مارک مینسن۔۔۔ ترجمہ و تلخیص مع حواشی: ناصر فاروق
۔1997ء میں آئی بی ایم کے تیار کردہ سپر کمپیوٹر ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمی چیمپئن گیری کسپاروف کومات دی۔ یہ کمپیوٹنگ کی تاریخ میں انقلابی لمحہ تھا۔ ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس، اور انسانیت کی شُدبد رکھنے والوں کے لیے زلزلہ تھا۔ مگر آج، یہ یادداشتوں میں محفوظ رہ جانے والا ایک عام سا واقعہ ہے، کیونکہ کمپیوٹر اب ایک ایسی چیز ہے، جو شطرنج میں بڑے بڑوں کو شکست دے سکتا ہے، اور وہ ایسا کیوں نہ کرے؟
کمپیوٹنگ نے اپنے آغاز سے شطرنج کے کھیل کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس جانچنے کا بہترین ذریعہ سمجھا ہے۔ اس کی وجہ اس کھیل کی لامحدود چالیں اور لاتعداد گروہی قاعدے ہیں۔ جب کھیلنے والا اپنے سامنے صرف تین چار چالیں دیکھ رہا ہوتا ہے، تو لاتعداد چالوں کے زاویے ان میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر جب ایک انسان سے شطرنج کا مقابلہ کرتا ہے تو اُسے نہ صرف اس قابل ہونا چاہیے کہ بے شمار ممکنہ نتائج کا حساب کتاب لگا سکے، بلکہ اُسے اُن ٹھوس ایلگوریتھم کا حامل بھی ہونا چاہیے جو درست اعداد و شمار کا تعین کرسکیں۔
1997ء سے کمپیوٹر بہت تیز رفتاری سے بہتر ہوتے چلے گئے ہیں۔ اگلے پندرہ برسوں تک شطرنج کے بہترین کھلاڑیوں کے مہرے کمپیوٹر کے ہاتھوں پٹتے چلے گئے ہیں۔ کبھی کبھی یہ شکست شرمندگی کی حد تک بڑے مارجن سے ہوئی ہے۔ کسپاروف اپنا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ آج کے کمپیوٹر شطرنج میں ڈیپ بلیو سے بہت زیادہ ذہین ہیں۔ آج کل سافٹ وئیر کمپنیاں آپس میں شطرنج کے ٹورنامنٹ کررہی ہیں، یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا کس کا ایلگوریتھم سسٹم زیادہ فعال اور بہتر ہے۔ انسانوں کو نہ صرف ان مقابلوں سے باہر کردیا گیا ہے بلکہ اس بات کا امکان بھی نہیں کہ وہ کبھی ان سے مقابلہ کرسکیں گے(1)۔
آج کل شطرنج سافٹ وئیر اسٹاک فش چیمپئن ہے۔ یہ 2014ء سے تقریباً ہر مقابلے میں ونر یا کم از کم رنر اپ رہا ہے۔ یہ اسٹاک فش آج شطرنج کی منطق کا نقطہ عروج ہے۔ نہ صرف یہ تیزترین شطرنج انجن ہے، بلکہ یہ کسی بھی گیم کا تجزیہ کرسکتا ہے۔ 2018ء تک اسٹاک فش کمپیوٹرائزڈ شطرنج کی دنیا کا بادشاہ تھا، پھرگوگل سرچ انجن منظر پر چھاگیا۔
گوگل کا ایک پروگرام ہے الفا زیرو۔ یہ شطرنج سافٹ وئیر نہیں ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سافٹ وئیر ہے۔ اسے شطرنج یا کوئی اور کھیل کھیلنے کے لیے نہیں بنایا گیا، یہ سافٹ وئیر ’سیکھنے‘ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کا کام صرف شطرنج نہیں بلکہ کوئی سا بھی کھیل ’سیکھنا‘ ہے۔
2008ء کے آغاز میں، گوگل الفا زیرو اسٹاک فش کے مقابل میدان میں اترا۔ دونوں کا کوئی جوڑ نہ تھا۔ الفا زیرو ایک سیکنڈ میں صرف اسّی ہزار بورڈ پوزیشنز شمار کرسکتا تھا، جبکہ اسٹاک فش ایک سیکنڈ میں سات کروڑ پوزیشنز کا حساب کتاب جان سکتا تھا۔ کمپیوٹیشنل طاقت کی اصطلاح میں سمجھا جائے، تو یہ بالکل ایسا ہے کہ میں فارمولا ون ریس کار سے پا پیادہ دوڑ کا مقابلہ کروں۔
مگر اس سب کے باوجود انتہائی عجیب واقعہ ہوا۔ مقابلے کے روز، جب الفا زیرو کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ کس طرح کھیلنا ہے، جب اُسے شطرنج ’سیکھنے‘ کے لیے ایک دن سے بھی کم وقت ملا، وہ اسٹاک فش سے مقابلہ جیت گیا! یہ محض جیتا ہی نہیں بلکہ ساری چالوں میں اسٹاک فش کو مات دے گیا۔ سو چالوں میں سے الفا زیرو ایک بھی نہیں ہارا۔ یہ ایک بے مثال اور حیرت انگیز مظاہرہ تھا۔ معاملہ یہاں رکا نہیں۔ الفا زیرو نے جاپانی شطرنج ’شوگی‘ سیکھنا شروع کیا۔ ’شوگی‘ کو پیچیدہ ترین شطرنج سمجھا جاتا ہے۔ شوگی کے کھلاڑی 2013ء تک کمپیوٹر سے شطرنج نہیں ہارے تھے۔ بہرحال الفا زیرو نے شوگی کے ٹاپ سافٹ وئیر ’’Elmo‘‘ کو شکست دی۔
نیوز فلیش: آرٹیفیشل انٹیلی جنس آرہا ہے! جب کہ شوگی اور شطرنج ایک طرف ہیں، جلد از جلد ہم آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو بورڈ گیمز سے بورڈ روم تک منتقل کردیں گے، اور ہم وہاں سے باہر ہوجائیں گے؟ کیاہمارا کام ختم ہوگیا؟
پہلے ہی آرٹیفیشل انٹیلی جنس اپنی زبانیں ایجاد کرچکا ہے، جنہیں انسان نہیں سمجھ سکتے۔ یہ نمونیا کی تشخیص میں ڈاکٹروں سے زیادہ فعال ہے۔ موسیقی ترتیب دینے سے ناول لکھنے تک کئی صلاحیتوں کا حامل ہے، ان شعبہ جات میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس انسانوں کو پچھاڑ چکا ہے۔
دھیر ے دھیرے مگر یقینی طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہر شعبے میں ہم سے بہتر ہوجائیں گے۔ دواسازی، انجینئرنگ، کنسٹرکشن، آرٹ، ٹیکنالوجیکل ایجادات وغیرہ۔ تم مستقبل میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی تیار کردہ فلمیں دیکھو گے، اور انہیں اُن موبائل پلیٹ فارمز اور ویب سائٹس پر ڈسکس کروگے جنہیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے بنایا ہوگا، اور شاید وہ فرد جس سے تم فلم پر بات کررہے ہوگے، آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہی نکلے گا۔
یہ محض دیوانے کی بڑ لگتی ہے۔ مگر یہ ابھی ابتدا ہے۔ جلد وہ دن آنے والا ہے جب آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہم سے بہتر سافٹ وئیر تیار کرسکے گا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس وہاں پہنچ جائے گا جہاں ہم یہ تک سمجھ نہیں پائیں گے کہ وہ کیا کررہا ہے؟ گاڑیاں ہمیں ہماری جگہ سے اٹھائیں گی اور ایسی جگہ پہنچائیں گی کہ ہم مکمل طور پر صورت حال سے آخر تک بے خبر ہوں گے، اور آخرکار ہمیں معلوم ہوسکے گا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ہمیں وہاں کیوں پہنچایا! ہمیں کچھ ادویہ کا نسخہ ملے گا اور ہمیں یہ بتایا جائے گا کہ ’’آپ بیمار ہیں، اور آپ کا علاج ان ادویہ سے ہوگا‘‘۔
ایک وقت آئے گا کہ ہم بتوں کی طرح آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو خدا بنا بیٹھیں گے۔ اپنی مرادوں کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی کاسہ لیسی کریں گے۔ پرانے خداؤں کی جگہ نئے خدا ایلگوریتھم لے لیں گے۔ یہ کچھ قدیم مذاہب سے مختلف نہیں ہوں گے۔ یوں سمجھیے سائنس نے پرانے خدا ختم کرکے نئے خدا ایجاد کرلیے ہیں۔
اس قسم کی ممکنہ صورت حال شاید تمہیں خوف زدہ کردے۔ شاید یہ تم میں جوش اور دلچسپی بھی پیدا کردے۔ جو بھی ہو، یہ امکان ناگزیر سا نظر آرہا ہے۔ مجھے کم از کم یہ اجازت دیجیے کہ ان مصنوعی ذہانت والے خداؤں کا سواگت کروں۔ میں جانتا ہوں یہ وہ حتمی مذہب یا نظریۂ حیات نہیں ، جس کی تم امید کررہے ہو، یا کرسکتے ہو۔ مگر مسئلہ تمہاری ’امید‘ ہی ہے۔ اگر تمہیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی خدائی قبول نہیں ہے، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ تم یہ پہلے ہی قبول کرچکے ہو(2)۔
ایلگوریتھم پہلے ہی ہماری زندگی میں بہت حد تک دخیل ہوچکا ہے۔ ہمارے ابلاغ اور ترسیل وغیرہ کا سارا نظام اب ایلگوریتھم سے ہوکر گزر رہا ہے۔ ہمیں ان ایلگوریتھم کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہماری زندگی آسان بنارہے ہیں۔ قدیم خداؤں کی مانند جب یہ ہماری ناگزیر ضرورت بن جائیں گے، تو یہ ہمارے خدا بن جائیں گے۔
ہم بُرے ایلگوریتھم ہیں
دنیا کی تاریخ پر ایک آخری طریقے سے نظر ڈالتے ہیں۔ زندگی خلیات اور ڈی این اے پر مبنی ہے۔ ان کی نقلیں بنتی رہتی ہیں۔ نسلیں آگے بڑھتی رہتی ہیں۔کروڑوں سال کے اس عمل سے بہتر سے بہتر انسانوں کی پیداوار ممکن ہوتی چلی گئی(3)۔ بنیادی طور پرحیاتیات کی جنگ بقائے باہمی چل رہی ہے۔ اس یک خلیہ کی بقاء اربوں سال ہوتی چلی آرہی ہے۔ اسے آج کی زبان میں ’’بہترین معلومات کی بقاء‘‘کہہ سکتے ہیں(4)۔
یوں جسمانی طور پرانسان کوئی استثنا نہیں ہیں۔ ہم کمزور ہیں، سست ہیں، بہت جلد تھک جاتے ہیں۔ مگر ہم فطرت کے حتمی معلوماتی پروسیسرز ہیں۔ ہم واحد نوع ہیں جو ماضی اور مستقبل کا تصور کرسکتے ہیں۔ اسباب اور اثرات کو سمجھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر عقل وشعور جس کے سہارے ہم پورے کرۂ ارض پر حاکم ہوگئے ہیں۔ زمین کی پیداوار اور ٹیکنالوجی پر قادر ہوچکے ہیں۔
یہ سب اس لیے ہے کہ ہم بھی ایلگوریتھم ہیں۔ انسانی شعور ایلگوریتھم کا بہت بڑا نیٹ ورک ہی ہے، فیصلہ سازی کا سلسلہ ہے۔ یہ ایلگوریتھم اقدار، امید، اورعلم کی بنیاد پر ہیں۔ یہ ایلگوریتھم ہزاروں برس تک عمدہ کام کرتے رہے۔ جیسے جیسے ان پر دنیا کے مسائل کا بوجھ بڑھتا گیا، عالمی پیچیدہ معاشی نظام اور ٹیکنالوجیکل نیٹ ورکس نے انہیں مشکل میں ڈال دیا۔ یہ مستقل سکون اور اطمینان سے محروم ہوکر رہ گئے۔ یوں ہر چھوٹے یا بڑے مسئلے کا سبب ’میں‘ یا ’ہم‘ ہی ہیں۔ سارے جرائم کی جڑ ’ہم‘ خود ہی ہیں (5)۔
حیات بنیادی طور پر ایلگوریتھم پر استوار ہے۔ ہم سب سے مہذب اور پیچیدہ ایلگوریتھم ہیں۔ مگر اب ہم ہی ایسے ایلگوریتھم تخلیق کررہے ہیں جو ہم سے بہتر ہیں۔ تمام تر کامیابیوں کے باوجود انسانی دماغ ناقص ہے۔ ہمارے احساسات اور جذبات (روح۔ مترجم) اور عقل باہمی تصادم میں سب گڑبڑ کردیتے ہیں (مسٹرمینسن انسان کو خالصتاً مشینی صفات کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں۔ مترجم)۔
ہم خود کو تباہ کرنے والی نوع ہیں(6)۔ یہ کوئی اخلاقی بات نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ یہ وہ داخلی خلش اور احساس ہے جسے ہم سب محسوس کرتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں اپنی تقدیر مشینوں کے حوالے کررہے ہیں۔
دیکھو، ہوسکتا ہے کہ تم نے یہ کتاب کسی امید کی تلاش میں شروع کی ہو۔ مگر افسوس میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کوئی امید نہیں ہے۔ کوئی بھی نہیں دے سکتا! (7) لہٰذا بہتری کی امید نہ کرو بلکہ بہتر ہوجاؤ! بہتر انسان بن جاؤ!
اگر میں جرأت کروں…
آج میں تم سے کہوں، میرے دوستو، کہ اگرچہ ہم مشکلات میں گھرے ہیں۔ اس آخری لمحے میں مَیں ’امید‘ کی جرأت کروں…
میں ایک بعد از امید دنیا کی امید کروں؟ جہاں لوگ ایک دوسرے کو استعمال نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ جہاں کسی شناخت کو کسی غفلت کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، جہاں عقل کے استعمال کی قدر سب سے اعلیٰ قرار دی جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ لوگ اپنے احساسات اور حسیات دونوں کا یکساں خیال رکھیں گے۔ لوگ جذباتی استحکام اور نفسیاتی بلوغت حاصل کرسکیں گے۔ امید ہے کہ لوگ اپنی خواہشاتِ نفس کی برائیوں کا ادراک کرسکیں گے۔ عیش وعشرت کی تباہیوں سے واقف ہوسکیں گے۔ امید ہے کہ لوگ جعلی آزادی ترک کرکے بامعنی حقیقی آزادی حاصل کرسکیں گے۔ لوگ خود کو قابو میں رکھ سکیں گے اور بے مہار آزادی کے نقصانات سے بچیں گے۔ دنیا سے کچھ بہتر مانگنے کے بجائے دنیا کو کچھ بہتر دے سکیں گے۔ امید کرتا ہوں کہ ایک آن لائن اشتہار بازی کا نمونہ راکھ ہوجائے گا اور نیوز میڈیا لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے بجائے انہیں حقائق کی دنیا سے آگاہ کرسکے گا۔ امید کرتا ہوں کہ ایلگوریتھم اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس انسان کی فلاح کے لیے استعمال کیے جاسکیں گے۔
اور تب شاید ایک دن، ہم مشینوں کی سطح پر ساتھ ساتھ ترقی کرسکیں گے(8)۔ ہم ارتقاء کی اس منزل سے شاید آگے نکل جائیں گے جہاں ہم’’مزید انسان‘‘ ہی نہ رہیں گے۔
تب شاید ہم ’’تلخ سچائی(مایوسی)‘‘ قبول کرلیں گے: یہی کہ ہم کچھ نہیں ہیں! ہم کچھ نہیں ہیں! شاید اس طرح امید اور تباہی کا سلسلہ رک سکے!
حواشی
1۔ حیرت ہے کہ مارک مینسن اور ٹیکنالوجی کے پرستاراس صورتِ حال پر حیران ہورہے ہیں جبکہ یہ محض حساب کتاب کی تیز رفتاری کا نتیجہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے توانسان کی زندگی میں معاون ہر مشین انسان سے کسی خاص صفت میں آگے ہی ہے۔ مثلاً انسان گاڑی سے تیز نہیں دوڑ سکتا، اور گاڑی ہی کیا انسان گھوڑے کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتا،آدمی کیلکیولیٹرسے تیزحساب کتاب بھی نہیں کرسکتا، اور بے شمارروزمرہ کی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ اگر سپر کمپیوٹرشطرنج جیت رہا ہے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ ہاں اگر سپر کمپیوٹرکسی شعوری احساس کا اظہار کرے، احساس کی بنیاد پر دکھ میں دلجوئی کرے، خوشی میں شریک ہو، اپنے شعوری وجود کا یقین دلائے تو یقیناً حیران کن بات ہوسکتی ہے۔ مگر سائنس اور ٹیکنالوجی نے فی الحال ایسا کوئی دعوٰی نہیں کیا ہے۔
2۔صنعتی انقلاب کی ابتدا سے مغرب کا یہی مذہب ہے: سائنس اور ٹیکنالوجی۔ یہ مذہب جیسے جیسے اپ گریڈ ہوتا جارہا ہے، مغربی دانشوروں کا پوری دنیا سے اصرار ہے کہ اس کے آگے جھک جائے۔ یقیناً یہ مذہب مادہ پرستی ہے اور مادے تک محدود ہے۔ یہ مشینوں کی حکمرانی کو مشینوں کی خدائی تک لے جانے کا مشن ہے، جو یکساں طور پر تمام انسانوں کے لیے تباہی کا پیغام ہے۔ یقیناً پوری دنیا کے انسانوں کے لیے یہ ازحد ضروری ہے کہ ’مذہب ٹیکنالوجی‘ کا مقابلہ کریں۔ اس سے خدمت لیں۔ اسے خادم بنائیں۔ اسے خدا نہ بننے دیں۔ مگر مسٹر مینسن پوری کتاب میں انسانیت اور امید کا راگ الاپنے کے بعد آرٹیفیشل ایلگوریتھم کے آگے جھک گئے ہیں۔ یہ ہتھیار ڈال رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس کی وجہ مادہ پرستی اور روح کا انکار ہے، جو ظاہر ہے ہرمغرب زدہ فرد کا ایمان ہے۔ مسٹر مینسن سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال اس پر ایمان کی مانند ہے جبکہ درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مشرقی اور مذہبی معاشروں میں ٹیکنالوجی ایک نشے کی طرح ہے، جس نے یقیناً لوگوں کی توجہات اور اعمال پرکاری وار کیا ہے، مگر یہ لوگ ایسے کسی ابتدائی مرحلے میں بھی نہیں ہیں جہاں وہ آرٹیفیشل ایلگوریتھم کو انسان سے بالاتر یا خدائی صفات کا حامل سمجھیں۔ روحانی اقدار کے حامل معاشروں میں یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ یہاں بالکل ہالی وڈ کی سائنس فکشن فلموں کی طرح ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
3۔ نظریہ ارتقاء بیان کررہے ہیں جسے قبولِ عام حاصل نہیں۔ یہ بے روح عقیدہ ہے۔اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ البتہ یہ واضح کرتا ہے کہ ساری مخلوقات کا بنیادی منبع ایک ہی ہے: یعنی یہ توحید الٰہی کی گواہ ہے۔
4۔ یہ معلومات ’’العلم‘‘ سے محروم ہیں، جس کا واحد ذریعہ وحی الٰہی ہے، افسوس کہ مغرب اس کا منکر ہے۔
5۔ غالباً اشارہ اصل انسان یعنی آدمی کی جانب ہے، جس میں یہ صفات اللہ رب العزت نے ودیعت کی ہیں، اور انہیں واضح بھی کیا ہے، اور ان کے لیے ہدایات بھی دی ہیں۔ مغرب آدمی کوتسلیم نہیں کرتا، اس لیے انسان میں وہ ساری خوبیاں دیکھنا چاہتا ہے یا دیکھنے کی توقع کرتا ہے جواُس کے خیال میں دیگر مخلوقات میں موجود ہیں۔
6۔ فرشتوں نے کہا ’’یہ تو زمین میں فساد مچائے گا‘‘۔ القرآن
7۔یہ مایوسی کفرہے، اس کا اظہارایک کافر یا کفر زدہ فرد ہی کرسکتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ القرآن
8۔مسٹر مینسن قاری کو مایوس کرنے کے بعد خود امیدیں لگاکر بیٹھ گئے، اور اس کے بعد بھی انسان کو آدمی بنانے کے بجائے مشینی بنانے میں کوشاں ہیں۔ یہی پورے مغرب کا عظیم المیہ ہے۔