حضرت زکریاؑ کی دعا
جب خود بہت ضعیف اور ان کی بیوی بانجھ ہوچکی تھی تو انہوں نے اپنے رب سے ان الفاظ میں اپنے لیے ایک وارث کی التجا کی، اور ان کے رب نے ایک معجزانہ شان کے ساتھ ان کی دعا قبول کی اور انہیں حضرت یحییٰ ؑ جیسا بیٹا عطا کیا:
’’اے پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُوہی ہے‘‘۔(الانبیا:89)۔
ڈاکٹر عبدالرئوف خان
بدگمانی بظاہر کوئی بڑی برائی نظر نہیں آتی، مگر افراد کے باہم تعلقات اور معاشرتی رشتوں پر ایڈز کے وائرس کی طرح حملہ آور ہوتی ہے۔ معاشرتی اخوت اور بھائی چارے پر اس قدر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ ایک عام انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بدگمانی جھگڑوں کا باعث بننے اور تعلقات خراب کرنے کے ساتھ ساتھ بدگمانی رکھنے والے افراد میں چڑچڑاپن، ذہنی تنائو اور کئی دوسری بیماریاں بھی پیدا کرتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے تو یہ دل کا روگ بن جاتی ہیں۔ اپنے گرد و نواح میں ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات معمولی سی بدگمانی برسوں کی دوستی ہی کو لمحوں میں ختم نہیں کردیتی بلکہ نوبت جھگڑے اور قتل تک پہنچا دیتی ہے۔ میاں بیوی میں لڑائی جھگڑوں اور تعلقات میں انقطاع وغیرہ کے اکثر واقعات میں بدگمانی ہی کا عمل دخل ہوتا ہے۔ خاوند اگر بیوی پر کسی قسم کے غصے کا اظہار کرتا ہے تو اکثر و بیشتر وہ یہی سوچے گی کہ یہ ساس یا نند کے کان بھرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر ماں کے سامنے کوئی غلط بات منہ سے نکل جائے گی تو وہ اس کی وجہ اپنی بہو کو قرار دے گی۔ اگر کسی کا خاوند اپنی کسی کزن یا ہمسائی سے ہنس کر بات کرلے تو شکی مزاج بیویاں اسی کو بتنگڑ بناکر ایک بڑا جھگڑا پیدا کرلیں گی۔ ہمارے گرد و نواح میں بدگمانی کے زہریلے ثمرات کی سیکڑوں مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ اس نے بڑے بڑے گھروں اور پُرخلوص محبت بھرے رشتوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بدگمانی سے پاک صاف گھرانا ہی پُرسکون اور خوشیوں سے بھرپور گھرانا ہوتا ہے۔ سید قطب لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے دلوں کو صاف رکھنا چاہیے۔ جس سوسائٹی میں ایک دوسرے کے خلاف شکوک و شبہات نہ ہوں اس میں لوگوں کے دل ایک دوسرے سے صاف ہوتے ہیں، کوئی کسی پر شک نہیں کرتا، ہر شخص دوسرے سے مطمئن ہوتا ہے، اور ایسے معاشرے میں زندگی کس قدر خوشی سے گزرتی ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
بدگمانی کے بارے میں رب کائنات نے مسلمانوں سے فرمایا:
(ترجمہ)’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔ (الحجرات:12)
مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’انسان اپنے دل کو دوسروں سے متعلق بدگمانیوں کی پرورش گاہ نہ بنالے کہ جس کی نسبت جو برا گمان بھی دل میں پیدا ہوجائے اس کو کسی گوشے میں محفوظ کرلے۔ انسان کو جن سے زندگی میں واسطہ پڑتا ہے، اُن کی بابت کوئی اچھا یا برا گمان دل میں پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہی گمان آدمی کو آدمی سے جوڑتا اور توڑتا ہے۔ اس پہلو سے یہ معاشرے میں وصل و فصل کی بنیاد ہے۔ اس کی اس اہمیت کا تقاضا ہے کہ آدمی اس کے ردّو قبول کے معاملے میں بے پروا و سہل انگار نہ ہو، بلکہ نہایت ہوشیار اور بیدار مغز رہے۔ اہلِ ایمان کو اسلام نے اس بارے میں یہ رہنمائی دی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھے، اِلّا یہ کہ ثابت ہوجائے کہ وہ اس نیک گمان کا سزاوار نہیں ہے۔ یہ نیک گمانی اس ایمانی اخوت کا لازمی تقاضا ہے جس پر اسلام نے معاشرے کی بنیاد رکھی ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے برعکس یہ اصول ٹھیرا لے کہ جو رطب و یابس گمان اس کے دل میں پیدا ہوجائیں، ان سب کو سینت سینت کر رکھتا جائے تو گمانوں کے ایسے شوقین کی مثال اُس شکاری کی ہے جو مچھلیاں پکڑنے کے شوق میں ایسا اندھا ہوجائے کہ مچھلیاں پکڑتے پکڑتے سانپ بھی پکڑلے۔ ظاہر ہے کہ مچھلیوں کے شوق میں جو شخص ایسا اندھا بن جائے گا، اندیشہ ہے کہ اسی شوق میں کسی دن وہ اپنی زندگی ہی گنوا بیٹھے گا۔ قرآن نے یہاں اسی خطرے سے مسلمانوں کو روکا ہے کہ گمانوں کے زیادہ درپے نہ ہو کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں جو انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے یہ تعلیم نکلی کہ ایک مومن کو بدگمانیوں کا مریض نہیں بن جانا چاہیے، بلکہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں سے حُسنِ ظن رکھنا چاہیے۔ اگر کسی سے کوئی ایسی بات پیدا ہو جو بدگمانی پیدا کرنے والی ہو تو حتی الامکان اس کی اچھی توجیہ کرے، اگر کوئی اچھی توجیہ نکل سکے۔ اس کے برے پہلو کو اسی شکل میں اختیار کرنا جائز ہے جب اس کی کوئی اچھی توجیہ نہ نکل سکے۔“ (تدبرالقرآن، ج7)۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:۔
”گمان جو درحقیقت گناہ ہے، یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلاسبب بدگمانی کرے، یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بدگمانی ہی سے ابتدا کرے، یا ایسے لوگوں کے بارے میں بدظنی سے کام لے جن کا حال بظاہر یہ بتارہا ہو کہ وہ نیک اور شریف ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ ایک شخص کے کسی قول یا فعل میں برائی اور بھلائی کا یکساں احتمال ہو اور ہم محض سوئے ظن سے کام لے کر اُس کو برائی ہی پر محمول کریں، مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی اور کا جوتا اٹھا لے اور ہم یہ رائے قائم کرلیں کہ ضرور اس نے جوتا چرانے ہی کی نیت سے یہ حرکت کی ہے، حالانکہ یہ فعل بھولے سے بھی ہوسکتا ہے۔ اور اچھے احتمال کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ بدگمانی کے سوا نہیں ہے۔“ (تفہیم القرآن، ج پنجم)۔
سید قطب شہید تو ”فی ظلال القرآن“ میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہاں تک لکھتے ہیں:
”اسلام کے روشن معاشرے میں یہ اصول صرف انفرادی تعامل ہی میں مروّج نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی معاملات میں بھی ایک اصول ہے، اور اس سے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔ اسلام کے پاکیزہ معاشرے میں کسی کو محض شک اور شبہ میں نہیں پکڑا جاتا، نہ شبہات کی بنیاد پر مقدمے قائم کیے جاتے ہیں، شک کی بنیاد پر لوگوں کو جیلوں میں نہیں ٹھونسا جاتا بلکہ شک کی بنیاد پر کسی کو دائرۂ تفتیش میں لانا بھی جرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم نے بدگمانی شروع کردی تو پھر کوئی تفتیش نہیں‘‘ (طبرانی)۔ یعنی اگر تفتیش بھی کرنی ہے تو لوگوں کو بے گناہ سمجھ کر تفتیش کرو۔“
مولانا مودودیؒ نے بدگمانی کی ایک قسم کو جائز قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ایک قسم وہ ہے جو اگرچہ ہے تو بدگمانی، مگر جائز نوعیت کی ہے، اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہوسکتا، مثلاً کسی شخص یا گروہ کی سیرت و کردار میں، یا اس کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حُسنِ ظن کا مستحق نہ ہو، اور اس سے بدگمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں۔ ایسی صورت میں شریعت کا یہ مطالبہ ہرگز نہیں کہ آدمی سادہ لوحی برت کر ضرور اس سے حُسنِ ظن ہی رکھے۔ لیکن اس جائز بدگمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اُس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے، اس سے بڑھ کر محض گمان کی بنا پر اُس کے خلاف کوئی کارروائی کر بیٹھنا درست نہیں۔“ (تفہیم القرآن، ج پنجم)۔
بدگمانی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بھی ملاحظہ فرمائیں:
-1 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے‘‘۔ (بخاری)۔
-2 نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جب کسی شخص کے متعلق تمہیں برا گمان ہو جائے تو اس کی تحقیق نہ کرو‘‘۔ (احکام القرآن للبحصاص)۔
-3 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’نیک گمان رکھنا عباداتِ حسنہ میں سے ہے‘‘۔ (ابودائود)۔
-4 حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’حضرت عیسیٰ نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو اس سے کہاکہ تم نے چوری کی ہے۔ اس شخص نے جواب دیا کہ اللہ وحدہ لاشریک کی قسم میں نے چوری نہیں کی۔ اس پر حضرت عیسیٰ نے فرمایا کہ میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں اور اپنے آپ کو جھٹلاتا ہوں‘‘۔ (مسلم)۔
-5فرمانِ رسولؐ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے بارے میں مومن پر اُس کے خون، مال و دولت اور عزت و آبرو پر حملے کو حرام ٹھیرایا ہے، اور اس کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کہ اُس کے متعلق بدگمانی کی جائے‘‘۔ (بحوالہ تعلیماتِ غزالی)۔
اگر کسی کام یا بات سے بدگمانی پیدا ہونے کا احتمال ہو تو اُسے دور کرنے میں سُستی نہیں کرنی چاہیے، اس کی مثال ہمیں سیرتِ سرور عالمؐ سے بھی ملتی ہے۔ ایک دفعہ آپؐ اعتکاف میں بیٹھے تھے۔ رات کو ازواجِ مطہرات میں کوئی آپؐ سے ملنے آئیں۔ آپؐ ان کو واپس گھر چھوڑنے جارہے تھے کہ اتفاقاً راستے میں دو انصاری ملے۔ آپؐ نے ان کو آواز دی اور فرمایا: یہ میری فلاں بیوی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ اگر ہمیں کسی کے ساتھ بدگمانی کرنی بھی ہوتی تو کیا آپؐ کے ساتھ کرتے؟ ارشاد ہوا:۔
’’شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم بحوالہ سیرت النبیؐ)۔