محمود عزیز
لوگوں کے عیب و ہنر ان سے انٹرویو لینے میں ایسے کھلتے ہیں کہ بعض دفعہ پڑھنے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور انٹرویو کرنے والے کی آنکھیں بند ہوکے نہیں دیتیں۔
انٹرویو دینے والا زیادہ تر اپنے کمالات پر شرح وبسط سے روشنی ڈالتا ہے، وہ اپنے ہم پیشہ و ہم مشربوں اور ہم عصروں کو عموماً اپنے سامنے ہیچ گردانتا ہے، الا ماشاء اللہ۔
لوگ اس تاک میں رہتے ہیں کہ ان کا انٹرویو کیا جائے جس میں وہ اپنی بے پناہ صلاحیتیں جتائیں، اپنی ذہانت و فطانت، ادبی خدمات اور علمی فتوحات سے پڑھنے والوں کو آگاہ کریں۔ اس سلسلے میں ہم نے نصر اللہ خاں سے لیے گئے دو تین انٹرویوز پرنظرڈالی تو پتا چلا کہ خاں صاحب نے اوّل تو اپنے کمالات کی نفی کی، اور اس سے آگے بڑھ کر اپنے ہی خلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش کی۔ ان کے کالم کا عنوان ہی ’انٹرویو‘ ہے جس میں ان سے انٹرویو کے خواہش مند صحافی کو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ہم انتہائی ناقابلِ انٹرویو ہیں۔ ایک دوسرے انٹرویو لینے والے ابونثر کے الفاظ میں ہم نے وقت کے ’’بابائے ظرافت‘‘ نصر اللہ خاں سے درخواست کی:
یہ حقیر آپ سے ملنا چاہتا ہے، تو انہوں نے فرمایا: ’’میاں ہم سے ملنے کے بعد تم مزید حقیر ہوجائو گے۔ آخر کیوں ملنا چاہتے ہو؟‘‘
عرض کیا کہ ’’وہ جو آپ کے پاس ایک فن ہے، بس اسی کے…‘‘
یہ سن کر خاں صاحب کہنے لگے:
’’فن کہاں؟ میاں! ہمارے پاس تو ایک پھن ہے، سو پھنکارتے رہتے ہیں۔ چلو اچھا آجائو۔‘‘
چنانچہ ابونثر، خاں صاحب کے پھن سے بچنے کے لیے غالباً اپنی مرلی بھی ساتھ لے گئے جس کی دھن کے بل پر ان کو مست کیے رکھا اور ان کے حال کھیلنے کے دوران ان سے سوالات کے جوابات حاصل کیے:
پہلا سوال تھا: مرغی بھی روز انڈا نہیں دیتی، مگر آپ کا کالم روز ناشتے کی میز پر دھرا ہوتا ہے۔ آخر آپ روز کالم کیسے لکھ لیتے ہیں؟
اس سوال پر خاں صاحب مسکرائے اورگویا ہوئے:
ہر صبح اخبار اٹھانے سے پہلے ہاتھ اٹھاتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یااللہ! آج کسی بڑے آدمی نے کوئی حماقت کی بات کہی ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جس دن یہ دعا قبول نہ ہوئی ہو۔
انٹرویو لینے والے نے پوچھا:
اگر کسی دن بڑے آدمیوں سے یہ حماقت سرزد ہوجائے کہ وہ حماقت کی کوئی بات کہنا بھول جائیں تو اس روز آپ کیا کرتے ہیں؟
جواب ملا: اس روز مجبوراً اپنی ہی حماقتوں پر لکھتے ہیں۔
انٹرویو لینے والے صحافی ابونثر، خاں صاحب کی طرف سے لکھے گئے اس فرضی انٹرویو کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ہندوستان کے اُس وقت کے وزیراعظم سے لیا تھا۔اس فرضی انٹرویو میں انہوں نے اپنے نام نصر اللہ خاں کا کیا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، انٹرویو کے دو مکالمے کچھ یوں ہیں جس کے ذریعے لال بہادر شاستری کو ان کی شکست کی اور پاکستان کی جیت کی نوید دی گئی ہے۔
کالم نگار: آپ کا شبھ نام کیا ہے؟
بھارتی وزیراعظم: لال بہادر شاستری۔
کالم نگار: جی کیا کہا؟ شکست فاشتری۔
اس پر پردھان منتری نے تلملاکرکالم نگار سے پوچھا، آپ کا شبھ نام؟
کالم نگار نے بڑی قرأت سے جواب دیا۔
’’نصر من اللہ و فتح قریب‘‘۔
ایک اور انٹرویو میں خاں صاحب نے بتایا کہ میں شوخ مزاج رہا ہوں۔ بچپن میں بہت سی شرارتیں کی ہیں اور اب بھی میرا بچپن مجھ سے دور نہیں ہوا، جس کی وہ یہ مثال دیتے ہیں:
ہمارے گھر کے سامنے ایک بورڈ لٹکا ہوا تھا جس کی رسّی کا ایک حصہ مکان سے، دوسرا حصہ دوسرے مکان سے بندھا ہوا تھا، جس پر لکھا ہوا تھا:
’’ابوالبیان مولانا سلیمان، ایڈیٹر الفیض‘‘
میں اور میرے ایک ساتھی لڑکے نے مل کر ایک رات اس بورڈ کو اتارلیا اور اس پر صرف چند نقطوں کا اضافہ کیا۔ مثلاً ہم نے لکھا: ابوالبیان مولانا سلیمان، ایڈیٹر القیض۔ اور اس کو اسی طرح لٹکادیا۔
پوچھا گیا: کیا جوانی میں بھی شرارتیں جاری رہیں؟ تو کہا: جی ہاں۔ بچکانہ شرارتیں بعد میں بھی جاری رہیں۔ ایک مکان پر لکھا تھا بیگم عندلیب شادانی۔ میں نے لکھ دیا: سارے گاما پادانی۔ اسی انٹرویو میں ان سے ان کے بچپن کا واقعہ سنانے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے یہ واقعہ سنایا جس سے پتا چلتا ہے کہ بعض لوگ اپنے ہم وطنوں کے خلاف کیسے کیسے بہروپ بھرا کرتے تھے، ایسا روپ بہروپ ملاحظہ ہو۔
امرتسر میں ایک حکیم صاحب فرنگی حکمرانوں کی حمایت میں بڑے بڑے اشتہارات اور پوسٹر دیواروں پر چپکایا کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا سر کسی دیوار سے پھوڑ کر ڈپٹی کمشنر کے پاس جاتے اور کہتے، آپ کی حکومت کی حمایت کرنے پر لوگوں نے یہ دیکھیے سر پھوڑدیا اور خون بہہ رہا ہے۔ اس طرح انہیں نقدی یا زمین کی صورت میں کچھ نہ کچھ ملتا رہتا تھا۔ حکیم صاحب ایک اخبار بھی نکالتے تھے اور اپنے نام کے آگے لکھا کرتے: مولانا مفتی حاجی عبدالحق التراب، ایڈیٹر، پرنٹراور پبلشر، فاتح قادیان و فاتح مولانا ظفر علی خاں۔
ہم چند لڑکوں نے ایک رات ان کا لیٹر بکس اتار لیا۔ اور ایک رقاصہ کے گھر لگادیا۔ اُس کا لیٹر بکس حکیم جی کے مطب پر آویزاں کردیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے بکس دیکھے اور لاحول و لاقوۃ پڑھا اور آکر اپنے اپنے لیٹر بکس بدل کر چلے گئے۔
آصف فرخی کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کے پوچھے گئے سوال آپ کے کالم طنز و مزاح کا امتزاج ہوتے ہیں تو یہ بتائیے ان میں کون سا پہلو غالب رہتا ہے؟ کے جواب میں خاں صاحب نے کہا: مزاح مخلمٰے بالطبع ہونے اور فرصت کے لمحات کی تخلیق ہے اور یہ ادب کا حصہ ہے۔ میرے کالم دراصل طنزیہ ہوتے ہیں جن میں مزاح کے چھینٹے بھی ہوتے ہیں۔
آصف فرخی کے ان سوالات کے جواب میں کہ لوگوں میں طنز تو کجا، تنقید اور اختلافِ رائے کی بھی سہار نہیں، تو بحیثیت طنزنگار کیا آپ نے کوئی ایسا طریقہ وضع کررکھا ہے جس سے ان پیشہ ورانہ خطرات سے نمٹ سکیں اور وہ آپ کے مافی الضمیر کی ادائیگی میں معاون بھی ہو؟ جواباً کہا گیا: جی ہاں! اس راہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتے ہیں اور پہلو بچاکے لکھنا پڑتا ہے، کیونکہ لوگ بات بے بات برافروختہ ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اخبارات میں کھلے عام خیالات کا اظہار ہوا کرتا تھا۔ چھیڑ چھاڑ قابلِ قبول تھی، بلکہ ہر ایک اس سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا، حتیٰ کہ جس پر چوٹ کی گئی ہو وہ بھی۔ مگر اب سمے بدل گیا ہے۔ اب آپ کو طنز کے اس نوک و نشتر کو جس سے لوگ چیں بچیں ہوں، زیر نقاب رکھنا پڑتا ہے، اور بعض دفعہ علامتی اور… انداز اپنانا پڑتا ہے۔ مگر مجھے جو کہنا ہوتا ہے وہ میرے قلم سے ٹپک کر ہی رہتا ہے اور کوئی چیز بغیر کیے نہیں رہتی۔ لاپروائی لوگوں کی ناراضی کا باعث ہوتی ہے۔
کالم نگاری میں عوام سے تعلق اور ربط وضبط قائم رکھنے میں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام تو مزاجاً کالم نگاری سے خوش و خرم رہتے ہیں، میری کالم نگاری سے خواص ناخوش ہوجاتے ہیں۔ اور اگر آپ خواص کی چاپلوسی میں لگ جائیں تو پھر آپ فکاہیہ کالم نگاری کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے اور نہ ہی اخبار میں لکھنے سے۔
آصف فرخی نے سوال کیا کہ کیا آپ کی کالم نگاری نے خواص کو ناراض کیا ہے؟ خاں صاحب نے جواباً کہا: ہاں! بہت بار۔ ان کے نام کیا گنوائوں، پر وہ جو ’کچھ‘ ہے میرے کالموں سے ناراض و ناخوش ہوا ہے۔ اپنے وقت کے وزیر خواجہ شہاب الدین نے مجھ سے کہا آپ دوسرے موضوعات پر کیوں نہیں لکھتے؟ (ان کی مراد یہ تھی کہ ہمیں نہ روکو، نہ ٹوکو) میں نے ان سے کچھ موضوعات تجویز کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے کہا: مکھیوں اور مچھروں کے بارے میں لکھیے۔ میں نے ان کو آگاہ کیا: آپ کی حکومت کی طرح پچھلی حکومتوںکی ہدایت پر میں نے ایک اچھے اور فرماں بردار شہری کی حیثیت سے مکھیوں اور مچھروں پر اتنا لکھا کہ مکھیوں اور مچھروں نے مجھ سے بیر باندھ لیا اور وہ اب مجھے زیادہ شد و مد سے کاٹنے لگے ہیں۔ خاں صاحب نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ ایسے ملک میں جہاں لوگوں کی اَنا بات بات پر مجروح ہوتی ہو، ایسے ہی بونے مجروحین کو غالب نے ایسے طفل خود معاملہ قرار دیا ہے جن کے عصا ان کے قد سے بلند ہوتے ہیں اور جن کو خود کو بلند رکھنے کے لیے لکڑیوں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے لوگ اپنی کم قامتی کو بڑھا چڑھا کر دکھانا چاہتے ہیں، اور میرا مشغلہ اور پیشہ ان کے اصل قد کاٹھ کو دکھاناہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ روزانہ کی کالم نگاری میں کالم نگار کے پاس ایک نہ ختم ہونے والا بزلہ سنجی کا خزانہ ہو، ورنہ وہ انشا کی طرح لطائف و ظرائف کی تلاش میں کوچہ گردی کا شکار ہوسکتا ہے۔ کہا کہ: مجھے ایک مدت ہوگئی کالم نگاری کرتے ہوئے، مگرمجھے کبھی انشا کی سی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انشا کو روزانہ نئے لطائف کی تلاش ہوتی تھی جبکہ میری کالم نگاری لطائف کی پابند نہیں، بلکہ میں جن چیزوں اور واقعات کے بارے میں لکھتا ہوں لطائف و ظرائف ان ہی میں سے پیدا ہوتے ہیں۔ میری نظروں کے سامنے سے جو کچھ گزرتا ہے وہی اپنے پیچھے لطائف کی ایک لین ڈوری چھوڑ جاتا ہے۔ انشا کو اگر ہمارے اخبار پڑھنے کو میسر آتے تو ان کو کسی کلفت کا سامنا نہ ہوتا۔
اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا اخبار کا مزاح ادبی مزاح سے مختلف چیز ہے؟ کہا کہ میں جس قسم کا مزاح لکھتا ہوں وہ خبروں پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ دوسرے لوگ مختلف طرح کی مزاح نگاری کررہے ہیں جو ڈرائنگ روم کا مزاح ہے۔ ایسا مزاح اخبار کے مزاح سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔ اور جو مزاح اخباری مزاح سے لگّا نہیں کھاتا ایسا مزاح اخباری دنیا سے بے وفائی کے مترادف ہے۔ ہرچندکہ اخبار کے لیے ایسے مزاح نگار بھی لکھ رہے ہیں جو خبروں اور واقعات کو مرکزِ نگاہ بنانے کے بجائے ناقابلِ التفات چیزوں پر لکھ رہے ہیں اور گپ شپ میں مصروف ہیں۔ ایسی شعبدہ بازی صحافت کے مقاصد کو فروغ نہیں دیتی۔ میں اس طرح کے کرتبوں سے اجتناب برتتا ہوں۔ بیشک میرے کالموں میں ادبی لطافت ہوتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ میرا رنگِ طبیعت ہے، مگر میں اپنے کالم موضوعاتی رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
آصف فرخی کے اس انٹرویو کے بعد نگاہ ان کے ایک اور انٹرویوکی جانب پھر جاتی ہے جس میں وہ اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کبھی پریشان ہوئے؟ شکایت کرتے ہیں کہ:
موجودہ حالات میں سخت پریشان ہوں۔ ایک طرح مجھے لکھنے سے روک دیا گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ میں صرف پولیس اور مہنگائی پر قلم چلائوں۔ آخر کہاں تک ان پر لکھوں! تھک گیا ہوں۔ مجھ پر بہت دبائو ہے جس کی وجہ سے پریشان ہوں۔ میرے پاس لکھنے کا بے شمار کام ہے، مگر مجھے بے کار کرکے رکھ دیا گیا۔
اسی انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ لوگ کہتے ہیں آپ کے کالم پر لیبل لگ گیا ہے؟
تو کہا کہ: میں نے نوازشریف کے خلاف بھی لکھا۔ سابق صدر ضیاء الحق نے تو ایک مرتبہ خود بلاکر کہا کہ ’’خاں صاحب کیا کررہے ہیں؟‘‘
تو میں نے جواب میں کہا ’’ دس سال تک ہم نے آپ کو برداشت کیا اور آپ ہمارا ایک کالم برداشت نہیں کرسکتے!‘‘
اگرکالم نگار دبائو کے بعد بھی بین السطور اپنی بات کہنے سے باز نہیں آتے تو ان کو پھانسنے اور پھسلانے کے لیے دوسرے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں جس کا ذکر ابونثر نے اپنے انٹرویو میں یوں کیا:
(خاں صاحب) یہ قصہ سنایا کہ بھٹو صاحب کے دور میں ایک بار بحیثیت کالم نگار مجھے بھی وزیراعظم ہائوس بلایا گیا، جہاں بڑے بڑے نامور صحافی اورکالم نگارکشکول پھیلائے خیرات مانگ رہے تھے۔ کوئی پلاٹ مانگ رہا ہے، کوئی لائسنس مانگ رہا ہے، کوئی کسی بھانجے، بھتیجے، بیٹے، داماد کے لیے ملازمت مانگ رہا ہے۔ میں درویش آدمی، میرے پاس تو اپنا مکان تک نہیں، کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔ مجھے کیا ہوس ہوتی؟ میں نے کہہ دیا:
’’آپ کا بہت بہت شکریہ! میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ اللہ نے بہت دیا ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہاں سے ہاتھ اور دامن جھاڑ کر چلا آیا۔
وہاں سے خاں صاحب دامن جھاڑ کر چلے آئے، مگر کالم نگاری کے دامن کو اپنے انٹرویوز کے ذریعے مالامال کردیا۔