مصر وہ سرزمین ہے جہاں تاریخ انسانی کے متکبر، جابر اور ظالم فراعین مصر کے روبرو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی آواز گونجی تھی، وہاں ایک سو سال سے ایک قافلہ حق ہے جو شہادت کی مشعل کو اپنے خون سے روشن کیے ہوئے ہے۔ اخوان المسلمون کا قافلہ، جس نے ایک بار پھر ڈاکٹر محمد مرسی شہید کے خون سے اس قندیل کی لو کو ضوفشانی بخشی۔ شہادتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جن پر آنسو بہائے اور ان کی قربانیوں سے حوصلہ لیتے ہوئے زندگی کے پچاس سال بیت گئے، شاعری کی جس کتاب کو میں نے دل کے بہت قریب پایا وہ نعیم صدیقی کی ’’پھر ایک کارواں لُٹا‘‘ تھی جو اخوان المسلمون کے شہیدوں کی یاد میں خون دل سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر جو نظم کہی گئی وہ آج تک یاد کے دریچوں سے جھانکتی رہتی ہے۔
میرے حضورؐ دیکھے پھر آگیا مقام غم
بہ سایہ صلیب پھر بھرے ہیں ہم نے جام غم
کنارنیل چھا گئی پھر ایک بار شام غم
پھر ایک حادثہ ہوا پھر اک کارواں لُٹا
ہر اک صدی کے دشت میں ہمیشہ کارواں لٹا
بدست دشمناں نہیں بدست دوستاں لٹا
یہ وہی سرزمین ہے جہاں سے امام بوصیریؒ بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہوئے اور دربار رسول میں بیٹھ کر وہ قصیدہ تحریر کیا جس کی پذیرائی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم رویا میں چادر مبارک عطا فرما کر کی اور یہ رہتی دنیا تک ’’قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر زمانہ سے متعلق احادیث کے مصداق جب اہل روم نے مصر پر پابندیاں لگائیں تو مارچ 1928ء میں ایک نئے قافلہ حق کی بنیاد رکھنے کا اعزاز سید حسن النبا شہیدؒ کو حاصل ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب قومی ریاستوں کے قیام سے دجالی نظام اپنی جڑیں پکڑ رہا تھا ،حسن النباء شہید کی اخوان المسلمون نے حق و صداقت کی مشعل اُٹھائی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد ادھر جدید مغربی تہذیب کا طاغوت منظم ہوا، اُدھر اخوان المسلمون کی دعوت مسلم دنیا میں پھیلنے لگی۔ اس عظیم تحریک نے ایک عظیم المرتبت قائد، ایک سحر انگیز مفسر قرآن اور جدید مغربی تہذیب کے مقابل کھڑے ہونے والے مجاہد کو جنم دیا۔
سید محمد قطب شہید جس کی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ آج کے جدید سیکولر، لبرل اور کمیونسٹ نظریات کا رد قرآن سے بیان کرتی ہے، کیرن آرمسٹرانگ کے مطابق 1951ء میں جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریریں مصر میں شائع ہونا شروع ہوئیں تو انہوں نے اخوان المسلمون کی قیادت کو متاثر کیا۔ یہ قیادت محمد عبدہ اور سید قطب شہید تھے۔ سید قطب شہید کے نظریات نے اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ سیکولر اور مذہبی لوگ ایک معاشرے میں امن سے نہیں رہ سکتے اور دور حاضر میں انسانیت ایک بہت بڑے چکلے میں جی رہی ہے۔ اس کا ثبوت اخبارات، فلموں، فیشن شوز، حسن کے مقابلوں، رقص گاہوں، میخانوں اور نشریاتی اسٹیشنوں پر صرف ایک نگاہ ڈال کر مل سکتا ہے۔ یا عریاں جسموں کی مجنونانہ نمائش، ہیجان انگیز جسمانی زاویوں کے مشاہدے، ادب و فنون اور ابلاغ عامہ میں مریضانہ اشارے۔ سب سے بڑھ کر سود کا نظام جس نے انسان میں دولت کی ہوس کو فزوں تر کردیا ہے۔ اس نظام کے مقابلے میں اخوان المسلمون کے دو نعرے تھے۔ ’’اللہ نماتینا، والرسول رُعیمنا‘‘ اللہ ہمارا مقصود ہے۔ رسولؐ ہمارے قائد ہیں۔ یہ نعرے باطل اور طاغوت کے دل میں تیر بن کر اُتر رہے تھے۔ جمال عبدالناصر کی سوشلسٹ حکومت نے سید قطب شہید پر مقدمہ چلایا۔ 29 اگست 1966ء کو فجر کے وقت انہیں تختہ دار پر شہید کردیا گیا۔ نعیمؔ صدیقی نے اس شہادت کا نوحہ لکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا ذِکر کیا تھا جو آپؐ نے ایک صحابہ کو قبر میں اُتارنے والے اصحاب سے کہے تھے ’’ادبامن اخاکما‘‘ (اپنے بھائی کا ادب کرو) نعیم صدیقی نے لکھا۔
ادب سے اس نعش کو اُتارو
رسن کا حلقہ ادب سے کھولو
محترم اور مقبول جان مزید رقم طراز ہیں کہ آج محمد مرسی اسی پرچم کو تھامے اسی حق کے راستے کی مشعل اُٹھائے شہیدوں کے قافلے میں شامل ہوچکا ہے لیکن شاید کوئی نعیم صدیقی جیسا نوحہ نہ لکھ سکے‘‘۔
برادر محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ کی اس تحریر کی اشاعت کے بعد پاکستان کے معروف دانشور، ادیب، شاعر،
فروغ فکر اقبالؒ میں کوشاں پروفیسر خیال آفاقی نے ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت پر ایک معرک آرا نوحہ لکھا ہے جو 20 جولائی کو پروفیسر آزاد بن حیدر کی جانب سے منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں کراچی کے نوبہار ہوٹل میں پڑھا گیا۔
البنائی قافلے کا راہ رو
جادہ حق میں تھا تندتیز رو
جس کا مقصد تھا فقط احیا دین
دی اُسے رحمان نے فتح مبین
وہ سیاست کو عبادت جان کر
زندگانی کو امانت جان کر
اس طرح اُٹھا کہ سب پر چھا گیا
اہل ایمان کی نظر کو بھا گیا
مردِ مومن مرد حق عالی مقام
مرسی جانباز شیخ بے نیام
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے کئی شہروں میں ڈاکٹر محمد مرسی شہید کی غائبانہ نماز جنازہ کے بڑے اجتماعات ہوئے مگر سرکاری سطح پر ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت کی جانب سے کوئی بڑا موقف اب تک سامنے نہیں آیا۔ کراچی میں جناح مسلم لیگ کے پروفیسر آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ کی جانب سے ایک بڑے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد گزشتہ دنوں کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں کیا گیا جس میں معروف اہل قلم اصحاب نے اظہار خیال کیا۔ صدر تقریب نے کہا کہ ڈاکٹر مرسی کی شہادت اس عہد کا عظیم سانحہ ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اگر میں یہ کہوں کہ اخوان المسلمون کا رہنما ڈاکٹر محمد مرسی شہید نیو ورلڈ آرڈر کا نشانہ بنا ہے تو مجھے ایک صغیم کتاب لکھنا پڑے گی یا ڈاکٹر مرسی شہید اسلاموفوبیا کی زد میں آگے ہیں تو نہ جانے کتنے کاغذوں کے دستے سیاہ ہوجائیں گے۔ نام نہاد 9/11 کے بعد جونیئر بش کا یہ تاریخی بیان کہ آج صلیبی جنگ شروع ہوگئی ہے تو میں لکھتے لکھتے تھک جائوں گا۔ یا صہیونیوں کے پروٹوکول کا ذکر کروں جس پر عمل کرنے کے لیے شہید کو شیشے کے پنجرے میں بند کرکے اسلام کے روشن باب کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو ایک آزاد بن حیدر نہیں سیکڑوں آزاد بن حیدر لکھ لکھ کر موت کی وادی میں گم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ آج تمام اسلام پسند حق گو لوگوں کی جانب سے یہ ریفرنس منعقد کرکے اپنا حق ادا کررہے ہیں۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ یہ حادثہ ایک دم نہیں ہوا بلکہ برسوں اس کی پرورش کی گئی ہے۔ ہمیں اس سانحہ پر مغرب کو آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے، آزاد بن حیدر پاکستان میں ڈاکٹر مرسی شہید کے نمائندے ہیں۔ پروفیسر ہارون الرشید نے کہا کہ ہمیں آج سوچنا ہوگا کہ ہمارا بیانیہ کیا ہے، ہماری پالیسی کیا ہے، کیا ہم اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اس عظیم سانحہ پر آواز اُٹھائیں۔ محترمہ پروفیسر ڈاکٹر فرحت عظیم خان نے کہا کہ آج ریاست مدینہ کے دعویدار کیوں خاموش ہیں جبکہ ڈاکٹر مرسی شہید کے قائد حسن النباء شہید قائد اعظم کو اپنا قائد کہتے تھے اور ہمیشہ پاکستان کی بقا کے لیے دعا گو رہے۔ ان کے قائداعظم کو لکھے گئے کئی خطوط آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے آزاد بن حیدر کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے پیرانہ سالی کے باوجود آج بڑی تعداد میں اہل قلم اصحاب کو کانفرنس میں یکجا کیا۔ اس موقع پر شرکا نے دس قرار دادیں بھی منظور کیں جس میں ترکی کے صدر طیب اردگان، ملائیشیا کی حکومت، ایرانی حکومت کو صدائے حق کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا گیا۔ شرکا نے اُن کے صاحبزادے عبداللہ مرسی کے اس مطالبے کی بھی پرزور حمایت کی کہ ان کے والد کی شہادت کا مقدمہ مصر کی موجودہ حکومت اور انتظامیہ پر عائد کیا جائے۔ آخر میں ڈاکٹر مرسی شہید کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں اہل قلم اصحاب کے ساتھ جلیس سلاسل، پروفیسر انیس مسعودی، عثمان دموی، سلطان مسعود شیخ، شبیر احمد انصاری، نسیم انجم، نسیم احمد شاہ، سماجی رہنما انیس قریشی، احسان الحق احسان، حنا یوسف بھی شریک ہوئیں۔ اس موقع پر تمام شرکا کو 100 صفحات پر مشتمل یادگاری مجلہ بھی تحفتاً پیش کیا گیا۔