قیامت کے مناظر

حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا

جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی اور ان کی اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام اور اپنے بھائیوں سے ملاقات ہوگئی تو انہوں نے اپنے پروردگار سے ان الفاظ میں اپنی شکر گزاری کا اظہار کیا اور بادشاہت کے باوجود صالحین کے ساتھ اپنے انجام کی درخواست کی:
’’اے میرے رب! تُو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا، زمین و آسمان کے بنانے والے تُو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر، اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔(یوسف:101)

محمد یوسف اصلاحی
جب صور پھونکا جائے گا:
’’پس جب یکبارگی صور پھونک دیا جائے گا، اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ پھوڑ دیئے جائیں گے تو اس دن وہ عظیم واقعہ پیش آجائے گا‘‘۔ (الحاقہ:15-13)
’’اور صور پھونک دیا گیا تو بے ہوش ہوکر گر پڑے وہ سب جو آسمانوں میں ہیں، اور وہ سب جو زمین میں ہیں… سوائے ان کے جن کو اللہ نے بچانا چاہا۔ پھر جب پھونک ماری گئی اس میں دوسری بار، تو دیکھتے ہی دیکھتے سب اٹھ کھڑے ہوئے (حیران چاروں طرف کو) دیکھتے ہوئے‘‘۔ (الزمر:68)
حدیث میں صور پھونکنے کے تین مواقع بتائے گئے۔ نفخ فزع، نفخ صعق اور نفخ قیام لِرب العالمین۔ جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو عالم میں عام پریشانی اور ابتری پھیل جائے گی، اور جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو تمام لوگ مر کر گر جائیں گے اور یہ پوری کائنات درہم برہم ہوجائے گی۔ پھر جب تیسرا صور پھونکا جائے گا تو یکایک تمام انسان اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پروردگار کے حضور پیش ہوں گے۔
جب کائنات درہم برہم ہوجائے گی:
’’جب آسمان پھٹ جائے گا، جب تارے جھڑ پڑیں گے، جب سمندر اُبل نکلیں گے اور جب قبریں اکھڑ پڑیں گی… اُس وقت ہر شخص جان لے گا کہ کیا اس نے آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑ کر آیا ہے‘‘۔ (الانفطار:5-1)
’’جب سورج لپیٹ لیا جائے گا، جب تارے ٹوٹ کر بے نور ہوجائیں گے، جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب پورے دنوں کی گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی اور جب جانور (گھبراہٹ میں) اکٹھے ہوجائیں گے، اور جب سمندر کھولائے جائیں گے، اور جب روحیں بدنوں سے ملادی جائیں گی‘‘۔ (التکویر:7-1)
’’وہ کھڑکھڑا دینے والی، کیا کچھ ہے وہ کھڑکھڑا دینے والی؟ اور کیا جان سکتے ہیں کیا کچھ ہے وہ کھڑکھڑا دینے والی! جس دن انسان پتنگوں کی طرح پریشان بکھرے ہوئے ہوں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوں گے‘‘۔ (القارعۃ:5-1)
ہولناک دن:
’’لوگو! اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرو۔ بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے، جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھلادے گی، ہر حاملہ (ڈر کے مارے) اپنا حمل گرادے گی۔ اور تم لوگوں کو دیکھو گے کہ مدہوش ہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا‘‘۔ (الحج: 2-1)
کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے:
’’اور ان کو اس دن سے ڈرایئے جو آنے والا ہے، جب غم سے گھٹ گھٹ کر کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے‘‘۔ (المومن: 18)
دل کانپ رہے ہوں گے:
’’جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا، اور اس کے پیچھے پھر دوسرا جھٹکا۔ اس دن دل کانپ رہے ہوں گے۔ نگاہیں خوف زدہ ہوں گی‘‘۔ (النّٰزعٰت:8-6)
بچوں کو بوڑھا کردینے والا دن:
’’اگر تم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی، تو کیسے بچوگے اُس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کرڈالے گا؟ اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہوگا‘‘۔ (مزمل: 18-17)
انسان کہے گا کہاں بھاگوں؟:
’’پوچھتا ہے قیامت کا دن کب آئے گا؟ تو جب آنکھیں بے نور ہوجائیں گی، چاند اپنی روشنی کھودے گا، اور سورج و چاند باہم ٹکرا جائیں گے، اُس وقت انسان کہے گا ’’آج کہاں بھاگوں؟‘‘ کچھ نہیں، کہیں پناہ نہیں، اس روز پروردگار ہی کے پاس ٹھکانا ہے۔ اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا کہ کیا اس نے اپنے آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑ کر آیا ہے‘‘۔ (القیمہ: 13-6)
یوم قیامت کا لرزہ خیر نقشہ:
’’جس دن کہ آسمان ایسا ہوجائے گا جیسے پگھلا ہوا تانبا، اور پہاڑ ایسے ہوں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی، اور کوئی جگری دوست کسی جگری دوست کا پرسان نہ ہوگا (حالانکہ) ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے۔ اس دن مجرم چاہے گا کہ کاش سب کچھ دے کر ہی آج کے عذاب سے بچ جائے۔ اپنے بیٹے، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنا پورا گھرانہ جس میں وہ رہتا تھا، اور وہ تمام لوگ جو زمین پر رہتے بستے رہے ہیں، غرض سب ہی کچھ دے کر عذاب سے نجات پاجائے… نہیں یہ ہرگز ممکن نہیں‘‘۔ (المعارج:15-8)
میدانِ حشر:
’’وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور وہ ایک (ایسا) دن ہے جس میں سب حاضر کیے جائیں گے‘‘۔ (الہود: 103)
’’کہہ دیجیے کہ یقیناً تمام اگلے اور پچھلے ایک دن مقررہ وقت پر جمع ہوں گے‘‘۔ (الواقعہ: 50-49)
خدا کی گرفت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا:
’’اے جنوں اور انسانوں کی جماعتو! اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے کہیں نکل بھاگ سکو تو نکل جائو۔ تم نہیں نکل سکتے، مگر یہ کہ اس کی سندِ اجازت ہو‘‘۔ (الرحمن: 33)
داعئ حشر کی پکار پر ہر ایک سیدھا چلا آئے گا:
’’اس روز ہر ایک داعی ٔ حشر کی پکار پر سیدھا چلا آئے گا، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا اور آوازیں رحمٰن کے آگے دب جائیں گی۔ ایک خفیف سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سن سکوگے‘‘۔ (طہٰ:108)
اس دن صرف اللہ ہی کی حکومت ہوگی:
’’جس روز وہ سب خدا کے حضور بے نقاب آ موجود ہوں گے ان کی کوئی بات خدا سے چھپی نہ رہے گی۔ آج حکومت کس کی ہے، صرف اس خدا کی جو یکتا اور سب پر غالب ہے‘‘۔ (المومن: 16)
’’اس دن حقیقی حکومت صرف رحمٰن کی ہوگی‘‘۔ (الفرقان: 26)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ خدا ایک ہاتھ میں آسمان اور دوسرے ہاتھ میں زمین کو لے کر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، میں ہوں فرماں روا۔ اب کہاں ہیں وہ زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں وہ جبار؟ کہاں ہیں وہ متکبر لوگ؟
ہر ذرۂ عمل لاحاضر کیا جائے گا:
’’پیارے بیٹے! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر (بھی معمولی) ہو، پھر وہ کسی چٹان کے اندر ہو، یا آسمان میں ہو، یا زمین میں ہو، خدا اس کو اس روز لاحاضر کرے گا۔ بلاشبہ خدا بڑا ہی باریک بین اور پوری پوری خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ (لقمان:16)
ہر ذرۂ عمل کا بدلہ سامنے آئے گا:
’’تو جس نے ذرہّ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہّ بھر برائی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔ (الزلزال: 8-7)