حقوق العباد کی اہمیت

ابوسعید

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خداؐ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ، ہمارے ہاں تو مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ روپیہ پیسہ ہو، نہ سازو سامان۔ حضورؐ نے فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے اور زکوٰۃ لے کر آئے گا مگر اس حالت میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا، پھر وہ بیٹھے گا اور اس کی کچھ نیکیاں، اس کے مظالم کے قصاص کے طور پر ایک (مظلوم) لے لے گا اور کچھ دوسرا (مظلوم) لے لے گا۔ پھر اگر اس کی نیکیاں اس کی خطائوں کا قصاص ادا کرنے سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو اس کے مظلوموں کی خطائیں لے لی جائیں گی اور اس (ظالم) پر ڈال دی جائیں گی۔ پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا(ترمذی)
(ماہنامہ چشم بیدار، جون 2019ء)

فارابی

ابوالنصر محمد بن محمد بن طرخان (870ء۔ 950ء) اسلامی فلسفہ کے موجد ہیں۔ یہ ترکی الاصل تھے، مگر تعلیم و تربیت ایران میں ہوئی۔ اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ ارسطو کے بعد کوئی بھی فارابی کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکا۔ اس سبب سے ارسطو کو معلمِ اوّل اور فارابی کو معلمِ ثانی کہتے ہیں۔ فارابی بغداد میں بھی گئے اور یہاں عربی زبان سیکھی۔ یہیں پر علمِ حکمت یوحنای مسیحی سے حاصل کیا۔ فارابی نے ارسطو کی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا، حتیٰ کہ اس کی کتاب ”النفس“ کو سو بار پڑھا۔ عمر کے آخری حصے میں سیف اللہ حمدانی کے پاس تھے، اسی کے ساتھ شام گئے۔ سیف اللہ ان کی مصاحبت کو غنیمت سمجھتا تھا۔ 339ھ میں ان کا دمشق میں انتقال ہوا تو بادشاہ خود نمازِ جنازہ میں شریک تھا۔ فارابی نے ارسطو کی منطق کا گہرا مطالعہ کیا اور اس کا گہرا اثر قبول کیا۔ فارابی نے منطق کو تصورات اور تصدیقات میں تقسیم کیا۔ ان کی تمام تصانیف پر ارسطو اور پھر افلاطون کا گہرا رنگ دکھائی دیتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ پہلا فلسفی ہے، جسے اہلِ مغرب اور مستشرقین نے بہت فوقیت دی ہے۔ لاطینی زبان میں فارابی (Alpharabius) الفارابیوس کہلاتا ہے۔ منطق کے علاوہ فارابی کے ہاں مابعدالطبیعیات، طبیعیات اور فلسفہ سیاست پر بھی بحثیں ملتی ہیں۔ ان کی کتب میں سے چند رسائل باقی ہیں۔ فارابی کی کتب کو اہلِ یورپ نے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ ان کی کتاب ”احصاء العلوم والتعریف باغراضہا“ کے بہت سی یورپی زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔ ”اغراض مابعد الطبیعیہ“ جس کے بارے میں بو علی سینا کا کہنا ہے کہ جب تک میں نے اس کتاب کے صفحات نہیں پڑھے، مجھے حکمت کی سمجھ نہیں آئی۔ ایک کتاب ”مراتب العلوم“ بھی ہے۔ فنِ موسیقی میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ فارابی نے واجب الوجود کی جو تعریف کی ہے، وہ اسلام کے علم الٰہیات کی بنیاد بنی ہے۔ ان کے ہاں ارسطو اور افلاطون کا جو غلبہ دکھائی دیتا ہے، اس کا جواب ہمیں غزالی کی ”تہافتہ الفلاسفہ“ میں ملتا ہے۔ علامہ اقبال کے ہاں بھی نظم و نثر میں ان کے افکار کا تجزیہ اور محاکمہ دکھائی دیتا ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

گلدستہ احادیث

٭ علم اللہ کی رضا مندی کے لیے سیکھنا چاہیے، (جو) شخص اسے دنیا حاصل کرنے کے لیے سیکھے تو (وہ) جنت کی خوشبو نہ پاسکے گا۔(مسند احمد، سنن ابودائود، سنن ابن ماجہ)
٭اگر دنیا کی حیثیت اللہ کے ہاں ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافروں کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتے۔ (ترمذی)
٭جنت میں چغل خور داخل نہ ہوگا۔ (متفق علیہ)
٭ جس نے تعویذ باندھا اللہ اس کو کامیاب نہ کرے، اور جس نے منکے باندھے اللہ تعالیٰ اسے سکون نصیب نہ کرے۔ (مسند احمد)
٭اگر تم میں سے کوئی شخص کسی انگارے پر بیٹھے اور وہ انگارہ اس کے کپڑوں کو جلا دے، پھر اس کے بدن کو جا لگے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر (مجاور بن کر) بیٹھے۔ (مسلم)
(بحوالہ: رشد ، فروری2009ء)

زبان زد اشعار

یوں ہی کام دنیا کا چلتا رہے گا
دیے سے دیا یوں ہی جلتا رہے گا
(خواجہ الطاف حسین حالیؔ)
……………
اس زمینِِ موت پروردہ کو ڈھایا جائے گا
اک نئی دنیا نیا آدم بنایا جائے گا
(ابو سعید محمد مخدومؔ محی الدین)
……………
تو یوں گالیاں غیر کو شوق سے دے
ہمیں کچھ کہے گا تو ہوتا رہے گا
(میرتقی میرؔ)
……………
نہ عیش نہ دکھ درد نہ آرام رہے گا
آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا
(ولی محمد نظیرؔ اکبر آبادی)