نظریۂ ارتقاء کا تنقیدی جائزہ

غزالی فاروقی
مجھے اسکول کے زمانے کا وہ دن اب بھی یاد ہے جب ہمیں پہلی بار چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کے بارے میں بتایا گیا۔ تب میری زندگی کے ابتدائی ایام تھے مگر پھر بھی تحت الشعور میں یہ بات ابھری کہ اپنے تضادات اور عدم ثبوت کی بنیاد پر یہ نظریہ بے بنیاد اور حقیقت سے بہت دور تھا۔ میں سوچا کرتا تھا کہ اس نظریے کی بنیاد محض مفروضوں اور قیاس پر ہے۔ جب ہم اسکول سے جامعہ پہنچے تب یہ نظریہ ایک حقیقت کی حیثیت سے ہم پر تھوپ دیا گیا۔ اِس پر مستزاد یہ کہ ہمارے اساتذہ میں کسی نے ڈارون کے نظریے اور انسان و کائنات سے متعلق اسلام کے برحق مؤقف کے درمیان پائے جانے والے انتہائی واضح فرق کو شناخت و بیان کرنے کے حوالے سے ذرا سی بھی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ میں نے جامعہ کی سطح پر محسوس کیا کہ تاریخ چارلس ڈارون کے نظریے کی بنیاد پر پڑھائی جاتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بندروں نے لاکھوں سال کے عمل میں تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ انسان کی شکل و ذہانت پائی ہے، اور یہ کہ ابتدائی دور میں انسان وحشی ہوا کرتا تھا جو شعور کے معاملے میں حیوانات کی سطح پر تھا۔
نظریات اور مؤقف میں اختلاف کا وجود وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر انسان کو کرنا چاہیے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مذہبی ذہن رکھنے والوں کو بار بار یاد دلایا جاتا تھا کہ اختلافِ رائے قبول کرنا چاہیے۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ کسی خالق اور رب پر یقین نہ رکھنے والوں یعنی دہریوں کو بھی اختلافِ رائے قبول کرنے کے حوالے سے وسعتِ نظر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ جامعہ میں ایک دن کلاس میں کسی طالب علم نے کہا کہ ’’مس! آپ کہتی ہیں کہ ہم (انسان) بندروں کی ترقی یافتہ شکل ہیں، مگر ہمیں تو مذہب نے یہ بتایا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر بھیجا گیا تھا‘‘۔ اس پر محترمہ نے تپ کر کہا ’’اگر آدم علیہ السلام آئے بھی ہوں گے تو اِن لوگوں (بندروں) کے بعد آئے ہوں گے۔‘‘
میرے لیے یہ بات بہت دکھ کی ہے کہ چند کمزور اور متنازع حقائق کی بنیاد پر یہ ٹیچر نظریۂ ارتقاء کو درست قرار دیتی تھیں۔ اگر کلاس میں کبھی کوئی مذہب کا حوالہ دیتا تھا تو وہ صاف کہہ دیتی تھیں کہ جب تاریخ کا مطالعہ کرو تو مذہب کو بھول جاؤ۔ گویا اُن کے نزدیک مذہب کوئی نظریہ تھا ہی نہیں جس کی بنیاد پر بحث کی جاسکے۔ علاوہ ازیں وہ ٹیچر نظریۂ ارتقاء کے خلاف منطق یا فطری علوم و فنون پر مبنی کوئی دلیل سننے کو بھی تیار نہ ہوتی تھیں۔ یہ بات بالکل واضح تھی کہ وہ مذہب کے خلاف انتہائی جانب دار رائے رکھتی تھیں، ساتھ ہی ساتھ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ نظریۂ ارتقاء کی حمایت اُن کے نزدیک تفہیم سے کہیں بڑھ کر اپنی بات ضد پر مبنی رویّے کے ساتھ منوانے کا معاملہ تھا۔
یہ دیکھ کر کہ کلاس میں چند طلبہ و طالبات نے نظریۂ ارتقاء کو درست ماننا شروع کردیا ہے، میں نے ایک مضمون لکھنے کا سوچا۔ میری غایت یہ تھی کہ اس وسیع بحث میں بہت سوں کو حقیقی تناظر سمجھنے میں مدد ملے۔ میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ نظریۂ ارتقاء کے چند دعوے آپس میں کس قدر متضاد اور مذہبی اعتبار سے بالکل غلط ہیں۔
ارتقاء سے متعلق نظریے کے طور پر پیش کی جانے والی چار بنیادی قیاس آرائیوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کرنے والی قیاس آرائی چارلس ڈارون کی ہے۔ ڈارون کا فطری انتخاب کا نظریہ یہ بیان کرتا ہے کہ ہر طرح کا ارتقاء چند مخصوص عوامل کے باہمی تفاعل کا نتیجہ ہے۔ یہ تمام عوامل حادثاتی نوعیت کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انواع (یعنی جانداروں کی نسلیں) محض اتفاقات پر مبنی تغیرات سے گزرتی ہیں۔ ٹامس ہنٹ مارگن نے ’’اے کریٹک آف دی تھیوری آف ایوولیوشن‘‘ میں ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کی تشریح کے ذیل میں لکھا ہے ’’ارتقاء کسی بھی جاندار کی طرف سے ماحول کے مقابل ظاہر کیے جانے والے منظم ردعمل کا نتیجہ نہیں۔ نہ ہی یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ کوئی جاندار کسی خاص جسم کے حصے کو استعمال کرتا ہے یا استعمال ترک کردیتا ہے۔ ارتقاء کسی بھی جاندار کی اندرونی قوت کا نتیجہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور یہ نظریہ کسی بھی جاندار میں کسی نوع کے احساسِ مقصد کا بھی نتیجہ نہیں۔‘‘
آئیے، بات شروع کرتے ہیں۔ قارئین کو نظریۂ ارتقاء سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے کی غرض سے بتانا ضروری ہے کہ جانداروں کا ارتقائی عمل پانچ مراحل پر مشتمل ہے جو حسبِ ذیل ہیں :
Hominids
Australopithecus
Homo Habilis
Homo Erectus
Homo Sapiens Neander thalensis
Homo Sapiens Sapiens
نظریۂ ارتقاء کے حامی اب تک ان پانچ مراحل کا ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عدم ثبوت کو گم شدہ کڑی کہا جاتا ہے۔ شواہد میں تمام مراحل کے نئے پائے جانے سے یہ تسلیم کرلینا قطعی غیر منطقی ہوگا کہ ارتقاء ایک سمت میں یعنی مرحلہ وار ہوا ہوگا۔ نظریۂ ارتقاء کے حامی چونکہ صدیوں سے اپنے نظریے کے حق میں مضبوط ترین اور ناقابلِ تردید نوعیت کے دلائل اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے کہنا پڑے گا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ محض ایک نظریہ ہے، تسلیم شدہ اور ناقابلِ تردید حقیقت نہیں۔ یہ نظریہ محض دعوے کرتا ہے، کوئی ثبوت پیش نہیں کرتا۔ 1983ء میں ’’ڈاوینیس‘‘ نامی متحجّر (Fossil)کے ملنے پر نظریۂ ارتقاء کے حامیوں نے بہت شور مچایا تھا کہ ایک بڑی گم شدہ کڑی مل گئی۔ یہمتحجّر ابتدائی نسل کے جانداروں کا تھا جن میں دیگر ممالیہ کے ساتھ انسان بھی شمار کیے جاتے ہیں۔ تاہم یونیورسٹی آف ٹیکساس، ڈیوک یونیورسٹی اور یونیورسٹی شکاگو میں ماہرین نے مقالوں کے ذریعے بتایا کہ یہ(Fossil) متحجّر انسانوں کے آباء کا ہے نہ کوئی گم شدہ کڑی ہے۔
نظریۂ ارتقاء کے حامیوں کا ایک بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ ارتقاء جانداروں کی تمام انواع میں ایک طویل مدت کے دوران مرحلہ وار رونما ہوتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے جو کبھی یک خلوی حیات تھی وہ بندر میں تبدیل ہوئی، اور بندر سے انسان بنا۔ فطری علوم کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر بات حقائق کی بنیاد پر کہتے ہیں۔ نظریۂ ارتقاء کہتا ہے کہ تمام جاندار تبدیلیوں کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر متحجّر شکل میں موجود شواہد میں ہر دور کے ارتقائی مراحل کے آثار پائے جانے چاہیے تھے۔ نظریۂ ارتقاء کے حامی کہتے ہیں کہ تمام جاندار ایک طویل مدت کے دوران خاصے سست رفتار عمل کے ذریعے تبدیلیوں کے مراحل سے گزرے۔ اس کا ثبوت متحجّرات میں ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ اب تک جتنے بھی متحجّرات ملے ہیں ان میں جانداروں کے آثار مکمل حالت میں ملے ہیں۔ کسی بھی جاندار کا کوئی متحجّر (Fossil) نمونہ کسی ارتقائی شکل کو ظاہر نہیں کرتا۔ ثبوت کے طور پر پیش کیے جانے والے متحجّرات میں سے کسی بھی جسم کا کوئی بھی غیر فعال حصہ نہیں پایا جاتا۔ مثلاً اگر انسان بندروں ہی کی ارتقائی شکل ہے تو پھر ہمیں کسی بندر کا کوئی ایسا متحجّر(Fossil) جسم کیوں نہیں ملا جس میں دُم غائب ہو، چھوٹی ہو یا پھر جسم کا غیر فعال حصہ ہو؟
چارلس ڈارون نے لامارک کے نظریۂ توارث کو درست قرار دیا تھا مگر وائزمین نے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ دونوں کی بات غلط تھی اور کسی نوع کے جانداروں نے اپنے آباء کی خصوصیات کے حامل ہونے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وائزمین نے چوہوں کی کئی نسلوں کی دُم کاٹ لی تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ان کی اولاد دُم کے بغیر پیدا ہوتی ہے یا چھوٹی دُم کے ساتھ دنیا میں آتی ہے۔ کئی بار کے تجربات سے بھی دُم کٹے چوہوں کی نسل پر اس کا کوئی اثر مرتب نہ ہوا۔ ایسے ہی تجربے لڑنے والے مرغوں پر بھی کیے گئے۔ وائزمین ان تجربات سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ارتقائی عمل میں توارث کبھی کوئی حیثیت رکھتا تھا، نہ رکھتا ہے۔
بہت سوں کا خیال ہے کہ چارلس ڈارون بظاہر اپنے نظریے کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے حادثاتی تبدیلیوں یا فطری انتخاب کی شکل میں بیرونی عوامل تلاش کررہا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ خود ڈارون بھی اپنے نظریے کی صداقت کے حوالے سے زیادہ پختہ یقین کا حامل نہ تھا۔ 1861ء میں اُس نے اپنے دوست کتھبرٹ کولنگ وڈ کو خط میں لکھا ’’فطری انتخاب کے حوالے سے میری رائے بھی یہ ہے کہ یہ مکمل قطعی نہیں بلکہ تقریباً ممکن ہے، یعنی ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ میں اگر فطری انتخاب کی حمایت کرتا ہوں تو اس کا سبب یہ نہیں کہ اس پر پورا یقین رکھتا ہوں، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے مختلف حقائق کو ترتیب سے رکھنا اور سمجھانا آسان ہوجاتا ہے۔‘‘
نظریۂ ارتقاء کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ زندگی کی ابتدائی شکل انتہائی سادہ تھی جو بعد میں پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی۔ مائیکل بی ہی نے اپنی کتاب ’’ڈارونز بلیک باکس‘‘ میں لکھا ہے: ’’چارلس ڈارون کے نظریے کی ایک بڑی کمزوری یا خامی یہ ہے کہ بایو کیمسٹری میں irreducible complexity (’’ناقابلِ تخفیف پیچیدگی‘‘) خلیے یا سالمے کی بنیاد پر انتہائی بنیادی سطح سے وابستہ ہونے کے باعث یہ نظریہ زندگی کے ارتقاء پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ارتقائی عمل میں دیگر عوامل بھی کارفرما دکھائی دینے چاہئیں، کیونکہ محض خلیے یا سالمے کی سطح پر ارتقاء واقع نہیں ہوسکتا۔ ’’ناقابلِ تخفیف پیچیدگی‘‘ سے مراد ایسا ارتقائی نظام ہے جو مختلف مراحل اور عوامل پر مشمل ہو، اور کسی ایک مرحلے یا عامل کو حذف کرنے سے پورا عمل غیر مؤثر ہوکر رہ جاتا ہو۔ مائیکل بی ہی نے اس سلسلے میں چوہے دان کی مثال دی ہے جس کا کوئی ایک پُرزہ ہٹانے کی صورت میں پورا چوہے دان غیر مؤثر ہوکر رہ جاتا ہے، اپنا کام نہیں کر پاتا۔ چارلس ڈارون کے ’’روحانی‘‘ شاگرد اور مشہورِ زمانہ ملحد رچرڈ ڈاکنز کہتے ہیں کہ ابتدائی انواع میں ایک ’’لائٹ سینسر اسپاٹ‘‘ (روشنی کو محسوس کرنے والا مقام) پایا جاتا تھا جو ارتقائی عمل سے گزرنے پر آنکھ میں تبدیل ہوا۔ رچرڈ ڈاکنز یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ ’’لائٹ سینسر اسپاٹ‘‘ کیونکر معرضِ وجود میں آیا اور پھر ظہور پذیر بھی ہوا۔ مائیکل بی ہی نے لکھا ہے کہ بہت سے خلیوں پر مشتمل کوئی عضو (جس کے خلیے موٹر سائیکل یا ٹیلی وژن سیٹ کی طرح پیچیدہ دکھائی دیتے ہوں) موازنے کی صورت میں حقیر سا دکھائی دیتا ہے۔ یہی معاملہ لائٹ سینسر اسپاٹ کے آنکھ میں تبدیل ہونے کا بھی ہے۔ ڈارون اور ڈاکنز کا یہ کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلے کی انواع میں پایا جانے والا لائٹ سینسر اسپاٹ ارتقائی عمل سے گزر کر آنکھ میں تبدیل ہوا۔ اس بات کو درست اس لیے نہیں مانا جاسکتا کہ آج کی انواع میں جو آنکھیں پائی جاتی ہیں ان کا آنکھ کی حیثیت سے ارتقاء اُسی وقت ممکن تھا جب وہ ابتدائی مرحلے میں بھی آنکھ ہی ہوتیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فطری علوم کے ماہرین آج تک کوئی ایک بھی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکے ہیں جس سے یہ سمجھنا ممکن ہوسکے کہ یک خلوی حیات کثیر خلوی حیات میں کیسے تبدیل ہوئی۔
فطری علوم کے ماہرین اور بالخصوص نظریۂ ارتقاء کے وکلا کسی بھی جاندار وجود میں ہر سطح پر پائے جانے والے غیر معمولی ڈیزائن یا منصوبہ سازی کے حوالے سے جامعیت بھی دیکھتے ہیں نہ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج تمام انواع میں جو بھی خوب صورتی اور جامعیت دکھائی دے رہی ہے وہ محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ کائنات میں ہر چیز کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہے اور اپنے حصے کا کام کررہی ہے۔ ولیم پیلے کی رائے یہ ہے کہ اس کائنات میں، اور اس کا حصہ قرار پانے والی تمام جاندار و بے جان اشیاء میں اس قدر جامعیت پائی جاتی ہے کہ یہ تسلیم ہی کرنا پڑے گا کہ کسی ذہین ترین وجود نے یہ سب کچھ پوری دانائی، حکمت، توازن اور مقصد کے ساتھ خلق کیا ہے۔ مزید برآں اس نوعیت کی پیچیدگی اور جامعیت محض فطری انتخاب کے نتیجے میں یعنی اپنے طور پر پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ مثلاً آنکھ دیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ کان سنتے ہیں۔ ہاتھ کسی چیز کو چُھونے اور پکڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔ زبان بولنے کے ساتھ ساتھ چکھنے کے لیے بھی ہوتی ہے۔ ہر عضو اپنے وجود کی نوعیت اور کارکردگی کے حوالے سے انتہائی پیچیدہ ہے۔ کائنات کے مظاہر میں پائی جانے والی پیچیدگی کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ یہ سب کچھ انتہائِ ذہانت سے تیار کیے گئے منصوبے کا نتیجہ ہے، یا یہ کہ کوئی انٹیلیجنٹ ڈیزائنر (ذہین منصوبہ ساز یا خالق) ہے جس نے یہ سارا کھیل رچایا ہے۔ پیلے کا کہنا ہے کہ اگر کہیں ایک پتھر پڑا ہو اور ساتھ ہی ایک گھڑی بھی رکھی ہو تو ذہن میں یہ بات ابھرتی ہے کہ گھڑی کسی نے بنائی ہے، کیونکہ ہمارا شعور جانتا ہے کہ گھڑی بنائی جاتی ہے۔ اگر کسی ذہین منصوبہ ساز یعنی خالق پر یقین نہ رکھنے والا شخص پتھر کو دیکھے گا تو اُس کے وجود کی اندرونی پیچیدگی پر غور کرنے کی زحمت گوارا کیے بغیر کہہ دے گا کہ پتھر کا وجود محض اتفاق یعنی فطری انتخاب کا نتیجہ ہے۔ معاملہ پتھر سے کہیں آگے جاکر زندگی اور مظاہرِ قدرت کا ہے۔ ان کے وجود میں پائی جانے والی ذہانت، حکمت اور توازن کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اور فطری علوم کے ماہرین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ کائنات میں زندگی سمیت جو کچھ بھی ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائِ ذہانت کا نتیجہ ہے، کیونکہ یہ سب کچھ محض اتفاقات یا فطری انتخاب کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت ہے۔ روئے ارض پر انسان، حیوانات اور نباتات و جمادات کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت ہیں اور اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے یہ سب مل کر زمین کا ’’ایکو سسٹم‘‘ تشکیل دیتے ہیں۔ سبزی خور جانداروں کے لیے پودے ہیں اور گوشت خور جانداروں کے لیے دوسرے جاندار ہیں۔ اور بیک وقت سبزی خور اور گوشت خور ہو، اُس کے لیے پودے اور جانور دونوں ہیں۔
انسانی جسم کی نوعیت اور پیچیدگیوں ہی پر غور کیجیے۔ اِسے دیکھ کر سوچا ہی نہیں جاسکتا کہ جاندار و بے جان اشیاء موجودہ شکل تک از خود پہنچی ہیں، کسی نے اپنی ذہانت اور حکمت کے تحت کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ معدے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کا کام کھائی ہوئی چیز کو ہضم کرنا اور خوراک ذخیرہ کرنا ہے۔ اعضاء کو کس نے بتایا اور سکھایا کہ انہیں کیا کرنا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر نظریۂ ارتقاء غیر معمولی خامیوں اور خرابیوں سے ’’مزین‘‘ ہے تو پھر لوگ اِس پر یقین رکھتے ہی کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فطری علوم و فنون نے چند صدیوں کے دوران بالعموم اور چند دہائیوں کے دوران بالخصوص ایسا بہت کچھ ایجاد اور دریافت کیا ہے جس نے ناممکن کے تصور کو دھندلا دیا ہے، ڈگمگا دیا ہے۔ مثلاً ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ تصور تک محال تھا کہ دو افراد دنیا کے دو انتہائی دور افتادہ خطوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے محض گفتگو ہی نہیں کرسکیں گے بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں گے۔ آج اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی بدولت ایسا بالکل ممکن ہوچکا ہے۔ مگر خیر، فطری علوم و فنون میں پیش رفت سے زندگی کو آسان تر بنانے والی مشینیں اور آلات ایجاد کیے جاسکتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حقیقت سے متعلق فطری علوم و فنون کا ادراک مکمل طور پر معقول ہے۔ فطری علوم و فنون نظری طور پر تبدل پذیر ہیں۔ ان میں مستقل مزاجی نہیں اور یہ اپنے ہی کہے ہوئے کے حوالے سے تضاد کی راہ ہموار کرنے سے بھی مجتنب نہیں رہتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے تصورات سامنے آتے رہتے ہیں اور پرانے تصورات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا۔ جن خامیوں کا میں نے ذکر کیا ہے اُن سے ہٹ کر بھی حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ جن تصورات یا علوم سے متعلق بحث کرتا ہے اُن میں سے بیشتر نے بھی اِسے مسترد کردیا ہے۔ ان میں قدیم رکازیات، علم الابدان اور جینیات نمایاں ہیں۔ فطری علوم کسی بھی معاملے میں حقیقت کو مرئی شواہد اور عقلی توجیہ کی بنیاد پر سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اشیاء، واقعات و حوادث کو سمجھنے کے لیے عقلی توجیہ بلند ترین معیار نہیں۔ اس کے لیے وہ علم درکار ہے جو ماورائے عقل ہو۔ یہ علم انسانی عقل اور اس کی طے کردہ حدود سے بہت پرے اور بلند ہوتا ہے۔
فطری علوم و فنون صرف اُس چیز کی بات کرتے ہیں جو ظاہر ہو، سامنے ہو اور مشاہدے یا تجربے کی حدود میں آتی ہو۔ اپنی غیر معمولی اور حیران کن مہارت کے باوجود فطری علوم و فنون مابعد الطبیعیاتی حقائق و شواہد کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتے۔ ماورائے فطرت حقائق و اعمال کے حوالے سے یہ بالکل خاموش ہیں۔ ہمارے پاس قرآن کی شکل میں ماورائے فطرت معاملات کا بہترین رہنما موجود ہے۔ اللہ کا کلام ہونے کی بنیاد پر یہ تمام علوم و فنون سے بلند ہے۔ قرآن کے ہوتے ہوئے ہم تاریکی میں ٹھوکریں نہیں کھاسکتے۔
مضمون کے آخر میں مجھے اجازت دیجیے کہ نظریۂ ارتقاء سے متعلق چند بڑے دانشوروں کے اقوال درج کروں۔
Hollus نے کہا ہے کہ بگ بینگ کے نظریے سے متعلق کوئی بھی غیر متنازع ثبوت میسر نہیں۔
رابرٹ جے سائر نے لکھا ہے کہ ارتقاء سے متعلق بھی ایسا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ اس کے باوجود ہم یہ سب کچھ قبول کرتے ہیں۔ ایسے میں کسی اعلیٰ درجے کے خالق کا تصور بالائے طاق رکھنے کا کیا جواز ہے؟
میلکم میگرج کہتا ہے: میرا خیال یہ ہے کہ نظریۂ ارتقاء کا جس حد تک اطلاق کیا گیا ہے اُس کے پیش نظر مستقبل کی کتابوں میں اس کا تذکرہ لطائف کے ذیل میں ہوگا۔ عقل یہ کہتی ہے کہ اس قدر مبہم اور الجھے ہوئے مفروضے کو اس کی شدید ناپختگی کے ساتھ ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔
اینڈریو لاؤتھ کا کہنا ہے کہ چارلس ڈارون نے محض تنازع کو جنم دیا۔ کائنات کی تخلیق سے متعلق مقدس کتب کے دیئے ہوئے تصور کو اس نے متنازع بنایا۔ مغرب میں روشن خیالی کی تحریک سے متاثر ہونے والوں نے نظریۂ ارتقاء سے متاثر ہوکر کائنات کی تخلیق کے حوالے سے اپنے تصورات کو بھی تشکیک کی نذر ہونے دیا۔ یہ روشن خیالی کی تحریک ہی تھی جس نے انسان کو خصوصی طور پر انتہائی عقلی حیوان کے طور پر دیکھا اور حکمت پسند سمجھا۔ اور اِسی کے نتیجے میں انسان دیگر تمام جانداروں سے بلند سمجھا گیا۔