مسئلہ کشمیر‘ حکومت کی سیاسی دانش کا امتحان

تحریک انصاف کو حکومت میں ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے صرف وزارتِ خزانہ اور وزارتِ خارجہ کے دو محاذ ہی کافی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق قرضوں میں ایک سال میں 7 کھرب 6 سو ارب کا اضافہ ہوا ہے اور سرکاری قرضوں کا حجم 31کھرب روپے رہا، جو ماضی میں کسی بھی حکومت کے 5 سالہ دورِ حکومت سے کہیں زیادہ ہے۔ عمران خان خود کہتے رہے ہیں کہ جب قرضہ لیا جاتا ہے، تو معیشت ڈوبتی ہے، یہ قرضہ لوگوں کو اتارنا پڑتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کا قرض کون اتارے گا؟ مہنگائی حکومت سے کنٹرول نہیں ہورہی ہے۔
ملک کی معیشت کی اس تصویر کے ساتھ حکومت کو خارجی محاذ کے مسائل حل کرنے ہیں جن میں سب سے اہم کشمیر ہے۔ یہ محاذ مشکل بھی ہے آسان بھی۔ مشکل اس لیے کہ ہمیں اقوام عالم میں واضح حمایت میسر نہیں، اورآسان اس لیے کہ کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ آج کشمیر میں جو بھی صورتِ حال ہے یہ ہماری حکومت کی سیاسی دانش کا بہت بڑا امتحان ہے۔ اگر ہماری حکومت کشمیری عوام کی واضح حمایت کے باوجود بھی سری نگر کے ساتھ کھڑی نہ ہوسکی تو یہ تبدیلی ہماری آئندہ نسلوں پر بھاری پڑ سکتی ہے۔ تلوار کی زبان میںکشمیر کا مقدمہ کشمیری عوام کو جتنا لڑنا تھا لڑ چکے ہیں، اب میدان میں جیتے ہوئے مقدمے کو اقوام عالم کے سامنے مذاکرات کی میز پر رکھنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی اصل آزمائش تو اب شروع ہوئی ہے۔ پاکستان کی داخلی سیاست میں اپوزیشن کو زیر کرنے کے لیے نیب کے ذریعے کامیابی کا فارمولا یہاں نہیں چلے گا۔ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے علاوہ عالمِ اسلام میں کشمیر کے لیے اپنے مؤقف کی حمایت حاصل کرنا ہی کامیابی ہے۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اسے جس طرح کے امتحان کا سامنا ہے اس کی تیاری کے لیے اُسے شجاعت اور صداقت کا سبق پڑھنا چاہیے تھا تاکہ اس سے امامت کا کام لیا جاتا۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ حالیہ سیاسی تاریخ میں دنیا میں مذہب کی بنیاد پر صرف دو ملک پاکستان اور اسرائیل ہی وجود میں آئے، اس کے بعد عالمی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کرلیا کہ دنیا بھر میں مذہب کی بنیاد پر مسلم دنیا میں اب کسی سیاسی تحریک کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل کا نقشہ ہمارے سامنے ہے کہ کشمیر کی جدوجہد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لبرل سیاسی قوتوں کے حوالے کردی جائے گی۔ یہی قوتیں فاتح بن کر فیصلہ کن مرحلے میں مذاکرات کی میز پر تقسیم کی میزان لیے چھاتہ بردار فوج کی طرح اتر چکی ہیں۔ وہ جنگ جو انسانوں نے لڑی اُس کا فیصلہ اب روبوٹ سیاسی قوتیں کرنے جارہی ہیں۔ یہ مرحلہ اُن سیاسی قوتوں کے لیے کٹھن اور تکلیف دہ ہوگا جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے میں شہادتوں کا سفر جواں نسل کے پاکیزہ خون سے کیا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک میں جواں نسل آزادی کی علامت، کہانی اور داستان بن کر ابھری تھی، لیکن روبوٹ سیاسی قوتیں فیصلے سے قبل اس نسل کو جمود کا شکار بنائیں گی اور پھر کشمیر کی حیاتِ نو کا باب لکھا جائے گا۔
بھارت کی جانب سے آئین میں آرٹیکل370 ختم کیے جانے کا غیر معمولی اقدام اچانک نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اسے کشمیر میں مرحلہ وار رائے شماری کی تجویز کا ہی حصہ سمجھا جائے۔ مقبوضہ وادی میں اس فیصلے کے خلاف ردعمل آیا ہے، پاکستان کشمیریوں کے اس ردعمل کی حمایت کر رہا ہے۔ اس وقت پوری کشمیری قوم آزادی کے لیے کمربستہ ہے اور فی الحال ان کا ہر جوان آزادی کی علامت ہے۔ آئین میں آرٹیکل 370 ختم کیے جانے کے بعد بھارت اب وہاں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرائے گا، اور ان انتخابات میں ایک ایسی قیادت سامنے لائی جائے گی جو دہلی سرکار کے فیصلے کی تائید کرے۔ مقبوضہ وادی میں انتخابات کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہیں۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس امتحان کی تیاری کیا ہے؟ کشمیری عوام کے لیے پاکستان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت تو میسر ہے اور رہے گی، لیکن معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہے جہاں یہ مسئلہ پچاس سال کے طویل وقفے کے بعد دوبارہ زیر بحث لایا جارہا ہے۔ وزارتِ خارجہ میں ایک پختہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ہر معاملے کا جواب جنگ نہیں ہوتا، کچھ معاملات مذاکرات اور سفارتی بنیاد پر بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔کشمیر کے معاملے پر غیر ملکی برادری کا اس سے اچھا رسپانس کبھی نہیں آیا جو اب آرہا ہے، یوں سمجھ لیں کہ بھارت کے یک طرفہ اقدام کے بعد اقوام عالم نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ کشمیر سے متعلق پاکستان کا مؤقف درست ہے، عالمی ردعمل سے پاکستان کا مؤقف مزید مضبوط ہوگیا ہے۔ اس عالمی ردعمل سے یہ فائدہ اٹھانے کا موقع ہے اور حکومت کی تیاری کہیں نظر نہیں آرہی۔
ملک بھر میں یوم آزادی یومِ کشمیر کی حیثیت سے بھی منایا گیا لیکن پورے ملک میں یکجہتی کہیں نظر نہیں آئی۔ وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ کی کسی جماعت اور اپوزیشن کو اپنے ساتھ لے کر مظفرآباد جاتے تو بہتر نتائج اور تاثر ملتا، لیکن حکمران جماعت تنِ تنہا کشمیر کا مقدمہ لڑنا چاہتی ہے، اس کا خیال ہے کہ عالمی برادری اب دنیا بھر میں لبرل سیاسی جماعتوں کو اہمیت دے رہی ہے، لہٰذا کسی دوسری اور مذہبی جماعت کا بوجھ اپنی کمر پر نہ اٹھایا جائے۔ اگر تحریک انصاف ملک میں یکجہتی کے لیے قدم بڑھائے تو اس کا اثر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات پر بھی پڑسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مظفرآباد میں جو کچھ کہا اس پر اگر وہ خود بھی غور فرمائیں تو بہتر ہوگا۔ مظفرآباد میں وزیراعظم نے کہا:
’’بھارت میں جج ڈرے ہوئے ہیں اور میڈیا پر حکومت کا کنٹرول ہے، اس وقت جب سب سے بڑا بحران ہمارے کشمیریوں پر ہے، میں نے پہلی مرتبہ بی جے پی اور مودی کی اصل شکل کو دنیا کے سامنے رکھا، بھارت سے ہمارے مفادات کی کشمکش نہیں چل رہی، بلکہ ہم ایک نظریے کے خلاف کھڑے ہیں اور یہ زیادہ خوفناک ہے، جب آپ ایک نظریے کے خلاف جنگ کریں تو وہ ایک مختلف چیز ہے اور اس کے حل الگ ہیں۔ ہمارے سامنے ایک خوفناک نظریہ کھڑا ہے، جو آر ایس ایس کا نظریہ ہے، جس کا مودی بچپن سے ممبر ہے، آر ایس ایس نے اپنا نظریہ ہٹلر کی نازی پارٹی سے لیا، اس نظریے کے پیچھے مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے، یہ لوگ عیسائیوں سے بھی نفرت کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی ان پر حکومت کی، آر ایس ایس نے ماضی میں اپنے لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا ہے کہ مسلمان حکومت نہ کرتے تو ہم ایک عظیم قوم بننے جارہے تھے۔ اس نظریے میں انہوں نے مسلمانوں کی نسل کشی بھی رکھی ہوئی ہے، یہ نظریہ ہم سمجھ جائیں تو بہت چیزیں سمجھ میں آجائیں گی۔ قائداعظم اسی لیے پاکستان کی تحریک پر گئے، کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ جو آزادی مانگ رہے ہیں وہ ہمارے لیے نہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت دیکھ لی تھی، اس نظریے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا، اسی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، مقبوضہ کشمیر پر جو ظلم کیے وہ اسی نظریے کے تحت تھے، مودی نے جو کارڈ کھیلا وہ اس نظریے کا فائنل حل تھا۔‘‘
وزیراعظم کیا کہنا چاہتے ہیں اس کی وضاحت خود انہیں کرنا پڑے گی۔ حکومت کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستانی قوم کے ردعمل کی وجہ سے ہی کشمیر کی آزادی کے حالیہ مرحلے میں عالمی سطح پر بھارت کو بڑی سفارتی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور کشمیر پر بھارتی قبضے کا معاملہ 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچ گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کیے جانے اور مقبوضہ وادی میں کرفیو کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتِ حال پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے خط لکھا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر اجلاس طلب کرلیا۔ یہ اجلاس ان کیمرہ ہوا، اس اجلاس میں امریکہ، روس اور چین کا ردعمل سامنے آچکا ہے۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہلی کے مقابلے میں اسلام آباد کیا سوچ رہا ہے؟ پاکستان فی الواقع حالتِ جنگ میں ہے۔ دشمن نے تو ہم پر جنگ مسلط بھی کردی ہوئی ہے۔ کشمیر کو عملی طور پر ہڑپ کرنا دشمن کی جانب سے جنگ کا طبل بجنا ہی ہے۔ جنگ کی تیاری تو اس نے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات سے بہت پہلے سے کر رکھی تھی، اس نے ہماری فضائی حدود میں دراندازی کی، اگرچہ اگلے روز اسے جواب دے دیا گیا تھا، پھر ہم مطمئن ہوگئے کہ دشمن کی ہمت ٹوٹ چکی ہے۔ مگر دشمن ہم پر دوبارہ اوچھا وار کرنے کی تیاریوں میں لگا رہا۔ مسلسل واقعات کو بھی ہماری حکومت سمجھ نہ سکی۔ مودی نے کشمیر کے بارے میں اپنی انتخابی مہم میں بڑے واضح اعلانات کیے تھے۔ مودی سرکار کی جانب سے پہلے سے بھی زیادہ رعونت کے ساتھ شملہ معاہدے اور اعلانِ لاہور کی تکرار کرکے کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی کو ٹھکرا دیا گیا، اور پھر یکایک اپنے آئین میں دیا گیا کشمیر کا خصوصی حیثیت والا اسٹیٹس ختم کردیا گیا، اور اس مقصد کے لیے جاری کیے گئے صدارتی حکم کی یکے بعد دیگرے راجیہ سبھا اور لوک سبھا سے توثیق بھی کرالی گئی۔ جبکہ یہ اقدام اٹھانے سے پہلے ہمارا یہ ازلی مکار دشمن مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آواز دبانے اور انہیں زندہ درگور کرنے کا وافر انتظام کرچکا تھا۔ چنانچہ مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھجوائی گئی ایک لاکھ 80 ہزار اضافی افواج نے نہتے بے بس کشمیریوں کو عملاً زندہ درگور کردیا۔ پوری مقبوضہ وادی کو کرفیو کے جہنم میں دھکیل کر کشمیریوں کے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کردیا گیا۔ بھارت نے انہیں بھوکا پیاسا مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کے باوجود بھارتی تسلط سے آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیریوں کے جذبات میں تڑپ برقرار رہی اور وہ کرفیو کو توڑتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں سراپا احتجاج بنے سڑکوں پر آگئے تو بھارتی فوج نے ان سڑکوں کو اُن کے لیے کربلا بنادیا۔ ان پر جدید اسلحہ اور پیلٹ گنوں کی گولیوں کی بوچھاڑ کردی، خون کی ندیاں بہا دیں، لاشوں کے ڈھیر لگادئیے۔ کیا یہ دشمن کی طرف سے کھلم کھلا اعلانِ جنگ نہیں ہے؟ مگر ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شش و پنج میں پڑے یہ استفسار کررہے ہیں کہ کیا میں بھارت پر حملہ کردوں؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھارت کو کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادیں ہی نہیں، پاکستان کے ساتھ کیے گئے شملہ معاہدے کی یاد بھی دلا دی ہے، اور چین نے تو بھارت کو مقبوضہ وادی سے اپنی فوجیں نکالنے کا الٹی میٹم بھی دے دیا ہے، مگر ہم ابھی تک شش و پنج میں ہی پڑے ہیں۔ ہم نے اپنا یوم آزادی کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے مختص کیا اور بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا، اور پھر اسی مناسبت سے پیمرا نے عیدالاضحی سے دو روز قبل پورے الیکٹرانک میڈیا کو ایک خصوصی مراسلہ بھجوا کر عیدالاضحی کے ریکارڈڈ اور لائیو خصوصی پروگرام چلانے سے روک دیا کہ حالتِ جنگ میں ایسا ہلہ گلا ہمیں زیب نہیں دیتا، مگر پھر اس کے اگلے ہی روز یہ مراسلہ واپس لے لیا گیا جیسے ہم اپنے دشمن کو زیر کرکے اس حالتِ جنگ سے باہر نکل آئے ہوں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ دشمن کی مسلط کردہ جنگ سے عہدہ برا ہونے کی ہماری پالیسی کیا ہے اور کس کی مرتب کردہ ہے؟ کیونکہ محسوس یہی ہورہا ہے کہ پالیسی بن کہیں اور رہی ہے اور اس کا گومگو کی کیفیت میں اعلان کہیں اور سے کیا جاتا ہے۔ اور اب تو ہمارے اس دشمن نے سندھ طاس معاہدے کو غیر مؤثر بناکر ہمارے ساتھ آبی جنگ کا بھی آغاز کردیا ہے جس کی تصدیق کوئی اور نہیں، پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ کررہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بھارت نے ہماری بار بار کی درخواستوں کے باوجود ہمیں سیلاب کے بارے میں پیشگی اطلاعات فراہم نہیں کیں حالانکہ وہ 1989ء کے معاہدے کے تحت یکم جولائی سے دس اکتوبر تک سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کا پابند ہے۔ وہ اطلاع نہ دے کر درحقیقت سیلاب کا سارا پانی اچانک ہماری جانب چھوڑنے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھا ہے تاکہ ہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہی خود کو سنبھالتے رہیں اور وہ اپنی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہمیں سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر ہماری سالمیت پر اوچھا وار کردے۔ آخر ہمیں بھی تو مکار دشمن کی ان ساری سازشوں کا ادراک ہونا چاہیے اور اس کے مطابق دفاعِ وطن کی تیاری مکمل رکھنی چاہیے، مگر ہم تو ابھی تک شش و پنج میں ہی پڑے ہیں کہ بھارت کے مقابل دنیا ہمارا کتنا اور کیونکر ساتھ دے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تو عید کے روز آزاد کشمیر میں جاکر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے لٹیا ہی ڈبو دی۔ وہ گئے تو کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے تھے، مگر ان کی زبان سے کیا پھول جھڑے: ’’آپ امہ سے کیا امید رکھتے ہیں۔ اس کے تو سارے مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں‘‘۔ اور پھر کشمیریوں کو مزید مایوس کرنے کے لیے یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ ’’ہم سلامتی کونسل جائیں گے تو وہاں ہمارے استقبال کے لیے کوئی ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، آپ زیادہ خوش فہمی میں نہ رہیں‘‘۔ یہ باتیں انہوں نے اُس وقت کیں جب کشمیر کے بارے میں اٹھائے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مراسلہ وہ یو این سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو بھجوا چکے تھے۔ پوری دنیا آپ کی اور مظلوم کشمیریوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بھارت کو مطعون کررہی ہے اور آپ ابھی تک گومگو کی کیفیت ہیں کہ سلامتی کونسل بھارت کا ساتھ دے گی یا ہمارا؟ یہ وقت مایوسی کا اظہار کرکے اپنی کمزوریاں اجاگر کرنے کا نہیں، بلکہ مضبوط سفارت کاری کے ذریعے مسلم امہ اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو اپنے مؤقف پر قائل کرنے کا تھا جس میں حکومت کو کوئی کامیابی نہیں ملی۔