سوچو سمجھو، کچھ تو بولو

ارشد احمد بیگ

پھول سے جیسے بچے دیکھو ، ان پہ جاری آتش باری
مظلوموں پر مجبوروں پر خون کی بارش، گولہ باری
مائیں بہنیں سسک رہی ہیں ، بچے بوڑھے تڑپ رہے ہیں
سو رہا ہے ضمیرِ عالم، کب ہوگی اس کی خواب بیداری
انگارے ہیں گلناروں پر، سنگریزے ہیں بمباروں پر
دیکھو کیسی جنگ ہے یارو، کیسی ہے یہ مارا ماری
معذوروں پر مقہوروں پر، کیسے کیسے ستم اٹھے ہیں
رنگینی ہے سنگینی ہے، چپ کھڑی ہے دنیا ساری
شام وعراق میں خون کی ہولی ، کاشمیر میں موت کا رقص ہے
ہوش میں آؤ امت والو ! اُس کی باری اِس کی باری
تقدیسِ نسواں کے رکھوالو، تقدیسِ انساں لٹ رہی ہے
سوچو سمجھو کچھ تو بولو، تم پر کیوں ہے لرزہ طاری؟
دنیا بھر میں بہ رہا ہے ، خونِ مسلم کتنا ارزاں
ارضِ مقدس چیخ رہی ہے ، کس کی ہے یہ ذمہ داری
دنیا بھر کے میڈیا والو، لب کھولو اور کھل کر بولو
بھارت کا ناجائز قبضہ ، کاشمیر میں موت ہے طاری
ابھی نندن ہو کہ مودی درندر، بھارت کو یہ خوب خبر ہے
ایمان ، جہاد کا علم اٹھائو ، پاک سپاہ کی ضرب ہے کاری
مودی، وانی، ایک کشاکش، دنیا کا انداز یہی ہے
کس کی خاطر آنسو بہتے اور کس کے لیے ہیں تمغے جاری
سنگریزوں میں عزم و آہن، ابرہوں میں کیسی ہلچل
امّتِ مسلم جاگ اٹھی ہے، ابابیلوں کا نغمہ جاری
ہم کرم رحم کی بھیک کے منگتے، ارشدؔ سارے ہاتھ اٹھائیں
یہ رنج و الم کی تصویریں ہیں اور غمزدہ ہے امت ساری