مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ،پارلیمان کا مشترکہ اجلاس

امریکہ کے اس خطے میں اہداف کیا ہیں؟

صرف مسلمان آبادی والی ریاست (مقبوضہ کشمیر) کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا جارہا ہے، اس غیر قانونی اقدام نے بھارت کے خود ساختہ الحاق کی دستاویز کو غیر مؤثر کردیا ہے اور کشمیر آج 26 اکتوبر 1947ء کی پوزیشن پر واپس آچکا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو خون میں نہلا دیا ہے اور عمران حکومت ابھی کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپائی کہ کرنا کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم نے کوئی پالیسی نہیں بتائی لیکن یہ کہا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں، ایک ٹیپو سلطان اور دوسرا بہادر شاہ ظفر کا راستہ۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کھلی جارحیت کی ہے۔ اس جارحیت کا جواب دینا ہماری اپنی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ بھارت کی پارلیمنٹ نے اپنے آئین میں جس طرح کشمیر کے بارے میں ترمیم کی ہے یہ کشمیر کے ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں کے سیاسی حق کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ اقوام متحدہ عالم اسلام کے ساتھ ایسا مذاق سوڈان اور انڈونیشیا میں کرچکی ہے، اور ابھی بھی کابل اور فلسطین میں جارحیت کی کتاب کی ورق گردانی ہورہی ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے مطالبے کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا چلا آرہا ہے، لیکن گزشتہ تین عشروں سے ایسی سمت اختیار کی جاچکی ہے کہ کشمیری عوام کے لیے یہ تین نکاتی حمایت کی روشنی مسلسل مدھم پڑتی چلی جارہی ہے۔ یہ سمت پہلے نظر نہیں آرہی تھی لیکن اب اس کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بھارت کی پارلیمنٹ میں جو کچھ بھی ہوا، اقوام عالم کے سامنے کشمیر سے متعلق ہمارے مقدمے کا بہت بڑا امتحان ہے۔ کشمیر کا مقدمہ چونکہ ہماری ہر حکومت نے جس طرح وزارت خارجہ کے بابوئوں پر چھوڑ رکھا تھا، اس کا وہی نتیجہ نکلا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ لیکن اس سارے معاملے میں اصل خبر یہی ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، پرویزمشرف فارمولے کے عین مطابق ہورہا ہے۔
گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا گیا، جو حکومت اپوزیشن کشیدگی کے باعث ہنگامہ آرائی کا شکار رہا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کا سب سے قابلِ ذکر لمحہ وہ تھا جب وزیرِاعظم ولولہ انگیز تقاریر میں اپنے اوپر ہونے والی تنقید سننے کے بعد قائدِ حزب اختلاف کی طرف مڑے اور بیزار لہجے میں پوچھا کہ ”آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کروں؟ بھارت پر حملہ کردوں؟“ شہباز شریف کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ صرف اتنا کہہ پائے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وزیرِاعظم اس اہم موڑ پر سخت تقریر کریں اور قوم کا حوصلہ بڑھائیں۔ متفقہ قرارداد میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی حکومت کے یک طرفہ اقدام کو یکسر مسترد کردیا گیا اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق دفعہ 370 اور35 اے کو ختم کرنے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی قرار دے دیا گیا۔ پارلیمنٹ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے حق خودارادیت کے تحت کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ او آئی سی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اپنا اثررسوخ استعمال کرے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر پر عالمی ضابطوں کی موجودگی میں کوئی ملک یک طرفہ طور پر اس کی متنازع حیثیت کو ختم نہیں کرسکتا، پاکستان، بھارت اور کشمیری اس تنازعے کے تین فریق ہیں، تینوں فریقوں کی مشاورت سے اس کا پرامن حل نکلنا ہے۔ پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کی گئی قرارداد پر تمام پارلیمانی رہنمائوں نے دستخط کیے۔ یہ قرارداد چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے پیش کی۔ مشترکہ قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان کے عوام کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو بند کیا جائے، تمام رابطے بحال کیے جائیں، سرچ آپریشن ختم اور کشمیری رہنمائوں کو رہا کیا جائے، شہری آزادیوں کا احترام کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی سے جنوبی ایشیا کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
بھارت کے آرٹیکل 370 اور اس کی ذیلی شق 35اے کے خاتمے سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سردست ختم ہوگئی ہے جس پر نہ صرف کشمیریوں اور پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے بلکہ بھارتی اپوزیشن کی طرف سے بھی مودی سرکار کے اس اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور عالمی رائے عامہ پاکستان کے نکتہ نظر کے عین مطابق کشمیریوں کے حق میں ہموار ہورہی ہے۔ اس قرارداد کی روشنی میں وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر سے متعلق پاکستان کا مقدمہ پیش کریں گے اور انہیں چین کی اخلاقی حمایت بھی میسر ہوگی۔ عالمی کمیشن آف جیورسٹس کا نکتہ نظر بھی پاکستان کی حمایت میں ہے۔ اس نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ پر جائزہ لینے کے لیے زور دیا ہے۔ لیکن اگر حکومت اور اس کی تیاریوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حکومت نے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک کی گیارہ چھوٹی بڑی پارلیمانی جماعتیں مل کر بھی بھارت کی اس جارحیت کے جواب میں متفقہ پالیسی نہیں دے سکیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد ہی منظور ہوسکی۔ اجلاس کی یہی ایک قابل ذکر کارروائی تھی۔ حکومت نے غیر سنجیدگی کا اس حد تک مظاہرہ کیا کہ ایک ایسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی بنادی جس میں اپوزیشن کی کسی بھی پارلیمانی جماعت کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ کمیٹی میں قومی سلامتی کے تین اداروں کے سربراہوں کے علاوہ اٹارنی جنرل، وزیر خارجہ، اور معاون خصوصی صوفی بلال شامل ہیں، بعد میں اس جائزہ کمیٹی میں وزیر قانون کو شامل کیا گیا، اور جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کو بھی اس میں شامل ہونے کی پیش کش کی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں اٹارنی جنرل کا کردار یہ ہوگا کہ وہ قانونی اور آئینی امور پر کمیٹی کو معاونت فراہم کریں گے۔ کمیٹی کی تشکیل ثابت کرتی ہے کہ حکومت نے خوف کی چادر اوڑھ رکھی ہے، اور بھارت کشمیریوں کے ساتھ جس رویّے کا مظاہرہ کررہا ہے، روس نے اس کی حمایت کردی ہے، متحدہ عرب امارات بھی حمایت کرچکا ہے، امریکہ خاموش رہنے کو ترجیح دے رہا ہے، چین نے فوکل پرسن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کرنے، دو طرفہ تجارت معطل کرنے اور معاہدوں پر نظرثانی کرنے سمیت اہم فیصلے کیے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کے تحت بھارت کے ساتھ آمد و رفت کے زمینی اور فضائی روابط اور واہگہ بارڈر بند ہوجائے گا۔ اس فیصلے سے کرتار پور راہداری کے ذریعے گوردوارہ گرونانک تک سکھ برادری کی بھارت سے آمدو رفت متاثر نہیں ہوگی۔
کمیٹی کے فیصلے مناسب اور معروضی حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ تعلقات کو محدود کرنے کا فیصلہ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان حالات کو بگاڑنے کے بجائے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت اپنے اقدامات پر نظرثانی کرتا اور راہِ راست پر آجاتا ہے تو تعلقات اگر سرے سے منقطع کردیئے جائیں تو تیسرے فریق کے ذریعے ہی رابطہ ہوسکتا ہے۔ زمینی، فضائی راستوں، تجارت اور واہگہ بارڈر کی بندش مسئلہ کشمیر کے حل تک بھی جاری رکھی جانی چاہیے۔ وزیر خارجہ تو پارلیمان کے دبائو پر بیدار ہوئے اور خطے کے اہم ممالک کے دورے کیے۔ ان دوروں کے نتائج کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے اپنی پالیسی پیش کرتی، اس پر بحث کے بعد متفقہ نکات سمیٹ کر وزیر خارجہ بیرونی ممالک جاتے۔ اقتدار حاصل کرنے سے قبل عمران خان یہ بات فخر سے بتاتے رہے ہیں کہ ملک میں نوجوانوں کی تعداد کُل آبادی کا 61 فی صد ہے، ایسی قوم کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا، ہمارے نوجوان ملک کی قسمت بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب حکومت نہ جانے کیوں ملک کی نوجوان نسل کو اس خطرے سے آگاہ نہیں کررہی جو بھارت نے اب کھڑا کردیا ہے۔ حکومت نے جو کچھ کیا اُس کی ایک جھلک یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کرنے، دو طرفہ تجارت معطل کرنے اور معاہدوں پر نظرثانی کرنے سمیت اہم فیصلے کیے گئے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیردفاع پرویز خٹک، وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان، وزیر قانون، مشیر خزانہ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی انٹرسروسز انٹیلی جنس جنرل فیض حمید نے صورتِ حال پر غور کیا اور اجلاس کے بعد سرکاری اعلامیہ جاری کیا گیا جس سے اجلاس کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جس وقت اسلام آباد میں حکومت کی یہ مصروفیات تھیں عین اُس وقت اسلام آباد میں امریکی وفد موجود تھا جس نے امریکی ریاست فلوریڈا میں ”ایف اے ٹی ایف“کے اجلاس کے دوران پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر جائزے سے متعلق بات چیت کی تھی۔ امریکی وفد میں امریکہ کی جنوبی ایشیا میں نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز، امریکی خزانہ کے نمائندے اسکاٹ ریمبرانڈٹ، گرانٹ وکرز، ڈیوڈ گلبرتھ اور دیگر شامل تھے۔ وفد نے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے ملاقات بھی کی۔ وفد کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ کالعدم تنظیموں، ان کی سرگرمیوں اور ان کے سربراہان کی نقل و حرکت کے خلاف مزید ٹھوس اور اطمینان بخش اقدامات کیے جائیں تاکہ ایف اے ٹی ایف کی منفی رائے کو تبدیل کیا جاسکے۔ امریکی وفد کی رپورٹ اور پاکستان کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ ایک ساتھ ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ شیئر کی جائیں گی جس کی بنیاد پر پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے یا نکلنے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ وفد کی اسلام آباد میں موجودگی کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ میں ڈالنے کی بھارتی سازش کا خطرہ برقرار ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ اس بات کا بھی ادراک نہیں کرسکی کہ امریکی صدر ٹرمپ اس خطے میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کے اہداف کیا ہیں۔ بہرحال تجزیہ اس بات کا ہونا چاہیے تھا کہ امریکی صدارتی انتخاب کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس سنبھال کر امریکیوں کو کیوں یقین دلایا کہ وہ دھرتی کے بیٹے ہیں اور ان کی حکومت کی ہر پالیسی اسی سوچ کے گرد گھومے گی۔ ٹرمپ امریکی مارکیٹ بچانے کے لیے اگلی مدت کے لیے چین کو اپنا اصل حریف سمجھ رہے ہیں، طالبان اب ان کی ترجیح نہیں رہے، اسی لیے اب کابل میں امریکی ترجیحات ماضی جیسی نہیں رہیں۔ وہ چاہتے ہیں چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت کو مضبوط بنایا جائے۔ امریکی انتظامیہ پاکستان سے بھی مسلسل رابطے میں ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے میں اپنا کردار ادا کرکے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے گی۔ بھارت نے یہ سب کچھ بھانپ کر پاکستان سے مذاکرات تو نہیں کیے البتہ چین کے خلاف امریکہ سے بہتر سے بہتر سودا کرنے کے لیے ایک ایسا وار کردیا ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہوا، اور لداخ میں چین پر بھی زد پڑی ہے۔
یہاں تک کشمیر کے بارے میں بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کا پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرا مرحلہ امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی کے بعد شروع ہوگا کہ پاکستان کو تسلی کرائی جائے گی کہ اب مغربی سرحد اس کے لیے محفوظ بنادی گئی ہے۔ یہی تسلی بھارت کو کرائی جائے گی کہ مشرقی سرحد اس کے لیے محفوظ بنادی گئی ہے۔ اس خطے میں یہ کامیابی ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہونے میں مددگار ہوگی۔ یہ صورتِ حال ہمارے لیے کسی نئے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ فی الحال تو بھارتی پارلیمنٹ نے ساز چھیڑا ہے اور آئین میں آرٹیکل370 میں ترمیم لانے کے لیے صدارتی حکم سے کام چلایا ہے۔ مودی کا اصل ہدف وادی کے آئندہ ہونے والے انتخابات ہیں۔ یہ انتخابی عمل ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے انتخاب سے جان بوجھ کر الگ رکھا گیا ہے۔ مودی چاہتے ہیں وادی کے انتخابات میں ایسی قیادت آجائے جو بھارتی پارلیمنٹ میں ہونے والی آئینی ترمیم کی توثیق کرے۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو پھر ہمارے لیے مشکلات شروع ہوں گی۔ حال ہی میں قومی سلامتی کمیٹی نے جو بھی فیصلے کیے ہیں، پاکستان کے اردگرد منڈلانے والے خطرات کو سامنے رکھ کر ہی کیے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے مناسب اور معروضی حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ تعلقات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سفارتی عملہ محدود کیے جانے پر اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر اجے بساریہ کو عالمی قوانین کے مطابق سفارتی اقدار کی پاسداری کے ساتھ پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور اپنے نامزد ہائی کمشنر کو دہلی جانے سے روک دیا گیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے بھارت کے ساتھ آمدو رفت کے زمینی اور فضائی روابط اور واہگہ بارڈر بند کرنے کے فیصلے کیے۔ ان پر عمل درآمد کے لیے اب دوست ممالک سے رابطے کیے گئے ہیں۔عمران خان ملک کے واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد میں کبھی بھی کشمیر کے بارے میں اپنا مؤقف کھل کربیان نہیں کیا تھا۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جنرل حمید گل سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ کہتے کہ عمران خان سے یہ ضرور پوچھیں کہ ان کی کشمیر پالیسی کیا ہے؟ یہی سوال آج کی پارلیمنٹ اور اسپیکر اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ اور صدرِ پاکستان کے لیے بھی ہے کہ کھل کر سامنے آئیں اور بتائیں ان کے ذہن، دل اور دماغ کس جانب انگڑائی لے رہے ہیں اور غیر معمولی صورت حال نمٹنے کے لیے ان کے پاس کیا تجاویز ہیں- اب حکومت خود ہی فیصلہ کرکے بدل رہی ہے تو چین، ترکی، عالم اسلام جیسے دوستوں سے کیا مانگنا چاہتی ہے؟ پاکستان کی کوشش ہے کہ معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھایا جائے جس کے لیے دنیا کے پانچ بڑے ممالک کی حمایت چاہیے۔ وزارتِ خارجہ کی تنہائی کیسی ہے اس کااندازہ بھی حکومت کو خوب ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جھولی میں کچھ نہیں ہے۔ چین نے سخت بیان جاری کیا ہے لیکن اس میں سب سے زیادہ زور لداخ پر دیا گیا جس کے چند علاقوں پر چین اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے۔ سعودی ولی عہد کو وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی فون کیا۔ ٹیلیفونک گفتگو میں خطے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال اور اس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال ہوا۔ترک صدر اردوان کا بیان اس سے بڑھ کر تو تھا لیکن اس میں بھی الفاظ کا محتاط استعمال کیا گیا۔ صدر کے ڈائریکٹوریٹ آف کمیونی کیشن سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، اردوان نے پاکستان اور بھارت سے مذاکراتی عمل کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا۔ سب سے قابلِ ذکر ردعمل امریکہ کا ہے۔ وزارت خارجہ نے سب سے پہلے صورتِ حال کی اہمیت کو تسلیم کیا اور پھر صرف اتنا کہا کہ ”ہم جانتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے ان اقدامات کو اندرونی معاملہ قرار دیا ہے”۔ جب مودی حکومت نے کشمیر کے حوالے سے اقدام اٹھایا تھا، اسی دن زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکراتی مرحلے سے نمودار ہوئے۔ 370 کی منسوخی سے تین دن قبل زلمے خلیل زاد پاکستان میں موجود تھے اور انہوں نے آرمی چیف اور وزیرِاعظم سے ملاقاتیں بھی کیں، اور صرف اتنا بیان دیا کہ ”ہم نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار اور ان اضافی مثبت اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جو پاکستان کے لیے ممکن ہیں”۔ قصہ مختصر یہی ہے جس بات کا اندازہ دانا شخصیات کو دہائیوں پہلے تھا، آج وہ بات کھل کر سامنے آگئی۔ عسکری و سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کی طرف سے بھارت کے غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیر انسانی اقدام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ بھارت کا یہ اقدام اپنے ہی آئین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار بھارت کو نہیں، جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کو ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ معاملہ عالمی فورم پر اٹھانے کے ساتھ ساتھ عالمی عدالت ِ انصاف میں بھی لے جایا جائے۔ وزیراعظم نے اس معاملے پر میڈیا کے چیدہ چیدہ افراد سے مشاورت کی ہے جس میں وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا کہ ان کی زندگی میں اس سے بڑا چیلنج کبھی نہیں آیا، وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پہ لڑا جانا چاہیے۔ نوازشریف اور پرویز مشرف کی طرح اس وقت عمران خان بھی بھارت کے ساتھ اچھا تعلق چاہتے تھے لیکن بھارت کے اس فیصلے کے بعد عمران خان کہاں کھڑے ہیں؟ وہ قوم کے ساتھ ہیں یا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اسے تین حصوں میں تسیم کرنے کے اپنے نکتہ نظر کے ساتھ کھڑے ہیں؟