وادی کشمیر اور جموں خطے کے پانچ اضلاع میں کرفیو اور دیگر پابندیاں جاری رہیں، کاروبار زندگی مفلوج، فورسز کا کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرنے والے عوام پر تشدد،انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے آفیسر کنان گوپی ناتھن نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کئے جانے پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے.سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ جمہوری معاشروں میں کرفیو اور مواصلاتی پابندیاں ناقابل قبول ہیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق لاکھوں لوگوں کے گھروں میں محصور ہونے کے باعث انہیں بچوں کے لیے خوراک ، غذائی اجناس اور زندگی بچانے والی ادویات سمیت اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامناہے جبکہ جموںوکشمیر اپنے ہی باشندوں کے لیے ایک بڑی جیل بن چکا ہے۔ بی جے پی حکومت کی طرف سے 5اگست کو جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعدوادی کشمیر اور جموںخطے کے ڈوڈہ ،کشتواڑ، پونچھ، رام بن اور راجوری اضلاع میں ٹیلیفون ، موبائل اور انٹرنیٹ سروسزسمیت تمام مواصلاتی رابطے منقطع اور ٹیلی ویژن کی نشریات بندہیں۔
امت آج بھی زندہ ہے
کیا آج تک کشمیر میں جام شہادت نوش کرنے والے کسی پاکستانی کی برسی چہیہ گویرا کی طرح منائی گئی۔ اس کی یاد میں نظمیں لکھی گئیں۔ ایسے ہر فرد کی شہادت اس بات کی علامت ہے کہ امت مسلمہ زندہ ہے جس کے لئے ان افراد نے اپنا گھر بار چھوڑا۔ پوری مہذب دنیا اس مصنف کے گن کاتی ہے جس نے گوریلا جنگ پر ایک تفصیلی کتاب ’’مکھی کی جنگ”war of the flea” لکھی۔ رابرٹ ٹیبر (Robert Taber)۔ اس نے صرف کتاب ہی نہیں لکھی بلکہ وہ اپنا ملک امریکہ چھوڑ کر اسی کے خلاف کیوبا اور ویتنام میں لڑتا رہا۔ آج دنیا کا ہر بڑا پبلشنگ ادارہ اس کی کتاب بھی شائع کرتا ہے اور اس کتاب کو آزادی وحریت کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے لئے رہنمائی کا درجہ بھی حاصل ہے۔ کیا چیچنیا، بوسنیا، مندنا اور دیگر غلام مسلمان علاقوں میں دوسرے مسلمان ملکوں سے گھر بار چھوڑ کر لڑنے کیلئے جانے والوں کی دنیا میں ویسے عزت ہے۔ امت مسلمہ کے فرزند تو مطلوبہ افراد کی فہرستوں میں شامل ہوتے ہیں۔ الجزائر کے مسلمان فرانس سے آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کر رہے تھے، آج کے دور کا فلسفی اور ناول نگار اپنا وطن فرانس چھوڑ کر ان کی مدد کے لیے وہاں چلا گیا۔ یار لوگوں نے اسے سیکورٹی رسک قرار دے کر گرفتار کرنے کے لیے کہا تو اسوقت فرانس کے صدر ڈیگال نے بلند آواز میں پکارا ’’میں سارتر کو کیسے گرفتار کر سکتا ہوں، سارتر تو فرانس ہے‘‘۔ امت مسلمہ کے درد میں کراہنے والوں کو یاد پڑتا ہے کہ کتنی دفعہ حافظ سعید اور مسعود اظہر کو گرفتار کیاگیا اوراس گرفتاری پر انہوں نے کتنا احتجاج کیا۔ منافقت کا عالم یہ ہے کہ ہم دنیا کو یہ بھی کہتے پھرتے ہیں کہ ممبئی حملوں میں ہم ملوث نہیں ہیں، لیکن گرفتاریاں بھی ہم تمہاری مرضی تمہارے خوف سے کریں گے۔ ہم انکی ایمبولینس سروس بھی بند کریں گے، ان کے تمام رفاحی اداروں کو سیل کر دیں گے۔ اس لیے کہ ان کا جرم صرف ایک ہی ہے کہ وہ پاکستانی ہو کر امت مسلمہ کے مظلوم عوام کے لئے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ تمہارا کوئی منہ ہے کہ تم امت مسلمہ کا گلہ کر سکو۔ اس امت کے عام لوگوں نے تو ایک امت ہونے کا ہمیشہ ثبوت دیا تھا۔ مائوں نے اپنے جگر گوشے دعائوں کے ساتھ 1979 ء میں روس کے ملحد فوجیوں سے لڑنے کیلئے افغانستان بھیجے تھے۔ تمام عالمی قوانین کے تحت انکی مدد جائز تھی۔ کیونکہ روس ایک غاصب ملک تھا۔ مفاد کے تحت دنیا کی تمام قوتیں بھی انکے ساتھ تھیں۔لیکن کیا افغانستان میں کسی امریکی، برطانوی یا فرانسیسی نے افغانوں کی آزادی کے لئے جان دی۔نہیں۔ افغان عوام کے شانہ بشانہ صرف اس امت مسلمہ کے بیٹے ہی قربان ہوئے تھے۔ جائیں اور افغانستان کے قبرستانوں میں مراکش سے لے کر برونائی تک امت مسلمہ کے شہدا کی قبریں دیکھیں اور پھر خود پر غور کرتے ہوئے شرم و ذلت سے ڈوب مریں کہ جب اسی افغانستان میں روس کی طرح امریکہ اور عالمی اتحاد کی افواج ویسے ہی حملہ آور ہوئیں تو تم نے ان امتِ مسلمہ کے چھ سو فرزندوں کو پکڑ کر امریکیوں کے ہاتھ بیچا جو صرف کلمہ طیبہ کے رشتے کے حوالے سے وہاں مسلمان افغان عوام کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے۔ تم سے تو وہ سیکولر، لبرل ملک زیادہ بااصول و با غیرت تھے جو اپنے شہریوں کو گوانتاناموبے سے چھڑا کر لے آئے۔ برمنگھم کا معظم بیگ جو اپنی بیوی کے ساتھ طالبان حکومت میں لڑکیوں کے سکول کھولنے گیا تھا، جسے راولپنڈی سے پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا، اگر وہ برطانوی شہری نہ ہوتا تو 2005 ء میں کبھی باہر نہ آتا ،بلکہ آج تک ان پاکستانیوں کی طرح ہوتا جو بٹگرام و گوانتاناموبے کی جیلوں میں اللہ کی نصرت کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ ہے اصل امت مسلمہ جو اپنے بھائیوں کے دکھ میں تڑپتی ہے۔ جو کہیں بھی رہتی ہو، شام کے مہاجروں کے لیے فنڈ اکٹھا کرتی ہے۔ پاکستان کے سیلاب زدگان اور زلزلہ کے شکار افراد کے لیے مدد فراہم کرتی ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے بے تاب ہو جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے میں سب سے زیادہ فراخ دل کہلاتی ہے۔ تم کبھی اس امت کی بات نہیں کرو گے کیوں کہ اسکی تعریف و توصیف کرنے سے بھی تمہارے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ تم ان عالمی طاقتوں کی تخلیق کردہ قومی ریاستوں پر مسلط کردہ حکمرانوں کو امت مسلمہ کا نام دے کر اس امت کو گالی دیتے ہو۔ یہ سب کے سب حکمران سیکولر لبرل ڈکٹیٹر ہیں جواس امت پر مسلط کئے گئے ہیں۔یہ سب اپنے ملک میں شریعت کے نفاذ سے ڈرتے ہیں۔ تمام ممالک میں سیکولر نظام اور سیکولر قوانین نافذ ہیں۔ ایسے میں اگر مودی کو ایوارڈ دیا جاتا ہے تو پھر اس سیکولر طرز زندگی کو گالی دو،جہاں ایئرپورٹ پر دیگر اشیا کے ساتھ سر کا گوشت بھی سجاکر رکھا ہوتا ہے۔ کیا تمہاری اوقات ہے کہ تم ان سیکولر لبرل عرب حکمرانوں سے امت کے نام پر سوال بھی کر سکو۔ تم اپنے ملک سے مال چوری کرکے، لوٹ مار کر کے وہاں جائیدادیں خریدتے ہو، کاروبار کرتے ہو۔ تمہارے حکمران اور سیاسی لیڈر نائی، چوکیدار اور مزدور کے نام پرفراڈ کیلئے اس ملک کے اقامے لیتے ہیں۔ جن دو ملکوں، سعودی عرب اور ایران میں چند شرعی تعزیرات نافذ ہیں ان کے مداحین بھی ایک دوسرے پر وار کرکے امت کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ مودی اگر ایران جائے تو ایک گروہ کے لوگ تصویریں شیئر کرکے امت مسلمہ کی پھبتیاں کستے ہیں کہ دیکھو مشرکین سے دوستی ہے ، سعودی عرب جائے تب دوسرا گروہ آل سعود کے نام پر امت مسلمہ کو گالی دیتا ہے۔ دبئی میں ایوارڈ لے تو وہ یزید ہو جاتا ہے لیکن تہران جائے تو اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے پروانوں نے اس امت کے عام مسلمانوں کو اس کھیل میں کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے اور یہ دونوں ان سیکولر لبرل دوستوں کے لیے راحت کا سامان بنتے ہیں جو کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس میں اسلام اور امت مسلمہ کی تحقیر ہو۔لیکن یہ امت آج بھی زندہ ہے، ان شہیدوں کے لہو سے جو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے، کہ کہاں پیدا ہوئے اور مظلوموں کی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں ، ان صاحبان دل کے وجود سے کہ جو کہیں بھی رہتے ہوں اپنے اپنے مصیبت زدہ مسلمانوں کے لئے جان، مال، وقت سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔
( اوریا مقبول جان،روزنامہ 92 نیوز،27اگست،2019ء)