جماعت اسلامی کی تشکیل کا تاریخی پس منظر

برصغیر ہند میں ایک نظریاتی جماعت کا ظہور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک فرد کے ذہن میں ایسے خیال کا جڑ پکڑنا اور پھر اس خیال کو عملی شکل دینا ایک عام انسان کے بس میں نہیں ہے۔ یہ شاید کائنات کے رب کی عنایت تھی کہ اس عظیم کام کے لیے اس شخص کے ذہن میں خیال نے جڑ پکڑی اور وہ اس کام کے لیے آمادہ ہوگیا۔ ایک نابغۂ عصر ہی ایسا کام سر انجام دے سکتا ہے۔ جب یہ خیال اس انسان کے ذہن میں جنم لے رہا تھا اُس وقت اس کی عمر 17 سال تھی، اور اس کے اردگرد کیا ماحول تھا، یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔
روس میں زارِ شاہی کا نظام زمین بوس ہوچکا تھا اور کمیونسٹ انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ برصغیر ہند پر اس انقلاب کے اثرات پڑنا شروع ہوگئے تھے، نظامِ خلافت آخری ہچکیاں لے رہا تھا اور ہند میں خلافت تحریک چل رہی تھی، اور دوسری طرف ہند میں گاندھی جی کی ترکِ موالات تحریک زوروں پر تھی اور مسلمانوں کی بعض اہم شخصیات اس تحریک میں شریک ہوچکی تھیں۔ یوں اس حصے میں ہر طرح کی تحریکیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ ایک طرف سلطنتِ عثمانیہ کا سورج غروب ہورہا تھا اور دوسری طرف برطانوی ہند سے استعمار جان چھڑانا چاہ رہا تھا۔ اس کشمکش سے ایک 17سالہ نوجوان متاثر ہورہا تھا اور اُس کا ذہن جس طرح سوچ رہا تھا اسی کی زبانی سنیے:
’’میں اُس وقت 17 سال کی عمر کا نوجوان لڑکا تھا، ہر مسلمان کی طرح میرے دل میں بھی یہ غم تھا کہ مسلمانوں کی ایک سلطنت جو دنیا میں باقی رہ گئی ہے، وہ مٹ رہی ہے۔ خلافت جیسی کچھ باقی رہ گئی تھی یعنی ترکوں کی سلطنت، وہ مٹ رہی تھی۔ خلافت جیسی کچھ بھی باقی رہ گئی تھی وہ دنیا کے مسلمانوں کو مجتمع کرسکتی تھی، لیکن وہ ختم ہوتی نظر آرہی تھی، اور مسلمانوں کے تمام مقدس مقامات خطرے میں پڑ گئے تھے، میں بھی اس تحریک میں ایک ادنیٰ کارکن کی صورت میں شامل ہوگیا۔‘‘
یہ خیالات اس نوجوان کے تھے، اور ہم نے دیکھا کہ ترکی کا نظامِِ خلافت زمین بوس ہوگیا اور اتاترک نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یوں اس حصے میں عربوں کی نادانی نے ترک اور عرب کشمکش کو ابھارا۔ اس سازش میں عربوں نے برطانوی سامراج کا ساتھ دیا تھا، اور یوں برطانیہ اس حصے پر غالب آگیا۔
دوسری طرف برطانوی ہند میں خلافت تحریک کا خاتمہ ہوگیا، اور جو اتفاق ہندوئوں اور مسلمانوں میں پیدا ہوا تھا وہ ختم ہوگیا۔ اس مرحلے پر نوجوان مودودی اس طرح سوچ رہا تھا:
’’ انگریزوں نے ہندوستان میں آکر اپنے ملک پر قیاس کرتے ہوئے اس ملک کی آبادی کو بھی ایک قوم فرض کرلیا، اور اس مفروضے پر اپنے ملک کے نظام کے مطابق یہاں بھی جمہوری ادارے قائم کردیے ہیں۔ ہندو قوم کے لیے یہ بات سب سے زیادہ مفید تھی، کیوں کہ وہ اکثریت میں تھی، وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دے کر جو جمہوری نظام بھی قائم ہوگا اس کا سارا فائدہ انہی کو ہوگا اور آخرکار مسلمان ان کے ماتحت بن کر ایک طرح سے ان کے عملاً غلام بن جائیں گے، اور میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس وقت ہندوستان انگریزوں کے قبضے سے نکلے گا تو آزاد ہندوستان میں مسلمان آئینی تحفظات کی دستاویز کو ہاتھ میں لیے پھریں گے اور ہندو جو چاہیں گے، کریں گے۔ مسلمانوں کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ہندو اکثریت کی دست برد سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
1924ء میں میرے تمام خدشات یک لخت سامنے آگئے، اور اپنی قومی قیادت پر سے میرا اعتماد متزلزل ہوگیا۔ 1924ء میں ترکوں نے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کردیا، دوسری طرف ہندو مسلم اتحاد بھی ختم ہوگیا اور ہندوستان میں جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ اس کے بعد 1925ء میں سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کردی، 1926ء میں ایک مسلمان نے سوامی شردھانند کو قتل کردیا، اور مسلمانوں پر شدید حملے شروع ہوگئے۔ اس پر گاندھی بول اٹھا کہ ’’اسلام تلوار کا مذہب ہے۔‘‘
میں نے مطالعہ کے بعد ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ لکھی۔ حالات بدلتے چلے گئے۔ 1928ء میں ہندوستان میں عام خیال تھا کہ مسلمانوں کے بغیر کوئی تحریک نہیں چل سکتی، اور مسلمان بھی اس بھروسے پر تھے کہ کانگریس آزادی کے راستے پر ہمیں ساتھ لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لیکن 1929ء تک پہنچتے پہنچے گاندھی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ یہ قوم پراگندہ ہوچکی ہے اور اس کے اندر قیادت اور کوئی تنظیم باقی نہیں رہی ہے، اب میں صرف ہندوئوں کو لے کر انگریزی حکومت سے لڑ کر آزادی لے سکتا ہوں۔
1929ء میں پہلی مرتبہ اس نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا: میں آزادی کی جنگ لڑوں گا، تم ساتھ آئو تو تمہیں ساتھ لے کر، تم نہ آئو تو تمہارے بغیر، اور تم مزاحمت کرو تو تمہاری مزاحمت کے باوجود۔‘‘
سید مودودیؒ نے ان حالات کا تجزیہ کیا اور 1937ء میں حیدرآباد دکن سے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ابتدا کی۔ ان کے ذہن میں جو نقشہ تھا اُس کے مطابق انہوں نے اس رسالے کے ذریعے اپنا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ 1937ء میں جو مضامین چھپے تھے ان کو ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ اوّل کے نام سے شائع کیا۔ 1937ء میں سید مودودی شمالی ہند کا سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچے تو علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی، اُن کا مشورہ تھا کہ حیدرآباد چھوڑ کر پنجاب آجائو۔ 1938ء میں کانگریس اپنی پالیسی کو آگے بڑھا رہی تھی۔ کانگریس نے منصوبہ بنایا کہ مسلمانوں کو فرداً فرداً کانگریس میں جذب کیا جائے۔ اس طرح کانگریس نے Muslim Mass Contact شروع کی۔ اس کا اصل ہدف مسلمان کمیونسٹ تھے، اور غضب یہ کہ علمائے کرام کا ایک گروہ بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا، وہ اس بات کا قائل تھا کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے 1938ء میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ دوم لکھی۔
’’1939ء میں مسلم لیگ نے زور پکڑا اور پاکستان کی تحریک اٹھنا شروع ہوگئی جو 1940ء تک قراردادِ پاکستان کی شکل اختیار کرگئی۔ اور میں اُس وقت دیکھ تھا کہ اب مسلمان قوم خدا کے فضل سے ہندو قوم کے اندر جذب ہونے سے بچ گئی ہے، اس کے اندر دینی قومیت کا احساس اتنا مضبوط ہوگیا ہے کہ اب کسی نہرو اور کسی گاندھی کے بس کا یہ کام نہیں رہا ہے کہ ان کو ہندوئوں یا ہندوستانی قومیت کے اندر جذب کرسکے۔‘‘ اس کے بعد سید مودودیؒ نے کہا ’’اب جو مسئلہ میری نگاہ میں اہم تھا وہ یہ تھا کہ مسلمان قوم کو احساس دلایا جائے کہ اسلامی حکومت کیا ہوتی ہے اور اسے قائم کرنے کے لیے کس سیرت و کردار کی ضرورت ہوتی ہے، اور کس طرح کی تحریک سے وہ قائم ہوسکتی ہے، اور ایک اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی قومی حکومت میں اصولاً اور عملاً کیا فرق ہوتا ہے۔ اس غرض کے لیے میں نے وہ سلسلۂ مضامین لکھنا شروع کیا جو بعد میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ سوم کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے مضامین 1939ء سے 1940ء تک لکھے گئے۔ اس کا کچھ حصہ 1941ء کا لکھا ہوا ہے۔‘‘
1940ء کی قرارداد کے بعد مولانا کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ ’’جس قسم کے عناصر تحریک پاکستان میں جمع ہورہے تھے ان کو دیکھتے ہوئے میں یقینی طور پر سمجھ رہا تھا کہ یہ عناصر جمع ہوکر ایک ملک بنا سکتے ہیں، ایک قومی حکومت قائم کرسکتے ہیں، لیکن ان عناصر سے کبھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ ایک اسلامی حکومت بنا لیں گے۔ اس تحریک میں جو لوگ پیش پیش تھے، جو اس تحریک کو چلا رہے تھے اُن کے کریکٹر کو دیکھتے ہوئے، ان کی زندگیوں کو دیکھتے ہوئے ان سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی تھیں! میں اندازہ کررہا تھا کہ یہ ایک ملک بنا سکتے ہیں لیکن اس کو ایک اسلامی حکومت نہیں بنا سکتے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کرلیا کہ ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔
22 سال تک جو جو کچھ میں دیکھتا رہا تھا، جو میرے مشاہدات اور تجربات تھے، ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر میں نے جماعت کی تشکیل کی اور وہ تمام احتیاطیں ملحوظ رکھیں جو ان مشاہدات کی بنا پر ضروری تھیں، اور ہم نے جماعت اسلامی کا جو نصب العین قرار دیا اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام ’اقامتِ دین‘ تھا۔ اس کے ساتھ جو چیزیں میں نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھی تھیں وہ یہ تھیں کہ جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف عقیدے میں مخلص ہوں بلکہ اپنی انفرادی سیرت و کردار میں قابلِ اعتماد ہوں۔ میرے 22 سال کے مشاہدات یہ بتا رہے تھے کہ مسلمانوں کی جماعتوں اور تحریکوں کو جس چیز نے آخرکار خراب کیا وہ اچھے لوگوں کے ساتھ بہت سے ناقابلِ اعتماد لوگوں کا شریک ہوجانا تھا‘‘۔
آگے چل کر وہ اپنی تقریر میں بیان کرتے ہیں: ’’اپنے طویل تجربات و مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ بھی اخذ کیا تھا کہ مسلمانوں کی تحریکوں کے ناکام ہونے، یا ابتدا میں کامیاب ہوکر آخرکار ناکام ہوجانے کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تنظیم کی کمی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی کا نظم نہایت سخت اور مضبوط ہونا چاہیے، اس میں ذرہ برابر بھی ڈھیل گوارا نہیں کرنی چاہیے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے۔ عزیز سے عزیز آدمی بھی چلا جائے تو کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
ایک قلیل المقدار جماعت اگر منظم ہو اور حکمت کے ساتھ کام کرے تو پوری ایک قوم کو سنبھال سکتی ہے، لیکن لاکھوں انسانوں کی بھیڑ آپ جمع کریں اور اس کے اندر تنظیم نہ ہو تو وہ کوئی کام نہیں کرسکتی۔‘‘
اپنی تقریر میں وہ ایک اور بہت اہم پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایک اور چیز جس کو ہم نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھا، یہ تھی کہ جدید اور قدیم تعلیم یافتہ، دونوں قسم کے عناصر کو ملا کر ایک تنظیم میں شامل کیا جائے، اور یہ دونوں مل کر اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے تحریک چلائیں۔ اپنے سابقہ تجربات کی بنا پر میری یہ رائے تھی کہ خالص جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت اپنی جگہ اسلام کے معاملے میں کتنی ہی مخلص کیوں نہ ہو، لیکن چونکہ وہ دین کو نہیں جانتی اس لیے تنہا وہ ایک دینی نظام کو قائم نہیں کرسکتی۔ اسی طرح محض دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ اگرچہ وہ دین کو خوب جانتے ہوں مگر چونکہ انہوں نے وہ تعلیم حاصل نہیں کی جس سے وہ ایک جدید دور میں ایک جدید ریاست کا نظام چلا سکیں، اس لیے صرف ان پر مشتمل کوئی خالص مذہبی جماعت بھی نہ دینی نظام قائم کرسکتی ہے، نہ اسلام کی بنیاد پر جدید دور میں ایک اسلامی ریاست کا انتظام کرسکتی ہے۔
ان وجوہ سے میرے نزدیک یہ ناگزیر تھا کہ ان دونوں گروہوں کو ملایا جائے۔ جماعت کے اندر جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے ایسے سب لوگوں کو شامل کیا جائے جو نہ صرف مخلص مسلمان ہوں بلکہ اسلامی احکام پر عمل کرنے کے لیے بھی تیار ہوں، اور جن کا ذہن اس حد تک مومن ہو کہ کسی بات کو تسلم کرنے کے لیے وہ عقلی دلیل کو شرط نہ سمجھتے ہوں، بلکہ یہ دلیل ان کے لیے بالکل کافی ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ہے، اور جب ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا یہ حکم ہے تو وہ پھر بلا تامل سر جھکا دیں۔ اسی طرح ان علما کو بھی اس میں شامل کیا جائے جن کے اندر گروہی تعصب موجود نہ ہو، اور جو خود اس بات کی ضرورت کو سمجھتے ہوں کہ اس دور میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لیے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔‘‘
(جاری ہے)