سیمینار میں ادیبوں، دانش وروں اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی شرکت
کوئٹہ میں5 تا 7جولائی، یعنی سہ روزہ پشتو ادبی عالمی سیمینار منعقد ہوا جس کا افتتاح وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کیا۔ اکیڈمی آمد پر اُنہیں پشتون روایتی پگڑی پہنائی گئی۔ وزیراعلیٰ نے اکیڈمی کے لیے بیس لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان بھی کیا۔ سیمینار میں ملک کے مختلف علاقوں سمیت افغانستان کے ادیبوں اور دانش وروں نے بھی شرکت کی۔ چند دوسرے ممالک سے ادباء نے مقالے بھیجے تھے۔ سیاسی شخصیات اور سابق و موجودہ صوبائی وزراء بھی شریک ہوئے۔ مختلف عنوانات کے تحت تین روزہ سیمینار کامیابی سے جاری رہا۔ اس دوران بڑی تعداد میں سامعین شریک رہے۔ خواتین بھی کچھ تعداد میں شریک تھیں۔
اکیڈمی نے چند برسوں سے بڑی سطح کے سیمینار کی روایت برقرار رکھی ہے۔ اِس بار اہتمام پشتو اکیڈمی کی عمارت میں تھا، جو میکانگی روڈ پر واقع ہے۔ افراسیاب خٹک بھی شریک تھے۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں افراسیاب خٹک نے کہا کہ مذہب نے پشتون معاشرے کا استحصال کیا ہے۔ افراسیاب خٹک ذہین شخص ہیں۔ خودساختہ جلا وطن رہے ہیں۔ خفی بندوبست میں بھی طاق سمجھے جاتے ہیں۔ حالیہ مخصوص رنگ دار ٹوپیوں والی تحریک کے موسّسین میں سے بتائے جاتے ہیں۔ پشتو اکیڈمی سابقہ صادق کاسی شہید پبلک لائبریری کی عمارت کی جگہ تعمیر ہوئی ہے۔ کچھ زمین صادق کاسی شہید پارک یعنی ’’مالی باغ‘‘ کی بھی شامل کی گئی ہے۔ پارک ہی کے وسیع قطعہ پر براہوی اکیڈمی، شال اکیڈمی اور ٹورازم ڈپارٹمنٹ کی عمارت تعمیرکی گئی ہے جس کے لیے قیمتی درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ راہ چلتے ہند کے عظیم مسلم حکمران شیر شاہ سوری کی نظر کٹے ہوئے درخت پر پڑی۔ غضب ناک ہوئے، کہا کہ اس درخت کا قاتل کون ہے؟ ہماری بدنصیبی ہے کہ شہر کوئٹہ میں درخت بے دریغ قتل ہورہے ہیں۔ محمد جعفر مالی باغ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس سے پہلے اس کے والد علی محمد رکھوالی کرتے تھے۔ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ پارک کے اندر کھیلتے بچوں کے احساسات، جذبات اور خوشی کا خیال رکھتے، چاہے بچے کس قدر بھی اُدھم مچاتے۔ بہت پہلے مالی باغ کے مختلف حصوں میں غالباً چار یا پانچ فواروں سے اکثر پانی اٹھتا، جو بہت ہی مسحور کن منظر ہوتا۔ پھوار سے طبیعت تازہ ہوجاتی۔ خوبصورت پھول، سبزہ، سرو اور دوسرے سایہ دار درختوں کے جھنڈ میں دھوپ کی کرنیں تک نہ پڑتیں۔ سیمنٹ کی بینچیں پورے پارک میں بنی ہوئی تھیں۔ صبح سویرے لوگ چہل قدمی کرتے۔ شہری گرمی کے اوقات میں سستاتے۔ اب تو وسطی شہر کے اس واحد قدیم پارک کا بچا کھچا حصہ بھی خرابے کا منظر پیش کررہا ہے۔گویا تنِ تنہا کسی مالی کے بس کی بات نہیں کہ وہ پارک کی حالت سدھارے۔ اس کے لیے میٹرو پو لیٹن کارپوریشن کی پوری توجہ درکار ہے۔
پارک کے ایک سرے میں یہ چار عمارتیں تعمیر ہوئیں، دوسرے سرے میں بھی سرکاری عمارتیں کھڑی کی گئیں۔ جانے کب کوئی حکومت اور زورآور باقی حصے پر بھی ہاتھ صاف کرجائے۔ پاس ٹیکنیکل ہائی اسکول کے بڑے رقبے پر مسجد تعمیر کی گئی، حالاں کہ دائیں بائیں چند میٹر کی دوری پر مساجد موجود ہیں۔ 2008ء کی حکومت میں محکمہ تعلیم کے ایک سیکریٹری نے جے یو آئی (ف) کے کہنے پر اسکول کی زمین الاٹ کردی تھی۔ مولانا عبدالواسع تب سینئر صوبائی وزیر تھے۔ قریب موجود صادق شہید فٹ بال گرائونڈ کے ساتھ بھی بہت بُرا سلوک کیا گیا ہے اور دکانیں تعمیر کرکے گرائونڈ سکیڑ دیا گیا ہے۔ پہلے اس میدان میں قومی سطح کے مقابلے ہوا کرتے تھے، مگر اب یہ اس قابل نہیں رہا۔ غرض بلاشبہ علمی و تحقیقی مجالس و نشستیں جمود طاری ہونے نہیں دیتیں… نئے خیالات، نئی تحقیقات اور مکالمے کی بنیاد پڑتی ہے، فکر و خیال کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں۔ علم و ادب کے اس گہوارے اور اس سے جڑے لوگوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نوع کی علمی نشستیں کسی سیاسی جماعت و مکتبِ فکر کے لیے مخصوص نہ کریں۔ بلا تخصیص پشتون معاشرے کے ادباء، دانش وروں، محققین و لکھاریوں کی شرکت یقینی بنانی چاہیے۔ علمی و فکری تحقیقات سے استفادے کے در کھلنے چاہئیں۔ تخصیص کے حاصل اچھے نہیں رہے ہیں۔ بات اگر مذہب کی، کی جائے تو مذہب نے پشتون معاشرے کو جوڑے رکھا ہے۔ نابغۂ روزگار پشتون دانش ور کاکا صنوبر حسین مومند مرحوم نے کہا تھا: سچا پشتون سچا مسلمان ہوتا ہے۔ افغان تاریخ قومی، ملّی اور دینی وحدت و حمیت سے عبارت و مزین ہے۔ ماضیِ قریب میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خارجی لٹریچر، نظریات، حتیٰ کہ ثقافتی و تمدنی نمونے پشتون معاشرے میں داخل کرنے کی جسارت اور کوششیں ہوئیں۔ اس ضمن میں بڑے بڑے ادیب، شاعر، مفکر اور قائدین اس کے لیے حمد و ثناء کہتے۔ خیر اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نوشت و خواند کی یہ عمارت مشترک میراث ہے۔ جماعتی و گروہی اثر نفوذ سے اس کی حیثیت و مرتبہ مشتبہ و متنازع بن جائے گا۔ اس نوع کی مجالس و نشستیں خلیج و افتراق کے بجائے وحدتِ قومی اور وحدتِ افکار کا ذریعہ ہونی چاہیے۔
پشتو اکیڈمی کی جانب سے عالمی ادبی سیمینار میں پیش ہونے والے مقالے کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا عمل قابلِ ستائش ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی تقریر جامع تھی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
’’اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مفاد کے لیے تمام تر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ہمیں ایک صفحے پر اکٹھا ہونا ہوگا، اور تقسیم در تقسیم کے خلاف اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ معاشرتی اقدار کے فروغ اور اپنی زبان و ثقافت کی ترقی و ترویج کے بغیر ہم ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں سیاست اور حکومت سازی میں تنگ نظری کا عنصر شامل رہا ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی اقدار اور شناخت کو ووٹ بینک کے حصول کے لیے دائو پر نہیں لگانا چاہیے۔ ہماری سوسائٹی اس وقت شش و پنج اور ابہام کا شکار ہے کہ ہمیں ترقی کے حصول کے لیے کون سی سمت اختیار کرنی چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی یقیناً زندگی کو سہل بناتی ہے، تاہم یہ ہماری تہذیب اور ثقافت کا حصہ نہیں، لیکن ہم اس ٹیکنالوجی کو اپنی ثقافت میں شامل کرکے اسے آگے بڑھنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جدید مغربی لباس اور رہن سہن کا استعمال بری بات نہیں، لیکن اسے اپنی ثقافت اور شناخت پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہم قدیم ترین تہذیب و تمدن کے حامل ہیں، ہمیں اپنے پاکستانی ہونے اور اپنی زبان اور ثقافت پر فخر کرنا چاہیے۔ ہر زبان اور ثقافت پر فخر کرنا چاہیے۔ ہر زبان اور ثقافت کی اپنی طاقت اور تاثیر ہوتی ہے، ہماری زبان و ثقافت بھی ہماری طاقت ہے، جس پر ہمیں کمزوری اور شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے، اور آنے والی نسلوں کو بھی اس حوالے سے رہنمائی فراہم کی جانی چاہیے۔ زبانوں کی ترقی اور ترویج میں اکیڈمیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اور پشتو اکیڈمی بھی اپنا یہ کردار بخوبی ادا کررہی ہے۔ پشتو ادب کا عالمی سیمینار تمام قوموں کے لیے خوبصورت اور مثبت پیغام ہے۔ علم و ادب کے فروغ کے لیے بجٹ میں لائبریریوں اور اکیڈمیوں کے منصوبے شامل کیے گئے ہیں، اور اکیڈمیوں کے لیے انڈومنٹ کے قیام کا جائزہ بھی لیا جائے گا تاکہ یہ علمی و ادبی ادارے خودانحصاری کی راہ پر چل سکیں۔ جلد کوئٹہ میں بلوچستان کلچر ڈے کا انعقاد کیا جائے گا جس کے ذریعے بلوچستان میں آباد تمام اقوام کی زبان اور ثقافت کو اجاگر کیا جائے گا۔‘‘