تاریخ کے لحاظ سے سیرۃ طیبہ

پیشکش: ابو سعدی
تحریر: اُم احمد
نام: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)۔دادا نے رکھا
احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔والدہ نے رکھا
پیدائشِ مبارک: عام الفیل 9 ربیع الاوّل پیر کے روز (22اپریل 571ء)۔
والد کی وفات: آپؐ کی پیدائش سے قبل مدینہ میں ہوئی۔
عقیقہ اور ختنہ: پیدائش کے ساتویں دن۔
رضاعت: پہلے والدہ ،پھر ثویبہ، پھر حلیمہ سعدیہ۔
رضاعت کی مدت: حضرت حلیمہ کے پاس 2 سال گزارے۔
والدہ کی وفات کے وقت آپؐ کی عمرِ مبارک: 6 سال۔
والدہ کے بعد سرپرست: دادا حضرت عبدالمطلب۔
دادا کی وفات کے وقت آپؐ کی عمرِ مبارک: 8 سال 2 ماہ ، 10 دن۔
دادا کی وفات کے بعد آپؐ کے سرپرست: حضرت ابو طالب۔
چچا ابو طالب کے ساتھ شام کے سفر کے وقت آپؐ کی عمر: 12 سال 2مہینے 10دن۔
جنگِ فجار کے وقت آپؐ کی عمرِ مبارک: 20 برس۔
جنگ کا مہینہ: ذی قعدہ۔
فجار کے فریق: قریش اور کنانہ ایک طرف۔ قیس اور غیلان ایک طرف تھے۔
حلف الفضول: (مظلوم کی مدد کرنے کا معاہدہ) پانچ قبائل کے درمیان ظلم کے خلاف اکٹھے ہونے کا معاہدہ ہوا۔
حلف الفضول کے فریق: بنو ہاشم۔ بنو المطلب۔ بنو اسد۔ بنوزہرہ۔ بنو تمیم۔
کس کے گھر ہوا؟: عبداللہ بن جدعان۔

وجید خان

ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے ”پنجابی ادب دی مختصر تاریخ“ میں ’’وجید‘‘ نامی ایک شاعر کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے سالِ ولادت و وفات کے سلسلے میں 1550ء۔ 1660ء درج کیا ہے۔ ان کے نزدیک اغلباً یہ جہانگیر کے عہد میں پیدا ہوئے۔ یہ نسلاً پٹھان تھے اور ہندوئوں کے ایک پنتھ ’’سنت متیئے‘‘ سے تعلق پیدا کیا۔ ان کی ہندی اور ٹھیٹھ پنجابی میں شاعری ملتی ہے۔ دیوانہ کی تحقیق کے مطابق یہ جالندھر میں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصے بعد سرحد کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے ایک نئے فرقے کی بنیاد بھی رکھی، جسے ’’روشنیئے‘‘ کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے جس پنجابی شاعر کا اپنے اس مضمون میں حوالہ دیا ہے، وہ سہو ِ کتابت سے ’’وجید خاں‘‘ کے بجائے ’’وحید خاں‘‘ ہوگیا ہے۔ پنجابی زبان کے اس شاعر کا تذکرہ میاں مولا بخش امرتسری کے پنجابی تذکرے ”پنجابی شاعراں دا تذکرہ“ میں بھی ملتا ہے، لیکن اس تذکرے میں وجید خاں کے احوال و سوانح ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ سے زیادہ بہتر اور زیادہ تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں۔ کشتہ کی تحقیق کے مطابق ان کا نام وجید خاں تھا۔ 1130ھ میں کابل کے قریب جنم لیا۔ پنڈت اونکار ناتھ بھاردواج کی تحقیق کے مطابق یہ بہت بہادر اور شیر دل تھے۔ ان کا جسم پہلوانوں کی طرح کسرتی، سینہ چوڑا چکلا اور جسم بھاری تھا۔ فوج میں بھرتی ہوکر بہت بڑے افسر بنے۔ مختلف معرکوں میں دشمنوں کے مقابلے میں ہمیشہ فتح حاصل کرتے رہے۔ ایک مرتبہ اتفاقاً ایک ہندو سادھو فقیر سے رابطہ ہوا اور اس سے فقیری گیان دھیان کی باتیں سن کر دل دنیا سے اچاٹ ہوگیا۔ معاملاتِ دنیا اور گھریلو علائق سے قطع تعلق کرکے فقیری اور درویشی اختیار کرلی۔ کابل سے پشاور، راولپنڈی، جہلم، لاہور اور امرتسر سے ہوتے ہوئے متھرا پہنچے، جہاں سنسکرت زبان کا علم حاصل کیا اور ہندو دھرم کا گیان دھیان حاصل کیا۔ بقول کشتہ، اب یہ ’’آکڑ خاں‘‘ پٹھان کے بجائے ایک عاجز، حلیم الطبع اور منکسر المزاج انسان کی تصویر بن گئے۔ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں:

وجید پوت پٹھان کے دیتے دلاں کو موڑ
شرن پڑی گوپال کی سکیں نہ تنکا توڑ

(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

پاکستان میں کون سا قانون ہوگا؟

آپ نے سپاس نامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ ’’پاکستان میں کون سا قانون ہوگا؟‘‘ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک کتاب ہے، یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس… اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔
(نومبر1945ء، پشاور، بحوالہ: قائداعظم کی شخصیت کا روحانی پہلو، از ملک حبیب اللہ)

زبان زد اشعار

چشم گریاں، سینہ بریاں، آہ سرد و رنگ زرد
عشق میں کیا اس سوا کچھ اور حاصل ہوئے گا
(باقر حسین خان رنگینؔ لکھنوی)

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
(شہیر مچھلی شہری)

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
(ثاقب لکھنوی)

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(مہتاب رائے تاباں)

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
(امیر مینائی)