حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ

ابوسعدی

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ (634ھ۔725ھ) بدایوں میں پیدا ہوئے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کیا۔ بدایوں سے والدہ کے ساتھ دہلی آگئے، یہاں خواجہ شمس الدین خوارزمی کے شاگردوں میں شامل ہوگئے۔ پاکپتن (اجودھن) میں شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر سے خرقہ درویشی پہنا اور دہلی میں آگئے۔ یہ زمانہ سلطان غیاث الدین بلبن کا تھا۔ خواجہ صاحب کا دسترخوان اور لنگر بہت وسیع تھا۔ خانقاہ شہر سے تین میل دور تھی، مگر عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ خواجہ صاحب بادشاہوں کے قرب کو ناپسند کرتے تھے۔ بلبن، کیقباد اور جلال الدین خلجی ملاقات کی حسرت پوری نہ کرسکے۔ خواجہ صاحب نے شادی نہیں کی، مگر ہمشیر کی اولاد تھی۔
۔(پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔

تاریخ کے لحاظ سے سیرۃ طیبہ(4)۔

تحریر: ام احمد

ہجرتِ مدینہ ، مکہ سے روانگی: 27 صفر نبوت کے چودھویں سال (12 یا 13 ستمبر622ء)۔
آپؐ کے ہمراہ: حضرت ابوبکر صدیقؓ۔
غارِثور میں قیام: 3 راتیں (جمعہ، ہفتہ، اتوار)۔
غارِثور سے روانگی: یکم ربیع الاوّل نبوت کے چودھویں سال۔
قبا میں تشریف آوری: 8 ربیع الاوّل، نبوت کے چودھویں سال (23 ستمبر 622ء)۔
قبا میں قیام: 4 دن یا 10 دن یا 24 دن۔
پہلی مسجد کی بنیاد: مسجد قبا۔
قبا سے روانگی: قیام کے پانچویں روز یا گیارہویں روز یا پچیسویں روز۔
دورانِ سفر جمعہ پڑھا: بطن وادی میں۔
مدینہ میں تشریف آوری: اگر قبا میں 8 ربیع الاوّل کے حساب سے 4 دن قیام کیا تو 12 ربیع الاوّل کو نبیؐ مدینہ تشریف لائے۔ 27 ستمبر 622ء۔
صحابی جن کے گھر قیام کیا: حضرت ابو ایوب انصاریؓ۔
۔ہجرت ِمدینہ کے بعد سے ہجری سال کا آغاز ہوا)۔

نجومی کا علمِ نجوم اور اس کا قتل

ہارون الرشید کے دربار میں ایک نجومی آیا۔ خلیفہ نے اس سے کہا: بھلا بتائو میری عمر کتنی باقی ہوگی؟ اس نے زائچہ دیکھا اور ستاروں کا حال معلوم کرنے کے بعد بتایا: آپ صرف ایک سال اور جئیں گے۔ خلیفہ کو نجوم کے متعلق چنداں اعتقاد تو نہ تھا، لیکن بہ تقاضائے بشریت گھبرا گیا۔ جعفر برمکی آیا اور اس نے خلیفہ کی گھبراہٹ کی وجہ پوچھی، سن کر دل میں کہنے لگا کہ یہ گھبراہٹ تو کسی طریقے سے دور ہونی چاہیے۔ سوچ کر نجومی سے پوچھنے لگا: تمہارا اپنی عمر کے متعلق کیا اندازہ ہے؟ وہ کہنے لگا: میں ابھی بہت دیر تک زندہ رہوں گا۔ جعفر نے خلیفہ سے اس کے قتل کا حکم صادر کروایا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ اب جعفر نے خلیفہ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’اپنی عمر کا تو اسے علم نہیں اور دوسروں کو خوامخواہ پریشان کرتا ہے۔‘‘ خلیفہ کو اب اطمینان ہوگیا۔
۔ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ۔جون 2004ء)۔

اسلام ہی ہمارا طیرۂ امتیاز ہے

میمن چیمبر آف کامرس بمبئی کی طرف سے ایک سپاس نامہ کے جواب میں قائداعظم نے فرمایا: ’’میں ان جماعتی ناموں کو بالکل ناپسند کرتا ہوں۔ آپ کو چاہیے کہ اپنا نام ’’مسلم چیمبر آف کامرس‘‘ رکھیں، اس لیے کہ اسلام ہی ہمارا طرۂ امتیاز ہے‘‘۔
۔عظمت رفتہ، ص:484، اسلام کا سفیر، صفحہ:165)۔

قونیَّا

ہم سب سے پہلے مولانا روم کے مزار پر پہنچے۔ باہر سے ہی ان کے فیروزی رنگ کے گنبد اور اس کے ساتھ مخروطی سرے کا مینار اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ اندر داخل ہوئے تو وسیع و عریض احاطے میں وضو خانہ اور صحن کے اطراف مولانا روم کے درویش طالب علموں کے کمرے ہیں۔ کمروں کے آگے چوڑا برآمدہ ہے۔ یہ عمارت U کی شکل میں ہے جس کے ایک سرے پر ایک بڑا باورچی خانہ ہے اور ساتھ ہی بڑی طعام گاہ اور ایک ہال ہے جہاں تدریس اور درویشوں کے دائرے میں رقص کا اہتمام ہوتا تھا۔ کیونکہ اسے میوزیم کا درجہ دے دیا گیا ہے اس لیے اس میں درویشوں کا رقص، مصنوعی طور پر جلتے دکھائی دیتے چولہے اور کچن کا سودا سلف لانے والے ملازم کو بھی دکھایا گیا ہے۔ درویشوں کے کمروں کا فرنیچر جس میں ان کے بستر، لکھنے پڑھنے کی میز اور آلاتِ موسیقی بھی محفوظ کیے گئے ہیں، موجود ہے۔ وضو کے بعد مزار میں داخل ہونے سے پہلے خدام نے جوتوں پر چڑھانے کے لیے پتلے پلاسٹک کے موزے دیئے جنہیں پہن کر ہم داخلی دروازے کی طرف بڑھے تو مولانا روم کی اس تحریر نے ہمت بڑھائی: آئو آئو تم جو کوئی بھی ہو۔ کیسے بھی ہو۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو یا نہیں رکھتے۔

باز آ باز آ ہر آنچہ ہستہ باز آ
ایں ورگہ مادرگہ نومیدی نیست
گر کافر و گبرُ و بت پرستی باز آ
صد بار اگر، توبہ کشی باز آ

ترجمہ: تُو واپس آ، تُو وپس آ، تُو جو کچھ بھی ہے واپس آ، اگر تُو آتش پرست ہے اور اگر تُو بت پرست ہے تو بھی
واپس آ۔ ہماری یہ درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں ہے۔ اگر تُو نے سو بار بھی توبہ توڑی ہے تو پھر بھی واپس آجا۔
۔اقبال احمد صدیقی۔ ”عمارت کار“)۔