حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا
جب حضرت شعیب علیہ السلام اہلِ مدین کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے اور انہوں نے اہلِ مدین کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلا دلا کر راہِ راست پر آنے کی دعوت دی، تو وہ اپنی چودھراہٹ کے گھمنڈ میں اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے اور ان کی پیروی سے مسلسل انکار کرتے رہے تو حضرت شعیب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی جس پر اللہ تعالیٰ نے اہلِ مدین کو ان کے جرم کی پاداش میں اس طرح مٹادیا جیسے وہ کبھی دنیا میں تھے ہی نہیں۔
(ترجمہ)’’اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے، اور تُو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے‘‘۔
۔(الاعراف:89)۔
مادہ پرستی کے دور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بری طرح مسلط ہوگئی ہے، اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگا کر دیکھتے ہیں کہ ہر سال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جارہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کی جاتی تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیر اسلامی اندازِ فکر سے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہر سال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرِ حج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجائے کیوں ناں اسے بھی قومی اداروں، معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ کی لادینی حکومت نے 25 سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہر روز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک پہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی، لیکن برا ہو ان ملّائوں کا کہ انہوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگا کر صدیوں سے انہیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے، بلکہ فی الواقع سوویت روس میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اسی منطق سے سمجھائے ہیں… پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہر اُس چیز کو ملّائوں کی ایجاد قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟
(تفہیمات، دوم، اپریل 1980ء، ص 260۔262)
آپ کہتے ہیں کہ یہ اضاعتِ مال ہے۔ مگر قرآن کہتا ہے (ترجمہ): ’’اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے‘‘ اور ’’اس میں سے خود بھی کھائو اور [نہ] مانگنے والے غریب اور مانگنے والے سائل کو بھی کھلائو‘‘ (الحج22:36)۔ آج آپ کے اپنے ملک میں اللہ کے لاکھوں بندے ایسے ہیں جنہیں ہفتوں اور مہینوں اچھی قوت بخش غذا نصیب نہیں ہوتی۔ کیا ان کو صدقہ اور ہدی اور نُسک کے ذریعے سے گوشت بہم پہنچانا آپ کی رائے میں اصولِ معیشت کے خلاف ہے؟ لاکھوں انسان اور گلہ بان ہیں جو سال بھر تک جانور پالتے ہیں اور بقرعید کے موقع پر ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا ان کی روزی کا دروازہ بند کرنا آپ کے نزدیک بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہے؟ ہزارہا غریب ہیں جن کو قربانی کی کھالیں مل جاتی ہیں، اور ہزارہا قسائی ہیں جن کو ذبح کرنے کی اجرت مل جاتی ہے۔ کیا یہ سب آپ کی قوم سے خارج ہیں کہ آپ ان کی رزق رسانی کو فضول بلکہ مضر اور داخلِ اسراف سمجھتے ہیں؟
پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ کو تمام قومی ضروریات اور سارے فوائد و منافع صرف اُسی وقت یاد آتے ہیں جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ صرف ہورہا ہو؟ گویا کہ بینکوں کا قیام اور قومی ادارت کا فروغ، اور اعتقاد و اخلاق کی اصلاح اور یتیموں اور بیوائوں کی پرورش کا سارا کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رکا پڑا ہے۔ اِدھر یہ بند ہوئی اور اُدھر قومی اداروں پر روپیہ برسنا شروع ہوجائے گا۔
اور اگر آپ کی قومی تنظیم ایسی ہی مکمل ہے کہ سارے ہندوستان (یہ مضمون تفصیلاً جنوری 1937ء کے ترجمان القرآن میں ’اشارات‘ کے طور پر شائع ہوا تھا)کا روپیہ جمع کرکے آپ ہر سال ایک تجارتی بینک کھول سکتے ہیں تو ذرا اسی تکلیف کو گوارا کرکے پہلے ملک بھر کے سینما ہالوں اور قحبہ خانوں اور بدکاری و اسراف کے دوسرے اڈوں پر تو اپنے ایجنٹ مقرر فرمائیے تاکہ مسلمانوں کا جس قدر روپیہ وہاں ضائع ہوتا ہے وہ قومی فنڈ میں وصول ہونا شروع ہوجائے۔ اس طرح آپ ہر سال نہیں، ہر روز ایک تجارتی بینک کھول سکیں گے۔
پھر اگر آپ میں کچھ تعمیری قوت ہے تو قربانی کی تخریب کے بجائے آپ اُسے زکوٰۃ کی تعمیر ہی میں کیوں نہیں صَرف فرماتے کہ تنہا اسی ایک چیز سے آپ وہ تمام قومی ضروریات پوری کرسکتے ہیں جن کی خاطر قربانی بند کرنے کی تبلیغ آپ نے شروع کی ہے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ مسلمانوں میں یہ ذہنیت پیدا ہوگئی کہ جن جن مذہبی مراسم میں روپیہ صرف ہوتا ہے ان کو بند کرکے وہ روپیہ قومی اداروں اور تجارتی بینکوں پر صرف ہونا چاہیے، تو معاملہ صرف قربانی ہی پر رکا نہ رہ جائے گا۔ کل کوئی اور بندۂ خدا اٹھ کر کہے گا کہ یہ حج جس پر کروڑوں روپیہ ہر سال خرچ ہورہا ہے اور جس کا کوئی فائدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، اسے بند ہونا چاہیے، اور اس روپے سے تجارتی بینک کھلنے چاہئیں! سارا معاملہ اصل میں اقدار ہی کا ہے۔ جب ایک دفعہ معیارِ قدر بدل گیا، پھر آج قربانی بند ہوگی اور کل خواہ آپ نے چاہا یا نہ چاہا، حج کی باری آکر رہے گی۔
(تفہیمات، دوم، اپریل 1980ء، ص 241۔ 242)