معاشی پریشانی ہر دور میں رہی ہے، جب پاکستان بنا تھا تو لوگوں کی معاشی پریشانی آج سے زیادہ تھی، لیکن ذہنی بیماریوں کی یہ کثرت نہیں تھی۔
نفسیاتی بیماریوں کی ایک تو طبی وجوہات ہیں، لیکن معاشرتی وجوہات کی بنا پر ذہنی بیماریاں ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر ہارون نے خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی جانب متوجہ کیا ہے۔ سندھ میں تو چند ماہ کے عرصے میں سیکڑوں افراد خودکشی کرگئے، اور پنجاب میں بھی خودکشی کا نیا ریکارڈ قائم ہوا، بلکہ ہم نے تو انہی کالموں میں 1999ء کو سالِ خودکشی قرار دیا تھا۔
ذہنی بیماریوں کی تفصیل نصابی کتب اور عام مضامین میں بہت ہے۔ ڈپریشن، خوف، فوبیا، مالیخولیا، ہسٹریا اور بہت سے نام ہیں، لیکن کچھ نئی ذہنی بیماریاں عام ہورہی ہیں کہ جن کا تذکرہ نصابی کتابوں میں نہیں ہے، اور ماہرینِ نفسیات بھی ابھی تک ان سے لاعلم ہیں۔ اس لیے ان بیماریوں کا کچھ تذکرہ ہوجانا چاہیے۔
نئی بیماریوں میں ایک ’’شاپنگ‘‘ کی بیماری ہے۔ اس مرض سے متاثرہ لوگوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اس مرض کے مارے لوگ دیوانوں کی طرح مارکیٹوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اپنی بساط سے زیادہ خریداری کرتے ہیں اور جو چیزیں خرید نہیں سکتے اُن کا تذکرہ حسرت و یاس سے کرتے ہیں، اور اس سے محرومی کا احساس اُن کے ذہن پر غالب رہتا ہے۔ کسی کے گھر جاتے ہیں تو آنکھیں پھاڑ کر ان کے لباس، فرنیچر، آرائشی اشیاء، کراکری وغیرہ کو دیکھتے ہیں، ان کی قیمتیں پوچھتے ہیں اور اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ اس گفتگو میں انہیں خاص مزا آتا ہے۔ اس بیماری کے سبب مردوں و عورتوں کو ناجائز آمدنی کے حصول کی ترغیب ہوتی ہے۔ اکثر چالاک لوگ لڑکیوں اور عورتوں کو اس شاپنگ کے شوق یا لالچ کی راہ سے قابو میں لاتے ہیں، اور یہ نہ ہو تو بھی اس شوق کے نتیجے میں گھریلو بجٹ درہم برہم رہتا ہے، اور یہ ذہنی بیماری کچھ عرصے کے بعد نئی ذہنی بیماریوں کا شکار بناتی ہے۔
ایک اور ذہنی بیماری ’’سوشل اسٹیٹس‘‘ کا خبط ہے۔ ہمارے معاشرے میں اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانے کی روایت رہی ہے، اس وجہ سے رئیس لوگ مہاجنوں کے سودی قرضوں کے جال میں پھنسے رہتے تھے، عام آدمی بھی شادی بیاہ میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے تھے، لیکن بالعموم مرد اور عورتیں کفایت شعاری کو مدنظر رکھتے تھے، پس انداز کرنے کی اہمیت وہ محسوس کرتے تھے، ہر طبقے کے آدمی نے اپنی معاشرتی حیثیت کا ایک دائرہ مقرر کر رکھا تھا اور اسی دائرے میں رہتا تھا، اس حد کو پھلانگ کر اگلی حد یا صف میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کرتا تھا، بلکہ ایسے لوگ بھی کثرت سے تھے جو دولت رکھتے تھے مگر سادہ زندگی انہیں پسند تھی، اور وہ دولت کی نمائش کو اوچھا پن خیال کرتے تھے۔ مگر اب حالت یہ ہے کہ ’’سوشل اسٹیٹس‘‘ کی ذہنی بیماری کے سبب نچلے طبقے کا آدمی اپنے سے اوپر کے طبقے کی نقل کرنا چاہتا ہے۔ اس مرض کے زیر اثر گھر کے صوفے، پردے، قالین بار بار بدلے جاتے ہیں، اور جو اس سے زیادہ وسائل رکھتے ہیں وہ کاروں کے ماڈل بھی بدلتے رہتے ہیں، اور اس سے نیا ’’پجارو کلچر‘‘ پیدا ہوا ہے۔
ایک اور بیماری وہ ہے جس میں لوگ ٹی وی زدہ ہوجاتے یا انٹرنیٹ کی دنیا میں کھو جاتے ہیں، اور اپنا قیمتی وقت اور صحت دونوں کا نقصان کرتے ہیں۔ نیند پوری نہیں ہوتی اور گھر والوں کی طرف توجہ نہیں رہتی، دفتری یا کاروباری زندگی میں بھی دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ یہ مرض متعدی ہے اور سارے گھرانے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
ایک اور ذہنی بیماری احساسِ کمتری ہے جو موٹے، دبلے یا قد کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس مرض کا فائدہ چالاک اشتہار باز لوگ اٹھاتے ہیں، حالانکہ کوئی ایسی دوا نہیں ہے جو قد کو لمبا کرسکے، البتہ ورزشوں سے کچھ فرق پڑ سکتا ہے۔ موٹاپے کا اصل علاج بھی ورزش اور غذائیں ہیں، کچھ دوائیں ہیں جو جسم کی چربی کو گھلا دیتی ہیں، لیکن جگر، گردے اور جسم کے دوسرے اجزا کی ضروری چربی پگھلا کر بعد میں خطرناک امراض کا سبب ہوتی ہیں- رنگ گورا کرنے کا خبط بھی ذہنی بیماری ہی ہے۔
ایک ذہنی بیماری نظریاتی انتہا پسندی کی ہے۔ یہ مرض بھی ہمارے معاشرے میں بڑھ رہا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی یا کسی بھی طرح کی انتہا پسندی کے حامل لوگوں کا رویہ متشددانہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی انتہا پسندی اُن ماڈرن خواتین میں بھی نظر آتی ہے جو آزادی نسواں اور عورتوں کے حقوق کے لیے جنگجو بن جاتی ہیں اور اپنے گھروں میں اپنے مردوں سے بھی لڑاکا طرز کا رویہ رکھتی ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں سے بھی ان کے گھر والے بڑے تنگ رہتے ہیں اور ان ماڈرن خواتین سے بھی۔
ایک بیماری جو ترقی پذیر ہے وہ دوائوں کا غیر ضروری استعمال ہے۔ اس مرض کو خود ڈاکٹروں نے فروغ دیا ہے۔ خوامخواہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ہم کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں، یا اپنے آپ کو طرح طرح کے امراض کا شکار سمجھ لیا جاتا ہے، اور کبھی ڈاکٹری، کبھی ہومیو پیتھی، کبھی طبِ یونانی اور کبھی ان سارے طریقہ ہائے علاج کی ادویہ ایک ساتھ استعمال ہوتی ہیں اور نتیجے میں اچھی خاصی صحت بگاڑ لی جاتی ہے۔ اکثر مائیں اپنے بچوں کے بارے میں سمجھتی ہیں کہ ان کی خوراک کم ہے، اور اس وہم میں وہ بچوں کو ٹھونس ٹھونس کر کھلاتی رہتی ہیں، ڈاکٹر ان کے اس وہم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ذہنی امراض کے سلسلے میں ایک خطرناک بات یہ ہے کہ لوگ مرض ہو تو ماہرین سے رجوع کرنے کے بجائے جادو، ٹونے، تعویذ، دم کرنے والوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ بعض عامل جن نکالنے کے لیے مریض سے مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔ ان کے علاج سے مرض اور بڑھ جاتا ہے۔
ذہنی صحت کا تعلق سوچ سے گہرا ہے۔ اپنی سوچ صاف ستھری، پاکیزہ رکھیے۔ حسد، بغض، حرص کو قریب نہ آنے دیجیے، اور ذکرِ الٰہی سے مدد حاصل کیجیے کہ اس سے قلبِ مطمئنہ کی کچھ نہ کچھ کیفیت ضرور حاصل کی جاسکتی ہے اور انسان زمانے کے مسائل اور مصائب کے مقابلے کے لیے روحانی طاقت حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن اگر واقعی کوئی ذہنی بیماری ہے تو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنے میں شرمانے کی ضرورت نہیں، اور یہ بہت ضروری ہے کہ آپ خود بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی زمانہ حال کی جدید ذہنی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی فکر کریں، جو فرد کی زندگی میں زہر گھول رہی ہیں۔