ابوسعدی
اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے۔
(کراچی، 1948ء، بحوالہ: ’’قائداعظم کا پیغام‘‘ مرتبہ سید قاسم محمود)
گناہ
٭اعلانیہ گناہ پوشیدہ کی نسبت زیادہ سخت اور اظہارِ گناہ دوسرا گناہ ہے۔ (ابوالحسن خرقانی)۔
٭کم عمر والے کے گناہ اپنے سے کم جان کر اس کی عزت کر۔ (امام جعفر صادق)۔
٭حق تعالیٰ کے سامنے حق تعالیٰ کے گناہ کے ساتھ جانا زیادہ آسان ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ ایسے گناہ کے ساتھ جائے جس کا تعلق بندوں کے ساتھ ہو۔ (سفیان ثوری)۔
٭وفات کے قریب لوگوں نے آپ سے کہا کچھ خوشخبری دیجیے، کیونکہ آپ ایسے اللہ کے ہاں جاتے ہیں جو غفور ہے۔ فرمایا: میں ایسے اللہ کی خدمت میں جاتا ہوں جو گناہِ صغیرہ کا حساب لیتا ہے اور گناہِ کبیرہ پر عذاب کرتا ہے۔ یہ فرما کر انتقال کیا۔ (حضرت ابو سلیمان)۔
٭جہل سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔
٭ گناہ پر نادم نہ ہونا، ایک ایسا مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔
پاکستان کا آئین؟
آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 1942ء میں کراچی میں منعقد ہوا۔ اس سالانہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے جن ارکان نے تجاویز بھیجی تھیں، ان کی میٹنگ نواب محمد اسماعیل خان کی صدارت میں ہوئی جس میں مختلف قراردادیں تیار کی گئیں۔ ان میں سے ایک قرارداد آئین کے حوالے سے مرتب کی گئی جس کے الفاظ یہ تھے: ’’پاکستان میں جو آئین ہوگا، وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگا، اور رائج الوقت قوانین میں جلد شریعت کے مطابق تبدیلی کی جائے گی‘‘۔ تمام لوگوں نے اس تجویز کی حمایت کی۔ آخر میں قائداعظم نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’جہاں تک اس تجویز کا تعلق ہے، وہ ہر مسلمان کے دل کی پکار ہے، اور پاکستان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے دین کا نظام قائم ہوگا‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار، دسمبر 2014ء)
مارٹن لوتھر
مارٹن لوتھر (1483ء۔ 1546ء) پروٹسٹنٹ اصلاح کا رہنما تھا۔ اس نے عیسائی افکار و تصورات میں ایک انقلابی صور پھونکا۔ ارفرٹ یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر قانون کا مطالعہ کیا۔ بعدازاں آگسٹائن کے درویشوں کی رہبان گاہ میں داخل ہوا، جہاں 1507ء میں اسے پادری بنادیا گیا۔ پھر یہ وٹن برگ یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے لگا۔ 1510ء میں روما کے مشن کے دوران کلیسا کے اعلیٰ حلقوں میں مذہبی اکابرین کی بے پروائی سے رنجیدہ ہوا۔ وٹن برگ واپس آکر اس نے کلیسا کی اصلاح کی تجاویز پیش کیں۔ بعدازاں اس نے مروّت کی مذہبی رسوم پر احتجاج کیا اور اس احتجاج کے ساتھ اس نے پندرہ مذہبی مقالات کیسل گرجا کے دروازے پر چسپاں کیے، جس سے کلیسائی اکابرین میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی۔ پوپ کی طرف سے آنے والے تعزیری فرمان کو اس نے جلا ڈالا، جس کے بعد اہلِ کلیسا کے ایک طویل ردعمل کا وہ شکار رہا۔ کیتھولک عیسائیوں کے مقابلے میں اس کے حامی پروٹسٹنٹ کہلانے لگے۔ اس نے اپنے مسلک کو واضح کرنے کے لیے بہت سے رسائل لکھے۔ اس کی تعلیمات پر مبنی نظام ’’لوتھرن ازم‘‘ کہلاتا ہے۔ جرمنی میں لوتھریت اور سیاسیات کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا۔ یہ تصور بعدازاں دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل گیا اور آج کی عیسائی دنیا میں یہ ایک مستقل دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’مغرب کی لادینی لوتھر کی تحریک سے پیدا ہوئی‘‘۔ (اقبال)۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
اچھی تحریریں
حسن خط بہ ز حسن دلدار است
ہمچو ماہیکہ در شب تار است
۔’’اچھی تحریر خوب صورت محبوب سے بہتر ہوتی ہے اور وہ اندھیری رات میں چاند کی طرح ہوتی ہے‘‘۔
چہل سال عمر عزیزم گذشت
سرِ زلف خط نآمد آسان بدست
۔’’میری پیاری عمر کے چالیس سال گزر گئے ہیں (اور مجھے اب احساس ہوا کہ) زلف ِتحریر کا سرا آسانی سے ہاتھ میںنہیں آتا‘‘۔
خط نو مشتم گریہ کرد م زار زار
من نمانم خط بماند یادگار
۔’’میں نے تحریر لکھی تو زارو قطار رودیا کہ میں چاہے نہ رہوں لیکن میری تحریر تو یادگار رہے گی‘‘۔
درحقیقت مالک ہر شے خدا است
این امانت چند روز در نزد ما است
۔’’اصل میں ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور یہ (زندگی کی) امانت میری پاس چند روز کے لیے ہے‘‘۔
(بحوالہ: رشد ، فروری2009ء)