹیٹس کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ عام طور سے مسلم اقلیت کے حوالے سے تین طرح کے نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ اور اس کا تعلق دراصل اس بحث سے ہے کہ اسلام اور اجتماعی زندگی میں آپسی تعلق کی نوعیت کیا ہوگی اور اس تعلق سے موجودہ فکری لٹریچر میں تین مؤقف پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام ایک متبادل نظام ہے اور جب تک سماج کی ہر چیز کو اس متبادل کے ذریعے تبدیل نہ کردیا جائے مسلمانوں کو کوشش کرتے رہنا ہے۔ چنانچہ ثقافت ہو یا معیشت، سیاست ہو یا معاشرت ہر چیز کو مکمل طور سے ایک متبادل فراہم کرکے چیزوں کو اسلامائز کرنا ضروری ہے۔ دوسرا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمان اقلیت میں ہیں اس لیے اپنے تحفظ اور بقا کی فکر کرنا زیادہ اہم ہے۔ اس کا ایک مظہر فقہ الاقلیات کے نام پر اپنے لیے ایک محفوظ چھت تلاش کرکے سماج اور بقیہ معاشرے سے لاتعلق اور بے پروا ہوجانا ہے۔ فقہ الاقلیات دراصل اسی محدود چھت کی تعمیر کا نام ہے۔ اوپر مذکور دونوں موقفوں کے پیچھے دراصل جو ذہنیت کارفرما ہے اسے حرام رخی ذہنیت (haram mentality) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کا ماننا یہ ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہماری شریعت نے باقاعدہ حلال نہ کی ہو، یا ہر وہ چیز جس کا ماخذ دوسری قومیں ہوں وہ حرام ہیں۔ تیسرا اور حقیقت پسند رویہ وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے وقت اپنایا تھا۔ آپؐ نے مدینے کی ثقافت، معیشت اور معاشرت میں ہر اُس چیز کو قبول کیا جس کا اسلام سے براہِ راست کوئی تصادم نہیں تھا۔ اسی طرح آپؐ نے نبوت کے بعد بھی قبلِ نبوت کے اس واقعے کو یاد کیا اور سراہا جس کو حلف الفضول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اقدار اور اخلاقیات کے باب میں اسلام کی اپروچ ایک فطری اور عقلی اپروچ ہے۔ چنانچہ ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ سماج اور معاشرے کی ہر چیز جو اسلامی اصولوں اور اقدار سے کوئی تصادم اور ٹکراو نہیں رکھتی، وہ اسلامی ہے اور وہ ہماری ہے، چاہے وہ ثقافت ہو یا معیشت، افکار ہوں یا نظریات، فلسفہ ہو یا ادب۔ شریعت کا واضح اصول ہے کہ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ (ہر چیز جائز اور مباح ہے یہاں تک کہ باقاعدہ نص نے اس کو حرام نہ کیا ہو)۔ یہ طرزِ فکر بہت ہی نقصان دہ اور غیر مفید ہے کہ میں اسی وقت صحیح یا اسلامی ہو سکتا ہوں جب دوسروں کو غلط اور غیر اسلامی ثابت کر سکوں۔ ہماری اپروچ یہ ہونی چاہیے کہ ہم تمام صحیح ہو سکتے ہیں اگر ہم کچھ متعینہ اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ ہندوستان کے قانون اور دستور میں بہت زیادہ چیزیں ایسی ہیں جو اسلام سے ذرا بھی ٹکراتی نہیں ہیں اور وہی دراصل ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شریعت کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے حقِ رائے دہندگی ہے، شہریت کی بنیاد پر حاصل ہونے والے حقوق اور مراعات ہیں، وغیرہ۔ اور بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جہاں اصلاح اور تبدیلی کی سخت ضرورت ہے اور عام انسانی، اخلاقی، عقلی اور نفسیاتی بنیادوں پر ہم عام لوگوں کے ساتھ مل کر اس میں تبدیلی کی کوشش کر سکتے ہیں اور کرنا چاہیے۔ حقوقِ انسانی کا عمومی فریم ورک بھی اسلام اور اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہے اور اس میں بڑی گنجائش ہے کہ اس فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے ہم ہندوستان میں ان رسموں اور قوانین کو جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں، تبدیل کرنے اور اس میں اصلاح کرنے کی کوشش عام ہندوستانیوں کوساتھ لے کر کریں۔ عدل و انصاف کا مسئلہ ہو، سرمایہ داروںیا اونچی ذات والوں کو خصوصی اسٹیٹس کا حاصل ہونا ہو، خواتین کے ساتھ مختلف سطح پر نا انصافی کا مسئلہ ہو، کرپشن کا مسئلہ ہو، ان جیسے تمام امور پر مسلمانوں کا فعال اور مؤثر رول ہونا چاہیے۔ ان کو آگے بڑھ کر ایک بہتر عدالتی سسٹم، ایک انصاف پسند نظام اور عدلِ اجتماعی کو بڑھانے کے لیے اپنا مثبت رول ادا کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کو دوسری قوموں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں اور اپنے مشن پر بھی بالکل واضح اور صاف مؤقف رکھنا چاہیے۔ جب ہم مشن کی بات کرتے ہیں تو فوراً ہمارے ذہن میں دعوت کا لفظ آتا ہے۔ لیکن دعوت کا مفہوم دراصل کیا ہے اس پر گفتگو ہونا ضروری ہے۔ کیا دعوت کا مطلب لوگوں کو مسلمان بنانا اور اُن کے دین کو تبدیل کرانا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دعوت دراصل دوچیزوں کا نام ہے: شہادت اور خدمت۔ لتکونو ا شھداء علی الناس۔ شہادت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تم کو دیکھ کر یہ محسوس کریں کہ اسلام زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے۔ چنانچہ شہادت کا مفہوم ہوا:اسلام کا عملی نمونہ بننا اور اس کی عملی گواہی بننا۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ دعوت یک طرفہ اپنی بات کہنے اور اپنی طرف بلانے کا عمل نہیں ہوتا۔ دعوت کے لیے لازمی ہے کہ ہم پہلے لوگوں سے خوب سنیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ لوگوں کے ذہن میں کیا ہے، ان کی ضرورتیں کیا ہیں، ان کی پریشانیاں کیا ہیں اور ان کی کیا امیدیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے الگ الگ قوموں اور گروپوں میں لوگوں کو تقسیم کرنے کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، لتعارفوا۔ تاکہ ایک دوسرے کو سمجھو اور ایک دوسرے سے سیکھو۔
خدمت دراصل ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف ایک اشارہ ہے جس کا ذکر قرآن کی آیت فضلکم علی العالمین میں کیا گیا ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ذکر ہر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ لیکن اس آیت کا صحیح مفہوم اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کے بجائے عموماً لوگ اس کے ظاہری مفہوم کو لے کر خود پسندی اور احساسِ برتری کا شکار ہوگئے، جس طرح یہود اپنے آپ کو اللہ کے چنیدہ بندے سمجھ بیٹھے اور اب مسلمان بھی اسی زعم میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ ہم اللہ کے چنیدہ بندے ہیں۔ چنانچہ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ فضیلت دراصل ان ذمہ داریوں اور خدمات کا نام ہے جو مسلمانوں سے مطلوب ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے پیش کریں۔ وہ لوگوں کو امن و سلامتی دیں۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ محروم شخص کسی دوسرے کو کچھ نہیں دے سکتا۔ چنانچہ اگر دوسروں کے لیے کچھ کرنا ہے تو پہلے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ دوسروں میں امن اور شانتی پھیلانا ہے تو خود امن اور شانتی کی دولت سے مالا مال ہونا ہوگا۔
ایک اہم پہلو الفاظ اور اصطلاحات کا ہے۔ عموماً ہم قوموں کی بات کرتے ہوئے قوموں کی تعریف میں مسلم اور غیر مسلم کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ دراصل دوسری قوموں کے تعلق سے کمتری اور اپنی قوم کی افضلیت پر مبنی طرزِفکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو مرکزیت دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی مرکزیت کے حوالے سے پہچان دیتے ہیں۔ تصور کریں اگر ہماری شناخت غیر ہندو کے طور پر یا غیر عیسائی کے طور پر کی جائے تو ہم کو کیسا محسوس ہوگا۔ ہر قوم کو جب کسی کے حوالے سے منفی انداز میں پیش کیا جائے گا تو اسے یہی محسوس ہوگا۔ چنانچہ جس طرح ہم اپنے لیے اپنی واضح شناخت یعنی مسلم کے طور سے پہچاننے کو پسند کرتے ہیں اسی طرح دوسروں کو بھی انھی کی شناخت کے ساتھ پکارنا چاہیے۔ چنانچہ مسلم غیر مسلم کی اصطلاح کے بجائے مسلم، ہندو، عیسائی اور سکھ جیسے صاف لفظوں کا استعمال ہونا چاہیے۔
مظلومانہ ذہنیت اور ہمیشہ اس وہم میں مبتلا رہنا کہ لوگ ہمارے بارے میں غلط رائے رکھتے ہیں صحت مند رویّے کے منافی ہے۔ جب کوئی یہ سوچنے لگتا ہے کہ اب وہ مغلوب ہوگیا ہے تو اس کی پوری ذہنی اور فکری توجہ اپنے وجود کو بچانے اور اپنا دفاع کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا مثبت رول، اس کی تخلیقیت، اور اس کا کنٹری بیوشن ختم ہوجاتا ہے۔ مظلومیت اور ردعمل والے رویّے سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ ہندوستانی معاشرے کے مسائل کے حل میں اور معاشرے کی ترقی میں مسلمانوں کا بھرپور اور قابل ذکر رول ہونا چاہیے۔ ہمت اور حوصلوں سے مالامال ہوکر ہر برائی، کرپشن، ظلم اور تمام غلط پالیسیوں پر عالمانہ انداز سے اور دلائل سے بھرپور آواز اٹھانا ان کی پہچان ہونی چاہیے۔ ہمت کا تعلق خود اعتمادی سے ہوتا ہے۔ اور خود اعتمادی آتی ہے فکری اور روحانی خود مختاری سے۔
آج کے تکثیری سماج میں ایک اہم چیلنج یہ بھی ہے کہ اُن لوگوں کے تعلق سے ہمارا مؤقف کیا ہو جو ہمارے اصولوں سے ٹکرانے والا رویہ رکھتے اور اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جنسیت کو پروموٹ کرنے والے ہیں۔ اس تعلق سے ہمارا مؤقف واضح ہونا چاہیے۔ بحیثیت انسان ہم تمام انسانوں کی عزت کریں گے لیکن ساتھ ہی ہم اپنا واضح مؤقف پیش بھی کریں گے۔ ہم کسی شخص کی مذمت تو نہیں کریں گے لیکن ہم ہر رویّے پر اپنا واضح مؤقف پیش کریں گے اور اپنے مؤقف سے مطمئن کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
آخری بات زبان کے حوالے سے ہے۔ ہمارے سامنے یہ بات صاف ہونی چاہیے کہ مسلمانوں کی کوئی مخصوص زبان نہیں ہوتی ہے اور نہ ہونی چاہیے۔ اسلامی مصادر یا قرآن و سنت کی زبان عربی ہے اور اس کا سیکھنا بہتر بلکہ ضروری ہے۔ مگر اس کا مقصد صرف قرآن و حدیث کو سمجھنا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ متعدد زبانوں کو سیکھنا اچھی بات ہے۔ اس سے ہماری معلومات اور سوچ کے افق وسیع ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری روزمرہ کی زبان، ہمارے کاموں اور تحریروں کی زبان، ہماری گفتگو اور معاملات کی زبان وہی ہونی چاہیے جو ہماری سوسائٹی کی زبان ہے۔ مقامی زبانوں سے ہمارے تعلق کی مضبوطی سوسائٹی میں ہمارے اثرات کی مضبوطی کا باعث بنے گی۔ مقامی زبانوں میں اسلامی تعلیمات کو پیش کرنا ہی مؤثر اور مفید ہوگا۔
تبصرہ (1) نسیم احمد غازی فلاحی،
مدھرسندیش سنگم (دہلی)
جناب طارق رمضان کی تحریر ہندوستانی مسلمان، مشن اور تقاضے پڑھنے کا موقع ملا۔ مجھے ان کی تحریر پڑھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ موصوف کی تحریر دعوتی جذبے سے پُر ہے، نیز عملی بھی۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے اور آتی رہتی ہے کہ امریکہ و یورپ کے احباب کی عام طور پر دعوتی اپروچ بڑی فطری اور عملی ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں کے احباب کی اپروچ عام طور پر نفسیاتی، جذباتی،روایتی اور فقہی انداز کی ہوتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمارے یہاں عام طور پر دعوتی اپروچ پائی ہی نہیں جاتی اور نہ اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے۔ اب آنکھ کھل رہی ہے لیکن وہ جذبہ مجبوری والا ہے، حقیقی نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن کا تذکرہ اس وقت پیش نظر نہیں ہے۔
طارق صاحب ایک بات لکھتے ہیں کہ اسلام کے تعلق سے یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کو سمجھنا بہت آسان ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے، فطرت اس سے آشنا ہے اور یہ فطرت کی آواز ہے۔ اس لیے اسلام کی تعلیمات نہایت آسان ہیں اور چوں کہ یہ تعلیمات انسانوں کے مہربان رب کی جانب انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں اس لیے نہایت مؤثر بھی ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام کی اصولی اور ابدی تعلیمات کی پابندی کرتے ہوئے ہم حالات اور افراد کے مزاج کے مطابق ان کو عمل میں لائیں۔ مثلاً اسلام نے لباس کے سلسلے میں کچھ اصول طے کیے ہیں جن میں ستر کا چھپانا، شرم وحیا کا لحاظ رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ اب کسی جگہ کے لوگوں کو کوئی خاص لباس پہننے پر مجبور کرنا درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح دیگر چیزوں کا معاملہ ہے۔ ہمیں رب اور بندے کے درمیان بہت زیادہ حائل نہیں ہونا چاہیے۔
جناب طارق رمضان نے مدینہ ماڈل بجا طور پر عدل و انصاف، مساوات و شورائیت وغیرہ کو قرار دیا ہے۔ اور آگے موجودہ دور کے لیے مدینہ دور کے ماڈل کو مناسب قرار نہیں دیا ہے۔ موصوف کی یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ موجودہ دور میں عدل و انصاف، مساوات و شورائیت کو نظرانداز کرکے کون سا ماڈل بنایا جا سکتا ہے۔
ہندوستان میں ایک مسئلہ اقلیت و اکثریت کا ہے۔ اس کے سلسلے میں مختلف انداز ِفکر ہیں جن کی نشان دہی جناب رمضان نے کی ہے۔ اور آخر میں مناسب رویّےکی طرف رہ نمائی فرمائی ہے۔
ان کی یہ بات بڑی حد تک درست اور مناسب ہے۔ لیکن افسوس کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اس طرز پر کبھی سوچا ہی نہیں۔ قرآن کے مطابق جب ہم بھائی بھائی ہیں تو ہمیں اقلیت و اکثریت کا دائرہ بنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمیں ہر اچھے کام کو اسلام کا تقاضا سمجھ کر اپنا کام تصور کرنا چاہیے اور ایک اہم رول ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح یہاں کی نفسیاتی، سماجی اور معاشرتی برائیوں کو اپنے سماج کی برائی سمجھ کر دور کرنے کی تدابیر ہونی چاہئیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے صرف اپنے مسائل کو مسائل سمجھا اور اپنی پریشانیوں کو پریشانی۔ اور اپنی تگ و دو صرف اپنے مسائل کے حل تک محدود رکھی۔ اگر ہم ہندوستان کے سبھی لوگوں کے مسائل پر سوچتے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے تو یہاں کے دیگر باشندوں کا ساتھ ہمیں ملتا اور اس کے نتیجے میں ہمارے مسائل بھی حل ہوجاتے۔
ہندوستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ہندوئوں اور مسلمانوں میں دوری پیدا کرنے کے کام پر منصوبہ بند طریقے سے لگا ہوا ہے، اور ایک حد تک وہ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے، اس میں ہم مسلمانوں کے رویّے کا بڑا دخل ہے۔ مسلمان اس ہدایتِ رسول ؐ کو بھول گئے کہ ہمارے سماج کی مثال ایک کثیر منزلہ کشتی کی ہے، اگر کوئی شخص اس کے تلے میں سوراخ کرکے پانی لینا چاہتا ہے تو بھی اس کا ہاتھ پکڑنا ہوگا اور اس کی ضرورت کو مناسب طریقے سے پورا کرنا ہوگا ورنہ پوری کشتی غرقاب ہوگی۔
مسلمانوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ فرض کرلیا کہ ہمیں جو مدد کرنی ہے وہ مسلمانوں ہی کی کرنی ہے۔ بھوک مسلمانوں کی مٹانی ہے۔ اپنے سارے صدقات، خیرات و زکوٰۃ صرف مسلمانوں کے ضرورت مندوں کے لیے ہیں۔ اس غیر اسلامی سوچ نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری تصویر یہ بن گئی کہ ہم صرف مانگنے والے اور لینے والے ہیں۔ دینا ہمارے لیے ضروری نہیں۔ طارق صاحب نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اصولی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہوئے اس پر عمل ہونا چاہیے۔
طارق رمضان صاحب نے ’دعوت‘ کے موضوع پر گفتگو کی ہے اور اس کا صحیح تعارف کرایا ہے۔ قرآن میں اس فریضے کے لیے متعدد الفاظ موقع کی مناسبت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً شہادت علی الناس، امر بالمعروف نہی عن المنکر، اخرجت الناس، دعوت الی اللہ وغیرہ۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ دعوت لوگوں کو کوئی کتاب پڑھوانے، یا کوئی تقریر سنوانے یا کسی موضوع پر اُن سے گفتگو کرنے اور اسی طرح کے کاموں کا نام ہے۔ یقیناً یہ سب کام دعوت میں شامل ہیں، لیکن یہ دعوت کا ایک پہلو ہے اور اس کا دوسرا پہلو بلکہ اصل پہلو یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی انفرادی اور سماجی زندگی میں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرے۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے مسلمان کی زندگی کی کتاب لوگ پڑھ لیں۔ ہندوستان کے پس منظر میں عرض کرنا ہے کہ اگر مسلمان اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا یہ کام انسانیت کو اسلام کی طرف متوجہ نہ کرے۔
دعوت کے ساتھ خدمت کی بات بھی محترم طارق صاحب نے کی ہے۔ بہت سے احباب اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ خدمتِ خلق سے دعوت کا کوئی خاص تعلق ہیں۔ ایسے لوگ دین اور اس کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ لوگوں کے، خاص طور سے کمزوروں اور ضرورت مندوں کے کام آنا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ قرآن کی مکی سورتوں پر غور کریں تو وہاں اس کی تعلیم واضح طور پر ملتی ہے۔ یتیموں، محتاجوں اور سائلوں کی خبر گیری پر ابھارا گیا ہے اور مسلمان نہیں بلکہ عام طور پر وہ لوگ بھی جو اسلام کے دائرے سے باہر ہیں۔ یہ تعلیم دے کر قرآن لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ اسلام پر عمل کرنے کے نتیجے میں کیسا معاشرہ وجود میں آئے گا۔ خدمتِ خلق کے سلسلے میں اللہ کے رسول ؐ نے جو باتیں بیان کی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے انسان خدا کے نہایت قریب ہوجاتا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی خدمتِ خلق کی اہمیت کو کم کیا جاسکتا ہے! پھر خدمتِ خلق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ہاں ضروری ہے کہ مسلمان اللہ کی رضا کے لیے یہ فریضہ انجام دیں اس طرح کہ خدمت ان کی عادتِ ثانیہ بن جائے۔
دعوت اور خدمت کے بارے میں میرا ماننا ہے کہ یہ زندگی کا ہنر (art of living)ہے۔ اگر مسلمان چلتا پھرتا اسلام کا نمونہ بن جائیں گے تو اس سے بڑی کوئی دعوت نہیں۔ پھر کسی سے یہ کہنا نہیں پڑے گا کہ تم اسلام قبول کرو، بلکہ لوگ از خود ان تعلیمات کو اپنی زندگی میں داخل کرنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ یاد رکھیےکوئی جان بوجھ کر اپنا دشمن نہیں ہوتا۔ ہمارے سامنے متعدد ایسے واقعات ہیں جن میں ایک لفظ بھی اسلام قبول کرنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ کردار سے متاثر ہوکر لوگوں نے باصرار مطالبہ کیا کہ وہ بھی دینِ رحمت میں آنا چاہتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کردار کے حصے بخرے نہیں ہوتے کہ انسان کبھی کچھ، کبھی کچھ بن جائے۔ اس کی مثال اُس شیشی کی ہے جس میں نہایت عمدہ عطر بھرا ہو۔ اس شیشی کو آپ جہاں بھی اور جب بھی کھولیں گے اس میں سے عطر کی خوشبو ہی آئے گی۔
ایک پہلو الفاظ اور اصطلاحات کا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ہم کن الفاظ میں مخاطب کریں۔ طارق صاحب نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے اور بڑی نفسیاتی بات تحریر کی ہے۔ موصوف کی یہ بات اصولی طور پر درست ہے۔ اس پر پہلے سے توجہ دی جارہی ہے۔ چنانچہ وطنی بھائی ،برادرانِ وطن اور اس طرح کے دیگر نام استعمال ہورہے ہیں۔ حسب ِموقع ہندو، سکھ، عیسائی کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ کسی کے لیے ایسے الفاظ ہرگز استعمال نہ کیےجائیں جو ان کی دل آزاری کا سبب بنیں۔ الفاظ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اس لیے ہمیشہ ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جائے جن سے کسی کی دل آزاری نہ ہو بلکہ اپنائیت کا اظہار ہوتا ہو۔
طارق رمضان صاحب نے ایک اہم بات مظلوم ذہنیت کے تعلق سے فرمائی ہے ،میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ تقریباً 55 برسوں سے جب سے میں نے اسلام میں قدم رکھا ہے یہی سننے میں آتا رہا کہ مسلمان بہت پریشان ہیں،ساری دنیا کے لوگ ان کے خلاف سازشیں کررہےہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس ذہنیت نے مسلمانوں کو مُردہ کردیا۔ سماج اور ملک میں جو کچھ وہ تعمیری کام کرسکتے تھے اس سے بے پروا ہوگئے، اور من مانی زندگی گزارنے لگے۔ اپنے گناہوں اور کمزوریوں کا الزام دوسروں پر رکھنے لگے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی تقریبات شادی، بیاہ اور ان کے رہنے سہنے اور کھانے پہننے کے انداز سے دور دور تک یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ قوم پریشان حال ہے۔ ہم نے اپنی فکر کی، اپنے حقوق پر نظر رکھی اور ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کردیا۔
طارق صاحب نے آخری بات زبان کے تعلق سے لکھی ہے۔ اس پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ: میں نے یہ سوچا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ ایک ایسی قوم کے لیے جس کے کاندھوں پر سارے انسانوں کی خیر و فلاحِ دنیا سے لے کر آخرت تک کی ذمہ داری ہو، سوسائٹی اور سماج میں رائج زبان کو اختیار کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہوا اور پانی۔ اس سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں نے مجرمانہ غفلت کی ہے۔ ضرورت یہ تھی کہ ہمارے دینی مدارس خاص طور سے ہندی زبان کو اس کا جائز مقام دیتے۔ بلکہ اپنے یہاں سنسکرت زبان کے ماہرین بھی پیدا کرتے۔ مگر اس طرف توجہ دلانے کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ میں معذرت کے ساتھ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ ایک خاص زبان سے جڑ کر ہم نے اسلام اور مسلمانوں کا بڑا نقصان کیا ہے۔ ہر رائج زبان ہماری ہے اور اللہ کی دین ہے۔
قرآن واضح طور پر ہمیں بتاتا ہے کہ سماج اور سوسائٹی کی زبان میں اللہ نے اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے۔
تبصرہ (2) شبیع الزماں،پونہ
اس مضمون کی ابتدا میں اصول و نظریات اور ان کی بنیاد پر بننے والے ماڈل کے فرق کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کے اصول تو دائمی ہیں اور فہم کے اعتبار سے آسان بھی۔ البتہ ان کا انطباق مختلف زمانوں میں مقامی حالات کے اعتبار سے مختلف ہوگا اور اس کا ادراک مشکل کام ہے۔ کسی بھی دور میں ماڈل کے نفاذ کے لیے اس زمانے کے حالات کا غیر معمولی ادراک ضروری ہے۔ ہر دور کا اپنا نیا ماڈل ہوگا جو اس زمانے اور اس علاقے کی ضروریات،حالات اور تقاضوں کے مطابق ہوگا۔
موجودہ زمانے میں دنیا بہت تیزی کے ساتھ بدلی ہے۔ علمی اکتشافات، ٹیکنالوجی کی ترقی اور کمیونی کیشن کے جدید ذرائع نے دنیا کے عمرانی، سیاسی، تہذیبی اور معاشی معاملات کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ اس لیے سابقہ ماڈل کامیاب ہونے کے باوجود جوں کے توں اب کام نہیں دے سکتے، بلکہ اسلامی اصولوں کے گہرے فہم کے ساتھ ساتھ حالات کا بھی گہرا فہم لازمی ہے، اور اسلامی اصولوں کے مطابق جدید حالات میں نئے ماڈل کو پیش کرنا ہوگا۔
اس اصولی گفتگو کے بعد محترم نے ہندوستانی مسلمانوں کی نئے حالات کے تحت پالیسی میں کیا ترمیم ہونی چاہیے اس پر گفتگو کرتے ہوئے کچھ نکات پیش کیے ہیں۔ یہیں سے مضمون کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جہاں سے کہ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
طارق رمضان ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کے تین رویوں کو بیان کرتے ہیں۔
اول یہ کہ تہذیب، معاشرت، معیشت ہر چیز کو نئے سرے سے اسلامی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ ہر چیز کو مکمل اسلامائز کیا جائے۔ جب تک اسلامائز نہ ہو تب تک وہ غیر اسلامی ہے۔
دوسرا یہ کہ اقلیتوں کو دین کے، سماج کے مسائل سے زیادہ اپنی بقا اور تحفظ پر فوکس کرنا چاہیے۔ انہیں سماج کے مسائل میں زیادہ دل چسپی نہیں لینی ہے، بلکہ انہیں اپنی قوم کو بنانے اور سنوارنے میں دل چسپی لینی چاہیے۔
طارق رمضان کے نزدیک مذکورہ بالا دونوں رویّے منفی اور غیر حقیقت پسندانہ رویّے ہیں۔
اُن کے نزدیک اسلام کا حقیقت پسندانہ نظریہ یہ ہے کہ سماج کی ہر چیز چاہے وہ افکار و نظریات ہوں یا فلسفہ و ادب، یا پھر معیشت و معاشرت۔۔۔ جائز ہے، جب تک اسلام انہیں باقاعدہ حرام نہ قرار دے دے۔ بنیادی طور پر چیزیں مباح ہوں گی جب تک قطعی نص انہیں حرام نہ کردے۔ اس سے حلت کا دائرہ وسیع ہوگا اور حرمت کا دائرہ مختصر۔
ہندوستان کے حالات میں اس اصول کا انطباق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے قانون اور دستور میں بہت سی چیزیں ایسی ہے جو اسلام سے ذرا بھی نہیں ٹکراتیں اور وہی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شریعت کا درجہ رکھتی ہیں‘‘۔
اس عملی انطباق پر کئی سوال پیدا ہوسکتے ہیں جیسے کہ جو باتیں اسلامی شریعت اور ہندوستانی دستور میں مشترک ہیں وہاں تک تو بات ٹھیک بھی ہے اور سمجھ میں بھی آتی ہے، لیکن شریعت کا وہ حصہ جو دستور میں نہیں ہے اُس پر عمل آوری کی کیا صورت ہوگی اور اس کی حیثیت کیا ہوگی؟ کہیں ان کی بات کا یہ مفہوم تو نہیں کہ شریعت کے صرف اتنے حصے پر عمل کیا جائے جو دستور کا حصہ ہے۔ باقی رہا شریعت کا وہ حصہ جو ملکی قانون میں جگہ نہیں پا سکا تو اقلیتیں اس پر عمل کی مکلف ہی نہیں ہیں۔ اس پر مزید یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی دستور تو تبدیل ہوتا رہتا ہے، اگر اس میں شرعی چیزیں وقت کے ساتھ کم ہوتی رہیں اور غیر شرعی چیزیں بڑھتی رہیں تو کیا شریعت کا دائرہ بھی سکڑتا جائے گا؟
اسی طرح ہندوستانی دستور اور سماج کی دیگر برائیاں جیسے عدم مساوات،کرپشن، خواتین کے ساتھ ناانصافی، سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ، غیر انسانی رسوم و رواج اور ظالمانہ قوانین کے متعلق بھی ان کا مشورہ ہے کہ ان ایشوز کو راست اسلامی بنیادوں پر اٹھانے کے بجائے علمی، عقلی، انسانی اور نفسیاتی بنیادوں پر اٹھانا چاہیے۔ یہ اپروچ بھی مفید ہے کیونکہ مذہبی بنیاد نہ ہونے کے سبب گفتگو کو بنا تعصب کے سنا جائے گا، لیکن کیا اس اپروچ کی تصدیق قرآن سے ہوتی ہے؟
قرآن مجید کی اپروچ اس سے مختلف ہے۔ سورہ تکویر میں ہے ’’جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا اسے کس جرم میں قتل کیا گیا‘‘۔ یہاں قرآن نے ایک سماجی مسئلے کو آخرت کے حوالے سے اٹھایا، نہ کہ عقلی یا علمی بنیادوں پر۔ عقلی اور علمی بنیادوں کو استعمال تو کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل طور سے اسی کی بنیاد پر دعوت نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ مسائل کتنے ہی علمی اور عقلی بنیادوں پر اٹھائے جائیں ان کا عملی تدارک ناممکن ہوتا ہے جب تک کسی جواب دہی کا احساس انسان کے شعور میں نہ ہو۔
شراب کے تباہ کن اثرات پر علمی، اخلاقی، نفسیاتی اور انسانی بنیادوں پر لٹریچر کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ لٹریچر دنیا کی اُن مہذب قوموں نے تیار کیا ہے جو خود اس ام الخبائث کی سب سے زیادہ شکار ہیں۔ آخرت کے احساسِ جواب دہی کے بغیر معاشرتی خرابیوں کا ازالہ ناممکن ہے، اس لیے ان برائیوں کے خلاف آواز اسی بیانیے کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بلاشبہ عقلی، علمی اور دیگر بنیادوں کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے، لیکن مرکزی حیثیت اسی بیانیے کی ہونی چاہیے۔
آگے مسلمانوں کے مشنِ دعوت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’کیا دعوت کا مقصد لوگوں کو مسلمان بنانا یا ان کے دین کو تبدیل کرانا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دعوت کا مطلب شہادت اور خدمت ہے۔ شہادت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تم کو دیکھ کر محسوس کریں کہ اسلام زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے۔ چنانچہ شہادت کا مفہوم ہوا ’’اسلام کا عملی نمونہ بننا اور اس کی عملی گواہی دینا‘‘۔
اس تصورِ دعوت میں بنیادی طور سے دو خامیاں ہیں۔ اول یہ کہ قولی دعوت کا مکمل انکار ہے۔ بلاشبہ عملی دعوت بھی دعوت ہی کا حصہ ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی بھی دعوت صرف عملی طریقے سے نہیں دی گئی۔ قرآن، سیرتِ رسولؐ اور اسلامی تاریخ پر ہر جگہ ہمیں قولی اور علمی دونوں طرح کی دعوت نظر آتی ہے۔ بلکہ یہ بات تو کامن سینس کے بھی خلاف ہے کہ آدمی اپنا مشن تو پیغام کی دعوت بتائے لیکن اس کی طرف اپنی زبان سے کسی کو دعوت نہ دے۔
دوسرا یہ کہ بلاشبہ داعی سے تو یہ مطلوب نہیں کہ وہ لازماً لوگوں کے مذہب تبدیل ہی کروائے، لیکن دعوت کی آخری منزل تو وہی ہے کہ لوگ خدا اور آخرت پر ایمان لاکر اپنی زندگی بدل ڈالیں۔
دعوت کے بعد اصطلاحات پر مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خود کو مسلم اور دوسروں کو غیر مسلم کی حیثیت سے شناخت کرنے سے خود کے لیے احساسِ برتری اور دوسروں کے لیے کمتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تفریق گفتگو میں امتیاز کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔ اور مذاہب کی شناخت انفرادی سطح پر ان کے نام کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔ جیسے سکھ، جین، ہندو، عیسائی یہی شناخت اختیار کی جاتی ہے۔ لیکن اجتماعی سطح پر شناخت کے لیے مسلم اور غیر مسلم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دنیا کی دیگر قومیں بھی یہی اسلوب اختیار کرتی ہیں۔ ہندو اور عیسائی بھی امتیازی شناخت کے لیے غیر ہندو اور غیر عیسائی ہی استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح تکثیری سماج کے وہ مسائل جیسے ہم جنس پرستی وغیرہ پر امت کا کیا مؤقف ہو، اس پر رہنمائی فرماتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل مغربی کلچر میں تو حساس مسائل ہیں لیکن ہندوستان میں ان کی ویسی کچھ حساسیت نہیں ہے۔ اور یہ گفتگو اب تک سماج کے سلگتے موضوعات میں شامل نہیں ہے۔
آخری بات محترم نے زبان کے حوالے سے کہی کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ مقامی زبانوں کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہم سماج سے جڑ سکیں۔ یہ بات مشورے کے طور پر تو آسان ہے لیکن اس میں عملی دشواری یہ ہے کہ اگر ہم اردو زبان سے کٹ جاتے ہیں تو پچھلے دو سو برسوں کے اسلامی لٹریچر سے ہمارا رشتہ ختم ہوجائے گا۔ اور پچھلی دو صدیوں کی تاریخ، ادب، فلسفہ، اسلامی لٹریچر اور تہذیب سے ہمارا تعلق کمزور ہوجائے گا۔ کسی بھی تہذیب کو منتقل کرنے کا بڑا ذریعہ زبان ہی ہوتی ہے۔
مسلمانوں کی آنے والی نسلیں نہیں جان پائیں گی کہ حالی کا درد انگیز پیغام کیا تھا، وہ شبلی کے سیرت کے پیغام سے محروم رہ جائیں گی، انہیں نہیں پتا ہوگا کہ اقبال اپنی شاعری میں ان کے لیے کیا فلسفہ و ادب چھوڑ گئے۔ سید مودودی کا انقلابی پیغام ان کے لیے اجنبی رہے گا۔ بلاشبہ مقامی زبانیں سیکھنا وقت کی ضرورت ہے لیکن اس تہذیب اور علمی وراثت کی حفاظت کیسے ،ہو اس سے متعلق کوئی مشورہ وہ نہیں دے پائے۔
(باقی صفحہ 41پر)
مکمل مضمون پڑھنے کے بعد جو تاثر بنتا ہے وہ یہ ہے کہ اصولی دعوت میں compromise [سمجھوتہ] کیا جائے، طارق رمضان صاحب کی بات مانیں تو دعوتی پیغام کسی قدر dilute [تحلیل] ہوجاتا ہے۔ پوری گفتگو اقدامی کے بجائے دفاعی نقطہ نظر والی معلوم ہوتی ہے۔ بلا شبہ مضمون بدلتے حالات میں پالیسی پر گفتگو کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ غور و فکر اور سوچ بچار کی نئی راہیں ہموار کرتا ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ اذہان مکمل طور پر منجمد ہوگئے ہیں یہ مضمون غور و فکر کی ایک نئی راہ سُجھاتا ہے۔
تبصرہ (3) محمد اسلم پرویز،
کلکتہ، سابق ایڈیٹر ’رہبر صنعت و تجارت‘
یہ مضمون غور وفکر کی نئی راہیں دکھاتا ہے۔ مذہب و قوم کی بنیاد پر ہندوستانی معاشرے کا جس تیزی کے ساتھ پولرائزیشن ہورہا ہے، قابلِ تشویش ہے۔ اس خراب صورت حال کے لیے بحیثیت مسلمان ہم کتنے ذمہ دار ہیں، اس پر گفتگو ہونی چاہیے۔ موصوف نے بجا فرمایا ہے کہ ہندوستانی ثقافت، معاشرت، سیاست میں اسلام کی اقدار ایک حد تک موجود ہیں، ان کی قدر کرنی چاہیے۔ اس بنیاد پر بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کے امکانات روشن ہیں۔ ہندوستانی سماج کے بیشتر مسائل مشترک ہیں، جن کا حل بھی مشترک ہے۔ اسی طرح معروفات میں بھی کسی نہ کسی حد تک یکسانیت ہے، جن کے فروغ میں مشترک کوششیں زیادہ کارگر ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس سے برادرانِ وطن کے درمیان آپسی بھائی چارہ کو تقویت حاصل ہوگی۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا مخصوص علاقوں میں سمٹ جانا اور محفوظ چھت تلاش کرنا زیادہ غیر محفوظ ثابت ہوگا۔ دوسری اہم بات جس کی طرف موصوف نے اشارہ کیا ہے، وہ یہ کہ مسلمان خود کو فائدہ مند انسان کے طور پر پیش کریں تو یہ دعوتِ دین اور شہادتِ حق کے زمرے میں شمار ہوگا۔