ہم کہتے ہیں کہ ہم نے اِسے اسلام کے لیے بنایا… عجب بات ہے… صحیح بات ہے۔ بنانے والے مسلمان تھے۔ کتنے بڑے مسلمان تھے جنہوں نے ملک بنایا اور کتنا بڑا تھا اس قافلے کا سالار… بڑا اور سچا مسلمان… لیکن کچھ اسلامی گروہ مخالف تھے۔ کون صحیح مسلمان تھا؟ بنانے والا یا مخالف…؟ کتنا اسلام چاہیے پاکستان کو قائم رکھنے کے لیے… جتنا قائداعظم کے پاس اسلام تھا۔ اِس سے زیادہ یا اِس کے علاوہ اسلام کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ضرورت ہے تو قائداعظم کی اسلام کے حوالے سے کیا افادیت ہے؟ اُس کا اسلامی تشخص کیا ہے؟ ہمارے خیال میں وہ تشخص مکمل ہے۔ اسلامی ہے۔ پاکستان بنانے کی حد تک تو اسلام آج سے نصف صدی پہلے ہی موجود تھا، اب مزید موجودگی کیا ہے۔ غور طلب بات ہے، پاکستان کی خاطر جان دینے والوں کا ایمان مکمل نہ ہو تو اُن کی موت شہادت نہیں ہے۔ اگر شہادت ہے تو وہ ایمان کامل ہوسکتا ہے۔ جس اسلام نے وحدتِ عمل پیدا کی، وہی اسلام برحق تھا۔ وحدتِ فکر اقبال نے پیدا کی۔ اُس کا اسلام برحق تھا۔ اب اور کیا چاہیے؟
جس بات سے قوم میں وحدتِ عمل پیدا نہ ہو، وہ اسلام نہیں ہوسکتا… علما صاحبان فیصلہ کریں… ورنہ کربِ مسلسل رہے گا، لوگ اذیت میں مبتلا رہیں گے۔ جس اسلام نے ملک بنایا، اب اسی اسلام سے ہی اس کی بقا قائم ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں اور سچ ہی تو کہتے ہیں کہ قیام پاکستان جمہوریت کے لیے تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے ملک بنایا… بجا… درست۔ یہ اکثریت، ہندو اکثریت میں اقلیت تھی، یعنی اقلیت کے اکثریتی فیصلے سے ملک بنا… عجب بات ہے، اقلیت کا اکثریتی فیصلہ… بڑا طاقتور ہوتا ہے… خدا نہ کرے آئندہ بھی ایسا ہو… ممکن ہے ایسا ہی ہو! بہرحال کرب کا عالم ہے۔ صاحبانِ فکر بڑے کرب میں ہیں کہ جمہوریت کے داعی حکومت میں بھی ہیں اور جمہوریت کے پرستار سڑکوں پر بھی ہیں…! اصل جمہوریت کے طالب کون ہیں؟ جمہوریت ہی جمہوریت ہے۔ کرب ہی کرب ہے۔ اللہ خیر کرے۔ اندیشے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
ہمیں ہر طرف سے خطرہ ہے۔ آخر کیوں ہے؟ ہمارا کیا قصور ہے؟ ہم ڈر رہے ہیں۔ ہم کیوں ڈر رہے ہیں؟ ہمیں ڈر سے نجات دلانے کے داعی خود تو نہیں ڈر رہے؟ نہیں نہیں، ایسے نہیں ہوسکتا… ممکن ہے ایسے ہی ہو، خدا کرے ایسے نہ ہو!! لیکن… لیکن کچھ نہیں…!!
ہم نے کامیابی کا معیار ہی غلط بنا رکھا ہے۔ ہم طاقت، شہرت، دولت، مرتبے کو کامیابی کہتے ہیں۔ کامیابی یہ تو نہیں۔ کیا ہم نے آخرت پر ایمان چھوڑ دیا؟ ممکن ہے ایسے ہی ہو… کامیابی مغرب کی تقلید میں نہیں… کامیابی تو اللہ کے حبیبؐ کے تقرب میں ہے۔ ہم بھول گئے۔ شاید ہم خدا پر بھروسا کرنے کے بجائے ووٹ پر بھروسا کرتے ہیں۔ ووٹ گنتی کا نام ہے، وزن کرنے اور تولنے کا نام نہیں۔ جھوٹے لوگوں کے ووٹ سے سچا انسان کیسے آگے آسکتا ہے! اور یہ بھی سچ ہے کہ ووٹ کے بغیر سچا آدمی کیسے سامنے آسکتا ہے۔ صداقتیں شہید ہوتی رہتی ہیں… اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے۔ صداقت کے سرفراز ہونے کا وقت کب آئے گا…؟ آئے گا، ضرور آئے گا… لیکن کب… لیکن… کچھ نہیں، خاموشی سے کرب برداشت کرتے چلو… بولنے سے بات الجھ جاتی ہے۔ بات کو الجھنا نہیں چاہیے، لہٰذا کرب بہتر ہے۔ اسے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کرلیا جائے… کیسے کریں؟ کرب ناک بات ہے۔ اللہ زمین اور آسمانوں کا مالک ہے۔ اس کی مسجد کے لیے چندہ چاہیے؟ کلمہ کفر ہے… لیکن ہے… خدا ہمیں ہمارے شر سے محفوظ کرے۔ خدا ہمارے دل میں پیدا ہونے والے شبہات کو غرق کرے۔ کوئی ایسا سیلاب جو ہمارے اندیشوںکو بہا لے جائے… لیکن سیلاب… خدا کرے سیلاب نہ آئے۔ سیلاب بری شے ہے، اندیشوں کے ساتھ ہی گزر کریں گے… آخر ہم عادی ہوچکے ہیں۔ ہم اندیشوں کی چادر بنائیں گے اور پھر اس چادر کو تان کر سو جائیں گے۔ ہم خواب اور خیال کے پرستار ہیں۔ اے اللہ! ہمیں اچھے اچھے خواب دکھا… ہم حقیقت اور حقائق دیکھنے اور سوچنے کے کرب سے نجات چاہتے ہیں۔ یا اللہ! ہمیں نجات دے!!
(”قطرہ قطرہ قلزم“۔واصف علی واصف)
لاالٰہ الا اللہ
خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ
کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں! لا الٰہ الا اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں! لا الٰہ الا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں، نہ مکاں! لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الٰہ الا اللہ
فسان: اوزار تیز کرنے کا پتھر، سان۔ متاعِ غرور: دھوکے کی ٹٹی۔ اشارہ ہے قرآن مجید کی آیت کے اس ٹکڑے کی طرف وما الحیوۃ الدنیا الامتاع الغرور…اور نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر نری دھوکے کی ٹٹی۔
-1لا الٰہ الا اللہ یعنی کلمہ توحید خودی کا چھپا ہوا بھید ہے۔ اگر خودی کو تلوار قرار دیا جائے تو اس کی سان لا الٰہ الا اللہ ہے، جس پر یہ تلوار تیز کی جاتی ہے۔ یعنی توحیدِ خالص کے بغیر خودی کی تلوار کچھ کام نہیں دے سکتی۔
-2 یہ دنیا ایک بت خانہ ہے۔ اس بت خانے میں توحید کی صدا بلند کرنی چاہیے اور یہاں لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ لگانا چاہیے۔ یہ نعرہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے نقشِ قدم پر چلنے والا مردِ حق ہی لگا سکتا ہے۔ اس مسلک کے پابند ہر دور اور ہر زمانے میں پیدا ہوتے رہے۔
-3 اے مخاطب! تُو نے اپنا دل دنیا میں لگالیا۔ تُو نے وہ سودا کرلیا، جو سراسر دھوکے کی ٹٹی ہے۔ تُو نفع نقصان کے فریب میں مبتلا ہوگیا۔ غافل! اس فریب کا طلسم توڑ۔ اس چکر سے باہر آ۔ اور لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ لگا۔
-4یہ دنیا کا مال و زر، یہ رشتے دار، قریبی، دوست اور عزیز، یہ سب ایسے بت ہیں جو وہم و گمان نے تراش رکھے ہیں۔ ان کی کچھ حقیقت نہیں۔ مستقل اور پائیدار حقیقت صرف لا الٰہ الا اللہ ہے۔
-5 عقل نے اپنے دوش پر زمان و مکان کا زنار پہن رکھا ہے۔ حقیقتِ حال پر نظر رکھی جائے تونہ زمان کی کوئی اصل ہے، نہ مکان کی۔ اصل صرف لا الٰہ الا اللہ ہے۔
-6 نغمے موسمِ بہار میں گائے جاتے ہیں لیکن لا الٰہ الا اللہ وہ نغمہ ہے جو گلاب اور لالے کے موسم یعنی فصل ِگل کا پابند نہیں۔ بہار اور خزاں اس کے لیے یکساں ہیں۔
-7قوم کے افراد نے اپنی آستینوں میں بت چھپا رکھے ہیں۔ مثلاً: غیر اسلامی تمدن و معاشرت، رنگ، نسل، وطن اور بیسیوں غیر اسلامی عقائد و مراسم کے بت تراش رکھے ہیں جو سراسر اسلام کی ضد ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لاالٰہ الا اللہ کی بے پناہ ضرب سے ان تمام بتوں کو توڑ کر رکھ دوں اور قوم میں اسلامیت کی سچی روح اور سچی شیفتگی پیدا کردوں۔ اس کا اصل ذریعہ پیغام توحید ہی ہے۔