بہ ظاہر لگتا یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے بدخواہ عناصر پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی محاذ پر پورے طور سے سرگرم عمل ہوچکے ہیں اور وہ پاکستان کے مفادات کو بہ طور نقصان پہنچا کر اپنے مذمو مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لیے وہ ایک عرصے سے ہر حربہ اور طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ سندھ بلاشبہ پاکستان کا ایک حساس صوبہ ہے۔ جہاں پر ماضی میں لگ بھگ ایک درجن علیحدگی پسند قوم پرست جماعتوں سمیت دیگر جماعتیں بھی تھوڑی تھوڑی بات پر ہنگامہ آرائی کرکے اپنی سیاست چمکاتی رہی ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس حوالے سے یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ قوم پرست عناصر بوجوہ منقارِ زیر پر ہوچکے ہیں اور سندھ میں ان کی ہنگامہ اور افرااتفری پر مبنی سیاست پر ایک طرح سے جمود کا عالم طاری ہوچکا ہے۔ سندھ میں اس وجہ سے جذبہ حب الوطنی پہلے سے بھی فزوں تر ہوچکا ہے اور عوام و خواص سی پیک سمیت پاکستان کے مفادات پر مبنی تمام منصوبوں کے بارے میں یک رائے اور یک آواز حامی ہوچکے ہیں۔ خصوصاً جب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین کی خصوصی شق 370 ختم کرکے کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور جنونی ہندوئوں نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف من گھڑت گائوکشی کے الزامات عائد کرکے انہیں بلاجواز قتل کرنے کا آغاز کیا ہوا ہے، ملک بھر کی طرح اہل سندھ میں بھی اس کے خلاف شدید ردعمل نے جنم لیا ہے اور سندھ بھر میں مختلف دینی، سیاسی، سماجی اور مزدور تنظیمیں بھارت کے ان مظالم کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر و بھارتی مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر جلسے، جلوسوں اور مظاہروں کا اہتمام آئے روز کرتی رہتی ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر عوامی شرکت بھی دیکھنے میں آتی ہے اور یہی وہ اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کی وہ عام اور مثبت فضا ہے جو وطنِ عزیز کے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ اس میں خلل اور رخنہ ڈالنے کے لیے اپنے طور پر بھرپور سعی کرنے میں لگے رہتے ہیں جس میں ان کی مدد یہاں پر موجود ان کے بہی خواہ یا پلانٹیڈ (Planted) افراد کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ابھی کراچی کا انتظام وفاق کے حوالے کرنے سے متعلق ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی اس بے وقت کی راگنی پر مبنی تجویز کے خلاف کہ ’’کراچی کا انتظام چلانے کے لیے وفاق اپنا کردار ادا کرتے ہوئے آئین کی شق 149کا نفاذ کرے‘‘ سندھ کی قبل ازیں خاموش قوم پرست جماعتوں اور عوام کا سخت احتجاج جاری ہی تھا کہ گھوٹکی میں بروز ہفتہ 14 ستمبر کو سندھ پبلک اسکول کے پرنسپل پروفیسر (ر) نوتن لال کی جانب سے مبینہ طور پر نبی کریمؐ کے خلاف توہین آمیز کلمات کہنے کے خلاف شدید مظاہروں اور سخت احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس پر اگر حکمت اور تدبر سے بروقت دینی جماعتوں کی قیادت اور مقامی انتظامیہ کنٹرول نہ پالیتی تو یقینا اس احتجاج کے شعلے دور دور تک پھیل جاتے اور خاکم بدہن اس کی بناء پر بہت کچھ خاکستر ہوجاتا اور یہی کچھ تو وطن دشمن عناصر کو بھی مطلوب و مقصود تھا، لیکن خیریت گزری کہ توہین آمیز (مبینہ طور پر) کلمات کہنے والے کو حیدر آباد سے بروقت گرفتار اور اس کے خلاف گھوٹکی کے اے سیکشن تھانے پر طالاب علم رانا محمد ابتسام راجپوت کے والد عبدالعزیز خان کی مدعیت میں 213/2019 دفعہ 29C کے تحت کیس رجسٹرڈ کرکے پھیلنے والی آگ کو بجھادیا گیا، تاہم راکھ میں دبی چنگاریاں مبینہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے گرفتار ملزم نوتن لال کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے کی صورت میں دوبارہ سے بھڑک کر شعلہ جوالہ اور برقِ تپاں میں بھی خدانخواستہ تبدیل ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا مبینہ ملزم کے خلاف اس پر عائد کردہ مذکورہ سنگین الزام کی چھان بین اور اصل حقائق سامنے لانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے مزید فوری اقدامات کا اُٹھانا ناگزیر اور بے حد ضروری ہے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ بروز ہفتہ 14 ستمبر گھوٹکی کے ایک پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل پروفیسر نوتن لال کی جانب سے مبینہ طور پر توہین رسالت پر مبنی کلمات کہنے کے خلاف گھوٹکی کے ہزاروں باشندے سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے زور دار احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا جو بعدازاں ضلع گھوٹکی کے دیگر مقامات تک بھی پھیل گیا۔ مظاہرین نے پیر آف بھرچونڈی شریف پیر میاں محمد اسلم کی سربراہی میں قومی شاہراہ بلاک کردی۔ اس موقع پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے حالات کو زیادہ خراب ہونے سے بچایا۔ لیکن اس واقعہ کے اگلے روز بروز اتوار 15 ستمبر دوبارہ گھوٹکی، سرحد اور میرپور ماتھیلو، ڈہرکی وغیرہ میں زبردست احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہزروں مظاہرین نے توہین آمیز کلمات کہنے والے ملزم نوتن لال کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے ہوئے اس کی فوری گرفتاری اور اسے سزا ادینے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے قومی شاہراہ بند کرکے دوطرفہ ٹریفک روک دی۔ علاقے بھر میں چہار سو شدید کشیدگی تھی۔ بعض شرپسند عناصر نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھ پبلک اسکول اور مقامی مندر پر بھی حملہ کردیا اور وہاں پر توڑ پھوڑ کی، حالات اس سے پیشترکہ اور زیداہ خراب ہوتے رینجرز اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر انہیں بگڑنے سے بچالیا۔ جے یو آئی کے جنرل سیکرٹری مولانا ناصر محمود سومرو، جماعت ضلع گھوٹکی کے امیر تشکیل صدیقی، پیر آف بھرچونڈی شریف پیر عبدالخالق قادری میدنا عمل میں آگئے اور انہوں نے مشتعل مظاہرین سے پُرامن رہنے کی اپیل کی۔ اس موقع پر نوتن لال مع اہل خانہ اپنی جان بچانے کے لیے حیدر آباد فرار ہوگیا اور وہاں جا کر اس نے پولیس کو اپنی گرفتاری پیش کردی لیکن پولیس نے تاحال اس کی گرفتاری ظاہر نہیں کی ہے۔ دریں اثناء نوتن لال کے خلاف پولیس نے جس مقدمہ کا گھوٹکی تھانے پر اندراج کیا اس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں طالب علم رانا محمد ابتسام راجپوت کا کہنا ہے کہ میں درجہ یازدہم (فرسٹ ایئر) کا اسٹوڈنٹ ہوں اور سندھ پبلک اسکول گھوٹکی میں زیر تعلیم ہوں۔ بروز ہفتہ ہمارے اردو کے استاد گوردھن داس ہماری اردو کی کتاب سے علامہ سید سلیمان ندوی کا تحریر کردہ سبق ’’نبی کریمؐ کی ہجرت‘‘ پڑھا رہے تھے کہ اس دوران ہمارے اسکول کے پرنسپل نوتن لال بھی کلاس میں آگئے اور انہوں نے کورس کے بارے میں استفسار کیا۔ جب انہیں سبق کا موضوع بتایا گیا تو پرنسپل نے نبی کریمؐ کی شان میں نازیبا الفاظ کہے۔ طالب علم کے مطابق گھر آکر میں نے اپنے والد عبدالعزیز سے اس بات کا ذکر کیا اور اس حوالے سے ایک پوسٹ بنا کر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کردی۔ میرے والد نے پرنسپل کو بذریعہ فون میری بیان کردہ بات کہی تو پرنسپل نے فوراً معذرت کرتے ہوئے کہا کہ واقعی میں نے بڑی غلطی کی ہے مجھے معاف کردیں۔ بعدازاں پرنسپل نے اسکول انتظامیہ کے کچھ افراد کو میرے گھر بھیجا جو مجھے زبردست اپنے ہمراہ اسکول لے کر گئے جہاں مجھ پر سب نے مل کر یہ زور ڈالا کہ میں اپنی شیئر کردہ پوسٹ کو ہٹادوں، مگر میں نے انکار کردیا۔ اس دوران میرے گھر والے بھی آگئے اور مجھے اپنے ساتھ ان سے چھڑا کر لے گئے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر سمت پھیل گئی اور ہر طرف احتجاج کا سلسلہ پرنسپل نوتن لال کی گرفتاری کے لیے ازخود ہی عوام نے شروع کردیا۔ دریں اثنا اے آئی جی سکھر ڈاکٹر جمیل احمد نے بھی اب اس امر کی تصدیق کردی ہے کہ نوتن لال کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور سارے معاملے کی شفاف تحقیق کرکے اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے اس واقعہ کے حوالے سے کہا ہے کہ توہین رسالت کا جرم ناقابل معافی ہے لیکن کسی فرد کے انفرادی قبیح فعل کی سزا اس کی ساری برادری یا کمیونٹی کو دینے کی ہماری شریعت اور قانون اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح دیگر مذہبی اور سیاسی رہنمائوں نے بھی سارے معاملے کی شفاف تحقیق کرنے کا مطالعہ کیا ہے۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ طالب علم ابتسام راجپوت کی جانب سے جعلی آئی ڈیز بنا کر اس کی جانب سے مبینہ توہین رسالت کے ملزم نوتن لال پر الزام کو جھوٹا قرار دے کر اس پر معذرت کی گئی ہے لیکن ابتسام راجپوت نے اس کی تردید کی ہے کہ میں نے کوئی معذرت کی ہے اور وہ تاحال اپنے موقف پر قائم ہے۔ ضلع گھوٹکی کی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے اس اثناء میں 200 نامعلوم مظاہرین کے خلاف توڑ پھوڑ کرنے کے تین مختلف مقدمات کا اندراج بھی کیا گیا ہے۔ ہندو برادری کے رہنمائوں نے بھی سارے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالعہ کیا ہے۔ نمائندہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ نے جب اصل حقیقت سے آگاہی کے لیے ضلع گھوٹکی کی ایک معروف سماجی دینی اور ادبی شخصیت (جن کا نام لکھنا بوجوہ مناسب نہیں ہے) سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواباً فرمایا کہ ’’حقیقت کا صحیح علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن اس بات کا 80 فیصد امکان موجود ہے کہ مبینہ ملزم نے ایسا کیا ہوگا کیوں کہ ماضی میں اس کی شہرت ایک بلانوش اور مشتعل مزاج فرد کی سی رہی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ گرمکھ داس نامی ایک فرد کی جانب سے بھی توہین آمیز کلمات پر مبنی پوسٹ شیئر کی جارہی ہیں۔ جس سے اکثریتی آبادی میں اشتعال پھیل رہا ہے۔ متوقع مزید فتنوں کو فرو کرنے کے لیے فوری ہنگامی اقدامات ازبس ضروری ہوگئے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ سارے معاملے کی تحقیق ڈی آئی جی حیدر آباد کریں گے۔