ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : شرح
رشف النصائح الایمانیۃ
وکشف الفضائح الیونانیۃ
فلسفہ و تصوف پر ایک منفرد کتاب
تالیف : شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر بن محمد سہروردی
فارسی شرح : معین الدین جمال (معلم یزدی) ۔
اردو ترجمہ : مولانا غلام حسن حسنو، سید اویس علی سہروردی
صفحات : 540 قیمت:1600 روپے
ناشر : اورینٹل پبلی کیشنز ،35 رائل پارک، لاہور
فون : 042-36363009
برقی پتا : awais.oriental@gmail.com
امام العارف، صدرالصوفیہ، صاحب’ِ عوارف المعارف‘ شیخ شہاب الدین عمر بن محمد سہروردی (539ھ۔632ھ) کی عربی کتاب’’ رشف النصائح الایمانیۃ وکشف الفضائح الیونانیۃ‘‘ کی فارسی شرح کا اوّلین اردو ترجمہ ہمارے پیش نظر ہے۔
تصوف کے سلسلۂ سہروردیہ کے مؤسس ِثانی اور شارح شیخ شہاب الدین عمر سہروردی ؒ نے نہ صرف سلسلہ ٔ سہروردیہ کو ایک نہایت ٹھوس علمی بنیاد فراہم کی بلکہ تصوف و عرفان کی شرح کچھ اس انداز سے فرمائی کہ عام تصورات کے برعکس خانقاہی نظام، اسلامی معاشرے کا ایک فعال اور کارآمد ترین جزو بن کر ابھرا۔ آپ نے تصوف کے فروغ اور تعلیم و تربیت کا ایک مستقل نظام تشکیل دیا جسے آپ کی چھوٹی بڑی تمام تالیفات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ بنیادی طور پر محدث اور فقیہ تھے مگر متداول علوم سے بھی بہرہ مند تھے۔ اپنے دور کے علمی ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ نے فلسفہ اور کلام پر بھی عبور حاصل کیا، مگر اپنے دینی عقائدکو سنتِ رسولؐ ہی پر استوار رکھا۔
شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کا زمانۂ حیات چھٹی صدی ہجری کے نصف اوّل اور ساتویں صدی ہجری کی پہلی تہائی پر محیط ہے۔ ان دو صدیوں کے سیاسی اور مذہبی حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیاسی اعتبار سے عالم ِ اسلام پر ضعف و انحطاط طاری ہوچکا تھا اور معاشرہ فکری و عملی پراگندگی کا شکار ہورہا تھا۔ دینِ اسلام کی فکری اور عملی شیرازہ بندی بکھر رہی تھی۔ ریاستی حلقوں کی سرپرستی میں یونانی علوم و فنون کے ترجمے اور اس کی اشاعت کے نتیجے میں فلاسفہ ٔیونان کے افکار و آراء کے پھیلا ئو نے ایک ہولناک فتنے کی صورت اختیار کرلی تھی۔ عجمی علوم و فنون کی اشاعت نے بہت سے مسائل کھڑے کردیے تھے، جن میں خصوصی طور پر تقدیر کے مسائل تھے۔ بعض مسلمان فلاسفہ نے فلاسفۂ یونان کی الٰہیات میں تقلید کرتے ہوئے ہندسہ اور ریاضی کے اصولوں پر قیاس کرتے ہوئے الٰہیات میں غوروخوض کیا اور شیطانی خواہشات کی پیروی میں صراطِ مستقیم سے منحرف ہوگئے۔گروہِ فلاسفہ نے اسلامی عقائد و احکامات کو وحی کے مقابلے میں عقلِ محض پر پرکھنا شروع کردیا اور اس پہلو کو پیش نظر نہ رکھا کہ اگر دین کو عقلِ انسانی کے پیمانوں تک محدود کردینا مقصود ہوتا تو وحی کے نزول کی کیا حاجت تھی۔ یہ دور دراصل دینی اور فکری لحاظ سے جدل و مناظرہ اور تشکیک و ارتیاب کی معرکہ آرائی کا دور تھا۔
اس ہولناک فتنے کی سرکوبی میں کئی معرکۃ الآراء کتابیں لکھی گئیں جن میں ایک شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ کی رشف النصائح و کشف الفضائح الیونانیۃ بھی تھی، جس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بہت سے علماء و فضلاء نے اسے اپنے حلقۂ درس میں شامل کرلیا۔ معلم یزدی نے جو اس کتاب کے فارسی مترجم اور شارح ہیں، اس کی مقبولیت کی دو وجوہات لکھی ہیں، ایک یہ کہ شیخ الاسلام کو جو فیضِ محمدیؐ کی دولت عطا ہوئی تھی وہ، اور دوسرا آپ کا اخلاصِ نیت جس کی بدولت رشف النصائح کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔
رشف النصائح میں شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے اس بے یقینی اور بدعملی کو نشانہ بنایا ہے جو اُس وقت کے مسلم معاشرے میں متکلمین کی وجہ سے ایک فتنے کی صورت پیدا ہوچکی تھی۔ آپ نے ریاضیات وغیرہ کا انکار نہیں کیا، اگر انکار کیا ہے تو الٰہیات، احکاماتِ وحی اور دینی معاملات کے ضمن میں عقل ِمحض پر بھروسا کرنے پر کیا ہے۔ آپ کا مخاطب ایک ایسا گروہ تھا جو خیال کے گھوڑے دوڑائے پھرتا تھا، اگر انہیں مذہبیات کا علم تھا تو بدعملی کے ساتھ۔ اصلاحِ احوال کی کوئی تڑپ ایسے لوگوں میں نہ تھی، یہ لوگ دراصل وحی سے فرار چاہتے تھے۔ دیکھا جائے تو مغرب سے علمی و فکری طور پر مرعوب متجددین ِ اسلام کا آج بھی یہی حال ہے۔
علمائے محققین آیتِ کریمہ: یاایھا الذین آمنوا ان تنصروا ا للہ ینصرکم و یثبت اقدامکمـ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تعالیٰ بھی تمھاری مددکرے گا اور تمھیں ثابت قدمی دے گا‘‘ (47:7) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ بندے کی جانب سے اللہ تعالیٰ کی مدد یہ ہے کہ دین اسلام کو درست اور صحیح دلائل کی وضاحت سے منصور رکھے۔ ملّت ِ اسلامیہ کے راستے کو دلیل و برہان کے ذریعے واضح اور نمایاں کرے۔ اللہ کی جانب سے بندے کی مدد یہ ہے کہ کلمۃ اللہ کی سربلندی کو اس کی کوشش اور جدوجہد کا دیباچہ بنادیا۔ جو شخص متابعت و اطاعتِ محمدیؐ کی دولت سے محروم ہوجائے خواہ وہ سورج کے ٹکڑے کیوں نہ کھائے، اس کا دل تاریک ہی رہے گا، اور اگرچہ آبِ حیات کے چشمے سے پانی کیوں نہ پی لے، اس کی جان ہلاک ہو کررہے گی۔
شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے متکلمین اور امام غزالیؒ کے انداز میں یونانیت زدہ فلسفیوں پر تنقید کی ہے۔ الٰہیات، روح، نبوت، حشر و نشر، اور صفات و اخلاق و افعال باری تعالیٰ کے متعلق فلاسفہ کے گمراہ کن خیالات کا رد کیا ہے۔ آپ نے فلاسفہ کے علاوہ علمائے ہیئت اور نجوم کی کج فہمیوں کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ انھیں یہ دعوت دی ہے کہ ہیئت و نجوم کی بند گلیوں سے نکلیں اور دین ِاسلام کی سچی اور کشادہ شاہراہ پر سفر کریں۔
اہل ِ فلاسفہ نے فلسفہ ٔ یونان کے دفاع میں رشف النصائح کا رد بھی لکھا، لیکن اس کے اثرو نفوذ کو کم نہ کیا جاسکا۔ رشف النصائح کا ذکر بہت سے معاصر اور مابعد مؤلفین نے بھی کیا ہے۔ نیز رشف النصائح کے کئی قلمی نسخے دنیاکے مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں، جن کی تفصیلات مقدمے میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
کتاب کا سیر حاصل مقدمہ اور مختصر احوال و آثار امام العارف شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ، سید اویس علی سہروردی نے تحریر کیے ہیں، جو کتاب کے ناشر بھی ہیں، شریک مترجم اور مدوّن بھی۔ فاضل مترجم نے اپنے مقدمے میں رشف النصائح الایمانیہ کے عربی و فارسی مخطوطات، عربی متن و فارسی ترجمے اور شرح کی اشاعت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ نیز فارسی ترجمے اور شرح کے زیر نظر اردو ترجمے اور اشاعت پر روشنی ڈالی ہے۔ احوال و آثار کے ضمن میں شیخ الشیوخ کے نسب نامے، القابات، زمانۂ حیات کے سیاسی حالات و مشاہیر، اولاد و امجاد، اساتذہ و شیوخ، تلامذہ و معاصر شیوخ، خانقاہی و سفارتی خدمات، وفات و تدفین، علمی آثار، برصغیر پاک و ہند میں آپ کے خلفاء اور سہروردی طریقت کے بارے میں آپ کی آرا کا ذکر کیا ہے، جس سے کتاب کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ یہ اردو ترجمہ مترجمین کی کئی سال کی محنت ِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ قرآنی آیات کے ساتھ اس کا ترجمہ اور آیت نمبر درج کیا گیا ہے ، نیز عربی اور فارسی اشعار کا اردو میں مفہوم بھی لکھ دیا گیا ہے۔
کتاب درجِ ذیل پندرہ ابواب پر مشتمل ہے: 1۔ کتاب و سنت سے وابستگی کی بھلائی و سعادت اور ان سے روگردانی کی ذلت و شقاوت، 2۔ گمراہی و بدعت کے اسباب اور اقوال و افعال کے اختلاف ، 3۔ دینِ اسلام کی مدد طریق متقین کی وضاحت اور باطل پرستوں کے دلائل کا رد، 4۔ قواعدِ وحدانیت کا استحکام اور قواعدِ یونانیت کا انہدام ، 5۔ خلق و امر اور خلقت و فطرت، 6۔ فضل و عدل اور نقل و عقل کا بیان اور ان کی یکجائی کے فائدے، 7۔ قیامت کا بیان اور منکرین حشر اجساد کی تکفیر، 8۔ ولادتین کا ذکر اور محققین و مبطلین کے احوال، 9۔ فلاسفہ کی غلطیوں کی پردہ داری اور طریق انبیاء کی وضاحت، 10۔ عالمِ غیب اور خلقِ الٰہی کی عظمت، 11۔ انبیاء کرام، صدیقین اور ان کے متبعین کے احوال،12۔ راہِ صواب تک پہنچانے والی اور شکوک و شبہات زائل کرنے والی نظر، 13۔ باطل مثالوں اور فاسد خیالات کا رد، 14۔ اصحابِ رسولؐ پر انعامِ خداوندی جو ان کی عقل اور فکر و نظر کی صحت کی دلیل ہے، 15۔ ملّتِ اسلامیہ کی حالت اور اطاعتِ رسولؐ کی بدولت پانے والی کرامات کے بیان میں، جو ان کی صحت اور فلاسفہ کے بطلان پر دال ہے۔
اس کتاب کی اہمیت و افادیت موجودہ زمانے میں بھی اسی طرح قائم ہے کیونکہ عقل ِ محض کو بنیاد بناکر عقائد ِ اسلامیہ کی من پسند تشریحات کی فتنہ سامانیاں آج پھر عروج پر ہیں۔