کینسر ایک جان لیوا مرض تو ہے ہی، لیکن اس کی شناخت اور شدت معلوم کرنا بھی ایک بہت مشکل امر ہوتا ہے۔ اب ایک نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی اقسام کے سرطان کی شناخت ممکن ہوچکی ہے بلکہ کینسر کی شدت اور قسم بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو STAMP کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب ’’سیکوینس ٹوپولوجی اسمبلی فار ملٹی پلیکسڈ پروفائلنگ‘‘ ہے۔ اگرچہ یہ تکنیک ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن یہ تیزرفتار عمل ہے جس سے ابتدائی درجے میں کئی اقسام کے سرطان کی معلومات اور ان کی شدت کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ اب تک کینسر سے متاثرہ حصے کا ایک چھوٹا ٹکڑا لے کر تجربہ گاہ میں اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے جسے بایوپسی کہتے ہیں۔ لیکن بایوپسی یہ نہیں بتاتی کہ کینسر کس درجے کا ہے، جس کے لیے سرجری کرکے سرطان زدہ حصہ دیکھنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی مناسب علاج شروع ہوتا ہے۔ اسی کمی کو دور کرنے کے لیے اسٹیمپ ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جو ابتدا میں ہی برق رفتاری سے سرطان کی خبر دیتی ہے۔ اس میں ’’پروگرام ایبل ڈی این اے بارکوڈ‘‘ استعمال کیے جاتے ہیں جو ایک ہی ٹیسٹ میں اربوں پروٹین مارکرز کی شناخت کرلیتے ہیں۔ اس کے ساتھ پروٹین کی تقسیم اور فراوانی کی خبر بھی لی جاسکتی ہے۔ جب بریسٹ کینسر پر اسے آزمایا گیا تو اسٹیمپ نے اسے 94 فیصد درستی سے شناخت کیا۔ اس کے لیے فائن نیڈل ایسپائریشن (ایف این اے) استعمال کی گئی تھی جو بایوپسی کا سب سے ہلکا طریقہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیمپ ٹیکنالوجی کو ایک کارڈ جتنے پلاسٹک کے ٹکڑے پر سمویا جاسکتا ہے اور اس کی تیاری میں صرف 35 ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ یوں یہ سرطان کی تشخیص کا آسان اور تیز رفتار طریقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خرچ بھی ہے۔ توقع ہے کہ اگلے پانچ برس میں یہ ٹیکنالوجی مارکیٹ میں فروخت کے لیے تیار ہوجائے گی جسے ابتدائی طور پر دماغ، پھیپھڑوں اور نظامِ ہاضمہ کے سرطان کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
قبض تکلیف دہ مرض، ورزش سے دور
قبض کا مرض تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے جو اکثر افراد کو لاحق ہوجاتا ہے، جس کے بارے میں اکثر بات کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ اس سے نجات حاصل کرنا اتنا مشکل کام نہیں رہا اور معمولی سی ورزش بھی آپ کو اس مرض سے بچا سکتی ہے۔ آسان ورزش جسے کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہوتا، درحقیقت غذائی نالی کے افعال کو بہتر بناکر خوراک کے ہضم کرنے کے عمل کو تیز کردیتی ہے۔ ورزش نظام تنفس اور دل کی دھڑکن کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ مسلز اور اعصاب کو بھی حرکت دیتی ہے، جس سے جسمانی افعال زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے لگتے ہیں۔ طرزِ زندگی میں یہ مثبت تبدیلی پانی کے استعمال کو بڑھاتی ہے، غذا بہتر ہوتی ہے اور ذہنی تنائو کم ہوتا ہے۔ قبض سے نجات کے لیے 5 منٹ تک عام رفتار سے چہل قدمی کریں جس کے بعد رفتار بڑھا دیں۔ روزانہ آدھے گھنٹے تک یہ تیز چہل قدمی عادت بنالینے سے قبض جیسا مرض دور بھاگ جاتا ہے۔ اگر مسلسل آدھے گھنٹے تک چہل قدمی ممکن نہیں تو دو سے تین بار 10 سے 15 منٹ تک چہل قدمی کی عادت بھی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
واٹس ایپ ناپسندیدہ اسٹیٹس کو بلاک کرنے کے فیچر پر کام کرنے میں مصروف
میسنجگ ایپلی کیشن واٹس ایپ ایک ایسے فیچر پر کام کرنے میں مصروف ہے جس کے تحت واٹس ایپ پر شیئر کیا گیا اسٹیٹس دیگر جگہوں پر بھی شیئر کیا جا سکے گا۔ رواں برس اگست میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ واٹس ایپ انتظامیہ ایک ایسے فیچر پر کام کررہی ہے جس کے تحت میسجنگ ایپلی کیشن پر شیئر کیے جانے والے اسٹیٹس کو اسی کمپنی کی سوشل ویب سائٹ فیس بک اور شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام پر بھی شیئر کیا جا سکے گا۔ واٹس ایپ انتظامیہ نے میسجنگ ایپلی کیشن کا ایک بیٹا ورژن متعارف کرایا ہے جس میں اسٹیٹس سے متعلق نئے فیچر کو شامل کیا گیا ہے۔ واٹس ایپ کے نئے بیٹا ورژن کو مخصوص ممالک میں متعارف کرایا گیا ہے جس میں صارفین کو یہ آپشن دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ناپسندیدہ شخص کے اسٹیٹس کو بلاک کرسکیں گے۔ واٹس ایپ کا یہ بیٹا ورژن عام نہیں کیا گیا اور نہ ہی ناپسندیدہ شخص کے اسٹیٹس کو بلاک کرنے کا آپشن عام واٹس ایپ ورژن میں دیا گیا ہے، تاہم خبریں ہیں کہ انتظامیہ اس فیچر کو عام کرنے پر کام کررہی ہے اور امکان ہے کہ اگلے چند ماہ میں اس فیچر کو عام متعارف کرایا جائے گا۔اس فیچر کے تحت کوئی بھی صارف ’اسٹیٹس‘ کے سیکشن میں جانے کے بعد کسی بھی ناپسندیدہ شخص کے اسٹیٹس کو کھولنے کے بعد اسے بلاک کر سکے گا۔فیچر کے تحت واٹس ایپ انتظامیہ ’اسٹیٹس‘ سیکشن میں ’میوٹ اسٹیٹس‘ کا آپشن دے گی، جس کے تحت کوئی بھی صارف کسی بھی ناپسندیدہ شخص کے اسٹیٹس کو بلاک کر سکے گا۔اس فیچر کے تحت صارف کو صرف ناپسندیدہ شخص کا اسٹیٹس دکھائی نہیں دے گا جب کہ بلاک کیے گئے اسٹیٹس والے شخص کا فون نمبر بلاک نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے یہ علم ہوگا کہ اس کے اسٹیٹس کو بلاک کیا گیا ہے۔
ملازمین سے پُرشفقت برتاؤ ذہنی صحت اور کارکردگی میں بہتری کا باعث
ایک تحقیقی سروے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر تنخواہ بڑھانے اور اوقاتِ کار کے تعین سے بھی ملازمین کی استعداد پر کوئی فرق نہ پڑے تو اس صورت میں ملازمین سے شفقت کا رویہ نہ صرف ان کی دماغی صحت کو بڑھاتا ہے بلکہ ان میں کام کرنے کا جذبہ بھی بڑھتا ہے۔ اس کے لیے چھوٹے تحفے اور رحم دلی کے مظاہرے سے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ماہرین نے تحقیق کے بعد کہا ہے کہ اگر دوپہر کے کھانوں میں تازہ پھل شامل کرنے جیسے سادہ عمل بھی انجام دیئے جائیں تو اس سے اخلاقی طور پر ملازموں کا وقار بلند ہوتا ہے اور ان کی ذہنی و نفسیاتی صحت بہتر ہوتی ہے۔